tag:blogger.com,1999:blog-52823413450655577132024-03-13T12:32:48.117-07:00ڈاکٹرابرار چوہدری ایڈووکیٹ ہائیکورٹ ، بلاگر ، کالمسٹ ، کارکن انسانی حقوق و ترقیDr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.comBlogger69125tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-36043923896105936402024-02-07T06:00:00.000-08:002024-02-07T06:20:07.309-08:00عوام مخلص اور جوابدہ قیادت کو منتخب کر کے تبدیلی لا سکتے ہیں<p style="text-align: right;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjL3TZG_uMAwY85BKVImXzmlSBHsMUxwAOY-JAvdbpxogbHJGxFCoKVN7Lo0akaIDKqqHc_yxoVMQc5OJDXLfS32Ks4i2p0pcotuhpjm1j6wXyoAad6Hb6btnFJCU8I_1zflYsyFsG1n8HslSST4rpKyj9iUH8FIJT0B7X0I5DSBRGo76K62VrQsTuvDG6y/s800/news-1707209956-4792.jpg" style="background-color: white; clear: left; float: left; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em; text-align: center;"><img border="0" data-original-height="450" data-original-width="800" height="181" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEjL3TZG_uMAwY85BKVImXzmlSBHsMUxwAOY-JAvdbpxogbHJGxFCoKVN7Lo0akaIDKqqHc_yxoVMQc5OJDXLfS32Ks4i2p0pcotuhpjm1j6wXyoAad6Hb6btnFJCU8I_1zflYsyFsG1n8HslSST4rpKyj9iUH8FIJT0B7X0I5DSBRGo76K62VrQsTuvDG6y/w320-h181/news-1707209956-4792.jpg" width="320" /></a> </p><p style="text-align: right;"><span style="background-color: color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; text-align: left;">ویسے تو سرچشمہ طاقت، جمہوریت کا مغز، سیاست کا محور، ریاست کی ملکہ اور ہر سیاسی جماعت کے منشور کا مرکز عوام ہی ہوتے ہیں مگر پاکستان جیسی ریاست کے اندر محض انتخابات کے دنوں میں اور وہ بھی دکھلاوے کے طور پر اور اس کے بعد سیاستدان عوام کے مینڈیٹ کی تحریم میں حکمران بن جاتے ہیں اور عوام تو پھر بھی عوام ہی رہتی ہے۔</span></p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">حکمرانوں کی عظمت اور حفاظت کے لئے پولیس کی سکواڈ، رہنے کی جگہہ ریڈ زون جہاں گیدڑ، گدھوں کا داخلہ تو جائز ہے مگر عوام کا ممنوع ہے۔ یہ کوئی مبالغہ آرائی نہیں اور نہ ہی میں از راہ استعارہ کہہ رہا ہوں بلکہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے شاہراہ جمہوریت پر پرائم منسٹر ہاؤس کے سامنے دن کی روشنی میں گیدڑ دھونگلے دیتے دیکھے ہیں مگر عام آدمی کا داخلہ وہاں کے لئے خطرے کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">ایسا کیوں ہے؟ تھومس جیفرسن جو ایک امریکی سفارتکار، وکیل، فلاسفر، ریاست کے بانیوں میں شمار ہونے والا ان کی آزادی کی دستاویزات کا بنیادی مصنف اور امریکہ کے تیسرے صدر کے طور پر اس نے قوم کی خدمت کی ہے نے اپنے علم اور تجربے کی بنیاد پر کہا تھا۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: left;">The democracy will cease to exist when you take away from those who are willing to work and give to those who would not.</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">جمہوریت اس وقت تباہ ہوجاتی ہے جب اس کی سربراہی، جو کچھ کرنا چاہتے ہیں ان سے لے کر نکموں کو دے دی جائے۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">اب اس کو دو زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے ایک تو حکومت کی باگ ڈور جیسا کہ ہماری روائتی سیاست میں ایسے لوگوں کے حوالے کر دی جاتی ہے جو عوامی مینڈیٹ کے اصلی حقدار نہیں ہوتےجیسا کہ 2018 کے انتخابات میں کیا گیا اور دوسرا پہلو ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر کی جمہوریت سے ہے جہاں کارکنوں کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس سے جمہوریت کے ثمرات مشروط ہوتےہیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہیں ہوتی تو اس کے نتائج ہماری موجودہ سیاسی صورتحال ہوتے ہیں۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">ہماری جمہوری ابتری ایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں اور اس کے ذمہ دار کوئی اور نہیں خود سیاستدان ہیں جن کے اپنے اندر اہلیت نہیں اور الزام دوسروں پر لگاتے ہیں۔ جب آئین پارلیمان کی بالا دستی کو تسلیم کرتا ہے تو پھر دوسروں پر انگیاں اٹھانے سے پہلے اپنی صفوں میں درستگی لانے کی ضرورت ہے۔ اداروں پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنے اندر گھسے ہوئے جمہوری غداروں کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہاں ہمارا اصل مدعا اس کا پرچار نہیں بلکہ اس کا حل تلاش کرنا ہے کہ موجودہ سیاسی حالات کو کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے؟</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">اس کے لئے سب سے پہلے جمہوریت کو صحیح معنوں میں رائج کرنے کی ضرورت ہے۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">ابراہم لنکن نےجمہوریت کی تعریف یوں کی تھی</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: left;">Government of the people، by the people، for the people.</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">عوام کی حکمرانی، عوام کے زریعے، عوام کے لئے</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">اس کا سادہ لفظوں میں یہ مطلب ہے کہ جمہوریت میں عوام سرچشمہ طاقت ہوتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں یہ طاقت اتنی کمزور کیوں پڑ چکی ہے؟ اور یہ سب کیسے ممکن بنایا جاسکتا ہے؟</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">جمہوریت عوام کو حکمرانی کا حق تو دیتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ عوام حکمرانی کی صلاحیت بھی رکھتی ہو، جانتی ہو کہ اپنی طاقت کو کیسے محفوظ ہاتھوں کے سپرد کرنا ہے؟ جیسے ہر کام کے لئے ہنر کی ضرورت ہوتی ہے ویسے ہی جمہوریت سے مستفید ہونے کے لئے بھی حقوق کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">اس طاقت کی اصل بنیاد سیاسی شعور، اعلیٰ اخلاق اورباہمی قومی ربط ہوتے ہیں جو قوموں کو نہ صرف بروقت بلکہ صحیح فیصلے کروانے میں ممدومعاون بنتے ہیں اور طاقت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے گر بھی سیکھاتے ہیں۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">جمہوریت محض انتخابات کا نام نہیں بلکہ اس کے نتائج کے مطابق حکومت کی تشکیل اور عوامی امنگوں اور ضروریات کے مطابق حکومت سازی کا ایک پورا عمل ہے۔ حکومت ایک ذمہ داری کا نام ہے جس کا مقصد عوام کو وسائل سے مہیا سہولیات میں برابری، امن، روزگار اور انصاف مہیا کرنا ہے اور اس کے لئے حکمران جمہور کو جوابدہ ہیں۔ ان کے اندر ایسی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے جس سے وہ اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کو آسان اور یقینی بنا سکیں۔ اب ان صلاحیتوں کے حامل نمائندوں کا انتخاب عوام نے کرنا ہے۔ عوام نے یہ طے کرنا ہے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں کیونکہ سیاسی قیادت کا کردار عوام نے ڈیفائن کرنا ہوتا ہے۔ اور اگر وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہیں تو ان کی جوابدہی کے عمل کو بھی یقینی بنانے کے لئے عوام کے اندر شعور اور اس کو ممکن بنانے کی واقفیت ہونی چاہیے۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب عوام کو ریاست، اس کی املاک اور اس کے اداروں کی ملکیت اور اہمیت کا احساس پیدا ہو جو ان کو حکومت اور ملک و قوم کی فلاح و ترقی کے کام میں دلچسپی پیدا کرکے اس میں عملی طور پر شمولیت اور اس کی نگرانی کی طرف راغب کرتا ہے۔ یہ واقفیت کا علم آئین کو سمجھنے سے آتا ہے۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">تب وہ نہ صرف قابل قیادت کو سامنے لانے کی اہل ہوتی ہیں بلکہ ان کا ہر طرح سے محاسبہ کرنے کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے پرعزم ہوتی ہیں اور یہ سیاسی شعور آئینی و قانونی حقوق اور بحثیت ایک شہری اپنی ذمہ داریوں کو جاننے سے آتا ہے۔ جو عوام کو یہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ترقیاتی پراجیکٹس کی نگرانی سے لے کر قومی سطح کی پالیسیوں اور حکمرانوں کے اختیارات کے استعمال تک کی نگرانی کرنی ہے۔ جیسا کہ آئینی کا آرٹیکل 19 اے ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ہر طرح کی سرکاری معلومات تک رسائی کا اختیار رکھتا ہے۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">اگر ان کے علاقے میں ترقیاتی کام ہورہے ہیں تو وہ متعلقہ محکمے سے یہ معلومات حاصل کر سکتا ہے کہ کتنی لاگت کا یہ منصوبہ ہے اور اس کا کیا معیار ہونا چاہیے اور پھر ان معلومات کی مطابقت سے وہ ٹھیکیدار کو کام کرنے کا پابند بنا سکتا ہے۔ اسی کی ایک حالیہ مثال توشہ خانہ سے لئے گئے تحائف کی معلومات بھی ہیں جن پر ایک صحافی نے آواز اٹھائی اور آج وزراء اور وزیر اعظموں کی جوابدہی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">یہی وہ ترقی کے ماڈلز ہیں جن سے عوام کو اپنی طاقت اور اس کے استعمال کا علم ہوتا ہے تو پھر جمہوریت اپنے ثمرات سے مستفید کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ عوام کااختیار حکمرانی اپنے ہاتھ میں آتا ہے۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;"></p><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><br /></div>اسی طرح اعلیٰ اخلاقیات ان کو یہ سیکھاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے نمائندوں میں چناؤ کے لئے قومی مفادات کو اپنے ذاتی مفادات پر ترجیح دینی ہے اور ایسی خوبیوں کے حامل ممبران کا چناؤ کرنا ہے جن کی بنیاد ان کا کردار، کارکردگی اور ملک و قوم کی فلاح کا جذبہ ہو۔ جیسے اب انتخابات 8 فروری کو ہونے جارہے ہیں تو عوام کو اپنی رائے دیتے ہوئے اپنے سیاسی شعور اور اخلاقیات سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ووٹ کی طاقت کے زریعے سے باصلاحیت قیادت کے چناؤ میں اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کرنے کے قابل ہیں جو عوام کا منشور ہونا چاہیے اور سیاسی جماعتوں کے منشور سے دھوکہ نہیں کھائیں گے بلکہ اس کو ان کی ماضی کی کارکردگی سے جوڑ کر پرکھیں گے وہ عملی طور پر کس قدر ملک و قوم کے لئے مخلص ہیں۔<p></p><br /><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;"><br /></p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">اگر عوام کے اندر ریاست کی ملکیت اور اہمیت کا احساس ہوتا تو آج ملک مقروض نہ ہوتا اور آزاد تجارتی اور خارجی امور کی پالیسیاں ہوتیں۔ ہمارے ہمسایہ ممالک میں کوئی بھی اس قدر مقروض نہیں جو ہمارا حال ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عوام کو اب یہ موقف اپنا لینا چاہیے کہ جو مہنگائی ہوئی ہے اور عوام کے گھروں کے چولہے بند ہوئے پڑے ہیں۔ بجلی کی قیمتوں کو کہیں سکوت نہیں آرہا۔ خوردونوش کی قیمتیں ہر لمحے بڑھ رہی ہیں، ہر کوئی دوسرے پر الزام لگا رہا ہے اور اپنے آپ کو بے گناہ کہہ رہا ہے حتیٰ کہ جو اتحادی رہے ہیں وہ بھی ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">اس کی تحقیقات ہونی چاہیں اور جو بھی حکومت اس کی ذمہ دار ہے اس میں شامل ممبران کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے اور جو ذمہ دار ہیں ان کی جائیدادیں بیچ کر قرضے اتارے جائیں تاکہ مستقبل میں سیاست کا رخ کرنے والے سوچ سمجھ کر قدم رکھیں۔ یہ تماشہ بند ہونا چاہیے کہ جس کا دل چاہتا ہے منہ اٹھا کر بھاگا چلا آتا ہے اور سیاست کو کاروبار بنایا ہوا ہے۔ انکا شوق سیاست اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک جوابدہی کا سلسلہ شروع نہیں ہوگا۔</p><p style="background-color: border: 0px none; box-sizing: border-box; color: #333333; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Mehr, Calibri; font-size: 19.5px; list-style: none; margin: 0px 0px 20px; outline: none; padding: 0px; text-align: right;">جب جوابدہی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا تو میں آپکو یقین سے کہتا ہوں کہ آپکو نمائیندگی کرنے کے لئے ڈھونڈنے سے بھی کوئی نہیں ملے گا یہ زبردستی عوامی نمائندگی کا رجحان ختم ہوجائے گا اور عوام کو اچھے کردار والے لوگ مجبور کرکے ان عہدوں پر بٹھانے پڑیں گے۔ جب کسی کو معلوم ہو کہ عوام کی خدمت کرنی ہے اور ساتھ ساتھ جوابدہی بھی ہوگی تو صرف خوف خدا رکھنے والے اچھے کردار کے حامل خدمت کا جذبہ رکھنے والے ہی اس ذمہ داری کی حامی بھریں گے۔ ایسے ہی انقلاب آتے ہیں، قوموں کی حالت بدلتی ہے اور اختیار حکمرانی عوام کو میسر آتا ہے۔</p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-83557656998057331742024-01-29T05:34:00.000-08:002024-01-29T05:47:25.419-08:00پاکستان کو سوشل میڈیا کے محاذ پر سرد جنگ کا سامنا ہے<p style="text-align: right;"></p><div class="separator" style="clear: both; text-align: left;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhBX8snkcJGW0PRrh1HK4v4bOCAG7uy56lapyLWn0vBPAQMsfgBfuhmnCM133DlB5FYTiyQOQGQzqKl2w3IiTnRWtOGUIQ-AgKEfVoIKJqPNwU8ynzH-LjlsXD2u-VRqEIsPJqZUOEo5J4tgxFwDRt0rEjjqbOvEGLvzSZgPGwhdOEXIUwL_2MjACmfVDAE/s800/news-1706274859-6135.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="450" data-original-width="800" height="180" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhBX8snkcJGW0PRrh1HK4v4bOCAG7uy56lapyLWn0vBPAQMsfgBfuhmnCM133DlB5FYTiyQOQGQzqKl2w3IiTnRWtOGUIQ-AgKEfVoIKJqPNwU8ynzH-LjlsXD2u-VRqEIsPJqZUOEo5J4tgxFwDRt0rEjjqbOvEGLvzSZgPGwhdOEXIUwL_2MjACmfVDAE/s320/news-1706274859-6135.jpg" width="320" /></a><div style="text-align: right;">سوشل میڈیا<span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px;"> </span><span style="background-color: font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px;">یوں تو علم، ادب، معلومات تک رسائی اور عوامی رائے کو ہموار کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور انسانی علم و تربیت اور ترقی میں اس کا نمایاں کردار ہے لیکن بشرطیکہ اس کا استعمال صحیح ہو رہا ہو، وگرنہ یہ تباہی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس کی ایک جھلک ہماری موجودہ سیاسی صورت حال بھی ہے جس کے پیچھے ہماری اپنی ہی 10 سالہ محنت کے ثمرات ہیں۔ اس کے تحت ایک خاص سوچ و عمل، رویے اور مزاج کی قومی سطح پر حوصلہ افزائی کی گئی۔ ریاست کے وسائل اس کے ہاتھ میں تھے، عدالتوں نے اسے صادق و امین کی سند دی، صحافت نے اسے واحد نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا،</span><span style="background-color: font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px;"> </span>سوشل میڈیا<span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px;"> </span><span style="background-color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px;">کی جادوگری نے اسے امت مسلمہ کا لیڈر ڈیکلئیر کر دیا اور قوم نے ریاستی اداروں، انصاف کے عملبرداروں اور نام نہاد مدبروں کے فرمودات کی روشنی میں اسے تسلیم کر لیا۔ جس کسی نے اس کی مخالفت کی اس کو جیلوں میں ڈال دیا گیا اور آج اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔</span></div></div><p></p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">اب اداروں کو جب اس اکھڑ، متکبرانہ اور تضحیک آمیز مزاج کا سامنا کرنا پڑا ہے تو انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہوا ہے اور وہ اس کے خاتمے کے لئے کوشاں ہیں مگر ایک لمبے عرصے پر محیط محنت کے اثرات ختم ہوتے ہوتے بھی وقت درکار ہو گا۔ کیونکہ اس مزاج کی امامت میں اب عوام کی کثیر تعداد لبیک کہتے ہوئے میدان عمل میں اتر چکی ہے۔ جو اُس وقت بچے تھے وہ اب جوان ہو چکے ہیں اور ملک و قوم کا مستقبل ہیں جن میں سے کئی اہم ذمہ داریوں پر بھی فائز ہو چکے ہوں گے۔ جو اس وقت جوان تھے وہ اب کوئی ماں تو کوئی باپ بن کر اگلی نسل کی تربیت کی ذمہ داریاں سنبھال چکے ہیں۔ جو سبق ان کو دیا گیا تھا وہ اب اگلی نسلوں کو منتقل کر رہے ہیں اور کئی اپنی بزرگی کے باعث قبیلوں کی تربیت کے کارنامے سرانجام دے رہے ہوں گے۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">ان کو اگلی دہائیوں تک اقتدار کے دکھائے گئے خواب اب ایک ضد بن چکے ہیں اور ان کے نزدیک اب سیاست کی تعریف ہی حصول اقتدار ہے جس پر عمل درآمد کے لیے وہ انتہائی اقدامات اٹھانے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ ان کی پیدا کردہ سیاسی تفرقہ بازی، انتشار پسندی اور عدم استحکام ملک و قوم کی جڑوں کو دیمک کی طرح کھوکھلا کرنے پر قادر ہو چکا ہے۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">اس سے متاثر ہونے والوں میں اچھی خاصی تعداد ایسے نام نہاد پڑھے لکھوں کی بھی ہے جو سوشل میڈیا کو آسمانی صحیفہ سمجھ کر اس کے مقدس فرمودات کو اپنے یقین کا حصہ بناتے رہے۔ ان میں استاد، ڈاکٹر اور سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں جو معاشرے کا ایک با اثر طبقہ ہیں مگر وہ بھی اس سیاسی تفرقہ بازی اور انتشار کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس سے قومی سطح پر ہی نقصانات نہیں ہوئے بلکہ عالمی سطح پر بھی ہمارا قومی تشخص خراب ہوا ہے جس میں ہمارے بیرون ملک مقیم دوستوں کا بھی اچھا خاصا ہاتھ ہے جس نے ہمارے بین الاقوامی تعلقات پر بھی منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">اب انتخابات کو جس طرح سے متنازعہ بنا کر ایک نہ ختم ہونے والی انتشاری سیاست کو مزید طول دیا جا رہا ہے اس کا آغاز یوں تو 2014 سے ہی ہو گیا تھا مگر موجودہ منظرنامے میں 10 اپریل 2022 کو ایک آئینی طریقے سے ختم کی جانے والی حکومت کے بعد چند ووٹوں کے فرق والی قومی اسمبلی میں بیٹھنے کے بجائے چوک چوراہوں کی سیاست کو ترجیح دینے سے یہ شروع ہوا اور اپنی ہی صوبائی حکومتوں کو ختم کر کے جیلوں میں پہنچنے سے اب تک کا ہے۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">اگر ہم سمجھیں تو ہمارے لئے اس کے اندر ایک بہت بڑا سبق موجود ہے کہ کیسے اداروں اور ریاست کی باگ ڈور غلط سوچوں کے ہاتھوں میں آ جانے سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ اس طرح کا مزاج قوموں کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے اور ان کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ جس کی مثال 9 مئی ہے جو ایک لیبیا ماڈل کی سازش تھی جس میں اِسی طرح سوشل میڈیا سے عوامی ذہنوں کو سیاسی شعور کے نام پر انسانی حقوق اور جمہوریت کے جھانسے میں نظام کے خلاف ورغلا کر آزادی کی تحریک شروع کروا کر عوام کو ریاست کے خلاف کھڑا کر دیا گیا جس کو کنٹرول کرنے کے لئے ریاست کو سخت اقدامات اٹھانے پڑے اور جانی نقصانات سے ابھرنے والے عوامی اشتعال پر حکومت کو کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا۔ اب 13 سال ہونے والے ہیں اور ملک خانہ جنگی کی حالت میں ہے۔ اس انتشار پسندانہ جمہوریت نے لوگوں کا جینا محال بنا دیا ہوا ہے۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">ہماری فوج کی اعلیٰ صلاحیتوں، بروقت اقدامات اور کامیاب حکمت عملی سے 9 مئی کے فسادات پر قابو پا لیا گیا، وگرنہ اگر تھوڑی سی بھی دیر ہو جاتی تو اس انتشاری سیاست کی تباہیاں جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل جاتیں اور مشتعل عوام کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ ریاست کے اداروں نے اس نام نہاد شعور، جنون، آزادی اور مقبولیت کے غبارے سے موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو بروقت بند کر کے ہوا نکال دی اور ان سازشیوں کے آپس کے روابط اور نیٹ ورک کو توڑ کر ان کو اپنی تحویل میں لے لیا۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ، جاہلانہ اور تباہ کن استعمال کا ظلم دیکھیے کہ کہا جاتا ہے یہ سب کچھ فوج نے خود کروایا۔ اب اس طرح کے مزاج سے عوام کے ذہنوں میں گھولے گئے زہر کا اندازہ لگا لیجیے کہ یہ کتنا خطرناک ہے اور ان کے ہم مزاج لوگ اس پر یقین کیے بیٹھے ہیں۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">کیمرے کی آنکھ نے جو شواہد اکٹھے کئے ہوئے ہیں وہ تو جھوٹ نہیں بولتے۔ جو لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنی وڈیوز وائرل کرتے رہے ان کے اپنے اکاؤنٹس کا ریکارڈ اور ان کے سیاسی الحاق کے شواہد موجود ہیں جن میں کوئی بھی نامعلوم نہیں بلکہ درجہ اول کی قیادت کی رہنمائی میں کارواں رواں دواں دیکھے جا سکتے ہیں۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">پھرسادہ لوح لوگوں کو دھوکہ دینے اور اپنے جرموں پر پردہ ڈالنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ مظاہرین ٹریپ ہو گئے تھے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کو کس نے ٹریپ کیا؟ ان کے ٹریپ ہونے کا سبب کیا بنا؟ ان کی قیادت کس نے کی؟ ان کو یہ سوچ کسی نے دی؟ یہ وہ سوال ہیں جن کا جو بھی جواب تلاش کرے گا اس کو حقائق معلوم ہو جائیں گے۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">کچھ سیاسی جماعتیں محض جھوٹے بیانیے سے عوامی نفسیات کو ٹارگٹ کر کے مظلومیت کی ہمدردیوں سے عوامی سوچوں کو یرغمال بنانا اپنی کامیاب سیاسی حکمت عملی سمجھتی ہیں جس کا شکار ہو کر عوام سوشل خانہ جنگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں. عالمی سیاست میں ایسے ہتھکنڈوں سے تیسری دنیا کو بے وقوف بنا کر جغرافیائی تبدیلیاں لائی جاتی ہیں جس کی مثال دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو علیحدگی کی تحریکوں کو اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">اب اس بیانیے کے غلط ہونے پر کوئی شک نہیں مگر ان سادہ ذہنوں کو کون یقین دلائے اور کون انہیں ملک دشمنوں کے چنگل سے نکال کر آزاد کروائے۔ سوشل میڈیا نے ہماری قوم کو غلام بنایا ہوا ہے جس کا ان کو شعور کے گھمنڈ میں احساس بھی نہیں ہو رہا۔ کئی اینکرز بھی اپنی ریٹنگ کے چکر میں اس جال میں بری طرح پھنس چکے ہیں اور مقبولیت کے لئے اس بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایسے نام نہاد صحافی اور سیاست دان اپنی صحافت اور سیاست کو جن خطوط پر چلا رہے ہیں اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">ایسی سوچوں کو پہچاننے کا آسان سا حل ہے کہ دیکھا جائے جب پاکستان کی سالمیت اور ساکھ کو خراب کیا جا رہا ہو یا پاکستانی اداروں پر بے جا الزامات لگائے جا رہے ہوں تو خوشی کا اظہار کون کرتا ہے اور ایسے لوگوں کا تعلق کن سیاسی دھڑوں سے ہے۔ ایسی سوچیں کہیں بھی پائی جا سکتی ہیں۔ ان کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ مثلاً چند روز قبل ایران کی طرف سے حملہ ہوا تو اس سے ایسی سوچیں بے نقاب ہونے لگیں جن کو پہچاننے کے لئے قوم کو شعور دینے کی ضرورت ہے اور ایسی سوچ و عمل کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسی سوچوں کے علاج کے لئے ان کی وجوہات کے گہرے مطالعہ کی ضرورت ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ ان کے پیچھے کون سے اندرونی و بیرونی عوامل کارفرما ہیں۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">ایسی سوچوں سے سادہ لوح عوام تو اپنی سادگی کے باعث یرغمال بنے ہی ہیں مگر جو اس کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوئے وہ ایسا طبقہ ہے جس کو ریاست کے وسائل سے آسودہ اور خوشحال زندگی میسر تھی جن کا مسئلہ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری تھا ہی نہیں بلکہ وہ ایسے ماحول کی پیداوار تھے جن کا اس ملک کے اندر رہتے ہوئے بھی جہاں ہی اور ہے۔ ان کی سوچیں اپنے مفادات کے حصول کے لئے مزید وسائل کی تاک میں ذہنی محرومیوں کا شکار تھیں اور عوامی طاقت کے بل بوتے پر وسائل پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان میں غلط معلومات کی شکار بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے جنہیں پاکستان کے حالات بارے معلومات تک رسائی میڈیا کے ذریعے سے ہوتی رہی ہے۔<p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">اسی لئے میں کہتا ہوں کہ ریاست اور عوام کی سوچوں میں یکسوئی لانے کے لئے ریاستی وسائل سے مہیا تنخواہوں، وظائف اور مراعات میں امتیازی سلوک کو بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ سب کو ایک جیسے مسائل سے واسطہ پڑے اور ان کو معلوم ہو کہ ایک عام آدمی کی زندگی کیسی ہے۔ یہ تبھی ممکن ہے جب ان کو عام آدمی جیسی زندگی بسر کرنی پڑے گی۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">اس مزاج کو بدلنے کے لئے قوم کو ان بنیادی سنہری اصولوں سے متعارف کروانے کی ضرورت ہے جن سے ان کو یہ ادراک ہو کہ کبھی بد اخلاقی کو شعور، کارکردگی سے خالی نعروں کے حامل کو نجات دہندہ اور قول و فعل میں تضاد رکھنے والے کو صادق و امین نہیں کہا جا سکتا۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">سیاست دانوں کو اگر اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے تو پھر ان کو اپنے رویوں سے اس کا ثبوت دینا ہو گا اور اپنا قبلہ درست کر کے پختہ اور سنجیدہ سیاست کی سمت بڑھنا ہو گا۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">اس میں قصور سوشل میڈیا کا نہیں بلکہ ان کا ہے جنہوں نے سوشل میڈیا کے استعمال سے ایسی سوچوں کو اس طرف موڑا اور شعور کے نام پر جہالت کو رواج دیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک ایسا محاذ کھولا جس نے پاکستان کو ایک سرد جنگ کی طرف دھکیل دیا جو انتہائی خطرناک ثابت ہو رہی ہے۔ قصور ہمارا بحثیت قوم بھی ہے جن کے شعور کی بنیاد قومیت نہیں بلکہ شخصیت پرستی ہے، جس کی بنیاد عقل و دانش نہیں بلکہ مسحور کن سبز باغات ہیں جن کا حقائق سے دور دور تک کا بھی تعلق نہیں، کردار و کارکردگی نہیں بلکہ دھوکے پر مبنی وعدے اور دعوے ہیں جن کی ماضی سے کوئی مطابقت ہی نہیں۔ ہم نے سوشل میڈیا سے دھوکہ کھانے کی راہ کا انتخاب خود کیا۔ ہم نے کبھی دیکھا ہی نہیں کہ ہمیں معلومات دینے والے کی تعلیم، تجربہ یا معلومات کا ذریعہ کیا ہے۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">سوشل میڈیا سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے ہماری ذہنی صلاحیتوں کا وہ معیار ہی نہیں تھا جو مثبت تبدیلی کا موجب بنتا۔ اس میں کچھ کردار ہماری تعلیم و تربیت کی بنیاد پر وجود پانے والے مزاج کا بھی ہے جن کو اپنے ہم خیال مزاج کی طرف کشش محسوس ہوئی۔ اس میں دوسری جماعتوں سے مایوسی بھی ہو سکتی ہے اور کچھ نفسیاتی مسائل بھی ہیں جو ان کی محرومی کا سبب بنے ہوئے تھے اور ان کو جیسے ہی اپنی ہم مزاج سوچ ملی تو وہ کھنچے چلے گئے۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">اس کا حل اب انتہائی محتاط مگر پائیدار خطوط پر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے اور اسے ٹیکنالوجی کے ماہرین کی مہارتوں سے ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس جنگ کو سوشل میڈیا کے محاذ پر ہی لڑنا ہوگا۔ قوانین اور اختیارات کے استعمال کے ساتھ ساتھ جھوٹ، تشدد اور فسادات کے سوچ و عمل کو بے نقاب کر کے معصوم ذہنوں میں بنائے گئے خاکے کے بناوٹی رنگوں کو مٹا کر ان میں نئے رنگوں کو بھر کر حقیقی نقوش ابھارنا ہوں گے جس کے لئے عقل و دانش اور عوامی نفسیات کے مطالعے کا سہارا لینے کی ضرورت ہو گی۔</p><p style="background-color: box-sizing: border-box; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 24px; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; text-align: right; word-break: break-word;">وہ لوگ جو ان حقائق کو سمجھتے ہیں ان کو ریاست اور ریاست کے اداروں کا ساتھ دینا ہو گا۔ اس وقت ان کی سربراہی ذمہ دار اور مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ ان کے لئے معاملات کو سنبھالنا کوئی مشکل کام نہیں لیکن وقت درکار ہے۔ ماضی میں وہ غلط سوچوں کے زیر سایہ تھے اور قومی صلاحیتوں کا استعمال غلط ہوتا رہا لیکن اب بہتر کارکردگی حالات کے بارے مثبت اشارے دی رہی ہے۔</p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-30402257210363260962024-01-06T02:16:00.000-08:002024-01-13T07:46:23.456-08:00جمہوری نظام کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے چلایا جائے<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">انتخابات کے انعقاد اور ملتوی کروانے کے دونوں
بیانیے زور و شور سے جاری ہیں اور انعقاد بھی غیر شفافیت اور جانبداری کے خدشات کے
ہاتھوں یرغمال ہوچکا ہے۔ کوئی موسمی سردی اور امن عامہ کو بنیاد بنا کر ملتوی
کروانا چاہتا ہے تو کوئی اس کے انعقاد سے متعلق انتظامی بد عنوانیوں کے خدشات کے
پیش نظر اس سے راہ فرار تلاش کرنے کی کوشش میں ہے۔ <o:p></o:p></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ہمارے سیاسی حلقوں نے اپنے اعمال سے ایسا تاثر
پیدا کر دیا ہوا ہے کہ گویا جمہوری نظام اس ملک میں ناکام ہوچکا ہے جب بھی جمہوریت
سُکھ کا سانس لیتی ہے تو کوئی نہ کوئی جمہوری غدار اس پر شب خون مروا کر اسے کبھی
ہائبرڈ مین کے ہاتھوں یرغمال بنوا دیتا ہے تو کبھی یہ مفاہمتی ہتھکنڈوں کے سامنے
گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے اور پھر ہمارے سیاسی پنڈت اپنے فرمودات جاری کرنے
لگتے ہیں کہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جاتا۔ جو انتہائی قابل افسوس اور باعثت شرم
موقف ہے۔ جب کسی کے مد مقابل کھڑے ہوں تو یہ جواز نہیں پیش کیا جاسکتا کہ مجھے
جیتنے نہیں دیا جارہا بلکہ اپنی طاقت، جرات اور حکمت عملی سے دنگل جیتے جاتے ہیں۔
ماحول تو ہلا شیری یا ہار جیت کا اعلان ہی کر سکتا ہے۔ اپنی نالائقیوں کو چھپانے
کے لئے کبھی نظام کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں تو کبھی اپنی بے بسیوں
پر ہمدردیوں کی بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب تو ہوا کہ نہ نو من تیل
ہوگا اور نہ رادھا ناچے گی۔ نہ ان کو کوئی کام کرنے دے گا اور نہ یہ پارلیمانی
نظام کامیاب ہوگا۔<o:p></o:p></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">جب آئین و قانون ان کو نظام کے اندر بالا دستی
دیتا ہے تو پھر اپنے ان حقوق اور منصب کو انہوں نے اپنی جرات اور حکمت سے ہی
منوانا اور حاصل کرنا ہے جس کے لئے جذبے، دلیری اور قربانیوں اور سب سے بڑھ کر ذمہ
داریوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اگر سیاست کو کاروبار یا
اختیارات کے حصول کو اپنی اجارہ داری کا مقصد بنا لیا جائے تو پھر ایسی سیاست کبھی
بالادستی کی ضامن نہیں بن سکتی۔ وہ بھی ریاست کے وسائل اور اختیارات کے بلبوتے پر ذاتی
مفادات کی خاطر سب کچھ کرتے ہیں اور تم بھی اگر آزادی ملے تو ان سے کم نہیں۔<o:p></o:p></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس
کے نتائج کو اکثر متازع بنا کر پارلیمان کو عوامی امنگوں کے مطابق قومی مسائل کو
حل کرنے میں کامیاب ہونے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں جس نے سیاسی عمل میں بد
اعتمادی پیدا کرکے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ سیاستدانوں کی ان کمزوریوں کے تحت
پارلیمان کے اجلاس بھی انٹیلی جنس کی مدد سے چلائے جاتے رہے ہیں اور جب کہیں ان کی
خواہشات کے بر عکس پارلیمان نے چلنے کی کوشش کی ہے تو آمریت کے ہاتھوں نظام ہی
یرغمال بنا لیا گیا ہے۔<o:p></o:p></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آج تیسری دفعہ پارلیمان کے ایوان بالا میں
الیکشن کے التوا کے لئے قرارداد جمع کروائی گئی ہے اسے اگر جمہوری کہنے سے انکار
نہیں کیا جاسکتا تو پھر اس میں دانشمندی یا سیاسی شعور کی موجودگی کا اعتراف بھی
نا ممکن ہے۔ اور اس پر جو تبصرے ہورہے ہیں وہ بھی ربوٹک جمہوریت سے کم تو نہیں۔ جب
اجلاسوں کے احکامات اور ایجنڈے کہیں اور سے آنے ہیں تو پھر یہ کام تو ربوٹک
پارلیمان بہتر طریقے سے ادا کر لے گی۔<o:p></o:p></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"> اسے اگر
آرٹیفیشل ٹیکنالوجی سے مزین کرکے آئین و قانون اور اگلے پانچ یا دس سالوں کے
ترقیاتی منصوبے دے دیئے جائیں گے تو ان نام نہاد ربوٹس سے تو وہ حقیقی ربوٹک
پارلیمان بہترین وژن دینے کے قابل ہوگی۔<o:p></o:p></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">تو ایسے حالات میں جب قوم اس کے انعقاد پر تذبذب
کا شکار ہے تو کیوں نہ انتخابات کو سیاستدانوں کے درمیان کسی جمہوری معاہدے تک
ملتوی کرکے ربوٹک پارلیمان بنا دی جائے اور غیر جانبدار اور غیر متنازع اچھی شہرت
اور کردار کی حامل شخصیات پر مبنی ایک کونسل بنا دی جائے جو عوامی رائے اور امنگوں
کی پاسداری کے لئے ان سے براہ راست حاصل کردہ تجاویز کی روشنی میں ربوٹک پارلیمان
کو سفارشات پیش کرتی رہے۔ جس سے قوم کے 25 ارب کے لگ بھگ اخراجات بھی بچیں گے اور
نظام بھی محفوظ رہے گا۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ نہ روز انتخابات ہوں
اور نہ روز روز پارلیمان آمریت کے ہاتھوں یرغمال ہوکر سیاست اور جمہوریت کے لئے
رسوائی کا موجب بنے۔ ان کی بانسری نے پوری دنیا میں پاکستان کو رسوا کر دیا ہے۔<o:p></o:p></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ویسے بھی اگر دیکھیں تو ماضی کی پارلیمان میں
اکثریتی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محض پارلیمان کا حصہ ہوتے ہیں ان کی قانون سازی میں
کارکردگی برائے نام ہوتی ہے۔ قوانیں پر
عملدرآمد کا کوئی حل نہیں ڈھونڈھ پاتیں اور پھر جو قوانیں بناتی بھی ہیں ان میں
تضادات اور ان سے ابھرنے والے سیاسی مسائل ہی اتنے ہوتے ہیں کہ سپریم کورٹ عوامی
مقدمات پر توجہ دینے کی بجائے قوانین کی تشریحات پر لگی رہتی ہے۔ اب انتخابات کو
وہ زبردستی کروانے کی ٹھان کر بیٹھے ہیں تو 8 فروری تک پاکستان کی ساری عدالتیں
انتخابات کے بارے مقدمہ بازی کو ہی نمٹائیں گی اور اس سے کوئی خوش بھی نہیں ہے۔
باقی آمدن اور اخراجات کے ہندسوں کی جمع تفریق ہی ہے جس کو ربوٹک پارلیمان بغیر
کسی غلطی کے خدشے کے احسن طریقے سے سر انجام دے لے گی۔ اور قراردادوں کے زریعے سے
اگر عدلیہ اور دوسرے اداروں سے اپنے اختیارات کی بھیک ہی مانگنی ہے تو اس کی ربوٹک
پارلیمان نوبت ہی نہیں آنے دے گی جب اس کو آئین و قانون اوراگلے پانچ سالوں کے
منصوبوں بارے ڈیٹا دے دیا جائے گا تو غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ
حکومتی مشینری کو پورا شیڈیول دے دے گا اور اگر کوئی اس شیڈیول کے مطابق نہیں چلتا
تو اس پر جرمانہ بھی عائد کر دے گا۔ اس پر عملدرآمد ویسے بھی حکومتی مشینری کے موڈ
پر منحصر ہوتا ہے۔<o:p></o:p></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ہاں اگر سیاستدانوں کو عہدوں کا حوس ہے تو اس کا
علاج یہ ہے کہ وزیر اعظم کے لئے سادہ اکثریت سے 172 ارب دو تہائی کے لئے 228 ارب
کی قیمت رکھ دی جائے اور قومی وزارتوں کی
قیمت سات سات ارب اور صوبائی کی پانچ پانچ ارب رکھ دی جائے۔ ایسے ہی صوبائی
اسمبلیوں کی بھی اعداد کے مطابق قیمت متعین کی جاسکتی ہے۔ جو بھی علامتی طور پر
وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ یا وزیر بننا چاہے وہ رقم خزانے میں جمع کروا کے ربوٹک
پارلیمان کو ثبوت جمع کروا دے اور اگر کوئی دوران عرصہ اسمبلی عدم اعتماد کے زریعے
سے عہدہ حاصل کرنا چاہے تو پہلے والے کی ادا کی گئی رقم کو لوٹا کر اس کے برابر
خزانے میں جمع کروا کر عہدہ حاصل کر سکتا ہے۔<o:p></o:p></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"> جب ایک
ایک ممبر مبینہ طور پر ایک ایک ارب تک کے لگ بھگ اپنے حلقوں میں خرچ کرسکتا ہے تو
پھر وہ اس عہدے کے لئے خزانے میں رقم کیوں نہیں جمع کروا سکتا۔ اسی طرح پارلیمان
کے ایوان بالا کے لئے تو پہلے بھی یہی فارمولے چلتے ہیں جو مختلف لوگوں کی جیبوں
میں چلے جاتے ہیں اس ربوٹک نظام کے زریعے سے وہ خزانے میں آئیں گے۔ صوبوں کے حساب
سے جتنی سیٹیں ہیں ان کی بولی کروا لی جائے اور زیادہ آفر دینے والوں کو ممبران چن
لیا جائے۔<o:p></o:p></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">انتخابات سے لے کر وزیر اعظم اور سینٹ کے انتخاب
اور بعد کے سارے معاملات جب پہلے سے ہی مالی بے ضابطگیوں کے ہاتھوں یرغمال بنے
ہوئے ہیں تو کیوں نہ ان کو مالی ضابطوں کے ماتحت لا کر عوامی فلاح کا زریعہ بنا
دیا جائے۔ جو ماضی میں عوام کے نام پر مالی اداروں سے قرضے لے کر عیاشی کرتے رہے
ہیں وہ اگر شوق سیاست و حکومت اور اختیارات و اجارہ داری رکھتے ہیں تو پھر اپنی
جیب سے ملکی قرضوں کو ادا کریں اور عہدوں کے مزے لیں۔<o:p></o:p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">حد ہوگئی ہے، ہماری ان زاتی مفادات اور خواہشات
کے گرد گھومتی سوچوں نے پارلیمان، سیاست، جمہوریت اور حتیٰ کہ ملک و قوم کو ایک
مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہماری اخلاقات کا یہ حال ہے کہ اس سے انسانیت بھی شرمندہ
دکھائی دیتی ہے۔ ہم مسائل کو حل کرنے کی بجائے مسائل کا سبب بنے ہوئے ہیں اور
مرغوں کی طرح ایک دوسرے کو لہولہان کرنے کے درپے ہیں۔ ہمارے اندر مہذب معاشروں
والی کوئی خصلت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی تو اس سے بہتر نہیں کہ نظام کو خود کار
کر دیا جائے وہ دنیا کے بہتریں نظاموں اور بہتری کے اصولوں کو اٹھا کر لاگو کرتا
رہے گا۔ اسی طرح اداروں میں بھی جہاں جہاں بے ضابطگیاں ہیں وہاں بھی ربوٹک نگران
مقرر کر دئے جائیں جو آئین و قانون کے مطابق حکم صادر کرتے رہیں۔ کم از کم انسانیت
کی تذلیل تو نہ ہو۔ دور جدید کی انسان کی بنائی ہوئی مشینری انسان سے زیادہ فعال،
وفادار اور ایماندار ہوگئی ہے تو کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور انسانوں کو
سیاسی شعور، اعلیٰ اخلاقیات، وفاداری اور ایمانداری کے حصول تک اپنی اصلاح کے لئے
فارغ چھوڑ دیا جائے۔ پاکستان کو پہلی ربوٹک پارلمینٹ ہونے کا عالمی اعزاز بھی مل
جائے گا۔ <o:p></o:p></span></p><p style="text-align: right;"><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">
<span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Arial","sans-serif"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-ansi-language: EN-US; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-fareast-font-family: Calibri; mso-fareast-language: EN-US; mso-fareast-theme-font: minor-latin; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آئین
میں تو اس کی کوئی گنجائش نہیں لیکن انتخابات کو ملتوی کروانے کا آئین میں کہاں
لکھا ہوا ہے جو ہر آئے دن کوئی نہ کوئی نئی منطق کے ساتھ وارد ہو جاتا ہے۔ کوئی
سیاسی جماعت اپنے اندر جمہوریت لانے کے لئے تیار نہیں اور جو انٹرا پارٹی انتخابات
کرواتی بھی ہیں تو اپنے بنائے ہوئی پارٹی آئین کا بھی خیال نہیں رکھ پاتیں اور
آئینی اداروں کے اختیارات اور ان کی خود مختار حیثیت کو ماننے کے لئے بھی تیار
نہیں دکھائی دیتے۔ ہر معاملہ خاص بندوبست سے چلانے کے عادی ہوچکے ہیں۔ جس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں انتخابات عوامی خدمت کے لئے نہیں بلکہ اقتدار کی
حصول کے لئے کروانا چاہتی ہیں۔ نہ کوئی سیاسی اصولوں کی پاسداری ہے اور نہ کوئی
جمہوری اقدار کی۔ </span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-47037619141221873102024-01-05T06:49:00.000-08:002024-01-05T06:56:56.425-08:00سوشل میڈیا نے سیاست کو تفرقہ بازی اور جمہوریت کو انتشار پسندی کا شکار کر دیا ہے<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">صحافت، حق آزادی
اظہار رائے کی تقدیس اور زرائع ابلاغ کے صحیح استعمال میں توازن بہت اہم ہوتا ہے
تاکہ اس سے انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے صحافت کی خدمات کو
محفوظ اور موثر بنایا جاسکے۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پاکستان کے معاشی،
سیاسی اور معاشرتی بگاڑ کی کئی دوسری وجوہات میں ایک <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بڑی وجہ عوام کو صحیح معلومات تک رسائی کا نہ
ہونا بھی ہے۔ چونکہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے اس لئے عوام کے حقائق کو جان لینے
تک ان کی رائے کے صحیح نتائج کی امید نہیں لگائی جاسکتی۔ جمہوریت سے مستفید ہونے
کے لئے سیاسی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات ضروری ہوتے ہیں جنہیں یہ جھوٹ کی سیاست اور
صحافت تباہ کرتی جا رہی ہے۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ان کے جھوٹے الزامات
کی بنیاد پر کئے گئے فیصلوں نے ہماری سیاسی، معاشی اور اخلاقی اساس کو ہلا کر رکھ
دیا ہے۔ جھوٹ بولنے میں سبقت کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اکثریتی مسلمان آبادی والی ریاست
میں اسلام کے سب سے زیادہ نا پسندیدہ عمل جھوٹ کی بھرمار انتہائی قابل افسوس ہے جو
ہماری عمومی معاشرت کی بھی عکاس ہے۔ اس کا اندازہ آپ کسی بھی وڈیو کی تھمب نیل سے
لگا سکتے ہیں جس کا وڈیو کانٹینٹ سے کوئی خاص تعلق ہی نہیں ہوتا، باہر کچھ لکھا
ہوتا ہے اور اندر خبر کچھ اور ہوتی ہے۔ جو ہماری قومی نفسیات کی صوتحال کا پتا دے
رہے ہیں جو یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جب تک مصالہ نہیں لگایا جائے گا سودا نہیں بکے
گا۔ ایسے ہی جھوٹوں کی بنیاد پر مہیا کی جانے والی معلومات نے ہماری سادہ لوح عوام
اور خاص کر نوجوانوں کے ذہنوں اور سوچوں کو اس قدر خراب کر دیا ہے کہ کوئی امن کی
بات سننے کے لئے تیار ہی نہیں۔ قوم اب ان مداریوں کے تماشوں کی عادی ہوچکی ہے اور
اس سے نجات حاصل کرنا بھی ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس جھوٹ کے پرچار میں
انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے فائدہ کسی نے اپنی سوچ
اور صلاحیت کے مطابق اٹھانا ہوتا ہے۔ اور ہماری قوم صلاحیت ہی اتنی تھی۔ سادہ لوح
عوام کو اس تک رسائی تو حاصل ہوئی مگر چونکہ ان کے اندر سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے
کے لیے سوشل میڈیا کے طریقہ واردات<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو
سمجھنے کی سوجھ بوجھ نہیں تھی اس لئے اس نے "گنجے کو اللہ ناخن نہ دے"
سے مصداق صورتحال پیدا کردی ہے جس سے عوام اپنی تباہی کا خود ہی سامان پیدا کرنے لگے
ہیں۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ معلومات دینے
والے کی تعلیم ، تجربہ یا معلومات کا زریعہ کیا ہے۔ سادہ لوح عوام سوشل میڈیا کو
سیاسی صحیفے کا درجہ دینے لگے ہیں۔ اس میں عوام کا بھی اتنا قصور نہیں اصل ذمہ دار
تو وہ ہیں جو اپنے سیاسی و مالی مفادات کی خاطر اپنی اخلاقی، پیشہ ورانہ، آئینی و
قانونی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر یہ سب کچھ کر رہے ہیں جنہوں نے عوام کی سوچوں
کو ایک خاص سمت دے کر یقین کی حد تک پختہ کر دیا ہے جو اب ان کے سچ جاننے میں سب
سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سیاست میں اس کا آغاز
2013-14 میں ہوا اور منصوبہ بندی کے تحت ایک سیاسی ہوا چلانے کے لئے دن رات تگ و
دو کی گئی جس میں سرمایہ کاری سے لے کر اداروں کی ہدایات تک کی کوششیں شامل حال
تھیں اور محض الزامات کی بنیاد پر اخلاق سے گرے ہوئے بیانیے کو چلایا گیا جس کا
مقصد ایک خاص سیاسی جماعت کو نجات دہندہ بنا کر پیش کرنا تھا اور اسی منصوبہ بندی کا
بیانیہ صادق و امین کے القابات سے شروع ہوا اور اب سازشوں کے بے نقاب ہوجانے کے
بعد ان کی پردہ پوشی کے لئے معصومیت کی طرف بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ صادق و امین کہنے
والوں نے تو بعد میں اپنے الفاظ کو اسی ایک مقدمے تک محدود کرنے کی وضاحت جاری کر
دی تھی مگر اس نئے فلسفہ معصومیت کی وضاحت کب آتی ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اندازہ
لگا لیجئے کہ سوشل میڈیا کے اثرات کتنے گہرے ہوتے ہیں جو اب ایک ضد اور جنوں کی
صورت اختیار کر چکے ہیں اور اداروں میں اہم عہدوں پر بیٹھی شخصیات بھی اس کا شکار
ہوچکی ہیں۔ جس کی مثال ماضی میں کئے گئے عدالتی فیصلوں سے بھی لگائی جاسکتی ہے۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اُس وقت پاکستان میں
اِس طرح کا ٹرینڈ پہلے سے موجود نہیں تھا اس لئے یہ خلاء پر کرنے کا تحریک انصاف
کو موقع مل گیا اور سوشل میڈیا کے طریقہ واردات سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور ابھی
بھی کوئی دوسری جماعت ان کا اس میدان میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ در اصل
اب دس سالوں سے جھوٹ بولنے والوں کے لئے اپنے کرتوت چھپانا اور ویورشپ انکی مجبوری
بن چکی ہے۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور اب یہ آگ ہر طرف
پھیل چکی ہے جس نے سیاست کو تفرقہ بازی اور جمہوریت کو انتشار پسندی کا شکار کر
دیا ہے اور کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔ اس میں ملوث کرداروں کی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نجی زندگی سے لے کر اب تو مالی بدعنوانی تک کے
الزامات اور ان پر سزائیں بھی سنا دی گئی ہیں جن کی بنیاد پر نااہلی بھی ہوچکی ہے
مگر ضد اور جنون اس سے اپنی سوچ کو بدلنے کی بجائے ان کی صفائی کے حربوں میں مصروف
عمل دکھائی دیتے ہیں۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور دوسری طرف بدعنوانی
کے جھوٹے الزامات پر عدالتی مخبریوں اور فیصلوں میں بریت کے باوجود اس کو ماضی کے
حالات پر استدلال کرکے سہولت کاریوں کا نام دیا جارہا ہے۔ یہ سب سوشل میڈیا کا
کمال ہے۔ ان دس سالوں میں تقریباً نوے فیصد مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا اس خاص
منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں لگا ہوا تھا اور انہوں نے دوسری جماعتوں سے بخل
رکھنے والوں کو شکار بنایا اور اب تو سارا منصوبہ بے نقاب ہوچکا ہے اور اس کے
معمار اعتراف بھی کر چکے ہیں مگر اس کے باوجود سوشل میڈیا کا بھونچال تاثرات
کوصحیح سمت کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس جھوٹ کی بنیاد پر
دی گئی معلومات کو شعور کا نام دیا گیا جس نے ہماری سیاست کو ہی نہیں بلکہ ہماری
معیشت اور معاشرت کو بھی تباہ کر دیا ہے اور اس شعور کے نام پر بد اخلاقی کے
تعلیمات نے مکالمہ، دلیل اور برداشت کو نیست و نابود کر دیا ہے۔ حالات چیخ چیخ کر
الارمنگ دے رہے ہیں مگر جھوٹ کی پیداوار جنوں کسی کوسننے اور حقائق کو جاننے کے
لئے تیار ہی نہیں۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ریاست کو اس حساس
معاملے پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے اوراس سے جان چھڑوانے کے لئے
سب سے پہلے ان جھوٹ کی فیکٹریوں کو بند کرکے یا ان کو بے نقاب کرکے عوام کو صحیح
معلومات تک رسائی کا کوئی میکنزم بنایا جائے تاکہ سادہ لوح عوام کی سوچوں کو درست
سمت دی جاسکے جس سے وہ جھوٹ کی بجائے کردار اور کارکردگی کی بنیاد پر اپنے نمائندوں
کا چناؤ کرنے کے قابل ہوسکیں تب ہی جمہوریت کے ثمرات سے صحیح معنوں میں مستفید ہوا
جاسکتا ہے۔ تب ہی شفافیت اور غیر جانبداری سے کرائے گئے انتخابات سے مطلوبہ مقاصد
حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس جنون کے نزدیک ماضی کے احسانات والے ماحول کی شفافیت اور
غیر جانبداری کی جو تعریف ہے وہ اقتدار سے کم کسی بھی صورت پر مطمئن اور امن سے
بیٹھنے والا نہیں وگرنہ اپریل 2022 کے بعد سے لے کر 9 مئی 2023 تک کے سیاسی عدم
استحکام کے حالات دیکھنے کو نہ ملتے۔ جو اس بات کی دلیل ہیں کہ انتخابات جتنے بھی شفاف
اور غیر جانبدار کروا لئے جائیں جھوٹ پر مبنی سیاست اس کو اس وقت تک قبول نہیں کرے
گی جب تک ان کو مطلوبہ نتائج نہیں مل جاتے۔ زمینی حالات خواہ سنبھال بھی لئے جائیں
مگر سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی تھمتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">لہذا اس جھوٹ کے
پراپیگنڈا اور بے بنیاد الزامات کے سلسلے کو روکنے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے
تاکہ اس جھوٹ کی سیاست اور صحافت میں ملوث عناصر کو عدالتوں سے جھوٹا ڈکلئر کروا
کر ان کی لسٹیں شائع کی جائیں اور ریاست ان کواپنی آئینی و قانونی ذمہ داریوں کا پابند
بنائے جس سے ان کی اصلاح کا کوئی پہلو نکل سکے اور اس سے صحافت اور آزدی اظہار
رائے کے حق کا صحیح استعمال بھی یقینی بنایا جاسکے۔ میڈیا اور صحافی برادری کو بھی
اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور وہ ایسے گندے عناصر کی جوابدہی کا کوئی
میکنزم بنائے کیونکہ اس سے ملک و قوم کے نقصان کے ساتھ ساتھ ان کی پیشہ ورانہ ساکھ
کی خرابی کا بھی سبب بن رہی ہے کیونکہ یہ بہروپیے ان کی شناخت کے پیچھے چھپ کر سب
کچھ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا ہاؤسز کی رجسٹریشن میں اچھی شہرت کی پیشہ
وارانہ شخصیات کی شرط لاگو کرنے اور ان کو ضابطہ اخلاق کا سختی سے پابند بنانا بھی
ضروری ہے۔<o:p></o:p></span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-71931915876322084442023-09-09T18:06:00.006-07:002023-09-09T18:19:06.162-07:00عوام کو ملک کے ساتھ مخلص سیاسی قیادت کا ساتھ دینا ہو گا<div class="zm-post-content news-detail-content-class detail-style" style="background-color: white; box-sizing: border-box; color: #3b5265; direction: rtl; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq", Nafees; font-size: 18px; line-height: 58px; margin: 0px 20px 0px 10px; padding: 0px; text-align: start; word-break: break-word;"><h4 class="caption-heading" style="border-right: 4px solid rgb(75, 126, 21); box-sizing: border-box; color: #2f2f2f; direction: rtl !important; font-size: 18px !important; font-variant-ligatures: common-ligatures; line-height: 44px !important; margin-bottom: 15px !important; margin-left: 15px; margin-right: 15px; margin-top: 10px; padding: 0px 12px 0px 0px; word-break: break-word;">ہمیں بحیثیت قوم ایک ایسی سوچ پیدا کرنا ہو گی جس میں اپنے ذاتی مفادات کو قربان کر کے قومی مفادات کو ترجیح دینا ہو گی۔ ڈالرز کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنی کرنسی میں کاروبار کو ترجیح دینا ہو گی۔ دولت کو ملک سے باہر لے جانے کے بجائے واپس لانا ہو گا۔ اپنے وقت، دولت اور توانائیوں سے ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہو گا۔</h4><p style="box-sizing: border-box; color: black; line-height: 58px; margin: 0px; padding: 0px; word-break: break-word;">اگر ہم واقعی ملکی مسائل کے حل کے لئے مخلص ہیں تو پھر ہمیں پہلے قوم بننا ہو گا۔ قوم وہ ہوتی ہے جس کی سوچ ایک ہو۔ جب سوچ ایک تھی تو وسائل نہ ہونے کے باوجود، دنیا کی فاتح قوم سے نجات حاصل کر کے ایک آزاد ریاست حاصل کر لی اور اگر اب دوبارہ اپنی آزاد ریاست کو بیرونی قرضوں اور مداخلت سے آزاد کرا کے جینے کا حق حاصل کرنا ہے تو پھر دوبارہ سے ایک قوم بننا ہو گا۔</p><p style="box-sizing: border-box; color: black; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; word-break: break-word;">ہمیں بحیثیت قوم ایک ایسی سوچ پیدا کرنا ہو گی جس میں اپنے ذاتی مفادات کو قربان کر کے قومی مفادات کو ترجیح دینا ہو گی۔ ڈالرز کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اپنی کرنسی میں کاروبار کو ترجیح دینا ہو گی۔ دولت کو ملک سے باہر لے جانے کے بجائے واپس لانا ہو گا۔ اپنے وقت، دولت اور توانائیوں سے ملک کو بدعنوانی سے پاک کرنا ہو گا کیونکہ اُس وقت تک یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا جب تک یہ دھرتی بدعنوانی، سمگلنگ، لاقانونیت، حقوق کی خلاف ورزیوں، ناپ تول میں کمی اور ملاوٹ سے پاک نہیں ہو گی اور یہاں رہنے والوں کے دلوں میں دوسروں کی ہمدردی والی سوچ پیدا نہیں ہو گی۔ پاکستان کو اگر حقیقی پاکستان بنانا ہے تو پھر اس کے مطلب و مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے ماحول کو حقیقی بنانا ہو گا۔ پاکستان کا لفظی ترجمہ بھی پاک دھرتی بنتا ہے۔ پاکستان کا مطلب اگر لا الہ الا اللہ ہو اور اس کے اندر ہر وہ برائی جاری ہو جس کا اسلام سے دور دور کا بھی تعلق نہ ہو بلکہ اس کی ممانعت کی گئی ہو اورجسے اسلام اور کفر میں فرق بتایا گیا ہو تو پھر اس کی ترقی کے خواب کو کسی غافل کا خواب تو کہا جا سکتا ہے مگر باشعور انسان کا قطعاً بھی نہیں۔</p><p style="box-sizing: border-box; color: black; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; word-break: break-word;">یہ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، لاقانونیت ہمارے ان اعمال کا نتیجہ ہے جو 75 سالوں سے قومی غلطیوں کی صورت ہم بار بار دہرا رہے ہیں۔ کیا رشوت کا لینا دینا، نیچے سے لے کر اوپر تک کمیشن کی لت اور ہر طرح کی بدعنوانی سے کوئی لا علم ہے اور کیا ان کے ہوتے ہوئے اسے پاکستان (پاک سرزمین) کہا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو پھر ہمیں سب سے پہلے اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرنے ہوں گے جن سے ہم کم از کم یہ دعویٰ تو کر سکیں کہ ہمارے فعل ایک اچھے شہری کے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں چھپائے ہوئے ڈالرز کو مارکیٹ میں عام کرنا ہو گا۔ چھپائی ہوئی خوراک، چینی، آٹا، چاول اور دوسری اجناس کو مارکیٹ میں لانا ہو گا۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔ دوسرے پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنی اصلاح کرنا ہو گی۔</p><p style="box-sizing: border-box; color: black; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; word-break: break-word;">ریاست محض جغرافیائی حدود کا نام نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر رہنے والے عوام اور نظام حکومت بھی اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ عوام کی سوچ و عمل کا ریاست کے معاملات سے گہرا تعلق ہے۔ اس کا نظام حکومت عوام کے سوچ وعمل سے ہی مشروط ہوتا ہے۔ اس کی بہتری یا تباہی میں عوام کی سوچ و عمل کا ہی کردار ہوتا ہے۔ اس ملک کے حکمران ہم میں سے ہی ہوتے ہیں۔ ہم نے ہی ان کی خاندانوں اور معاشرے کے اندر تربیت کر کے ان عہدوں تک پہنچایا ہوتا ہے اور اگر ان کی صحیح تربیت کی گئی ہوتی تو آج یہ وقت دیکھنے کو نہ ملتا۔ عوام کے اندر جس دن اپنے ملک اس کی املاک اور اداروں کی اہمیت اور اس کی ملکیت کا احساس جاگ جائے گا اس دن سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ عوام کو جس دن اچھے اور برے میں تمیز آ جائے گی اپنے ملک کے آئین و قانون کی پاسداری کی اہمیت کا اندازہ ہو جائے گا اس دن سے ہماری سمت درست ہو جائے گی اور ہماری ترقی کے سفر کا آغاز ہو گا۔</p><p style="box-sizing: border-box; color: black; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; word-break: break-word;">اس کے لئے ہمیں اپنے سوچ و عمل سے قوم بننا ہو گا اور اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرنے کا عملی ثبوت دینا ہو گا۔ اپنے ملک کو اپنا گھر سمجھنا ہو گا اور جس دن ہم یہ سمجھ لیں گے تو پھر ہمیں اس کو لوٹنے کی بجائے اس کو بنانے کی فکر لاحق ہو گی اور پھر ہم اپنے گھر کو لوٹ کر غیروں کے دیس نہیں بھاگیں گے بلکہ ان بھاگنے والوں کا بھی محاسبہ کریں گے۔ بدعنوانی کا حصہ بننے کی بجائے اس کے خلاف ڈھال بنیں گے۔ اس کے وسائل کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے کی بجائے قومی مفادات کے لئے استعمال کریں گے۔ پھر ہم عوام کو اس کی حفاظت کرنا بھی آتی ہو گی اور اپنی خدمت پر مامور ان لوگوں جن کی تنخواہیں خزانے سے جاتی ہیں، سے کام لینا بھی آتا ہو گا اور اس دن سیاست شوق نہیں رہے گا بلکہ مجبوری بن جائے گا۔ لوگ سیاست سے بھاگیں گے اور عوام خود اچھے لوگوں کو ڈھونڈ کر مجبور کر کے مسند اقتدار پر بٹھائیں گے۔</p><p style="box-sizing: border-box; color: black; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; word-break: break-word;">قوم بننے کا مطلب ہے کہ ہر کوئی اپنی سوچ و عمل کو ملک و قوم کے مفادات سے ہم آہنگ کر کے اپنی اپنی استعداد اور اختیار کے مطابق اپنا حصہ ڈالے۔ مذہبی منافرت، عہدوں اور اختیارات کی مسابقت، قول و فعل کی منافقت اور خود غرضی کی معاشرت کو چھوڑنا ہو گا اور ہر کسی کو اس کے نظریات اور آزادی کے ساتھ آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہ کر زندگی گزارنے کا حق دینا ہو گا۔ مذہب کے تقدس کے نام پر قتل و غارت کو ختم کرنا ہو گا اور انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنانا ہو گا۔ جبری گمشدگیوں، حق آزادی رائے کی آواز کو دبانے جیسے خوف سے پیدا ہونے والے اپنے ہی دیش میں اجنبیت کے تاثر کو ختم کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے گرد مذہب، قومیت، علاقائیت، زبان اور دوسرے تعصبات کے حصار ختم کر کے محض پاکستانی ہونے کی شناخت پر اتفاق کرتے ہوئے سب کو مل جل کر اس ملک کی تقدیر کو سنوارنے کے لئے شانہ بشانہ آگے بڑھنا ہو گا۔</p><p style="box-sizing: border-box; color: black; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; word-break: break-word;">قوم کو اچھے برے میں تمیز کرتے ہوئے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی جو ملک و قوم کے لئے مخلص ہیں اور جن کا ماضی اس اخلاص سے مطابقت رکھتا ہے۔ ہر اس عنصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی جن کا قول و فعل ملک و قوم سے اخلاص کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا خواہ اس کا کسی بھی ادارے سے یا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو۔ سیاست دانوں کے نعروں کو ان کے قول و فعل کے ساتھ مطابقت کے ساتھ دیکھنا ہو گا۔ اور اگر کوئی لوٹی ہوئی دولت واپس نہیں لاتا یا بدعنوانی کو ختم کرنے میں ساتھ نہیں دیتا تو وہ اس ملک و قوم کے لئے مخلص نہیں ہو سکتا۔</p><p style="box-sizing: border-box; color: black; line-height: 58px; margin: 20px 0px 0px; padding: 0px; word-break: break-word;">ہمارے پاس اس کی کسوٹی آئین و قانون ہی ہے۔ اگر تو ہم اس کسوٹی پر پورے اترتے ہوں تو پھر ہم اس ملک کے لئے مخلص ہیں اور اگر ہم اس کسوٹی پر پورے نہیں اترتے تو پھر ہمارے کھوکھلے نعرے اس ملک کو کچھ نہیں دے سکتے جیسا کہ ہماری تاریخ اس کی گواہ ہے۔</p></div><p style="text-align: right;"> </p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-47173002713305809932023-09-01T05:24:00.018-07:002023-09-07T15:46:11.764-07:00توہین مذہب کے معاملے کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے<p style="text-align: right;"> </p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ناموس مذہب کے نام پر افراتفری، تشدد، قتل و غارت،
انتشار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے اور اس پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہم
مسلمان جو کبھی بردباری، عفوودرگزر، صبروتحمل اور انسانی حقوق کے محافظ سمجھے جاتے
تھے آج عالمی سطح پر انسانی حقوق کی پامالی کرنے والے اور شدت پسند کے طور پر
دیکھے جاتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان کے موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو مذہبی توہین کے
واقعات میں بہت ہی ذیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔</span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"> </span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">یہ مروجہ توہین مذہب کی منطق انسانی عقل و شعور ہی نہیں
بلکہ اسلامی تعلیمات سے بھی کوئی مطابقت نہیں رکھتی اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ
اس کا کوئی نہ کوئی سرا اسلام کی خدمت پر خود ساختہ مامور<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مذہبی طبقے سے بھی جڑتا ہے جنہوں نے معاشرے کے
اندر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس اشتعال انگیزی کو ہوا دی جس کی
لپیٹ میں اب پوری قوم آچکی ہے۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس کے ذمہ
دار وہ نام نہاد علماء ہیں جنہوں نے بغیر علم کے دین کے نام پرمسجد ومنبر کو
روزگار کا زریعہ اور تبلیغ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو سیاسی
دکانداری بنایا ہوا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو معاشرے کے اندر دین کے پیشوا کے طور
پر جانا اور سمجھا جاتا ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جو معاشرے کے
اندر ایک نمونے کے طور پر دیکھے جاتے ہیں ۔کل انہوں نے اپنی نفرت بھری تقریروں سے معاشرے
کا جینا دوبھر کیا ہوا تھا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور آج خود ہی
اپنی محنت کی زد میں آچکے ہیں ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اخباری اطلاعات کے مطابق آج راولپنڈی کے رہائشی حافظ شاہد
محمود اور عمران اصغر کی شکائت پر مفتی حنیف قریشی کے خلاف 298 اے کے تحت پولیس نے
مقدمہ درج کرلیا ہے ۔ مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ ممتاز قادری کی اشتعال انگیزی
سے گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے پیچھے بھی انہی صاحب کی تبلیغ کا اثر تھا۔رپورٹ کے
متن کے مطابق مفتی حنیف قریشی پر یہ الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے صحابہ کے خلاف
بغض<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا اظہار کیا ہے جس سے مسلمانوں کے
جذبات مجروح ہوئے ہیں ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اگر ہم اعدادوشمار دیکھیں تو ٢٠٠١ سے لے کر اب تک دو
درجن کے لگ بھگ ایسے واقعات ہوچکے ہیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جن
میں پچاس کے قریب جانیں ضائع ہوئیں اور 150 کے قریب لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ اور ان
جرائم میں ملوث افراد کی ہر سطح پر عملی طور پرحوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ اور
مظلوموں کی داررسی کرنے والوں کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سخت
نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔وکلا کو محض اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ ایسے
مقدمات میں پیروی کیوں کرتے ہیں۔ سال ٢٠٠٤ سے اب تک تقریبا اٹھارہ کے لگ بھگ وکلا
لقمہ اجل بن گئے اور ان کے ساتھ اتنے ہی عام لوگ بھی مارے گئے جیسے کہ اسلام آباد
٢٠٠٧ کے واقعہ میں تقریبا ١٧ عام شعری بھی مارے گئے۔ اسی طرح<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ملتان <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں رشید رحمان کو مار دیا گیا۔ حالیہ جڑانوالہ
اور فیصل آباد میں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>عیسائی عبادت گاہوں اور
ان کی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا جس کی تحقیق بھی مبینہ طور پر ایک مذہبی
سیاسی جماعت کے ملوث ہونے کے ثبوت مل رہے ہیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>۔ اسلام آباد کچہری میں کتنی الم ناکی سے وکلاء
کوظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا۔ میں خود اللہ کا شکر سے بمشکل بچا تھا ،اگر
ایک منٹ کی تاخیر ہوجاتی تو آج بیان کرنے کی بجاے بیان ہو رہا ہوتا۔ احمدیوں کی
عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے اور ان کے کئی ڈاکٹرز اور وکلاء کو بھی
نشانہ بنایا گیا ہے۔ </span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span style="mso-spacerun: yes;"> </span></span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قانون کی
خلاف ورزی میں زیادہ تر سزائیں بھی مسلمانوں کو ہی ہوئی ہیں اور جہاں جہاں بھی کسی
غیر مسلم پر کوئی مقدمہ بنایا گیا ہے اس کی تہہ میں جانے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ
کسی نہ کسی ذاتی رنجش کی بنا پر مقدمہ کا اندراج کروایا گیا یا اس کے پیچھے اشتعال
انگیزی تھی۔ سیالکوٹ کا واقعہ کتنا دردناک تھا جس میں سراسر غلط معلومات کی بنیاد
پر مشتعل ہجوم نے ہمارے دوست ملک کے ایک باشندے کو اتنی بے دردی سے بھرے بازار میں
قتل کیا کہ پوری قوم کے سر ندامت سے جھک گئے۔ اسی طرح کوٹ رادھاکشن<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور اسلام آباد کے واقعات انتہائی دردناک تھے۔
اور یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس
کی کڑی جڑانوالہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا واقع ہے جس میں کتنی
املاک کا نقصان ہوا، اسی طرح چند روز قبل<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>فیصل آباد میں واقعہ ہوا، جس سے ہماری اقلیتی برادری کے اندر ایک خوف سا
پھیل چکا ہے جس سےنہ صرف پاکستان کی بلکہ پورے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>عالم اسلام کے مسلمانوں کی رسوائی ہورہی ہے جس
کے سدباب کے لئے حکومت<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس سے سختی سے نمٹنے کا کوئی لائحہ عمل بنانا
چاہیے۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اگر ہم اس معاملے کا جائزہ لیں تو چند عوامل ایسے
ہیں جن<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ
یہ مذہبی سے زیادہ معاشرتی معاملہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بن چکا
ہے۔ میں معاشرتی اس اعتبار سے کہتا ہوں کہ اس میں مذہبی تو ہین تو گاہے بگاہے ہی
ثابت ہوتی ہے مگر معاشرتی پستی ، لاقانونیت اور اخلاقی اقدار کی کمی ہر جگہ نطر
</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب اگر اسلامی اور قانونی نقطہ
نظر سے دیکھا جائے تو جہالت اور لا قانونیت کے سوا کچھ بھی نہیں کیو نکہ اگر کوئی
چھوٹی بڑی غلط فہمی یا غلطی سر زد ہوتی بھی ہے تو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کا
نہ تو اسلام میں کوئی جواز موجود ہے اور نہ ہی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جدیدقانون میں۔ ایک جمہوری اور اسلامی ریاست میں
ریاست ہی کے خلاف کاروائی اور سزا دینے کا حق رکھتی ہے۔</span><br />
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اسلامی نقطہ نظر بہت ہی واضح
ہے کہ “ایک انسان کا نا حق قتل پوری انسانیت کا قتل ہے“ یہاں مسلمان نہیں کہا گیا
بلکہ انسان کہا گیا ہے اور پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں
بہترین اخلاقیات کو پروان چڑھانے اور عام کرنے کے لیے بھجا گیا ہوں۔ انسانیت کا
قتل بغیر کسی ثبوت یا صفائی کا موقعہ مہیا کئے، گمراہی نہیں تو اور کیا ہے ۔ اور ایک
اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے مال و جاں کی حفاظت ریاست کے ذمہ سونپی گئی ہے اور
اگر محافظ ہی قاتل بن جائیں تو اس سے بڑی بددیانتی اور گمراہی کیا ہو سکتی ہے۔
جیسے ایک صوبے کے گورنر کو اس کے محافظ نے قتل کردیا۔
دیکھیں
توجتنے بھی واقعات ہوئے ان میں اشتعال اور ذاتی رنجش کا عنصر ضرور سامنے آیا مگر
اس کے باوجود بھی اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں دی جا رہی ۔ ان نفساتی پہلوؤں کو
<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>زیر غور لاکر ان کے بارے کوئی حکمت عملی ترتیب دی جانی چاہیے۔اس ضمن میں چند
تجاویز دینا چاہوں گا۔
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">تمام مکاتب فکر کے
علماء کی قومی سطح پر ایک کانفرنس بلائی جانی چاہیے جس میں ملک کے جید علماء اپنے
متفقہ فتوے کے زریعے سے علماء کے اندر اس معاملے کی حساسیت کو پیدا کرتے ہوئے ان
کو ترغیب دیں کہ وہ اپنے اپنے مراکز پر عوام کی اصلاح کی کوشش کریں اور عوام کے
اندر دین کی روح سے غافل ملاؤں کی طرف سے غلط ذہن سازی کو ختم کرنے میں اپنا کردار
ادا کریں۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اسی طرح سکولوں کے سلیبس کے اندر بھی سیرت طیبہ کے درگزر
کرنے، مساوات، شفقت ، بردباری، اور ایک اسلامی ریاست کے اندر غیر مسلموں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی حفاظت کی ذمہ داری ، اللہ کے بنی ﷺ کے اخلاق
اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ ان کے سلوک <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی اعلیٰ مثالوں جیسے موضوعات کو شامل کیاجائے
تاکہ بچوں کے اندر اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی کے وہ پہلو اجاگر ہوں جن سے معاشرے کے
اندر محبت اور رواداری فروغ پا سکے۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">مسلمانوں کو اللہ کے نبی ﷺکے اخلاق پر عمل کرکے اسلام کے ان
پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے جن کی ان کے بد ترین دشمن بھی تعریف کرتے تھے ۔ ان کی
بعثت سے قبل ان کی چالیس سال کی زندگی میں پورے عرب و عجم میں احترام کی وجہ ان کا
اعلیٰ اخلاق تھا۔انکو نبوت کی فضیلت تو چالیس سال کی عمر میں ملی اس سے پہلے ان کے
انسانوں کے ساتھ معاملات اور اخلاق کی وجہ سے وہ ایک منفرد مقام رکھتے تھے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جن میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اسی طرح ملک کے اندر اب تمام مساجد اور مدارس کی رجسٹریشن مکمل ہوچکی ہے تو پھر ان کے مہتم اور ذمہ داران
کو بھی ایک ڈسپلن کے تحت لا کر ان کے لئے بھی کوئی ضابطہ اخلاق ہونا چاہیے تاکہ ان اداروں کا کوئی ذمہ دار مہتمم ہو اور ان کی کوئی ٹریننگ ہو
کہ اداروں کو کیسے چلایا جاتا ہے ۔ مدارس اور مساجد <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہمارے بہت ہی اہم ادارے ہیں اور ہماری تعلیم و
تربیت میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ضرورت ان کو صحیح طرح سے استعمال کرنے کی ہے ۔ان
لوگوں کے اندر بہت زیادہ پوٹینشل ہے ضرورت ان کو استعمال کر کے ترقی کے عمل کا حصہ
بنانے کی ہے۔ اس طرح کی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مذہب کے نام پراشتعال
انگیزی کبھی بھی کوئی ذمہ دار آدمی نہیں کرتا اور جب ان اداروں کی باگ ڈور ذمہ دار
لوگوں کے سپرد ہو گی تو ایسی اشتعال انگیزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا۔ ان ذمہ
داروں کے چناو میں تعلیم کا بھی خیال رکھا جائے۔پھر ان کو ملکی ترقی کے ساتھ مربوط
کرنے کے لیے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انہیں اور بھی ذمہ داریا ں
سونپی جاسکتی ہیں ۔یہ ہمارے پاس رضاکاروں کا ایک بہت بڑا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ریسورس ہیں ضرورت توجہ دینے کی ہے۔ جیسے ان کو
نکاح خواں کی رجسٹریشن دی گئی ہے اسی طرح اور بھی ذمہ داریاں مثلا‘ پولیو <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یا وبائی امراض کے بارے مہم سازی ،ثالثی ، امن
کونسلوں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جیسی ذمہ داریاں اور نمبرداروں کی
طرح تصدیق کے عمل میں شمولیت وغیرہ سونپ کر مصروف کیا جا سکتا ہے۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ان کی ذہن سازی کرکے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ ان کے
رویوں کی وجہ سے نہ صرف ہمارےمعاشرے میں نفرتیں جنم لے رہی ہیں بلکہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہم اسلام کی بدنامی کا سبب بھی بن رہے ہیں جس
سے اسلام کی تبلیغ بھی متاثر ہورہی ہے۔ جب ایک مولوی دوسرے مولوی سے نفرت کروا رہا
ہوگا تو پھر معاشرے میں امن کیسے بحال ہوسکتا ہے۔ جب ہم نے اللہ کے گھروں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>(مسجدوں) پر نظریات اور مسلک کے پہرے لگائے ہوئے
ہونگے اور کسی کو آزاد مرضی سے وہاں گھسنے اور عبادت کرنے کی اجازت ہی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نہیں دیں گے تو پھر ہماری اس اجارہ داری سے
اسلام کے ایک دوسرے کو سننے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>، حال جاننے اور
اجتماعیت کے تصور کو پنپنے کا کیسے موقع ملے گا۔ جب ہم ایک دوسرے سے بات ہی نہیں
کریں گے تو پھر اصلاح کا عمل کیسے وجود پا سکتا ہے۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ہماری علمی سطح کا یہ حال ہے کہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مبینہ طور پر بہالپور یونیورسٹی کا ایک نوجوان
لیکچرار کو صرف اس لئے جیل میں ڈال دیا گیا کہ وہ خدا کے وجود کا انکاری تھا۔ ہم
ایک اسلامی ریاست کے اندر تمام مکاتب فکر کے علماء <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا علم اور ریاستی وسائل ہونے کے باوجود کسی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو دلیل سے قائل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور
ہمارے پاس اس کا ایک ہی حل ہے کہ اس کو پابند سلاسل کر دیا جائے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یا اس کا سر تن سے جدا ۔ یہاں جس پر ایک دفعہ
جھوٹا یا سچا مذہب کے متعلق توہین کا کوئی الزام لگ جائے تو پھر ہمارے معاشرے کے
اندر جنونیت سے خوف زدہ ذہنوں کے پاس اس کا کوئی شعوری حل ممکن نہیں بلکہ اس کو
معاشرے کی خواہشوں کے طابع لے کر ہی چلنا ہوتا ہے ۔ عدالتوں کے جج ایسے مقدمات سے کتراتے
ہیں کوئی وکیل ایسے ملزم کے لئے پیش ہونے کی جرات نہیں کرسکتا اور<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تو اور اس موضوع پر لکھنا بھی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span></span><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p> </o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p> </o:p></span></p><p></p></span><p></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-82434072404851798212023-08-28T06:01:00.003-07:002023-08-28T06:08:21.802-07:00حکومت کو انتظامی امور پر توجہ دے کرعوام کو ریلیف دینا ہوگا<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">عبوری حکومت کوموجودہ معاشی بحران میں ترقی کے پہیے کو روان کرنے کے لئے ملک کے اندر مہنگائی ، بیروزگاری اور غربت سے بڑھتی ہوئی بے یقینی کی صورتحال سے نمٹنا ہوگا تاکہ عوام کو سکون کا احساس دے کر بہتری کے لئے پر امید بنایا جاسکے۔ان کی ذمہ داریوں میں انتظامی امور کو بہتر بناتے ہوئے عوام کو ایک شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے زریعے سے حکومت کی منتقلی اور ان کو ایک اچھے انتظامی امور کا نمونہ دینا ہوگا۔ تاکہ اگلی حکومت پر عوام کا ایک نگرانی کا منصوبہ دیا جاسکےجسے وہ دباؤ سے بحال رکھوا سکیں۔ وہ اگلی حکومت کو اس دلیل کے ساتھ جوابدہ ٹھہرائیں کہ اگر عبوری حکومت حالات کو درست کر سکتی ہے تو پھر ایک انتخابی حکومت کی ناکامی بھی قابل برداشت نہیں ہوسکتی</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">حکومت کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے عمل سےساکھ کو بحال کرنا ہوگا۔ اب اس ٹیکنالوجی کی دور میں کسی سے بھی کوئی راز پوشیدہ نہیں سب جانتے ہیں کہ ان کے وجود ، طاقت اور حکمت عملیوں کی بنیاد کیا ہے۔ اور نہ ہی اس تاثر کو بدلنے کی کوششوں میں وقت، توانائی اورپیسہ ضائع کرنے کی کوئی ضرورت ہے بلکہ اس تاثر کو بہتر کرکے اپنی بنیادوں اور محسنوں کی ساکھ کو بہتر کرکے عوام کے دلوں میں محبت پیدا کی جاسکتی ہے۔</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور اس کے لئے پہلے سے ہی عبوری حکومت کے محدود اختیارات کی حدوں کوکافی حد تک وسعت دی جاچکی ہے اور اس کے لئے کسی طرح کی بھی نئی اصلاحات کی کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی ان کے پاس اب عوامی مطالبات سے فرار کا کوئی بہانہ ہے۔ صرف موجودہ قوانین پر عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ افسر شاہی میں اچھی شہرت ، تجربہ اور کارکردگی کی بنیاد پر انتظامی عہدوں پرتعیناتیوں کی ضرورت ہے ۔ ایسے لوگوں کو سربراہ بنایا جائے جو ملک و قوم کی خدمت کو ذاتی فائدوں پر ترجیح دیتے ہوں اور وہ افسر شاہی کے مافیہ کے ہاتھوں یرغمال بننے کئ بجائے ان کو کنڑول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی وجوہات میں معاشی بحران سے بھی زیادہ بد انتظامی اور بد عنوانی کا ہاتھ ہے۔ ایک ہی شہر کے اندر ایک ہی بازار میں ہر کسی نے اپنی مرضی کے نرخ لگائے ہوئے ہیں اور متعلقہ محکمے جنہوں نے نرخوں کو حکومتی تعین کردہ لسٹوں کے مطابق یقینی بنانا ہے وہ کبھی بازار میں نظر ہی نہیں آئے۔ اگر وہ کبھی کبھار بھی بغیر اطلاع کے کم از کم رو زمرہ کی اشیاء خوردو نوش کی نرخ اور ان کی کوالٹی کوچیک کرنے کی روٹین کو بنائے رکھیں تو دکانداروں پر چیکنگ کا خوف رہے اور وہ عوام کے ساتھ ظلم کرنے سے با ز رہیں۔ جس سے نہ صرف عوام کی جیبیں محفوظ ہوجائیں بلکہ ان کی صحت بھی بہتر ہو اور حکومت کی صحت پر اٹھنے والے اخراجات بھی کم ہوجائیں۔</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">بجلی کے بلوں پر احتجاج کے پیش نظر جس طرح سے گریڈ سترہ اور اس سے اوپر والے افسران کی مفت ترسیل کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے خوش آئند ہے اور اس پر عمل بھی ہونا چاہیے محض سابقہ حکومت کی کفائت شعاری کی پالیسی کی طرح کا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح سے عوامی دباؤ کی بنیاد پرباقی تمام مراعات کوبھی ختم کرکےبرابری کو ترویج دینا چاہیے تاکہ جب ان کی آسائشیں ختم ہوں تو ان کو عوام کی مشکلات اور تکلیف کا بھی احساس ہو کہ وہ کسی طرح سے زندگی گزار رہے ہیں۔</span><span dir="LTR"></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پاکستان میں حکومت کی رٹ کی کوئی کمی نہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ آج تک آپ نے کبھی کسی ڈپٹی کمشنر، جج ، پولیس آفیسر، جرنیل، وزیریا بیورو کریٹ سے کسی کو بدتمیزی کرتے دیکھا ہے۔ یا کبھی ان کے اپنے کام رکتے دیکھے ہیں ۔ صرف مسائل عام عوام کے لئے ہی ہیں۔ ہماری افرادی قوت میں بے تحاشا صلاحیتیں ہیں مگر ان کا استعمال عوام کی خدمت کی بجائے مسائل کھڑے کرنے پر ہورہا ہے۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">انتظامی عہدوں پر بیٹھے اور ریاست کے اہلکاروں کے اثاثے اور آمدن میں مطابقت کو دیکھنے کی اشد ٖضرورت ہے اور ان کی سکروٹنی ہونی چاہیے کہ ان کے شاہانہ اخرجات کہاں سے پورے ہورہے ہیں بلکہ ان کے گھروں کی بھی تلاشی لی جانی چاہیے تاکہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت قوم کو واپس ملے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے ہر ترقیاتی ٹھیکے میں اوپر سے لے کر نیچے تک کمیشن چلتی ہے۔ اسے بند ہونا چاہیے۔</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">افسر شاہی کو کنٹرول کرنے کے لئے بھی ان کی نفسیات کو پیش نظر رکھ کر لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ ان کی محدود سوچ اور اختیاراتی اجارہ داری کی سوچ کو خدمت کی طرف موڑنے کے لئے ان کی سوچ کو عوامی اختیارات سے ہی ضرب لگانی پڑے گی اور ان کے اندر ان کے اختیارات کوآئینی و قانونی اختیارات کی جوابدہی کے تابع لاکر یہ احساس پیدا کرنے اور اس کا یقین بٹھانے کی ضرورت ہے کہ ان کا کام بادشاہت نہیں بلکہ خدمت ہے اور ان کی تنخواہیں عوام کی جیب سے آتی ہیں۔ کسی ایک مولا جٹ کو نوکری سے فارغ کرکے جیل بھیج دیں سب ٹھیک ہوجائیں گے جیسے ہی ان کو اپنا عہدہ اور اختیارات خطرے میں لگیں گے یہ اپنی اصلیت کی طرف لوٹ آئیں گے ۔ لہذا ان کو اختیاراتی ڈسپلن میں رکھنا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">حکومت کو عوامی اعتماد حاصل کرنے کے لئے فوری طور پر تمام محکموں کے اندر تنخواہوں میں برابری اور حکومتی اخراجات میں کمی کردینی چاہیے اور ریاستی وسائل کی بنیاد پر بنائے گئے امتیازی سلوک کو فوری بند کر دینا چاہیے اورعوام کی داد رسی کے لئے سخت اقدام اٹھانے چاہیں</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">یہ تبدیلی کا سفر حکومت کو نچلی سطح سے شروع کرنا چاہیے۔ صوبوں کی اکائی ضلع کی سطح پر عوام کو ریلیف دے کر امن ، استحکام اور ترقی کا یہ سفر شروع کیا جاسکتا ہے ۔</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">صوبائی حکومتیں صرف ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں کیمرہ لگا دیں اور اس کا کنکشن ڈائریکٹ ایک ہوم سیکرٹری کے دفتر میں ہو اور ایک چیف منسٹر کے دفتر میں اور اسے یہ حکم دیا جائے کہ کوئی بھی سائل آپ سے ملنے آئے اس کو روکا نہیں جاسکتا ۔ آپ کو ہر حال میں اس کی داد رسی کرنی ہوگی۔دفتر کے باہر کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ سارے معاملات خود بخود ہی ٹھیک ہوجائیں گے۔پنجاب جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ ہے اس کے 42 اضلاع ہیں اور 42 مولا جٹوں کو کنٹرول کرنا اس صوبے کے چیف منسٹر کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ۔ اسی طرح باقی اضلاع میں بھی کے پی کے کے 38، بلوچستان 36، سندھ 30، گلگت بلتستان 14، کشمیر 10 اور اسلام آباد 1ضلع ہے جو مجموعی طور پر 171بنتے ہیں ۔کیا اس ملک میں 171 ایماندار ، اہل اور قابل لوگ بھی موجود نہیں یا اتنےسے لوگوں کو بھی کنٹرول نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ بھی ناممکن نہیں بس ضرورت ہے اخلاص اور نیت کی۔</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ڈپٹی کمشنر کے پاس ایک ہی بہانہ ہوگا کہ میں کس طرح پورے ضلع کے سائلین کو ڈیل کر سکتا ہوں ۔ سادہ سا حل ہے کہ کسی بھی محکمے کے خلاف کوئی شکائت آتی ہے تو اس کو کہہ دے کہ اپنی کارکردگی ٹھیک کریں ۔ شکائت کا مطلب ہے کہ آپ کی کارکردگی ٹھیک نہیں۔ جب کارکردگی ٹھیک ہوگی تو شکائتیں خود بخود ہی رک جائیں گی۔ اور اگر شکایات نہیں رک رہیں تو اس کا مطلب ہوا کہ اس کے ضلع میں ماتحت محکموں میں لوگوں کے کام نہیں ہورہے اور وہ انتظام کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اس کو تبدیل کر دیا جائے۔</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اسی طرح ڈپٹی کمشنر اپنے دفتر میں بیٹھ کر اپنے ماتحت محکموں کے سربراہان کے دفاتر کو کیمروں کے زریعے سے مانیٹر کرے ۔ اس ٹیکنالوجی کے دور میں کوئی کام بھی مشکل نہیں بشرطیکہ ہمارے سیاستدان حل کرنے میں مخلص ہوں تو</span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-3920634344379769972023-08-26T19:55:00.013-07:002023-09-09T18:27:59.899-07:00سوچوں پر پہرے اور عدم تحفظ کا ماحول<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">انسان جب اپنی سوچوں کو
تحریروں میں لاتا ہے تو پھر اس کی خواہشات، ارادے، چاہتیں، احساسات، تحفظات
اور بہت کچھ دوسرے انسانوں تک پہنچتا ہے جس سےان پر ردعمل بھی ابھرتا ہے اور پھران
کے نتائج کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔</span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس رد عمل کے اثرات <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں ایسے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>اشارے بھی ہوتے ہیں جن میں محبت یا نفرت کا اظہار ہوتا ہے جو یقیناً ہمارے
لئے خوشی، رائے قائم کرنے اور اپنی اصلاح کے لئےفائدہ مند ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن بعض
دفعہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہماری تحریروں نے کس انسان پر کیا تاثر چھوڑا ہے، خاص
کر اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں تو <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اشاعت وسیع اور اس کے اثرات کو جاننا انتہائی
پیچیدہ ہوچکا ہے۔ کچھ ایسے ہی چھپے رستم لوگ جن کے مفادات متاثر ہورہے ہوتے ہیں وہ
ظاہر نہیں کرتے مگراپنے مقصد کو نقصان پہنچنے کا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بدلہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>لینے کی خاطر انتقام کی حد تک چلے جاتے ہیں اور
ایسے لوگوں کی چالوں اور انتقام کے جذبے سے ہم <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چونکہ لا علم ہوتے ہیں اس لئے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کی چالوں کے خطرات سے بچنا انتہائی مشکل ہوجاتاہے۔
ایسی صورت میں اللہ کا فضل ہی کارگر ہوسکتا ہے جس کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہنا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چاہیے۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آج میں کچھ ایسے ہی واقعات
آپ کو سنانے جارہا ہوں جن سے نہ صرف ہمارے احساسات <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>متاثر ہوتے ہیں بلکہ خوف و اندیشہ اورنقل حرکت
میں بھی محتاط ہونا پڑتا ہےاور ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی نقصان اٹھانا پڑتا ہے جس
ہماری ذات کے علاوہ ہمارے ساتھ ہمارے خاندانوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔ </span><span style="color: #050505; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman";"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">میرے ساتھ ہونے والے ان
واقعات <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نے مجھے بہت محتاط کردیا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہے مجھے اپنی سرگرمیوں کو محدود کرنا پڑا ، جس
سے میری آزادی بھی متاثر ہوئی ، میرا اظہار رائے کا حق بھی متاثر ہوا اور مجھے
ذہنی , جسمانی اور مالی طور پر نقصان بھی اٹھانا پڑا ۔ </span><span style="color: #050505; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman";"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کئی دفعہ ایسے لوگوں کے
تعاقب کا سامنا کرنا پڑا ، دروازوں پر ڈندے برسائے گئے، گاڑی کو سڑک پر نقصان
پہنچانے کی کوشش کی گئی اب یہ لوگ کون ہیں اس بارے کچھ کہہ نہیں سکتا مگر ان کی
روداد ضرور سنا سکتا ہوں۔اور پریشان کن بات تو یہ ہے کہ اس ملک میں نہ تو کوئی
شکائت کارگر ہوتی ہے اور نہ ہی ان سے کوئی تحفظ حاصل ہوسکتا ہے۔ </span><span style="color: #050505; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman";"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایک دن میں گھر پر
بیٹھا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور میں باہر گیا تو دو نوجوان تھے جن میں سے
ایک <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نے اپنا تعارف کسی ریڈیو سٹیسشن پر کام
کرنے اور ساتھی کا پیشہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ڈاکٹر بتایا ۔ میں
نے پوچھا فرمائیے میں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آپ کی کیا مدد کر
سکتا ہوں۔ تومجھے کہنے لگے کہ یہاں پر زمین کی کیا قیمت چل رہی ہے میں نے اندازے
سے بتایا تو پھر میرے گھر کے ساتھ بنے فلیٹس کے بارے معلومات لینے لگے ، میں نے ان
کو بتایا کہ چوکیدار وہاں پر موجود ہوگا آپ اس سے معلومات لے سکتے ہیں مگر انہوں
نے میرے ساتھ جانے پر اسرار کیا میں ان کے ساتھ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چلاگیا اور ان کو بتایا کہ فلیٹس کھلے ہیں اور
آپ جاکر اندر سے دیکھ سکتے ہیں مگر وہ مجھے اندر ساتھ جانے پر زور دینے لگے جس پر
مجھے تعجب ہوا ور میں تھوڑا محتاط بھی ہوگیا۔مجھے ان کے اس رویے پر کچھ گڑبڑ ہونے
کا خدشہ ہواور میں نےتھوڑے سخت لہجے میں کہا کہ آپ جائیں اور دیکھ لیں تب وہ اندر
چلے گئے تو میں گھر لوٹ آیا۔ تھوڑی دیر بعد پھر دستک ہوئی باہر گیا تو وہی دونوں
تھے اور<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کہنے لگے کہ ہم کل دوبارہ آئیں گے
تو آپ ہمارے ساتھ جا کر کچھ پلاٹ وغیرہ دکھا دیں۔ میں نے کہا بھئی میں اس بارے کچھ
نہیں جانتا مگر وہ گزارش کے انداز میں بضد تھے ، میرے ساتھ پانچ سال کا بیٹا بھی
تھا ،ایک نےاپنے پرس سے سو روپے نکالے اور میرے ساتھ کھڑے بیٹے کو دینے لگا۔ میں
نے شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کو منع بھی کیا مگر انہوں نے زبردستی بیٹے کی جیب میں
ڈال دئیے اور مجھ سے موبائل نمبر پوچھنے لگے۔ مجھے اخلاقاً نمبر بتانا پڑا ۔ دوسرے
دن پھر مجھے فون آیا اور اپنا تعارف کروانے کے بعد کہنے لگے کہ ہم آج دوبارہ ا ٓپ
کی طرف آ رہے ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے ساتھ ہماری گاڑی میں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چلیں تاکہ ہم کچھ پلاٹ دیکھ سکیں ، تو میں نے
انکار کر دیا کہ میں کچھ نہیں جانتا اور میں فارغ بھی نہیں ہوں ۔ آپ کسی پراپرٹی
ڈیلر کو ملیں، وہ اسرار کرتے رہے مگر میں نے معذرت کرتے ہوئے فون بند کریا۔</span><span style="color: #050505; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman";"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اسی طرح ایک دفعہ میری
گاڑی کو ایک ملنگ دوست نے روک لیا میری فیملی بھی ساتھ تھی اور بہروپیے کی طرح عمل
کرنے لگا ، پیسے مانگے، میں نے اپنی استعداد کے مطابق پیسے دئے تو پانچ سو کا
مطالبہ کرنے لگا اور ساتھ ہی اپنی پیشہ ورانہ انداز میں برا بھلا بھی کہے جا رہا
تھا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس کے الفاظ محض قابل اعتراض ہی نہیں
بلکہ تضحیک آمیزبھی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تھے ۔بہرحال میں
ملنگوں سے الجھنے سے تو رہا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں نے اس سے
جان چھڑواتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی مگر اس کے الفاظ نے مجھے کئی دن تک پریشان
رکھا۔ </span><span style="color: #050505; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman";"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایک دن میں صبح صادق
اپنے ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا تو ایک درویش صفت انسان اونچی آواز میں کچھ نعرے
لگاتے ہوئے گزرا۔ میں نے اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی ۔ وہ گلی کے آخر تک جا
کر وآپس آگیااور میرے گھر کے گیٹ پر دو تین زور دار ڈنڈے برسائے، مجھے فقط میرے
گھر کے گیٹ پر ڈنڈے برسانے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا اندازعجیب
تو ضرور لگا لیکن میں پھر بھی اس <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو
ضرورتمند سمجھ کر اس کی مدد کے لئے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پہنچا
تو وہ گلی کے آخری کونے سے مڑ رہا تھا۔ مجھے افسوس یہ ہے کہ میں اس کا پیغام تو نہ
سن سکا مگر اس کے اشاروں سے سبق حاصل کرتے ہوئے حسب عادت اپنی تحریروں میں توقف
ضرور کر دیا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کیونکہ تحریروں کا مقصد کسی
کو زند پہنچانا تو نہیں ہوتا اور خاص کر جب کوئی اس طرح سے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انتباہ کر رہا ہوتو جان کی امان بھی تو چاہیے
ہوتی ہے۔ </span><span style="color: #050505; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman";"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایک دفعہ میں جب دو
ڈھائی بجے بچوں کو سکول سے لے کرگھر آیا اورجیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو الماریوں
سے کپڑے اور ہر چیز بیڈ کے اوپر اتھل پتھل پڑی تھی ۔دیکھا تو کوئی گھر کے او ٹی
ایس سے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سریے توڑ کرنیچے نازل ہوا تھا ،
میرے اور بچوں پر خوف سا تاری ہوگیا ، چیزوں کو سنبھالا تو لیپ ٹاپ ، ڈیجیٹل کیمرہ
اور بچوں کی وڈیو گیم غائب تھیں ، پولیس کو بلایا ، رپورٹ درج ہوئی ، موبائل لیبارٹری
<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>والے آئے ، فنگر پرنٹس لئے ، واضح پرنٹس
پر اطمنان کا اظہار بھی کیا ، مگر نہ کوئی گرفتار ہوسکا اور نہ کوئی اتہ پتہ ملا ۔
چوریاں تو ہوتی رہتی ہیں مگر اس واقعہ کے اندر کچھ عجیب اتفاقات بھی دیکھنے میں
ملے جن کی وجہ سے کافی دنوں تک<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں اس بات
پر غور و خوض کرتا رہا۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ایک لفافے میں
پرائزبانڈ پڑے تھے وہ بھی قسمت سے بچ گئے اور ایک دراز میں تین ہزار پاکستانی روپے
اور ۸۰کینیڈین ڈالر بھی تھے جو خوش قسمتی سے محفوظ رہے ۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>خدا جانے اس کو یہ سب کچھ نظر نہیں آیا یا اس
کی ترجیحات کچھ اور تھیں ۔کچھ دنوں بعد مجھے بہارہ کہو تھانہ میں کچھ ملزمان کی
گرفتاری کا علم ہوا تو میں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وہاں گیا سب
انسپکٹر صاحب کو ملا اوران سے اپنے ملال کا اظہار کرتے ہوئے اپنے لیپ ٹاپ میں لکھی
ہوئی چند کتابوں اور ڈیٹا کے چوری ہونے پرپریشانی کا اظہار کیا جس پر مجھے محسوس
ہوا جیسے انکے اندر میرے لئے ہمدردی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے
احساسات پیدا ہوئے ہیں ۔انہوں نے اپنے موبائل سے خاص <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>زرائع پر رابطے شروع کردئے اور انکے انداز سے
معلوم ہورہا تھا کہ وہ میری مدد کرنا چاہ رہے ہیں ۔ مگر اچانک انکے انداز بھی بے
بس سے لگنے لگے ۔ </span><span style="color: #050505; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman";"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایک دفعہ میری چلتی
گاڑی کے ساتھ ایک گاڑی نے کچھ اس طرح سے سڑک پر اٹکیلیاں کھیلنا شروع کردیں کہ جان
بچانے کے لئے گاڑی کنٹرول کرتے کرتے ایک درخت سے جا ٹکرائی، تھوڑے بہت زخموں سے
جان بخشی ہوگئ، اور وہ انجان دوست رفو چکر ہو گئے ، جاکر ہسپتال سے پٹیاں لگوا
لیں، الزام لگاتے بھی تو کس پر۔</span><span style="color: #050505; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman";"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">بہرحال پاکستان ہے اور
یہاں ملک و قوم سے محبت، اپنے خیالات اور اظہار رائے کو دوسروں تک پہنچانے کا
ٹیکس ان چھوٹی موٹی اٹکیلیوں کی صورتوں میں دینا تو بنتا ہی ہے ، بس دعا کریں کہ
اللہ کسی بڑے حادثے سے بچائے۔</span><span style="color: #050505; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman";"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">موبائل پر کبھی کبھی
وقت بے وقت نا معلوم نمبروں سے کالیں آنا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور آگے سے پر اسرار خاموشی کی ہیبت تو یہاں
ہمارے دیش کا ایک معمول کا عمل ہے۔ شروع میں میسنجر کے زریعے سے یہ ہمدرد لوگ مفید
مشوروں سے مستفید<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بھی کرتے تھے کہ آپ
محتاط رہا کریں اور بتاتے تھے کہ ان کو ایسی تحریروں کی وجہ سے تکلیفوں کا سامنا
کرنا پڑتا رہا ہے۔ میں ان دوستوں کومخلص سمجھ کر ہمیشہ اپنی تحریروں کو معرفت کے
انداز میں لکھنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ کیونکہ میر امقصد کسی کی دل آزاری یا دکھ
پہنچانا تو ہوتا نہیں ہے۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور میرامقصد تو صرف
اپنے محسوسات کا اظہار اور انسانی حقوق اور ترقی کے خواب کی تکمیل میں ایک چھوٹی
سی کوشش ہی تو ہے۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ملک میں ایک خوف کا سا
سماں ہے۔ صحافت کی کتنی آوازیں دبانے کے لئے جانوں تک سے کھیلاگیا اور کچھ اپنی
جانیں بچا کر محفوظ مسکن کی تلاش میں اپنے وطن سے دور اس مٹی کی محبت کے لئے ترس
رہے ہیں۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 18pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایسے ہتھکنڈوں سے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سوچوں پر پہرے لگا کر آزادا ور تعمیری سوچ کے
زریعے سے ترقی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی راہوں کی تلاش <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں رکاوٹیں تو کھڑی کی جاسکتی ہیں انہی دبا نے
کی کوشش <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں ملک سےانکو بھگایا ضرور
جاسکتا ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مگر وہ دبتی نہیں بلکہ وہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کسی آزاد ماحول کا رخ کر کے پہلے سے بھی زیادہ
ابھر کر سامنے آتی ہیں ۔ لہذا بہتر یہی ہوتا ہے کہ سوچوں کے اظہار کے زریعے سے
عوام کے رد عمل کو سمجھ کر حالات میں بہتری کی کوشش کی جائے چہ جائے کہ عدم تحفظ
کے خوف کو بڑھا کر آوا ز کے دب جانے سے سب کچھ ٹھیک ہونے کا گماں کر لیا جائے۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span></span><span style="color: #050505; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; mso-fareast-font-family: "Times New Roman";"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%;"><o:p> </o:p></span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-30468228651668874362023-08-08T19:08:00.007-07:002023-08-08T19:19:07.725-07:00ملکی حالات سے ابھرتے سیاسی خدوخال جمہوری نہیں لگ رہے۔<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">زمینی حقائق کو دیکھ کر لگتا ہے کہ شائد جمہوری اقدار ہمیں موافق آتی ہوئی دکھائی
نہیں دے رہیں۔ اس کی ایک وجہ تو قومی سطح پر سیاسی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات کا
فقدان بھی ہے جو ایک جمہوری نظام کے اندر کامیابی کے لئے لازم ہوتے ہیں لیکن جو
ہماری پارلیمان قانونی اصلاحات کر رہی ہے ان سے ابھرتے ہوئے تاثر سے لگتا ہے
کہ سیاسی جماعتیں خود بھی یا تو جمہوریت سے نا امید ہوچکی ہیں یا پھر فی
الحال ان کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔ اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ موجودہ
ملکی معاشی حالات میں ریاست پچھلے ڈیڑھ سال سےجاری سیاسی عدم استحکام
کی سوچ اور سرگرمیوں میں مزید کسی چھوٹ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔</span><span style="color: #222222; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-bidi-font-family: Calibri; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-hansi-font-family: Calibri;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">جس کی سب سے بڑی وجہ خود سیاسی جماعتیں ہی
ہیں جن کو اس دوران کافی موقع دیا گیا کہ وہ اصولی سیاست کی طرف لوٹ آئیں ، جن میں
تحریک ا انصاف کا رویہ تو انتہائی قابل تشویش رہا ہے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے
اپنے آپ کو سیاست سے الگ رکھنے کی پوری کوشش کی گئی ہے مگرسیاسی حلقوں نے یہ ثابت
کیا ہے کہ ہمارے مذاج اس طرح کی آزاد، حساس اور با ختیار سیاست کے عادی نہیں
ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہم پچھلی سات دہائیوں سےرائج روائتی سیاست کے عادی
ہوچکے ہیں ، جس میں جمہوریت کی روح رواں طاقت اسٹیبلشمنٹ رہی ہے جس کا انہوں
نے خود بھی کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ ہر فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق ہوتا
رہا ہے جس کے پیش نظراب ہمارے سیاستدان بھی ان سہولت کاریوں کے
عادی ہوچکے ہیں</span><span dir="RTL" lang="ER" style="color: #222222; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; mso-bidi-language: ER; mso-fareast-font-family: "Times New Roman";"> ۔</span><span style="color: #222222; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-bidi-font-family: Calibri; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-hansi-font-family: Calibri;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">نیوٹرل ہوئی
ہےتو
اس خلا کو پر کرنے کے لئے دوسرے اداروں نے وہی کردار اپنا لیا ہے اور ایسے حالات
بنائے جارہے ہیں جن سے یہ پیغام جارہا ہےکہ وہ سیاست کو آزاد نہ چھوڑیں وگرنہ
سیاست کا سنبھلنا ممکن نہیں رہے گا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی سب سے بڑی وجہ
ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر سیاست کو جمہوری اور اصولی رکھنے کی صلاحیتوں کا
فقدان ہے</span><span style="color: #222222; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-bidi-font-family: Calibri; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-hansi-font-family: Calibri;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اگر ایسا نہ ہوتا تو ہماری سیاسی جماعتیں
یقیناً اسٹیبلشمنٹ کے اپنے آپ کو سیاست سے دور رہنے کے دعوے پر یقین رکھتے
ہوئے اپنے عمل سے یہ ثابت کرتیں کہ وہ ان کی اس فیصلے سے خوش ہیں اور وہ آپس
میں مذاکرات کی میز پر بیٹھ کراصولی سیاست وجمہوریت اور اس کو درپیش
چیلنجز سے نمٹنے کا کوئی مستقبل بارے لائحہ عمل دیتیں ۔ اور اگر پھر بھی کوئی
اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا اشارہ ملتا تو ان کو جوابدہ بھی ٹھہراتیں۔مگر وہ نہ تو
آپس میں مذاکرات کرسکیں اور نہ ہی پر امن سیاسی اور جمہوری ماحول بنا سکیں۔ جس کو
اقتدار مل جاتا ہے وہ دوسروں کو انتقام کا نشانہ بنانا شروع کر دیتے ہیں اور جن سے
اقتدار چلا جاتا ہے انکی سیاست کا محور ملکی فلاح کی بجائے اقتدار کا حصول ہوجاتا
ہے اورسیاست کے اصولوں کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔</span><span style="color: #222222; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-bidi-font-family: Calibri; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-hansi-font-family: Calibri;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سپریم کورٹ نے زبردستی تحریک انصاف کو
حکومت کے ساتھ انتخابات کے انعقاد کے لئے مذاکرات پر بٹھایا مگر اس سے کوئی
نتیجہ اخذ نہ ہوسکا۔ حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں پر بھی الزام ہے کہ
انہوں نے تحریک انصاف کو وہ اہمیت نہیں دی جو دینی چاہے تھی لیکن تحریک
انصاف کے کچھ قائدین کی طرف سے اب یہ بیانات بھی سامنے آرہے ہیں کہ عمران خان نے
جان بوجھ کر یہ موقع ضائع کردیا اور پھر 9 مئی کے واقعہ کے دوران ان کے
کارکنان کی سرگرمیوں نے تو ان کی ساری کی ساری سیاست کا کٹہ چھٹہ کھول کر رکھ دیا
ہے کہ جیسے وہ اس گھمنڈ میں تھے کہ اپنی مقبولیت کے زور پر سب کچھ زبردستی منوا
لیں گےاور وہ کسی بھی صورت اقتدر کے حصول سے کم کسی بھی حالت میں امن
کے حق میں نہیں تھے۔ جس کی ایک دلیل ان کی وہ ساری سیاسی سرگرمیاں ہیں جن کو وہ
وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہوجانے کے بعد سے جاری رکھے
ہوئے تھے جس میں ان کی مکملسیاست چوک چوراہوں تک محدود
ہوکر رہ گئی تھی۔جس میں انہوں کئی بیانیے بنائے جن میں
ایک سائفر کا بھی تھا جس پر اب ان کے اپنے لوگ ہی سیاسی کھیل کا انکشاف کر رہے ہیں
اور عمران خان نے خود کئی یو ٹرن بھی لئے ہیں ۔جس کا آج وہ نقصان بھی اٹھا رہے ہیں
۔</span><span style="color: #222222; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-bidi-font-family: Calibri; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-hansi-font-family: Calibri;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">;ان کو چاہیے تھا کہ وہ اگلے انتخابات
عوام
کی نمائندگی کا حق بھی ادا کررہے ہوتے۔ جس میں; وہ مکمل
طور پر ناکام رہے اور ان کی سرگرمیوں کی بدولت جس میں وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے
مذاکرات کی خواہش اور بلا حدود و قیود تنقید کی وجہ سے نہ صرف سیاسی جماعتوں کا
اعتماد کھو بیٹھے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے قریب بھی اپنا اعتماد ضائع کر بیٹھے۔
اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں کردار پر تو اعتراض کیا جاسکتا ہے جس کاعمران خاں سمیت سب
حصہ رہےہیں مگر ان کے ایک ریاستی ادارے کے کردار اور ذمہ داریوں کو کسی صورت نظر
انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس پر بے جا تنقید کرنی چاہیے۔ عمران خاں وزیر
اعظم کے اعلیٰ منصب پر رہ چکے ہیں اس لئے ان کی سوچ اور عمل میں پختگی ہونی چاہیے
۔جب وہ خود اقتدار میں تھے تو وہ فوج کی حکومتی امداد کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے
تھے اور فوج پر تنقید کو ملک دشمنی سے تشبیہ دیتے تھے ۔ویسے بھی ریاست کے
کسی ادارے کے سربراہ کے ساتھ کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ملنے کی خواہش یا
سیاست میں کردار کا مطالبہ نہ تو آئینی طور پر جائز ہے اور نہ ہی جمہوری اور
اخلاقی اقدار اس کی اجازت دیتے ہیں ۔ بلکہ وہ خود عسکری ادارے کے
سربراہ کی اپوزیشن سے ملاقاتوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔</span><span style="color: #222222; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-bidi-font-family: Calibri; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-hansi-font-family: Calibri;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب لگتا یوں ہے کہ پچھلے ایک ڈیڑھ سال اور
خاص کر 9مئی کے بعد کے سیاسی حالات کے پیش نظر پاکستان کے مقتدر حلقوں نے یہ ارادہ
کر لیا ہے کہ جب تک ملک کی معیشت سنبھل نہیں جاتی اور پاکستان ترقی کے سفر پرمستقل
گامزن نہیں ہوجاتا یا کوئی پائیدار حل نہیں مل جاتا غیر سنجیدہ اور غیرجمہوری
سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور اس سے ابھرنے والا تاثر پھر سے ایک
ہائبرڈ جمہوریت کے خدوخال پیش کر رہا ہے جس کا وزیراعظم شہباز شریف سے
صحافیوں کی طرف سے سوال بھی کیا گیا جس پر انہوں نے مبینہ طور پرکہا کہ اگر ایسا
تاثر ابھرتا بھی ہے تو وہ یہ سب کچھ ملک کی بہتری کے لئے کر رہے ہیں۔ پھر حکومت
میں موجود سیاسی جماعتوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انہوں نے پاکستانی معیشت کو بہتر
کرنے کے لئے سخت فیصلے کئے ہیں جن سے وجود پانے والی مہنگائی اور عوام کو درپیش
مشکلات نے ان کی ساکھ کو بھی متاثر کیا ہےاور ان کے ساتھ رکھے گئے غیر
مساویانہ رویوں اورتحریک انصاف کو مہیا کی گئی سہولت کاریوں سے وجود پانے والی
صورتحال کے ذمہ داران کوہی اپنے کئے کو سنبھالنا ہوگا۔</span><span style="color: #222222; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-bidi-font-family: Calibri; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-hansi-font-family: Calibri;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سیاسی جماعتیں 2018 کے انتخابات کےحقیقی
نتائج کے تناسب والے مینڈٹ کا مطالبہ کر رہی ہیں ۔ اگر انہوں نے سخت فیصلے
کرکے اپنی ساکھ کو داؤ پر لگایا ہے تو اس کی وجہ 2018 کے انتخابات کی دھاندلی تھی
جس کا وہ صلہ ڈیمانڈ کر رہے ہیں ۔جس کا حل وہ قوانین میں ترامیم
کے زریعے سے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہے مگر اس سے مستقبل میں جمہوری حلقوں
کو مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ عہدے اور سوچیں بدلنے سے حالات بھی
بدل جاتے ہیں اور پھر پچھتاوے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایسی ایسی قانونی
ترامیم کی جارہی ہیں جو بنیادی انسانی حقوق سے بھی متصادم ہیں جن کی موجودہ
حکومت کو قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے۔</span><span style="color: #222222; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-bidi-font-family: Calibri; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-hansi-font-family: Calibri;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">"ووٹ کو عزت دو" کا نظریہ بھی بدلا
بدلا لگ رہا ہے بلکہ اس کی جگہ اب"طاقت کو عزت دو" کا عملی ماحول بنانے
کی کوشش ہورہی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ گویا مبینہ سول مارشل لاء کا کا تاثر ختم
کرنے کے لئے لاء کو مارشل کیاجارہا ہےتاکہ قانون پرعملدرآمد کے لئے عسکری
طاقت میسر ہوکیونکہ جب عدالتوں تک "قانون کی طاقت "کی بجائے "طاقت
کے قانون" کی اشیر باد کو باعث شرف سمجھا جاتا ہے تو پھر قانون کو بھی
اسی طاقت سے ہم آہنگ کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔ اس پر مریم نوازاپنی خاموشی سے شائد
حکومت کے موجودہ انسانی حقوق اور آزادی صحافت سے متصادم قانونی اصلاحات کے گناہوں
سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھنے کا جواز پیدا کر رہی ہوں مگر انکی آج کی خاموشی
سے کل لا تعلقی کا دعویٰ کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اسی طرح حکومت میں
موجود سیاستدانوں کو بھی اگرکل انہی قوانیں کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو پھریہ
مکافات عمل ہی ہوگا۔</span><span style="color: #222222; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-bidi-font-family: Calibri; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-hansi-font-family: Calibri;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">مانا کہ اب پاکستان کے پاس زیادہ
وقت نہیں کہ وہ عالمی سطح پر اپنی ساکھ اور اعتماد کو بحال کرنے اور معاشی طور پر
مستحکم ہونے کے حاصل شدہ مواقعوں کو ضائع کرے۔ جس کے لئے ضروری ہے کہ جس نے بھی
سیاست کرنی ہے وہ آئینی، اصولی اور جمہوری اقدار کے حدود کے اندر رہ کر ملکی
مجبوریوں کے پیش نظر اپنی سرگرمیوں کو حالات کی مطابقت میں رکھے ۔ یہاں تک کی سوچ
تو جائز ہےاور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسوقت ریاست کے لئے معیشت
جمہوریت سے بھی زیادہ اہم ہے مگر اس کی بہتری کا راستہ بھی جمہوریت کی
پگڈنڈیوں سے ہی گزرتا ہوا تلاش کرنا ہوگا۔ جمہوریت کو ریگولرائز کرنے کی سوچ تو
قابل برداشت ہوسکتی ہے مگر اس کو پابند سلاسل کرنے کی سوچ مزید سیاسی گھٹن پیدا
کرے گی۔</span><span style="color: #222222; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-bidi-font-family: Calibri; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-hansi-font-family: Calibri;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اگر ہم پائیدارامن، ترقی اور خوشحالی چاہیتے
ہیں تو پھر جمہوریت کو مضبوط کرنا ہوگا اور اس کے لئے طاقت کے ایوانوں کو با
اختیار بنانے کی بجائےپارلیمان اور الیکشن کمیشن کو مضبوط اور بااختیار بنانا ہوگا
اور اس کی سربراہی کسی عوامی بالادستی پر یقین رکھنے والی سیاسی شخصیت کے حوالے
کرنا ہوگا اور اس طرح طاقت کے ایوانوں کو بھی محفوظ سوچ کے تحت رکھنے کے لئے وہاں
بھی اصلاحات لانا ہونگی جن سے ر یاست کے اداروں کی طاقت کو آئین کے تحت لا
کر اسے پارلیمان کے دست و بازو بنانا ہوگا۔ اختیارات اور ذمہ داریوں کی
شراکت اورجوابدہی کاکوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ جمہوریت کو اپنے قومی اقدار سے ہم
آہنگ تو بنایا جا سکتا ہے مگر اس کوانسانی حقوق کی پاسداری اورقانونی کی حکمرانی
سے جدا کرکے فائدےحاصل نہیں کیا جاسکتے </span><span style="color: #222222; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-bidi-font-family: Calibri; mso-fareast-font-family: "Times New Roman"; mso-hansi-font-family: Calibri;"><o:p></o:p></span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-59528506392692301682023-07-12T17:58:00.009-07:002023-07-12T18:07:09.968-07:00سولہ ستمبر کے بعد سپریم کورٹ کا نیا دور شروع ہوگا<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں عدلیہ آزاد اور
مضبوط ہوگی<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وہی ملک
ترقی کرتے ہیں جہاں انصاف یقینی ہو۔ انصاف ہی جمہوریت، قانون کی حکمرانی ،
انسانی حقوق کی پاسداری اور سیاسی استحکام کو یقینی بناتا ہے۔اور جب یہ تمام
شرائط پوری ہوجائیں توعوام کے اندر وہ اعتماد پیدا ہوتا ہے جس سے حق بات کہنے اور
سننے کا حوصلہ پیدا ہو ۔پھر عالمی سطح پر اعتماد بحال ہوکر بیرونی سرمایہ کاری کی
راہیں ہموار ہوجاتی ہیں اور حکومت نے شائد اسی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے
جسٹس فائز عیسیٰ کا بحثیت اگلے چیف جسٹس کا نوٹیفکیشن وقت سے پہلے جاری کر دیا ہے
تاکہ غیر یقینی صورتحال ختم ہو۔ ان کے چیف جسٹس بننے سے یقیناً حالات بہتر ہونگے
مگرمکمل غیر جانبدار ی اور شفافیت کے لئے عدالتی اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ جس میں
ججز کی تعیناتی کے عمل کو موثر بنانے کی انتہائی ضرورت ہے ۔ </span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">نامزد چیف جسٹس فائزعیسیٰ سولہ ستمبر کو اپنا
چارج سنبھالیں گے اور پاکستان میں بہتری کی ایک نوید کا آغاز ہوگا۔ اس بات کو میں
کسی مفروضے کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا بلکہ اس کے گواہ ان کے وہ فیصلے ہیں جن کی
بنیاد پر کوئی بھی اس ملک کا مقتدر حلقہ ماضی میں ان سے خوش نہیں رہا جس کی وجہ ان
کا غیر جانبدارانہ اور شفاف انصاف ہے جس کے ہم عادی نہیں ہیں ۔</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر پاکستان تحریک
انصاف، فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان ناراض ہوگئے تھے کیونکہ اس میں
انہوں نے واضح طور پر کہاتھا کہ آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آرسیاست میں دخل
اندازی بند کریں اور انہوں نے ذمہ داران کے خلاف ایکشن لینے کا بھی حکم دیا تھا جس
کی وجہ سے ان کو عہدے سے ہٹانے کی کوششیں تیز ترہوتی ہوئی دکھائی دیں اورکئی
مفاد پرست ججز کی لاٹریاں بھی نکلیں اور مستقبل کے بندوبست کے پیش نظر ججز کی تعیناتیوں
اور بھرتیوں کی منڈی لگی رہی جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں ۔</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">میمو گیٹ کے فیصلے پر پیپلزپارٹی ان سے ناراض
ہوئی ۔کوئٹہ بم دھماکے میں مسلم لیگ کی حکومت ان سے ناراض ہوئی تھی۔ اور ابھی ان
کو آڈیو لیک کمیشن کی سربراہی دینے پر سپریم کورٹ کے اندر پریشانی لاحق ہے
جس کو محض ایک پریکٹس کی بنیاد پر اپنی پریشانی کو سہارا دینے کے لئے قاضی
جسٹس فائز عیسیٰ کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اسی طرح قاضی فائز عیسیٰ کو وکلاء کی
ہڑتال پر سخت چڑ ہے کہ سائلین سے بھاری فیس لے کر جب وہ عدالت میں اپنی تاریخ پر
آئیں تو وکلاء کی طرف سے ان کے ساتھ پیشی پر اس لئے انکار کر دیا جائے کہ وہ
ہڑتال پر ہیں انتہائی ظالمانہ رویہ ہے ۔</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پارلیمان کی طرف سے ان کو دستور کی گولڈن جوبلی
پر بلایا گیا اور جس پر ان کو ان کے مخالفیں کی طرف سےتنقید کا نشانہ بھی
بنایاگیا۔ وہاں انہوں نے حکومت کو واضح طور پر یہ پیغام دے دیا تھا کہ اگر آپ کل
میرے فیصلوں سے کوئی بے جا نرمی یااصولی مزاحمت سے بچنے کی امید
وابسطہ رکھے ہوئے ہیں تو وہ ختم کردیں ۔ </span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پھر ان کوان سے مشورہ کئے بغیر فوجی
عدالتوں کے خلاف درخواستوں کو سننے والے بنچ میں شامل کرلیاگیا جو ان کی دلیری اور
بہادری کی ایک اور مثال بن گئی ۔ ان کو شامل کرنے کی وجہ ایک سلگتی ہوئی خواہش
تھی جس پر ان سے مہر ثبت کروانے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ فوجی عدالتوں بارے
ایک واضح موقف رکھتے ہیں ۔ لیکن ان کی آئین و قانون کی پاسداری کی مثال
نے سب کو بے نقاب کر دیا اور انہوں وہ ساری باتیں بھری عدالت کے سامنے رکھ
دیں جو چہ مگوئیوں میں کہی جارہی تھیں ۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے آج کل بنائے
جانے والے تمام بنچز پر اپنی عدالتی رائے کو واضح کردیا کہ ان کے نزدیک بنچز
قانونی طور پر جائز نہیں ہیں ۔اور پھر ان کے اس نوٹ کو سپریم کورٹ کے ویب سائیٹ سے
بھی ہٹا دیا گیا جس سے تمام نیتوں کی وضاحت قوم کو مل گئی کہ کس طرح سے
سپریم کورٹ کے اندر لوگ ان کی قانونی رائے سے خائف اور پریشان ہیں ۔</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">جس بندے نے خود کوئی پلاٹ نہیں لیا وہ
پلاٹوں کی بندر بانٹ اور ریاستی وسائل سے کھیلنےوالوں کے لئے کیسے قابل
برداشت ہوسکتے ہیں ۔ جنہوں نے حفاظ کرام کو بیس نمبروں سے اس لئے محروم کر دیا کہ
یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس سے اقلیتوں کے حقوق کی تلفی ہوتی ہے ۔</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">انکے خلاف معزولی کا ریفرنس بھی ان سے ظالمو کو
ممکنہ لاحق خطرات کے پیش نظر ہی تھا جو ان کی انصاف کے معاملے میں شفافیت سے خائف
تھے۔ جس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے خاندان کو رسوائی اور پریشانی کا
سامنا بھی کرنا پڑا مگر اللہ کی طرف سے ان کی بے گناہی کا فیصلہ بھی ہوا۔
انہوں نے ایک وقت پر استعفیٰ بھی دینے کا ارادہ کر لیا تھا مگر پھر اس کو صرف اور صرف
اس ملک اور عوام کی خدمت کی خاطر ترک کر دیا۔ اب اگر ان کوخدمت کا موقع مل رہا ہے
تو یقیناً وہ عوام کی مشکلات کو کم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے
اس ریفرنس میں ملوث لوگ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہے اور سب ایک دوسرے کو بے
نقاب کرتے رہے اور اپنی صفائی میں تسلیاں دینے کی کوشش کرتے رہے ۔ اس وقت کی ڈی جی
ایف آئی اے بشیر میمن کے بیانات بھی تاریخ کا حصہ ہیں جن میں وہ قصورواروں
کو بے نقاب کرتے رہے ۔</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"></span>27 اپریل 2021
کو میرا ایک کالم "مجاہد قاضی فائز عیسیٰ" کے عنوان سے چھپا تھا جس میں
نے ان کے اندر ان صلاحیتوں کا ذکر بھی کیا تھا جو ایک جج کے اندر ہونی چاہیں مثلاً
اس کو اس عہدے کی خواہش نہ ہو، وہ اہلیت اور قابلیت رکھتا ہو اور پھر انصاف
پر مبنی فیصلے بھی کرتا ہو۔ اسی کالم سے ایک پیرا ریفرنس کے طور
پر ملاحظہ فرمائیں۔<span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"> قلات کا شہزادہ، بین الاقوامی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل
جس کو گھٹی میں قضاء ملی اور جب ان کو قاضی کے عہدے کے لئے چنا گیا تو ایک اطلاع
کے مطابق انکی تین کروڑ ماہانہ آمدن تھی ۔ ان کے کھاتے میں کئی منفردات جاتے ہیں
ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کو براہ راست چیف جسٹس آف بلوچستان ہائی کورٹ لگایا
گیا جس کو بعد میں چیلنج بھی کیا گیا مگر وہ اس سے سرخ رو ہوئے اوروہ جن کو نہ تو
عزت کی کمی تھی اور نہ مال و دولت کی بلکہ ان کو لانے کا مقصد ہی پاکستان کی عدلیہ
کو ایک ایسا جج دینا تھا جس کی واقعی ضرورت تھی "</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آج ہماری وہ ضرورت صحیح معنوں میں پوری ہونے کی صورت دکھائی دے رہی
ہے ۔ </span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">جس کو جان کے خطرے کی
دھمکیاں بھی ملتی رہیں مگر وہ اپنی رہائش سے پیدل سپریم کورٹ واک کرتے پہنچ
جاتے ہیں ۔ جن کا خدا اور موت کے دن پر مصمم یقین ہے جن کے نزدیک خوشامد اور
تعلق انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ جس کے نزدیک آئین
و قانون اور اس کی پاسداری کا حلف ہی انصاف کا معیار ہو پھر اس
سے بہتری کی نوید کیوں نہ لگائی جائے ۔ دعا ہے کہ اللہ قاضی فائز عیسیٰ کا حامی و
ناصر ہو۔</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ بہتری کی امیدوں کے
لئے ماحول کی زرخیزی کے آثار موجود ہیں مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمان <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>فوائد حاصل کرنے کے لئے مثبت اور جائز اصلاحات
کے زریعے سے لاحق خطرات کا سد باب کر سکے۔</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ہم امید کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کا احترام بحال
کرنے کے ساتھ ساتھ عام شہری کا احترام بھی بحال کریں گے۔ نظام انصاف کے ماحول میں
لاء آف ٹارٹ پرعملدرآمد عدلیہ کی ترجیحات میں شامل ہوگا تاکہ اس ملک میں آئین و
قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جاسکے اور الزامات کی ثقافت اور سیاست کا
خاتمہ ہو۔ ریاست کے وسائل کی طاقت سے بنائے گئے قلعے ٹوٹیں گے اورسول بالادستی کو
فروغ ملےگا۔</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">مگر اس کے لئے سیاستدانوں کو بھی پارلیمان کو
مضبوط بنانا ہوگا اپنا خوف ختم کرکے احتساب کے عمل میں آزاد اور مضبوط عدلیہ کے
قیام کے لئے ان کا ساتھ دینے کی تیاری کرنی ہوگی۔ فیض آباد دھرنا کیس جیسے فیصلوں
پر عملدرآمد کے لئے حکمت عملی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ اس ملک کے ساتھ ہونے
والے کھلواڑکا حساب برابر کرکے اس باب کو ہمیشہ کے لئے بند کیا جاسکے۔</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس کے لئے سازگار ماحول 16 ستمبر کے بعد مہیا
ہونے والا ہے اور اس کی راہ میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی بظاہر کوئی رکاوٹ
دیکھنے میں نہیں آرہی مگر اس کا حوصلہ بہر صورت پارلیمان کی ذمہ داری ہے جسے پورا
کرنا ہوگا۔اداروں پر محض تنقید ہی نہیں کرنی ہوتی بلکہ ان کو مضبوط بنانے کے لئے
اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں تب ہی آئین کی بالادستی کے ثمرات حاصل ہوتے
ہیں ۔آئین کے اندر چیک اینڈ بیلنس سسٹم کو مکمل طور پر فعال اور موثر بنانے کے لئے
اصلاحات لانے کا ماحول بھی سازگار اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نظام
کو بہتر بنانے کا بہتریں موقعہ ہوگا۔مکمل اور آزاد عدلیہ کے لئے احتساب کے عمل کو
بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے جس کا آغاز بھی نظام عدل سے ہی ہونا چاہیے ۔ جسٹس
فائز عیسیٰ ججوں کی تعیناتی اور بنچز کی تشکیل وغیرہ بارے اپنی سوچ کا اظہار متعدد
بار کر چکے ہیں اور وہ یقیناً اس کے لئے کوشش بھی کریں گے مگر
پارلیمان کو بھی اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ضرورت ہے ۔</span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سپریم کورٹ کے اندر کی تقسیم محض
چیف جسٹس کے بدل جانے سے ختم نہیں ہوجائے گی۔ اس تقسیم کی بنیاد وہ بندوبست ہے جس
کو دہائیوں پر مشتمل اقتدار کے خواب کے پیش نظر عمل میں لایا گیا۔ عدلیہ کے ساتھ
اس اقتدار کو ہم آہنگ بنائے رکھنے کے لئے ہم خیال ججز کو بھرتی بھی کیا گیا اور
اعلیٰ عدلیہ میں تعینات بھی کیاگیا جس کے مبینہ شواہد بھی گردش کر رہے ہیں اور ان
کی سب سے بڑی وجہ ان تعنیاتیوں میں سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی ہے جس نے ان تمام
خدشات کو جنم دیا۔ اب ان مبینہ شواہد کی بنیاد پر عدالتوں کی غیر جانبداری اور
شفافیت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی بھی ضروری ہے تاکہ عدالتوں پر عوام کا
اعتماد بحال کرکے ادارے کی ساکھ کو بچایاجاسکے۔جس کے لئے قاضی فائز عیسیٰ پر ایک
بھاری ذمہ داری ہے جس کے لئے سپریم کورٹ کے ججز اورحکومت کو بھی ساتھ دینا
چاہیے تاکہ ملک میں آئین و قانون کی پاسدار کو یقینی بنایا جاسکے۔
تمام وہ فیصلے جو عدلیہ کی بدنامی کا سبب بنے ان کی تلافی بھی ضروری
ہے۔ </span><span style="color: black; font-size: 13.5pt;"><o:p></o:p></span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-49565686036064649162023-06-24T21:16:00.002-07:002023-06-24T21:29:37.453-07:00قوم حکمرانوں سے شاہی محلات خالی کرنے کا مطالبہ کرتی ہے ۔<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">جس ملکی کی دو تہائی آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہو ۔ ملک بدحال معاشی صورتحال کا شکار ہو ۔ لوگ بھوک سے مر رہے ہوں تو اس ملک کے حکمران ، سربراہ یا مقتدر طاقتیں عالی شان محلوں میں نہیں رہتے ۔ مساوات ، محبت اور بھائی چارے کا تقاضہ یہ ہے کہ سب کا طرز زندگی ایک جیسا ہو ۔ سب کو ریاست کے وسائل تک برابر رسائی حاصل ہو جس کی بنیاد ضروریات ہوں ، بحثیت شہری برابری کے حقوق ان کی بنیاد کا پیمانہ ہوں ۔<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">جب انسان کو آسودگی حاصل ہوتی ہے اور اس کا رہن سہن شاہانہ ہوتا ہے تو اس کو دوسروں کی پریشانیوں کا احساس نہیں ہوتا ۔ جن کی بجلی کبھی جھمکی بھی نہ ہو ان کو ملک کے دور دراز علاقوں میں لوڈ شیڈنگ سے پریشان حال لوگوں کی تکلیفوں کا کیا اندازہ ہو۔جن کے پاس موجود شاہانہ زندگی کے وسائل ریاست کے خزانے سے موجود ہوں خواہ وہ بھاری بھرکم سودی قرضوں سے ہی حاصل ہورہے ہوں ان کو کیا احساس کہ لوگ کس طرح گزر بسر کررہے ہیں یادو وقت کی روٹی کو بھی ترس رہے ہیں ۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے مسئلہ غربت ، مہنگائی اور بیروزگاری کا سبب عوام نہیں بلکہ اس کا سبب اس ملک کے وسائل کے بلبوتے پر آسودہ حال لوگوں کے اعمال اور کارنامے ہیں ۔ جنہوں نے اپنے مفادات کے حصول کی کوشش میں بائیس کروڑ عوام کے مستقبل کو آج کی اس تاریک صورتحال میں دھکیلا ۔ ان کو یہ احسان نہیں ہوا کہ وہ اپنی تجوریاں تو بھر رہے ہیں مگر غریب عوام جن کی جیب سے ان کو آسودگی میسر تھی ان کا کیا بنے گا ۔ وہ عوام کو دوسرے درجے کا شہری سمجھتے رہے اور خود کو اس ملک کے تمام وسائل کا مالک سمجھتے رہے ۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ حکمرانوں اور بشمول تمام سرکاری خزانے سے مستفید ہونے والے محکموں کو شاہی محلات سے باہر نکال کر ایک عام شہری کی طرز زندگی پر رہن سہن میں لایا جائے تاکہ ان کو احساس ہو کہ اس ملک کے غریب عوام کس کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اور تب ان سے یہ امید وابسطہ کی جاسکتی ہے کہ وہ اس ملک کی تقدیر بدلنے کا کچھ کریں گے وگرنہ محض خالی دعووں اور دلاسوں نے تو ستر سالوں سے اس ملک کا یہ حال کردیا ہے۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب بھی ان کے عمل سے کوئی بہتری کا نشان نظر نہیں آتا۔ ابھی پچھلے ہفتے ہی سینٹ کے چئیرمین ، وائس چیئرمین اور کمیٹیوں کے سربراہان کی مراعات بارے قانون بنانے کی کوشش کی گئی ہے جس سے ان کی نیتوں کو خوب بھانپا جاسکتا ہے۔ ان کو تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کو باہر کہیں سے قرض نہیں مل رہا ۔ اب یہ صورت حال ہوچکی ہے کہ ان کو کوئی سود پر قرضہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں ۔ وگرنہ یہ کفائت شعاری کےتو محض کھوکھلے نعرے لگا رہے ہیں عملی طور پر سب صفر ہے۔ </span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ان کو رضاکارانہ طور پر تمام سہولتیں اور مراعات ختم کردینی چاہیں اور اجلاس بھی قناتوں اور سائبانوں کے نیچے ہونے چاہیں۔ تمام سیکیورٹی اور پروٹوکول ختم کردینا چاہیے ۔ جان ، مال ، عزت سب کی برابر ہے ۔ اگر کسی کو اپنی جان اتنی ہی پیاری ہے تو کوئی مجبوری نہیں وہ اپنے گھر میں بیٹھے اور اپنے وسائل پر اپنی حفاظت کا بندوبست کرے۔ عوام کو ان کا درد محسوس کرنے والے ان کی حالت زار کو سمجھنے والے عوامی نمائندے چاہیں ۔جو باقی سرکاری محکوں کے لئے سادگی اور مساوات کی مثال قائم کرکے ان کے لئے ترغیب کا سبب بنیں اور ان کو برابری کے پیمانے پر وسائل سے مستفید ہونے کے لئے مجبور کرنے کا اخلاقی اور قانونی جواز بھی رکھتے ہوں ۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">وگرنہ محض نعرے تو کئی مہینوں سے پارلیمان کی عالی شان عمارت میں لگ رہے ہیں لیکن وہاں سے کوئی سادگی اور برابری کی مثال دیکھنے کو نہیں مل رہی ۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">قوموں کے مسائل باتوں سے حل نہیں ہوتے عمل سے ہوتے ہیں ، محنت سے ہوتے ہیں ۔ تعجب ہوتا ہے جب حکومت میں موجود قومی اسمبلی کے ممبران یا وزراء بڑے بڑے جلسوں میں بہت ہی اچھی باتیں کرتے ہیں ۔ کہ ایسا ہونا چاہیے ۔ یوں ہونا چاہیے ۔ ان سے کوئی یہ پوچھے کہ ملک و قوم کے اختیارات تمھارے پاس ہیں وسائل تمھارے حکم کے تابع ہیں تو پھر یہ انتظام و انتصرام کس نے کرنا ہے۔ </span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اگر عمل کرنے والا کوئی ہو تو ایک دن کےانتظام سے ہم سورج کی حدت سے سولر سسٹم کے زریعے اپنی دن بھر کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں اوررات کو مارکیٹوں کو بند کرکے تقریباًپانچ ہزار میگا واٹ کے سرپلس پر جاسکتے ہیں۔ مگر ہمارے حکمرانوں ترجیحات اگر عوام کی خدمت بنیں تو۔ <span style="outline: none !important;"><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">یہ ایک توانائی کے متعلق مثال ہے ۔<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آج دنیا میں جو نظام حکومت میں محکموں کا ماڈل ہے اس کا آغاز حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شروع کیا اور ان کا ایک مشہور واقعہ ہے۔ آپؓ کے غلام نے بازار سے گھی کا کنستر اور دودھ کا مشکیزہ آپؓ کے لیے 40 درہم میں خرید لیا۔ بعد ازاں غلام نے آپؓ کو یہ بتایا کہ آپؓ کا کیا ہوا عہد پورا ہو گیا اور وہ آپؓ کے لیے بازار سے گھی اور دودھ کا کنستر خرید لایا ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">فتصدق بهما، فانی اکره ان آکل اسرافا،کيف يعنينی شان الرعية اذا لم يمسسنی ما مسهم۔ (المنتظم، 4: 250</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ترجمہ: ‘تم ان دونوں چیزوں کو خیرات کر دو کیونکہ مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ میں اسراف کے ساتھ کھاؤں، مجھے رعایا کا حال کیسے معلوم ہو گا اگر مجھے وہ تکلیف نہ پہنچے جو تکلیف انہیں پہنچ رہی ہے۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پاکستان کا اصل نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اس کا نام اور اس کا آئین جو قرآن و سنت کے قوانین کو اس ملک کے نظام کا اساس مانتا ہے اور اس پر عمل کو یقینی بنانے کی ضمانت دیتا ہے وہ یہ تقاضہ کر رہا ہے کہ مساوات کو رائج کرنے کے علاوہ کوئی بھی پیمانہ اب قابل عمل نہیں رہا اور نہ ہی اس کے علاوہ موجودہ مشکلات کا کوئی حل تلاش کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کوئی اس سے ہٹ کر کسی درجے کو رائج رکھنے کے جواز کا حق رکھتا ہے ۔ </span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-91673672294336226862023-06-18T18:47:00.004-07:002023-06-18T18:50:35.441-07:00حکومت کی کفائت شعاری کا راز بے نقاب ہوگیا۔<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><br /></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ملک ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے اور ہمارے حکمرانوں کو اپنے
مفادات اور مراعات کی فکر لگی ہوئی ہے۔باتیں کفائت شعاری کی کرتے ہیں اور عمل
شاہانہ ہے۔ کفائت شعاری پر جو کمیٹی بنائی تھی وہ اب سوئی پڑی ہے اور اس کی
سفارشات بھی شائد ردی کی ٹوکری کے سپرد ہوگئی ہیں۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سیلریز اینڈ پریویلیج آف سینٹ ایکٹ 2023 کے نام سے ایک ایکٹ
پاس ہوا ہے ۔ یہ ایکٹ نو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کوپیش کرنے والے یوسف رضا گیلانی ،
فاروق ایچ نائیک، عطاء الرحمان، ڈاکٹر شہزاد، اعظم نزیر تارڑ، فوزیہ ارشد، رضا
ربانی، عبدالغفور حیدری <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وغیر جیسے معززین
شامل ہیں۔ یہ مراعات موجودہ اور سابق چیئرمین سینٹ کے لئے ہیں ۔اور سب سے زیادہ
عجیب بات یہ ہے کہ اس میں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تمام جماعتیں
مشتمل اور متفق ہیں۔ اس کے چند چیدہ چیدہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نکات درج ذیل ہیں۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">بارہ ملازم ، آٹھ گارڈز، وی وی پی آئی سیکیورٹی اس کے علاوہ
جہاں بھی وہ جائیں گےان وفاقی یا صوبائی حکومت سیکیورٹی دینے کی پابند ہوگی، اپنے
اور اپنی فیملی کے سفر کے لئے جہازبھی مانگ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سینٹ کی فنانس
کمیٹی، جو چئیرمیں سینٹ خود بناتا ہے ، جو بھی فیصلہ کرے گی وہ مراعات دی جاسکتی
ہیں۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اسی ایکٹ کی دفعہ 21 ان کی رہائش پر 6 مستقل سیکیورٹی گارڈز
اور 4 حکومت کی طرف سے اور اس کے علاوہ پولیس کی طرف سے بھی سیکیورٹی مہیا کی جائے
گی ۔ اسی طرح سیکشن 16 کی رو سے فنانس کمیٹی بارہ تک پرسنل سٹاف<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مستقل بنیادوں پر یا کنٹریکٹ کی بنیاد پر دے
سکتی ہے۔پھر سیکشن 20 فنانس کمیٹی کو ان مراعات کو بڑھانے کا اختیار بھی دیتا ہے ۔
سالانہ آٹھ لاکھ تک اس کی حد رکھی گئی ہے مگر کمیٹی اس کو ضرورت کے مطابق بڑھانے
کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ اس کے علاوہ سرکاری یا پرائیویٹ ہسپتال سے علاج <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یا وہ گھر پر سہولت چاہتے ہوں تو اس کے لئے
حکومت اخراجات برداشت کرے گی۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سفر کے لئے وہ اگر چاہیں تو حکومت کے اخراجات پر حکومتی یا
پرائیویٹ جہاز بھی وہ لے سکتے ہیں اور ان کا پروٹوکول ریاست کے ڈپٹی ہیڈ کا ہوگا۔
اور <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وہ ایک سے چار ممبران تک ساتھ لے کر
جاسکتے ہیں ۔ اسی طرح اگر سرکاری گھر میں رہیں تو ٹیلی فون اور گاڑیاں مفت ہونگی
اوراگر اپنے گھر میں رہیں گے تو ڈھائی تین لاکھ تک کرایہ بھی ملے گا۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس سے پہلے پارلیمان نے اپنی توہین کے لئے قانون منظور
کروایا تھا تاکہ کوئی ان پر بات نہ کر سکے۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>شائد ان کو عدلیہ کی عزت دیکھ کر رشک آیا ہو۔ظلم
کی انتہا ہورہی ہے ۔ لیکن حکمرانو یاد رکھو یہ تمھاری<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>قانون سازیاں تمھاری ذہنی استعداد کی خمازی کر
رہی ہیں اور تمھارے تمام تر دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ۔ اور اگر آپ لوگوں نے
اپنی ان غلطیوں کو نہ روکا تو یہ تمھاری اس بادشاہت کو بھی بہا کر لے جائیں گی ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">قانون سازی کا معیار دیکھئے کہ قانون بنانے والے اپنے
مفادات کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں ۔ پھر باتیں کرتے ہیں عدلیہ کی مراعات کی ۔ تو سن
لو اس کے بھی آپ ہی ذمہ دار ہیں ۔ آپکو عوام کی نمائندگی کے لئے حکومت کا قلمدان
دیا گیا ہے اور اگر آپ عوام کے مفادات کے لئے کام نہیں کرسکتے تو کسی کو بھی حکومت
میں رہنےکا کوئی اختیار نہیں ۔ عوام کو مجبور نہ کرو کہ وہ تمھاری بادشاہت کو نوچ
ڈالیں اور تمھارے یہ حفاظتی اقدامات دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ اگر عوام کا احساس
نہیں تو اس کائنات کے خالق کے غضب سے ڈرو جس کی کائنات سے نکلنا مشکل ہے ۔ کوئی اس
کے ساتھ بغاوت نہیں کرسکتا۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور جو یہاں سے سب کچھ لوٹ کر باہر لے کر جارہے ہیں وہ یہ
مت بھولیں کہ ان کو ان کا یہ مال و دولت کہیں بھی فائدہ نہیں دے سکے گا اور اس کی
دنیا میں کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے بھی اپنی ریاستوں سے لوٹ کر دوسری ریاستوں
میں جمع کیا ان کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سب کچھ سے ہاتھ دھونا
پڑے اور نہ ان کی عزت رہی اور نہ ہی ان کا مال کام آیا۔ ان کی نسلیں آج بھیک
مانگنے پر مجبور ہیں اور بھوک ہڑتالیں کر رہی ہیں ۔ آپ سب سمجھتے ہیں میں کسی
کانام لے کر رسوائی نہیں کرنا چاہتا اور یاد رکھو کہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جہاں تم پنا ہ لیتے ہو وہ بھی جانتے ہیں کہ جو
اپنے ملک اور عوام کے لئے مخلص نہیں وہ ان کے لئے بھی کبھی مخلص نہیں ہوسکتے ۔
ساری دنیا بے وقوف نہیں ہے اور یہ فطرت کا اصول ہے اور یہی انتقام ہے کہ انسان سب
کچھ گنوا بھی بیٹھتا ہے اور اس کا حساب پھر بھی اسی کے ذمہ ہوتا ہے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">خدا را عوام کے پاس کوئی تو آپشن رہنے دیں کہ وہ آئینی
انقلاب کی راہ سے اکتاہٹ محسوس نہ کرنے لگیں اور <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جمہوریت اور سیاست کو ہی مسائل سے نکلنے کا
زریعہ سمجھے رہیں اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی راہ پر چل نکلیں۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">عوام کی نمائندگی اگر آپ کو ملی ہوئی ہے تو اس کو غنیمت
جانیں ایسا نہ ہو کہ یہ نمائندگی آپ کے ہاتھ سے نکل جائے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یا چھین لی جائے اور آپ ہاتھ ملتے رہ جائیں۔اور
اس کا تجربہ آپ میں سے تمام جماعتیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کر
چکی ہیں مگر شائد آپکو اس سے وہ سبق نہیں ملا جس کا آج کے حالات تقاضہ کر رہے ہیں
۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">موجودہ معاشی حالات میں ان لوگوں کی ایک اس حرکت<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نے صرف سیاستدانوں نہیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بلکہ جمہوریت<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>اور انصاف سے بھی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>عوام کا اعتماد
اٹھا دیا ہے اور یہ تمھاری سیاسی قبر کے لئے کافی ہوگا۔عوام کو کفائت شعاری کے درس
دئیے جارہے ہیں اور اپنا حال کیا ہے اس کا راز یہ ایکٹ کھول رہا ہے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">فضولیات اورعیاشیوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ کو بند
کر کے قوم کو ممکنہ ایک ہزار ارب کا تحفہ پیش کرتے ہوئے کفایت شعاری کا درس دیتے
تو شاید اس کا اثر بھی ہوتا مگر پر عیش ماحول میں بیٹھے ہوئے پالیسی سازوں کو کیا خبر
کہ عوام گزارہ کیسے کر رہے ہیں۔ ان کو تو صرف اپنی فضول خرچیوں اور عیاشیوں کے بند
ہونے کی فکر نے پریشان کیا ہوا ہے۔ عوام کو ملکی اخراجات کا حقیقی مختصر جائزہ ہی
پیش کر دیتے تو شاید تمہارے ضمیر کو ایک لمحے لے لئے ملامت کا سامنا ہو پاتا۔</span><o:p></o:p></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">انصاف اور مساوات کا آغاز سربراہان کے عمل سے
شروع ہوتا ہے نہ کہ ان کے کھوکھلے دعوؤں سے جن کا پرچار 75 سالوں سے اور خاص کر
پچھلے 5 سالوں سے ہو رہا ہے۔ جس قوم کے قسمت سازوں کو قیام پاکستان سے سفارش، رشوت
اور بدعنوانی کی گھٹی سے لے کر کمیشن کی لت کی عملی تربیت سے آراستہ کیا گیا ہو تو
پھر ان سے ایمانداری اور اصلاح کی امیدیں وابستہ کرنے سے بڑا بھونڈا پن نہیں ہو
سکتا۔</span><o:p></o:p></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس قانون کو اگر ختم نہ کیا گیا بلکہ میں سمجھتا
ہوں کہ اب عوام کے پاس وقت ہے کہ ماضی کی تمام نا انصافیوں پر آواز اٹھائیں کہ ریاستی
خزانے سے حاصل کردہ تنخواہیں،وضائف اور مراعات میں برابری کے علاوہ کوئی صورت قابل
قبول نہیں ۔ خواہ وہ جج ہو، جرنیل ہو ، پارلیمنٹیرین ہویا بیوروکریٹ سب کے لئے
برابر ہونا چاہیے۔ </span><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><span style="mso-spacerun: yes;"> </span></span><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-69929868309248504802023-06-13T06:03:00.005-07:002023-06-13T06:19:00.201-07:00 احتساب کہاں سے شروع ہونا چاہیے<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کسی بھی ریاست کے اندر احتساب کے بغیر حکومت سازی یا انصاف کے نظام کو شفاف اور غیر جانبدار نہیں بنایا جاسکتا بلکہ احتساب کا عمل خود بھی انصاف کا ہی ایک جز ہے ۔ احتساب کا عمل ہی مساوات کو یقینی بنا سکتا ہےجو جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی پہلی شرط ہے ۔ </span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">احتساب کا تعلق چونکہ انصاف کے عمل سے ہے اس لئے اگر نظام انصاف پرہی سوال اٹھ رہے ہوں اور ججز پر مبینہ الزامات کے انکشافات ہورہے ہوں تو پھر چاہیے تو یہ کہ احتساب کے عمل کا آغاز بھی نظام انصاف سے ہی شروع ہو۔ کیونکہ نظام انصاف ہی ریاستی معاملات کو آئین و قانون کے مطابق چلانے کی ضمانت دے سکتا ہے ۔ اگر کہیں بدعنوانی ہوتی ہے یا کسی کا حق مارا جاتا ہے تو اس کی دار رسی کا آخری سہارا عدالتیں ہی ہوتی ہیں ۔اور اگر عدالتیں خود ہی خطرات کا شکار ہوچکی ہوں تو پھر ریاست کے امن ، تحفظ اورترقی کی ضمانت کون دے گا۔ </span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ہمارے آئین میں نظام انصاف کو خود مختار حیثیت دی گئی ہے اور اس میں احتساب کےعمل کو بھی بہت ہی شفاف ،غیرجانبدارانہ اورخوددار طریقہ سے متعارف کروایا گیا ہے مگراس پرعمل درآمد تعطل کا شکار ہوچکا ہے جس کی وجوہات اختیارات کی اجارہ داری ہے جس نے غیر جانبداری، شفافیت اورانصاف کے اصولوں کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور صورتحال دن بدن انتہائی تشویش ناک ہوتی جارہی ہے ۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">حال ہی میں ججز کے خلاف متعدد درخواستین آچکی ہیں اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کاروائی کا باقاعدہ آغاز بھی ہوگیا ہے ۔ جس سے عوام میں ابھرتا ہوا یہ تاثر کم ہوگاکہ چیف جسٹس شائد اپنے ساتھی ججوں کے خلاف درخواستوں کو نظر انداز کرنے کی غرض سے اجلاس نہیں بلا رہے ۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ماضی میں اس طرح کے جو فیصلے ہوئے ان میں حیران کن روایات ہیں کہ اگر جج صاحب اپنی مرضی سے عہدے سے استعفیٰ دے دیں تو پھر ان کے خلاف کاروائی بھی غیر موثر ہوجاتی ہے ۔ تو گویا کاروائی ان کے عہدے کے ساتھ مشروط ہو کر رہ گئی ہے اگر تو وہ اس کا سامنا کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر کاروائی بھی آگے بڑھے گی اور اگر وہ اپنی ریٹائر منٹ کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر کاروائی غیر موثر ہوجائے گی اور ججز کو تمام فوائد اور مراعات کے ساتھ باعزت طور پر ریٹائرمنٹ مل جائے گی ۔ ججز کا عہدہ یقیناً قابل احترام ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیےلیکن اگر ان کے خلاف کوئی سنگین قسم کے الزامات آجاتے ہیں جو بادئ نظر میں صحیح لگ رہے ہوں تو پھر کاروائی کو ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ قطعاً بھی مشروط نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے ۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پاکستان کی تاریخ میں ایک دو ججز کے احتساب کی مثالیں ہیں جن میں سے ایک تو حال ہی میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا ہے جن کو ایک سچ بولنے کی پاداش میں سزا سنائی گئی جس میں ان کے ساتھ نواز شریف کے خلاف نیب کورٹس کے فیصلے بارے اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی مشورہ کرتے ہیں اور وہ اس کو عوامی طور پر فاش کردیتے ہیں ۔ جس کو جج کے کندکٹ کے خلاف کہا گیا۔ جس تندہی اور جلدی میں ان کو عہدے سے فارغ کیا گیا وہ بھی اپنے اندر ایک منفرد مثال رکھتی ہے ۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">نواز شریف کو سزا دینے والا فیصلہ بھی پاکستان کی تاریخ کا انتہائی شرمناک قسم کا فیصلہ ہے جس نے نہ صرف ہمارے نظام احتساب کو بلکہ احتساب کرنے والوں اور اس کی نگرانی پر مامور ججز کو بھی بے نقاب کر دیا ۔ ایک وزیر اعظم کو اس لئے نااہل کیا گیا کہ اس نے اپنے بیٹھے سے تنخواہ لینی تھی اور نہیں لی اس لئے ان کو نہ لینے والی تنخواہ کا انکم ٹیکس گوشوارے میں نہ بتانے کی وجہ سے نااہل کردیا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ اس کی تنخواہ بنتی تھی اس لئے اس کو ظاہر کرنی چاہیے تھی۔ کتنا ہی مضحکہ خیز فیصلہ ہے ۔ اوراس فیصلے کی سپریم کورٹ کے ججز نگرانی کرتے رہے ہیں ۔ فیصلہ کرنے والے احتساب کورٹ کے جج نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس کو بلیک میل کرکے اس سے فیصلہ کروایا گیا۔ اس مقدمے کا آغاز پانامہ لیکس پر ہواجس مین چارسو چھتیس لوگوں کی لسٹ تھی اورصرف نواز شریف کو سزا ہوئی وہ بھی پانامہ پر نہیں بلکہ آقامہ پراورباقی لوگوں کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا جس کی پچھلے ہفتے سات سال بعد سماعت شروع ہوئی ہے اور ججز کے ریمارکس دل کو دہلا دینے والے ہیں۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">احتساب کے ادارے تو ماضی میں بھی سیاسی انتقام کے الزامات کا نشانہ رہے ہیں مگراس معاملے میں جس طرح سے ہماری اعلیٰ عدلیہ پر مبینہ الزامات ہیں انتہائی قابل افسوس بات ہے ۔ اور یہی وہ حقائق ہیں جو احتساب کے عمل کا عدلیہ سے شروع ہونے کا تقاضہ کرتے ہیں کیونکہ ججز کے احتساب سےشفافیت اورغیرجانبداری کی توقعات مزید بڑھ جائیں گی۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پچھلے چند سالوں میں جس طرح سے احتساب کی ہولی کھیلی گئی اوراس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رنگوں کا چھڑکاؤ کرتے رہے ۔ جس پر دل چاہا لال رنگ چھڑک دیا اور جس پر دل چاہا سبز چھڑک دیا۔ اس کھیل سے انصاف کے عمل کو جس طرح سے سبوتاژ کر دیا گیا ہے اس کی صفائی کے لئے کئی سال لگیں گے ۔ اس دوران بےاصولیوں کے بوئے گئے بیج اب کونپلیں نکالنے لگے ہیں ۔جن کو اب اکھاڑنا بھی کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ ان کے خیر خواہ اکھاڑنے والوں سے زیادہ بھی اور بااختیار ہیں</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">حکومت احتساب کے عمل میں دلچسپی تو دکھا رہی ہے اور اس بارے مختلف قانونی ترامیم بھی کر رہے ہیں جن میں سےکچھ عدالتی پکڑ کا شکار بھی ہیں ۔عدالتوں کا کام آئین کی تشریح اور قانون کے بننے کے عمل پر اٹھنے والے اعتراضات اور تحفظات کو دیکھنا ہوتا ہے اوریہ سب کچھ یقیناً وہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کر رہے ہونگے ، لیکن جب وہ احتساب کے عمل کی شفافیت ، غیر جانبداری اور انصاف کے اصولوں سے مطابقت بارے اتنے محتاط ہیں تو پھر ان کو اپنی عدالت اورساتھی ججز کے اوپر اٹھنے والے الزامات بارے بھی محتاط ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظام انصاف اور ریاست کی عدالت عظمیٰ کی ساکھ کا معاملہ ہے ۔ حکومتیں جس طرح سے انتقامی احتساب کے عمل میں ملوث رہنے سے بدنام ہوچکی ہیں تو ایسے حالات میں آخر ی امید فقط اعلیٰ عدلیہ ہی ہوسکتی ہے مگر اس پر بھی عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے پہلے ان کی ساکھ کو بحال کرنا ہوگا ۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایک اور بات جو انتہائی پریشان کن ہے وہ حکومت یا اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی سوچ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی توہین ہے اگر انکے احتساب کی بات کی جائے ۔ حالانکہ احتساب سے تو کسی کو بھی کوئی استثنیٰ نہیں مل سکتا اور نہ ہی کسی کو استثنیٰ کی بات کرنی چاہیے مگر ہمارے ملک میں یہ مضحکہ خیز حرکت بھی بڑے فخر سے کی جاتی ہے بلکہ ایک فیشن بن چکا ہے۔جب خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق سے خطبہ جمعہ کے دوران ایک عام شہری یہ سوال کر سکتا ہے کہ بیت المال سے ملنے والے کپڑے سے ہماری قمیض نہیں بنی تو آپ کی کیسے بن گئی ؟ تو آج کا حکمران ، جرنیل، بیوروکریٹ یا جج عہدے اور رتبے کے لحاظ سے ان سے زیادہ بڑا تو نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے برا نہیں مانا اور اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کاجواب وہ دے گا۔ اور بیٹے نے کھڑے ہوکر گواہی دی کہ انہوں نے اپنے حصے کا کپڑا بھی حضرت عمر فاروق کو دیا تھا جس سے یہ قمیض بنی۔</span><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس مثال میں احتساب کے علاوہ برابری اور مساوات کی مثال بھی ملتی ہے کہ ہمارے اقتدار اور اختیارات کے ایوانوں میں خزانے سے اٹھائے جانے والے اخراجات میں بھی ایک عام شہری کی زندگی کی جھلک ہونی چاہیے ۔</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب وزیر اعظم صاحب نے ملک عرفان قادر کو احتساب کا مشیر مقرر کیا ہے جو ایک تجربہ کار وکیل ہیں ۔ وہ اٹارنی جنرل اور جج بھی رہ چکے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ احتساب کے عمل بارے اپنی سفارشات سے اصلاحات لانے میں مددگار ثابت ہونگے جن سے احتساب کے عمل کو تیز ، غیر جانبداراور شفاف بنایا جاسکے ۔ اسی طرح سپریم جوڈیشل کمیشن کو بھی فعال بنانے میں کوئی کردار ادا کریں گے تاکہ ججز کی ساکھ کو مزید بہتر بناکر نظام عدل کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جاسکے ۔</span></p><div><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 24.5333px; outline: none !important;"><br /></span></div>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-55149371197536480602023-06-10T16:53:00.015-07:002023-06-11T02:51:02.098-07:00کیا شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے؟
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">نو مئی کے سانحہ میں جو کچھ ہوا ، جس نے بھی کیا اس کو نہ
تو صحیح کہا جاسکتا ہے اورنہ ہی اس سانحہ کے ملزموں کو عدالتی کاروائی سے بچایا
جاسکتا ہے ۔ اس کی تحقیق سے تو کسی کو بھی انکار نہیں مگر اس کی تحقیق کون کرے اس
پر تحفظات اور اعتراضات ضرور موجود ہیں ۔ پہلے تو عمران خان اور ان کی جماعت کی
طرف سے جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ آتا رہا ہے مگر اب ایک لائرز کے فورم نے بھی
فوجی عدالتوں میں سویلین کے مقدمات چلانے کی مخالفت کر دی ہے ۔ اوراس طرح کی مبینہ
افواہیں گردش کررہی ہیں کہ یہ مطالبات اگر پورے نہ ہوئےتووکلاء کےتحفظات تحریک کی شکل بھی اختیار کر سکتے ہیں ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">میری ان لوگوں سے گزارش ہے کہ آئین و قانون اور اپنی حیثیت کو سیاست زدہ کرنے
کی کوشش نہ کریں ۔ قانون کی حکمرانی کو اپنی راہ لینے دیں اور جہاں آپ انسانی حقوق
کی خلاف ورزی دیکھتے ہیں اس کی نشاندہی ضرور کریں اور ان عدالتوں کے خلاف اپیل کا
حق بھی قانون میں موجود ہے ۔لیکن قانون کو<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>سمجھنے والوں کے مطالبات اور انداز میں بھی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آئین و قانون اورانصاف کے اصولوں کی جھلک نظر
آن چاہیے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بارے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جو بحث چل رہی ہے اس پر مختلف آراء سامنے آرہی
ہیں ۔ کل اس کے خلاف سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کر دی گئی ہے ۔ لیکن میرے
خیال میں تواس کو 184(3) کے تحت نہیں
سنا جاسکتا کیونکہ اس معاملے میں نہ تو کوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے
اور نہ ہی یہ مفاد عامہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا مسئلہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بنتا ہے۔ اس بارےپاکستان کا قانون واضح ہے۔ ہاں
اگر کاروائی کے دوران کسی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس پر ضرورعدالت سے رجوع کیا جاسکتا ہے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے تحت سویلین کا
فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیا جاسکتا ہے آرمی ایکٹ 1952 کی دفعات <o:p></o:p></span>
</p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">2015 میں کی گئی ترمیم کے مطابق اگر کوئی " پاکستان کے
خلاف ہتھیار اٹھائے، <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جنگ کرے یا حملہ کرے۔
پاکستان کی مسلح افواج یا قانون نافذ کرنے والے ادارے یا پاکستان میں کسی بھی سول
یا فوجی تنصیبات پر حملہ کرے" تو کسی بھی شہری کے خلاف وفاقی حکومت کی اجازت
سے مقدمہ چلایا جاسکتا ہے ۔وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت بھی فوج کو حکم
دے سکتی ہے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پہلے بھی ان عدالتوں کی مثال پاکستان میں موجود ہے ۔ دہشت
گردی کے خلاف بھی فوجی ۔ عدالتیں بنائی گئیں تھیں۔اور موجودہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سانحہ کسی طرح<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے بھی دہشت گردی سے کم نہیں۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">انسانی حقوق ہر انسان کے بنیادی حقوق ہیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جن کا تعلق انسان ہونے سے ہے اور دنیا کے تمام <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انسان کہیں بھی رہتے ہوں سب<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کے برابر حق دار ہیں ۔ اور ان حقوق کو
انسان سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا لیکن انسان کا شہری <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہونا اس کو اس ملک کے کسی خاص قانون سے استثنیٰ
نہیں دیتا۔ شہریت انسانی حقوق میں نہیں آتی۔ اگر کوئی شہری کسی قانون کی خلاف ورزی
کرے گا تو اس کواس<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہاں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انسانی حقوق ان کے خلاف کاروائی میں شفافیت،
غیر جانبدار ی اور موقف کو سنے جانے یا اپنی بے گناہی کے ثبوت دینے کے حق کو یقینی
بناتے ہیں ۔ لیکن اس میں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وہ یہ موقف نہیں
لے سکتا کہ وہ جرم تو کسی اور <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>علاقے میں
کرے اور کہے کہ اس کے خلاف مقدمہ اس کے اپنے علاقے میں چلایا جائے ۔ بلکہ جہاں وہ
جرم کرے گا اسی ملک ، علاقے یا قانون کے مطابق اس کے خلاف کاروائی ہوگی۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">تو میرے چند سوالات ہیں ان لوگوں سے جو سویلین کے مقدمات کوفوجی عدالتوں
میں چلانے کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ کیا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جہاں جرم ہوا ہے وہاں پر نافذ قانونی دائرہ
اختیار کو نہیں دیکھا جاناچاہیے ؟ کیا ان عدالتوں کی آئینی و قانونی حیثیت موجود
نہیں ؟ کیا اس طرح کی پہلے کوئی مثال موجود نہیں ؟ کیا ان فیصلوں کے خلاف
کوئی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>قانونی ریمیڈی موجود نہیں ؟ ان نقاط
کی روشنی میں اگر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کے پاس<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان پر اعتراض<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>کرنے کا جواز موجود ہے تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کو
حکومت کے سامنے رکھنا چاہیے یا اس کو عدالت میں چیلنج کریں مگر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش قطعاً بھی
نہیں ہونی چاہیے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ظاہراًتو اس معاملے میں کہیں بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی
نہیں پائی جاتی اور نہ ہی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کوئی قانونی
اعتراض ان عدالتوں پر اٹھایا جاسکتا ہے البتہ اس میں سیاسی خدشات ضرور موجود ہیں
جن کا حل بھی سیاسی معاملات سے ہی تلاش کیا جاسکتا ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جوپارلیمان میں قانونی اصلاحات ہیں ۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور جہاں تک تعلق ہے ہماری سول کورٹس کا تو
موجودہ حالات میں ان کی غیر جانبداری ، شفافیت اور انصاف کے اصولوں پر ان کاعمل خوب
عکاسی کررہا ہے۔ اس وقت اگر کوئی آئینی ادارہ سب سے زیادہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>متنازع نظر آرہا ہے تو وہ عدلیہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہے جس پر نہ صرف عوام ، <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پارلیمان <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بلکہ ادارے کے اندرسے سہولت کاریوں اور جانبداری
کی آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔ عدالتوں کے اندر زیر بحث مقدمات میں ججز پر مفادات کے
ٹکراؤ کے اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں مگر ججز ان کا کوئی اثر ہی نہیں لے رہے ۔ تو
ایسے حالات میں جب ان واقعات میں ملوث لوگوں کے ہماری عدلیہ کے اندر تعلقات کی
مبینہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہوں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اوران
کے فیصلوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پر خود حکومت ثبوتوں کے ساتھ عدالتی
کاروائیوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو چیلنج کر رہی ہوتو ایسے میں
کیا کوئی سول عدالتوں سے شفاف، غیر جانبدارانہ اور انصاف کے اصولوں پر مبنی انصاف
کی ضمانت دے سکتا ہے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">حکومت کے علاوہ جب وکلاء کی ایک بہت بڑی تعداد خود اس عدلیہ
کے نظام میں اصلاحات لانے کا دیرینہ مطالبہ کر رہی تھی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور جب اس پر قانون لایا گیا تو عدلیہ کے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انہی ختیارات جن پر وکلاء<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تحفظات رکھتے تھے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے بندوبست سے قانون کو ہی معطل کردیا ۔ اور
وکلاء خود اس پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ تو پھر کس طرح ایسے حالات میں وہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>معاملات جن کے بارے قوانیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کئی دہائیوں سے نافذالعمل ہوں ،کو قانون کی
خلاف ورزی کرتے ہوئے، چند افراد کی
خواہشات پر، سول عدالتوں کے حوالے کر دیا جائے ۔ اس کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز
بھی تو ہونا چاہیے۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کیا نو مئی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے
اردگرد د نوں میں جو عدلیہ یا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انتظامی
اداروں کے اندر بیٹھے لوگوں کے اعمال سے تاثرات ابھر رہے ہیں ان<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی موجودگی میں انصاف کی توقع وابسطہ کی جاسکتی
ہے۔ فوجی عدالتوں پر اعتراض اگر بجا ہے تو پھر کوئی متبادل یا مروجہ نظام بھی تو
ہو جس پر بھروسہ کیا جاسکے۔اور دوسری بات یہ ہے کہ اگر قانون یا حالات میں بہتری
لانی ہے تو وہ بھی تو آئینی حدود کے اندر رہ کر ہی لائی جاسکتی ہے ۔اگر موجودہ
آئین و قانون میں چھاؤنی کے اندر واقع ہونے والے جرائم میں ملوث<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سول ملزمان کو ٹرائل کرنے کا طریقہ کار موجود
ہے تو پھر اس کو محض خواہشات<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے تو شکست
نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی اس کی کوئی منطق ہے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پھر سوال یہ بھی بنتا ہے کہ ان کے اعتراضات کو اگر قانون سے
ہٹ کر بھی لیا جائے تو کیا اس پر عوام یا سیاسی جماعتیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>متفق ہیں کہ سول لوگوں کے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مقدمات سول کورٹس میں ہی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چلنے چاہیں ۔ کیا حکومت اور سیاسی جماعتیں سول
کورٹس کی کاروائیوں پر جانبداری اور سہولت کاری کا الزام نہیں لگا رہیں اور
عدالتیں اپنے عمل سے اس موقف کو تقویت نہیں بخش رہیں ۔ کیا عوام اور سیاستدان
عدالتوں کے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سامنے احتجاج نہیں کر رہے۔ کیا
لیک ہونے والی مبینہ آڈیوز اس بات کی تصدیق نہیں کر رہیں کہ یہ مبینہ الزامات ٹھیک
ہیں ۔ کیا ان آڈیو لیکس کے اندر فوج کے مارشل لاء لگانے کی خواہشات<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا اظہار نہیں کیا جارہا ۔ جس کی مطلب ہوا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کہ ان لوگوں کوبھی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اپنے سول اداروں سے زیادہ عسکری اداروں پر اعتماد
ہے ؟<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">انہی آڈیو لیکس پر حکومت نے عدالت عظمیٰ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور دو ہائیکورٹس کے ججز پر مشتمل<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انکوائری کمیشن بنایا ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس پر عدلیہ کے اندر سے عدم اعتماد اور کام کرنے
سے روکا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جارہا ہے ؟<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جب خود عدلیہ ہی اپنے ججز پر اعتماد کا تاثر
دینے سے قاصر ہے تو پھر اس طرح کے حساس قسم کے معاملات میں ان کو یہ ذمہ داری کیسے
دی جاسکتی ہے ۔کیا اس سے معاملات<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مزید
کشمکش کا شکار نہیں ہونگے؟<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آسان سا کام ہے اگر پاکستان کی عوام واقعی نہیں چاہتی کہ
چھاؤنیوں پر حملہ آور ہونے والوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں کاروائی ہو تو پھر
پارلیمان تو عوام<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہی کی نمائندہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہے ۔ بدل دیجئے اس قانون کو اور ختم کر دیجئے
اس قانون<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور فوجی عدالتوں کو۔ لیکن اس
طرح کے احتجاجوں اور تحریکوں کا کوئی جواز نہیں ۔ اور کیا جو وکلاء یہ کانفرنسز کر
رہے ہیں ان کو پاکستان کے تمام وکلاء کی تائید حاصل ہے ؟ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کیا جو لوگ نو مئی کو وہاں دھاوا بولنے کے لئے گئے اور قومی
املاک کو نقصان پہنچایا اور ہمارے شہدا کی یادگاروں کی بے حرمتی کی اس کا کوئی
آئینی و قانونی جواز تھا؟ کیا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کو سول
کورٹس میں مقدمات چلانے یا ان کے ساتھ نرمی برتنے کا عمل <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مستقبل کو ایسے سانحات سے محفوظ کرنے کا موجب
بنے گا یا ایسی سوچوں کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی کا موجب ۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کیا جو ان سانحات میں ملوث لوگ ہیں ان کے اپنے
خاندانوں کا تعلق فوج سے نہیں ۔ میرا ن سے سوال ہے کہ اگر ان کے اپنے وہ ریٹائرڈ
فوجی افسران<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آج حاضر سروس ہوتے اور ان کے
رشتہ داروں کی بجائے کوئی اور شہری اس سانحہ میں ملوث ہوتے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>توپھر <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کا کیا فیصلہ ہوتا ؟ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کیا ماضی میں جو نا انصافیاں ہوئیں وہ ساری فوجی کورٹس نے
ہی کی ہیں ۔ کیا ذوالفقار علی بھٹو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو
سزائے موت کسی فوجی عدالت نے دی تھی ۔کیا پچھلے کئی ہفتوں سے جو تحریک انصاف پر
مقدمات درج ہورہے ہیں وہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سول حکومتوں کے
زیر انتظام اداروں میں نہیں ہوئے ۔ کیا وہ سارے مقدمات سول کورٹس میں نہیں چل رہے
۔ کیا ان ساری کاروائیوں پر تمام ملزمان خوش ہیں ۔ کیا یہ فوجی عدالتیں کسی اور ملک
کی ہیں یا ان کو آئین پاکستان کا تحفظ حاصل نہیں ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">شائد کوئی بھی نہ چاہتا ہو کہ سول لوگوں کے فوجی عدالتوں
میں مقدمات چلیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ جب سویلیں ایسے اعمال کے مرتکب ہونگے تو پھر
ان کو کوئی کیسے وہاں سے گھسیٹ کر باہر نکال سکتا ہے جب وہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>خود دوڑ دوڑ کر چھاؤنیوں کی طرف بھاگیں ۔ جیسے
وہ کسی دشمن ملک کی فوج کو فتح کرنے جارہے ہوں ۔ اور اگر سول نظام انصاف فوری ،
شفاف اور غیر جانبداری کی تاریخ کا اثاثہ رکھتا ہوتا تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پھر ایسے مخصوس قوانیں بنائے ہی کیوں جاتے ۔
اگر ہمارے عوام کی اخلاقیات<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور ظرف اتنے
اعلیٰ ہوتے تو وہ اس قانون کو جاکرکیوں للکارتے ۔ اس پر کوئی بات نہیں کرتا اور
سہولتیں تلاش کرنے کے چکر میں ہر کوئی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>شیدائی
ہوئےجارہاہے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">معزرت کے ساتھ مجھے ان لوگوں کی باتوں اور انداز سے ابھرنے
والے تاثر سے یوں محسوس ہورہا ہے کہ یہ فوجی عدالتوں کی شفافیت ، غیر جانبدار ی اور
فوری انصاف سے خوفزدہ ہیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس کے یہ عادی
نہیں ہیں ۔اگر ان لوگوں پر دوہزار چودہ میں پی ٹی وی ، پولیس اور پارلیمان پر حملہ
کرنے کے جرائم میں سول عدالتوں سےسزا دی گئی ہوتی تو آج ان کے لئے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>فوجی عدالتوں کے خلاف آواز اٹھانے کی نوبت ہی نہ
آتی ۔ خدا را کوئی سنجیدہ اور ذمہ دارانہ رویے کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آئین و
قانون اور<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نظام انصاف اور دفاع کا مذاق نہ
بنائیں اور اپنے مفادات اور خواہشات کے خاطر ملکی امن و سلامتی کو داؤ پر لگانے کی
کوشش نہ کریں ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کسی کی خواہشات یا خاص <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ماحول کی نسبت سے قوانیں تو نہیں بدلے جاسکتے
اور نہ ہی آئین و قوانیں کسی خاص طبقہ کے لئےہوتے ہیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہیں ۔ لہذا اب اس فضول کی بحث میں پڑنے کی بجائے
اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ کسی گناہ گار کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہو اور
کسی بے گناہ کو کوئی سز انہ دی جائے ۔ جو جائز مطالبہ ہے ۔ ابھی فوجی عدالتوں میں
ٹرائل شروع ہی نہیں ہوا اور اس کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اگر کسی کو ناانصافی
کی کوئی معلومات ملتی ہیں تو پھر اس پر ضرور بات ہوسکتی ہے اور اس کو عدالت میں
چیلنج کرکے سول کوٹس کےشوق بھی پورے کئے جاسکتے ہیں ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="ER" style="font-size: 14pt; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-language: ER; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ہمیں سب کو اپنے
اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے اور جب ہم نے سب کو آزما لیا ہے تو ایک دفعہ
آئین پر عملداری اور قانون کی حکمرانی کو بھی یقینی بنا کر آزما لیں ۔ خواہ مخواہ
کے تماشے لگانا چھوڑ دیں اور آئین و قانون کو اپنی راہ لینے دیں ۔اگر یہ لوگ واقعی
فوجی عدالتوں کے خلاف کوئی قانونی جواز رکھتے ہیں تو پھر اس پر احتجاج کی بجائے
کسی ڈائیلاگ کا بندوبست کریں ۔ وکلاء اپنی برادری کی تائید حاصل کریں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>، ان کے قیام کے خلاف قانونی چارہ جوئی
کریں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>۔ پارلیمان کے اندر کوئی حل ڈھونڈنے
کی کوشش کریں ۔ عدلیہ کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کریں ۔مگر خدا را ملک کے امن کو
تباہ کرنے کی کوشش مت کریں ۔ سیاسی استحکام کو بحال ہونے دیں تاکہ ملک کی معیشت کو
سنبھالنے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی صورتحال پیدا ہوسکے ۔ <o:p></o:p></span></p><p></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-76208443426358795122023-06-08T19:36:00.006-07:002023-06-08T19:45:46.480-07:00وکلاء کواپنی ساکھ بچانے کے لئے مفاداتی سیاست سے لا تعلق ہونا ہوگا<p style="text-align: right;"><br /></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">وکلاء برادری<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>مفاداتی سیاست کا شکار ہوتی جارہی ہے ۔ جوان کو گروہ بندیوں میں ڈال کر ان
کی اجتماعی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہے ۔</span><b><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">وکلاء
کا مقام صف اول کی قیادت ہے ۔ ان کی سیاست اقبال اور قائد کے فرمودات کی روشنی میں
جمہوریت۔ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کا ایک نمونہ ہونی
چاہیے</span><b><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 18.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></b></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">وکلاء کو ہمیشہ یاد رکھناچاہیے ، ان کا منصب یہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تقاضہ کرتا ہے "کہ وہ اپنے پیشے کے وقار
اور اعلیٰ مقام کے ساتھ ساتھ اس کے ممبر کی حیثیت سے اپنے وقار اور بلند مقام کو
ہر وقت برقرار رکھے"۔ وکلاء کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان کا ملکی معاملات پر موقف
ان کی اکثریتی برادری کی تائید رکھتا ہو۔<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>اگر کوئی وکیل<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انفرادی طور پر یا
ایک گروہ کی شکل میں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی الحاق<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>رکھتا ہے تو اس کو ان کے پروگرام میں شرکت کے
وقت کبھی بھی وکلاء برادری<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے موقف کا
تاثر دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">بارز تو انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی
علامت سمجھی جاتی ہیں ۔ غیر جانبداری ، شفافیت اور انصاف کے اصولوں پر عملدرآمد
کروانے کی تاریخ ان کا ورثہ ہے ۔ بارز توانسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کو
فریڈم ایوارڈز دیتی ہیں ۔پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کی بحالی کا سہرا ان کے سر ہے
۔ ہر زمانے کے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آمروں کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر بات کرنا ان کی پہچان رہی ہے۔وکلاء کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی اصل
طاقت ان کی یکجہتی ، خودداری ، استقامت <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور آئین وقانون کی پاسداری ہے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس نے نظام انصاف کو ان کی ڈھال بنایا ہوا ہے ۔۔
بارایسوسی ایشنز اور کونسلز وکلاء کی نمائندہ ضرور ہیں مگر ان کے لئے بھی کوئی موقف
اپنانے سے پہلے برادری کی تائید حاصل کرنا ضروری ہے ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آج جو کچھ وکلاء<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کر
رہے ہیں اس سے پوری برادری بدنام ہورہی ہے ۔ کیا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>وکیل کا یہ معیار رہ گیا ہے کہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وہ
سیاستدان اور جج کے درمیان رابطے کے پل کے طور پر استعمال ہورہا ہو۔ سیاستدانوں کے
غلط کاموں کو تحفظ فراہم کرکے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سیاست
،جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی راہ کی رکاوٹ بن<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کربدنامی کا سبب بن رہا ہو <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">رابطوں یا تعلقات کا ہونا کوئی بری بات نہیں مگر ان کا
استعمال سیاست کے لئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس طرح سے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہونا جس سے وکلاء برادری کی اجتماعی پہچان اور
مفادات متاثر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ٹھیک نہیں ہے۔ جو وکلاء سیاست کرنا چاہتے
ہیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وہ ضرور کریں یہ انکا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بنیادی حق ہے مگر وہ اس کے لئے وکلاء برادری کے
نام کو استعمال نہ کریں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بلکہ وہ اپنے آپ
کو سیاسی جماعت کی ایک ونگ کے طور پر رجسٹرڈ کروایں اور جب بھی وہ کسی سیاسی مقصد
کے لئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہڑتال یا مظاہرے کا حصہ بنیں تو ان
کی سیاسی ونگ کا نام استعمال کیا جانا چاہیے نہ کہ وکلاء کی تنظیم کے طور پر۔ اس
سے ان وکلاء کی پہچان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جن کا کسی بھی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں
ہوتا بلکہ وہ ایک غیر جانبدار تنظیم اور سوچ کے حامی ہوتے ہیں ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس وقت صورتحال یہ بن چکی ہے کہ کسی بھی جماعت کا کوئی بھی
دھرنا ہو یا احتجاج اس میں وکلاء بھی پہنچے ہوتے ہیں اور یہ ظاہر کیا جارہا ہوتا
ہےکہ وکلاء اس مطالبے یا احتجاج کا حصہ ہیں ۔ اور ان وکلاء کے الحاق کے پیچھے انکے
نظریاتی مقاصد سے زیادہ ذاتی مقاصد ہوتے ہیں جن میں سرکاری عہدوں کا حصول ہوتا ہے۔
اب یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ جس<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سیاسی
جماعت کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے وہ آتےہی<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>سب سے پہلے تمام عدالتوں میں اٹارنیز، ایڈوکیٹ جنرلز اور پراسیکوشن<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے عہدوں پر تعینات افراد کو تبدیل کرکے اپنی
جماعت کی وکلاء ونگ کو ابلائج کرتے ہیں اور پھر وہ ان کی سیاسی کاز کے لئے کوشاں
ہوجاتے ہیں ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>الحاق ،ہمدردیاں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور تعلقات اپنی جگہ مگر ان کی بنیاد پر نظام
انصاف کو استعمال کرنے کی تو قطعاً اجازت نہیں ہونی چاہیے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس میں بار ایسوسی ایشنز کی بھی ذمہ داری بنتی ہے اور خاص
کر ان وکلاء کی جن کی کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی وابسطگی نہیں ہوتی وہ بارز
کی سیاست سے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سیاسی جماعتوں کے غالب اثرات
کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔ اور ایسے لوگوں کا انتخاب کریں جو وکلاء کے اجتماعی
مفادات<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور مسائل پر کام کو ترجیح دیں ۔
جو منتخب ہونے کے بعد کسی خاص جماعت یا گروہ کے مفادات کے لئے کام نہ کریں بلکہ
وکلاء برادری اور انصاف کا فروغ ان کی ترجیح ہو۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">بارز ایک ایسا ادارہ ہے جو وکلاء کی تربیت کا کام سر انجام
دیتا ہے ۔ ا ن بار ایسوسی ایشن کی قیادت کرنے والے بعد میں بڑے بڑے آئینی عہدوں پر
پہنچتے ہیں اور وہاں آئینی اور قانونی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں ۔ لہذا بارز کی
سیاست سے یہ تاثر ملنا چاہیے کہ وہاں کی قیادت سے ابھرنے والے افراد<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>غیر جانبدار، شفافیت، انسانی حقوق،
جمہوریت<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور قانون کی حکمرانی کا ایک عملی
نمونہ ہوتے ہیں ۔ تاکہ وکلاء کی برادری بارے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>معاشرے میں ایک مثبت تاثر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بنے اور
یہ کہا جائے کہ جہاں بھی انصاف کی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>فراہمی
مقصود ہو وہاں وکلاء میں سے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تعیناتیاں کی
جائیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چہ جائے کہ جس طرح آج اعتراض کیا
جارہا ہے کہ ججز چونکہ وکلاء میں سے آتے ہیں اور ان کی سیاست اور سیاسی جماعتوں کے
ساتھ الحاق ہوتے ہیں لہذا یہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان آئینی
عہدوں پر بیٹھ کر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انصاف کی فراہمی میں غیر
جانبداری اور شفافیت کو کیسے قائم رکھ سکتے ہیں ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">بلکہ آج کل ججز کی تعیناتیوں کے عمل کو نظام انصاف پر اٹھنے
والا سب سے اہم سوال سمجھا جا رہا ہے ۔ اور یہ کوششیں کی جارہی ہیں کہ اس طریقہ
کار کو بدلا جائے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">بارز ایسوسی ایشنز کو تو چاہیے کہ اس طرح کے لوگوں کا
انتخاب کریں جن کو ان آئینی عہدوں کی خواہش نہ ہو بلکہ وہ اپنی بارز کی قیادت کی
حیثیت کو ان آئینی عہدوں سے زیادہ معتبر سمجھتے ہوں اور ان کے اندر اپنی پوری
برادری کے اجتماعی مفادات اور انصاف کی فراہمی کے عمل میں غیر جانبداری ، شافیت
اور انصاف کے اصولوں کی پیروی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پہلی ترجیح
ہو۔ اور وہ یہ سمجھتے ہوں کہ وہ ایک ایسی برادری کی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نمائندگی کرتے ہیں جو اس معاشرے کے باشعور اور
آئین و قانون کو سمجھنے والا طبقہ سمجھے جاتے ہیں اور ان کے شعبہ کے لحاظ سے اس
ملک میں انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کوشش ان کا ایک<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پیشہ ورانہ ذمہ داری اور فرض ہے ۔ بلکہ وکلاء
بارز اور تنظیموں کے اندر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ریسرچ کی
کمیٹیاں ہونی چاہیں جو ہماری سیاست<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>،
معاشرت اور نظام انصاف<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں درپیش مسائل
کی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تحقیق پر کام کریں اور اس پر اپنی
اجتماعی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>قانونی آراء کی روشنی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں سفارشات مرتب کرکے اعلیٰ عدلیہ اور
پارلیمان کو بھیجیں ۔ جن کو ایک دانشمندانہ<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>رائے کے طور پر لیا جاتا ہو۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">جب بارز ایسوسی ایشنز کو معاشرے اور عدالتی نظام کے اندر اس
طرح کا مقام مل جائے گا تو میں نہیں سمجھتا کہ کوئی بھی ان کا منتخب نمائندہ کسی
جج ، اٹارنی یا ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے میں کوئی کشش<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>محسوس کرے گا۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">میری بار کونسلز اور وزیر قانون سےگزارش ہے کہ اصلاحات لائی
جائیں کیونکہ اپنی ذاتی خواہشات اور پسند نا پسند کی بنیاد پر پوری برادری کی
پہچان کو خراب کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا اور نہ ہی اس کی اجازت دی
جاسکتی ہے ۔ جو بھی یونیفارم پہن کر وکیل کے منصب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا
ہے اس کے خلاف ڈسپلنری ایکشن ہونا چاہیے ۔ یونیفارم صرف عدالت میں ایک لاء آفیسر
کے طور پر پیش ہونے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">وکلاء کی خدمات کو عدالتوں<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>کی بجائے وہاں پر پہنچائی جائیں جہاں پر تنازعات اور قانونی پیچیدگیا ں
پیدا ہوتی ہیں ۔وکلاء اپنے دائرہ پریکٹس کو عدالتوں کی بجائے نچلی سطح پر بھی رائج
کریں ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ججز کے رشتہ داروں ، دوستوں اور انکی لاء فرمز کے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>فیلوز کو<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>ججز کے سٹیشنز پر پریکٹس<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی حوصلہ
شکنی ہونی چاہیے ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">وکالت کو سیاست زدہ ہونے سے بچانا ہوگا۔ جرنیل سیاست زدہ
ہوا تو اس کی عزت گئی ، جج سیاست زدہ ہوا تو اس کا مقام بھی ختم ہوا اور اگر وکیل
بھی سیاست زدہ ہوگا تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اسے کا مقام بھی
ختم ہوجائے گا ۔ جب کوئی شعبہ ایک دفعہ عوام کی نظروں میں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اپنا مقام کھو جائے تو پھر اس کا معاشرتی اصلاح
کا کردار مفقود ہوجاتا ہے ۔ ہمیں ہر صورت اپنے اداروں کو سیاست زدہ یا سیاست گرد ہونے
سے بچانا ہوگا۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">مانا کہ وکیل آزاد ہیں مگر اتنے آزاد بھی نہیں کہ کالا کوٹ
پہن کر مجرموں کو ہار پہناتے پھریں۔ کالا کوٹ انصاف کی علامت ہے اور انصاف کبھی
بھی جانبدار، غیر شفاف اور اصولوں کے خلاف نہیں ہوسکتا ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;"><o:p> </o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16.0pt; line-height: 115%;"><o:p> </o:p></span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-6858221272402525662023-06-06T19:41:00.006-07:002023-06-06T21:13:02.230-07:00ہر کوئی بے نقاب ہو رہا ہے،یہی نظام فطرت ہے<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><br /></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><b>قدرت کا نظام انصاف<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>و انتقام بھی کیسا ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو ہی بے نقاب کرنا شروع کردیتا
ہے۔ ایک معقولہ تو ہر کسی نے سنا ہی ہوگا کہ انسان جب بھی کوئی کام فطری اصولوں کے
خلاف کرتا ہے تو اس کا ضمیر اس کو ملامت کرتا ہے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>جو ایک الارم ہوتا ہے کہ وہ اس کام سے باز رہے مگر جب وہ اس سے نہیں رکتا
تو پھر اس کے اپنے اندر ایک افسوس سا ضرور موجود رہتا ہے ۔جو ایک حد پر پہنچنے کے
بعد اس کے اندر سے اخراج چاہتا ہے ۔وہ خواہ اس کے اپنے اعتراف کی صورت ہو یا اس کے
کسی شریک جرم کی طرف سے۔ اور<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اگر دونوں
صورتوں کا سبب نہ بن سکے تو پھر نظام فطرت خود ہی اس کے رازوں کو فاش کرنا شروع
کردیتا ہے ۔ <o:p></o:p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><b>ہمارے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ہورہا ہے ۔پچھلے دس سالوں کی
سیاسی غلطیوں کی اب اخیر ہوچکی ہے اور اب یہ یکے بعد دیگرے افشا ہورہی ہیں ۔ بعض
کردار تو اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے خود ہی اعتراف کرنے لگے ہیں اور بعض
اپنے ساتھ دوسروں کو بھی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بے نقاب کررہے
ہیں اور بعض کے جرائم نظام فطرت کا نشانہ بن رہے ہیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور ان کے اعمال ان کو بے نقاب کرنے لگے ہیں ۔
مگر افسوس کہ بے نقاب ہونے اور ان جرائم کے ثبوت سامنے آجانے کے باوجود <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بھی ہر کوئی آنکھیں بند کرکے اپنے آپ کو تسلیاں
دینے کی کوشش کررہا ہے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کہ شائد لوگ اس کو
جھوٹ ہی سمجھ لیں ۔مگر وہ شائد نظام فطرت کے اگلے مرحلے سے ناواقف ہیں کہ ان<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>رازوں کے افشا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہونے کا مقصد ہی گناہوں اور
غلطیوں کا کفارہ ہوتا ہے ۔ انسان اور معاشرے پر ان کے بد اثرات کا خاتمہ ہوتا ہے ۔
یہ فطرت کا ایک احسان ہے کہ انسانی اور معاشرتی بیماری کی تشخیص <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>در اصل اس کے علاج کا تقاضہ کر رہی ہوتی ہے ۔ وہ
خواہ اس کی معافی تلافی سے ہو یا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جزا و
سزا سے ۔ <o:p></o:p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><b>لیکن جو انسان یا معاشرے اس کی تشخیص کے بعد بھی اس پر توجہ
نہیں دیتے تو وہ کسی بڑے نقصان سے دوچار ہوسکتے ہیں ۔ بیماری کے علاج<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی پہلی ذمہ داری انسان کے اپنے اوپر آتی ہے یا
جو اس کا علم رکھتے ہیں ۔ جس طرح معاشروں کی بیماریوں کا علاج<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انسانوں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی اجتماعی ذمہ داریوں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پر ہوتا ہے اسی طرح ریاستی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جرائم کا علاج عوام کی منتخب کردہ حکومت کے پاس
ہوتا ہے ۔ اور ایک ریاست اور اس کے شہریوں کی عزت، شہرت اور دولت کو پہنچنے والے
نقصان کی تلافی کی ذمہ داری اس ریاست کے ذمہ داروں پر ہوتی ہے کہ وہ اس جرم کو
معقول منطقی انجام تک پہنچائیں ۔جس سے ریاست کو پہنچنے والے نقصان کا بھی ازالہ ہو
جو عوام کا ایک اجتماعی نقصان ہوتا ہے اور افراد کے ذاتی نقصان کا بھی ازالہ اور
داد رسی ہوسکے۔ <o:p></o:p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><b>ریاست کے انتظامات کو سنبھالنا کوئی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کھیل یامشغلہ نہیں بلکہ عوام کی دی ہوئی ایک
ذمہ داری ہے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس کی جوابدہی بھی ہے ۔ اور
اپنی ذمہ داریوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں کوتاہی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یا شفافیت ، غیرجانبداری اور برابری کی بنیاد
پر سرانجام دینے سے ناکامی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی صورت میں
پھر وہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ذمہ داران بھی اسی طرح جرم کے
مرتکب ہورہے ہوتے ہیں جس طرح سے ان کے درپیش غلطیوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>، گناہوں یا جرائم کے مرتکب ۔ اپنے فرائض سے
کوتاہی کی صورت وہ بھی فطرت کے نظام کی پکڑ میں آسکتے ہیں اور پھر ان کی جوابدہی
اور احتساب کے لئے جب نظام<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>فطرت حرکت میں آتا ہے تو نئے ذمہ داران ان کی
جگہ لے چکے ہوتے ہیں ۔<o:p></o:p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><b>اب حکومت پر یہ ذمہ داریاں آن پڑی ہیں کہ وہ بے نقاب ہونے
والوں کا احتساب<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آئین و قانون کے دائرے
میں رہ کر شروع کریں اور اس کو شفافیت، غیر جانبداری اور برابری کی بنیاد پر قائم
نظام کے حوالے کردیں۔آگے جس جس کی جو ذمہ داری ہے وہ اپنے اختیارات کو قوم کی
امانت سمجھ کر ان کا صحیح استعمال کرتے ہوئے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>آگے بڑھاتا چلا جائے اور اپنے آپ کو نظام فطرت<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور نظام ریاست سے سرخرور کروانے کا انتظام کرے
۔ ہر انسان موجود وقت<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور اختیار کو اللہ
کا احسان سمجھے کہ ابھی یہ اس <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا فیصلہ اس
کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اعمال کا انصاف اپنے ہاتھ سے
کرلے اس سے پہلے کہ وقت اور اختیار اس کے ہاتھ سے نکل کر کسی اور کے ہاتھ میں چلا
جائے اور کوئی اوراس کے اعمال پر فیصلے کر رہا ہو ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><b>اسی طرح سے یہاں ہر کوئی بے نقاب ہوتا ہے ، فطرت کے نظام
انصاف ، انتقام ااور مکافات عمل کا سلسلہ چلتا رہتا ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اگر کوئی سمجھے تو۔<o:p></o:p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><b>کوئی جج ہو، جرنیل<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>ہو، بیوروکرٹ ہو یا سیاستدان سب کے پاس اسی ریاست کے مہیا کردہ اختیارات
اور وسائل ہیں جواس قوم کی امانت ہیں جن کا مقصد ریاست اور عوام کی فلاح و بہبود
ہے نہ کہ ذاتی مفادات کے لئے انکا استعمال ۔ اور کوئی بھی اگر ان کے استعمال میں
کوتاہی ،من مانی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یا ان کا غلط استعمال کرے
گاتو وہ اپنے آپ کو کبھی بھی بچا نہیں پائے گا۔ غور کریں تو ہمارے ارد گرد<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہماری آنکھوں کو دیکھنے اور ذہنوں کو سمجھنے کے
لئے مشاہدے موجود ہیں اور کوئی بھی آج سے سو سال پہلے والا موجود نہیں مگر اس کے
اعمال تاریخ کی امانت بن چکے ہیں ۔ اس کے دنیا کے اسباب پیچھے رہ گئے ہیں ۔اس نے
ان کو کس طرح اکٹھا کیا اس کا حساب وہ خود دے گا اور اس سے فائدہ اٹھانے والوں کی
زندگی بھی ہمارے سامنے ہے ۔ تاریخ کا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نظام
انصاف اپنے فیصلے سنا رہا ہے اور ہم سب کو اس سے سبق حاصل کرنے کی تلقین کر رہا ہے
۔ <o:p></o:p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><b>حکمران ، جج ، جرنیل ، بیوروکریٹ ، سیاستدان یا جس جس کے
پاس بھی جو ذمہ داری ہے ۔ یاد رکھیں کہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہم
کسی کو بھی اپنی ذات کی حد تک کے نقصان اور سرزد ہونے والی غلطی کو تومعاف کر سکتے
ہیں مگر ریاستی املاک کو پہنچے والے نقصان میں پوری قوم کا حصہ ہے اور کسی کو کوئی
اپنی مرضی ،اس کے ساتھ تعلق، اس کی حیثیت یا اس کے رتبے کے لحاظ سے کوئی رعائت
نہیں دے سکتا۔ اور جو کوئی اس نظام قدرت کے توازن میں بگاڑ کی کوشش کرتا ہے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تو اس کا نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔<o:p></o:p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><b>جب اللہ کے رسول ﷺکے پاس ایک لڑکی کے چوری کے جرم میں سزا
پر سفارش کی گئی تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر ان کی اپنی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ہوتیں تو
یہی سزا ملتی۔ اور وعید بھی سنائی کہ پہلے والی قومیں اسی لئے تباہ ہوئیں کہ انہوں
نے انصاف نہیں کیا۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"><b>حضرت عمر فاروق کا قول ہے کہ اللہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انسان کی عیبوں پر اس وقت تک پردہ ڈالتا ہے جب
تک وہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اخیر نہ کردے۔بالآخر وہ بے نقاب
ہونا شروع ہوجاتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ آج <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جو لوگ اپنی زندگی میں بے نقاب ہو رہے ہیں ان پر
بھی اللہ کا احسان ہے ،انکو موقع دیا گیا ہے کہ جن کی انہوں نے حق تلفی کی ہے ، ان
سے معافی تلافی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کر لیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تاکہ کل تاریخ یا آخرت کے کٹہرے میں ان کے نامہ
اعمال میں کوئی گناہ، غلطی یا جرم نہ ہو اور وہ اس دنیا سے سرخرو ہو کر جائیں ۔ <o:p></o:p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-60189429825883254122023-06-01T21:34:00.009-07:002023-06-01T21:38:10.792-07:00عمران خان کاچیلنج اور حکومت کا مینج
عمران خان نے حکومت کو چیلنج کیا ہے کہ وہ دو تین ہفتوں کے دوران پی ٹی آئی کے جتنے لوگ توڑنا چاہتے ہیں توڑ لیں پھر الیکشن کروائیں اور عوام کا فیصلہ دیکھ لیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ جب حکومت سمجھے کہ پی ٹی آئی الیکشن کے قابل نہیں رہی تب الیکشن کروا لینا اور ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں یہ کون سا قانون ہے کہ جو پہلے دہشت گرد قرار دیا گیا اگر وہ شخص پی ٹی آئی چھوڑنے کی پریس کانفرنس کر دے تو اس کا سب کچھ معاف ہو جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ایک کا یہ بنیادی حق ہےکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے کسی جماعت کو جائن کرنے یا چھوڑنے کا فیصلہ کرےاور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے مگر عمران خان کی یہ بات سن کر تو لگتا ہے کہ جمہوریت کے حسن کو میک اپ کرکے پیش کیا جارہا ہے یہ کوئی قدرتی حسن نہیں ہے ۔ عمران خان کو ان سیاستدانوں کے جانےکا غم تو ہوگا مگر لگتا ہے کہ کوئی پچھتاوا نہیں کیونکہ جب ان کو تحریک انصاف کے بانیوں کے جانے کا بھی غم نہیں ہوا تو ان میں اکثریت تو ویسے بھی آنے جانے والوں کی تھی جو ہمارے ملک کے برانڈڈ سیاستدان ہیں جن کا آزادی ہی برانڈ ہے وہ جب چاہتے ہیں اپنی جماعتیں بدلتے رہتے ہیں ۔ ان کی اصل پہچان ان کا برانڈ ہی ہے ۔ انکی کمپنی کا جہاں معاہدہ ہوجائے گا وہ وہیں اپنے برانڈ کی مشہوری کے لئے پہنچ جائیں گے ۔ ان کی کمپنی کا نام ہی کافی ہے اور شائد اسی لئے بقول عمران خان ان کی پریس کارنفرنس ان پر الزامات بھی دھو دیتی ہے ۔
پی ڈی ایم اور ان کے اتحادیوں کو حکومت تو مل گئی انہوں نے اس کی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے مگر اب تحریک انصاف کی سیاسی غلطیوں سے ان کو حالات کے بہتر ہونے کی امید لگی تھی مگر جو سلسلہ چل رہا ہے اس سے ایک بار پھر حکومتی جماعتوں کے لئے مسئلہ کھڑا ہوسکتا ہے ۔ پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ میں جب بھی کسی سیاسی جماعت کو دیوار سے لگایا گیا،کچھ عرصہ بعد وہ جماعت اسی تیزی کے ساتھ دوبارہ ابھر کر سامنے آئی، جس کی روشنی میں ان کو سخت محنت طلب مینج کرنا پڑے گا کیونکہ پاکستان کی تاریخ کے اوراق جو منظر نامہ پیش کرتے ہیں ان میں تو پیپلزپارٹی کو دس سالہ طویل ضیا آمریت ختم نہ کرسکی۔اسی طرح ایم کیو ایم کے خلاف تاریخی کراچی آپریشن سب کے سامنے تھا،مگر نو سالہ مشرف دور میں ایم کیو ایم پوری طاقت کے ساتھ اقتدار میں واپس آئی ۔مشرف دور میں مسلم لیگ ن کو دیوار سے لگادیا گیا۔لاہور جیسے شہر میں مسلم لیگ ن کا جھنڈا اٹھانے پر پابندی تھی۔مگرپھر قدرت نے وہ منظر بھی دیکھا کہ جس نواز شریف کو آرمی سے نہ بننے کی وجہ سے ہٹایا جاتا رہا وہی آرمی کے چیف کا تکرر کرتا رہا۔
حکومت مینج ضرور کرے مگر گورننس کے فطری توازن کو نہ بگڑنے دے کیونکہ اس کا بگاڑکسی کو راس آ نہیں سکتا اور اس کی کئی مثالیں موجود ہیں جسے ہم مکافات عمل کہتے ہیں ۔ اگر کوئی غیر فطری مینجمنٹ کے زریعے سے توڑا یا جوڑا جائے گا تو اس کا جوڑ مضطوط ثابت ہو نہیں سکتا اور اس پر جب کبھی بھی دباؤ پڑے گا تو ٹوٹنا اسکا قدرتی عمل ہوگا۔ اور تحریک انصاف کو چھوڑنے والوں کی مثال بھی اس تسلسل کی ایک مثال ہے ۔
انسانی حقوق کی پامالی ، جمہوریت کے حسن کے میک اپ اور قانون کی حکمرانی کے غیر آئینی اور غیر قانونی بندوبست بھی اسی توازن کی بگاڑ کی ایک مثال ہے ۔ اگر آج موجودہ حکومت کے دور میں یہ سب کچھ ہوگا تو کل پھر ان کے پاس بھی ان خلاف ورزیوں پر آواز اٹھانے کا کوئی جواز نہیں ہوگا اور مکافات عمل کا لقمہ بننا پڑے گا۔ کل کے جلسے میں "رانا جی تُن کے رکھو" جیسے نعروں سے جو تاثر ابھر رہا ہے وہ کسی صورت بھی ایک جمہوری ریاست میں قابل قبول نہیں ہوسکتا۔
اس غلط روائت کو ختم کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ اصولی سیاست کا دامن نہ چھوڑا جائے اور اپنی ذمہ داریوں کو ریاست کی امانت سمجھا جائے ۔ اختلافات اور حمائت کی بنیاد اصول ہوں ۔ آئینی اختیارات اور ریاستی وسائل ملک و قوم کی امانت ہوتے ہیں اور عوام جس کو بھی ریاست کے انتظامات کے لئے ان کے استعمال کی ذمہ داری سونپتی ہے اس کو انتہائی ایمانداری، خلوص اور جرات کے ساتھ ملکی مفادات کی خاطر استعمال کرنا چاہیے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں اپنے آپ کو جوابدہ بھی سمجھنا چاہیے ۔
حکومت کو 9 مئی کے سانحہ کے ذمہ داران کو سزا ملنی چاہیے مگر اس میں کسی بے گناہ کو کوئی نقصان بھی نہیں پہنچنا چاہیے۔اور دوسری طرف اگر تحریک انصاف اب بھی اپنی ماضی کی غلطیوں کو چھوڑ کر اصولی سیاست کا دامن نہیں پکڑتی تو پھر ان کو بھی نظام فطرت میں بگاڑ پیدا کرنے کے نتائج سے باخبر رہنا چاہیے ۔ریاست کا رویہ سمجھنا ہوگا۔ ماضی میں بھی انہوں نے پی ٹی وی اور پارلیمان پر حملہ کیا تھا مگر اس وقت ان سے نرمی برتی گئی جس سے شائد ان کے حوصلے بڑھ گئے تھے مگر اب وہ رعائت میسر نہیں ہے ۔ کل اعجاز الحق کا تحریک انصاف سے علیحدہ ہونا بھی قوی اشارہ ہے ۔
اس وقت ملک انتہائی سیاسی الجھنوں کا شکار ہے اور یہ الجھنیں پہلے سے معاشی بدحالی کے شکارملک کو مزید مسائل سےدوچار کرتی جارہی ہیں ۔ ہر کوئی اس وقت تذبذب کا شکار نظر آتا ہے ۔ کسی کو کوئی سمجھ نہیں آرہی کہ ان الجھنوں کو سلجھانے کے لئے کہاں سےآغاز کیا جائے کہیں سے کوئی سرا نظر نہیں آرہا اور جلدی بازی میں ہر کوئی ان الجھنوں کو گھمانے میں لگا ہوا ہے ۔اور یاد رکھیں الجھنیں گھمانے سے نہیں سلجھانے سے نکلتی ہیں۔سب کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا ہوگا اور ٹھنڈے دل
سے مسائل کا حل ڈھونڈنا پڑے گا۔
Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-30465206714825910632023-05-01T07:12:00.005-07:002023-05-01T20:22:11.136-07:00آئین کے نام پر سیاسی چالیں اور بے نقاب ہوتی تدبیریں<p style="text-align: right;"> </p><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh8BREWhhd1YWqyaMfYIUgIVFRKvw3XEOtk2R8T0Eyog88rBznTDc8vP-8EwEpxSb3ZlvGf1ildHc6-RPGlzTosomiLpSebb50cDQSy2UNvUSiAKxLT8yFcbNptBvDhHkmaSb-G5dGxN8rZCkkZSUaQ0XVFiru8bHpC7vHlS_X0QFxtS4GppO8WQkNmfA/s276/constitution%20of%20Pakistan%20Image.jpg" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="183" data-original-width="276" height="183" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEh8BREWhhd1YWqyaMfYIUgIVFRKvw3XEOtk2R8T0Eyog88rBznTDc8vP-8EwEpxSb3ZlvGf1ildHc6-RPGlzTosomiLpSebb50cDQSy2UNvUSiAKxLT8yFcbNptBvDhHkmaSb-G5dGxN8rZCkkZSUaQ0XVFiru8bHpC7vHlS_X0QFxtS4GppO8WQkNmfA/s1600/constitution%20of%20Pakistan%20Image.jpg" width="276" /></a></div><p></p><p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">نوے دن کی آئینی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>شرط بھی ایک پر اسرار فرمائش بن گئی ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>۔ آئین میں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نوے دنوں میں الیکشن کروانے کی شرط پاکستانی قوم
کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پارلیمان کے عوامی نمائندوں نے ہی رکھی تھی اور
وہ ہمیشہ سے اس کی خلاف ورزی پر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے شکوہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کرتے رہےلیکن اس دفعہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کے اپنے لئے ہی یہ درد سر بن گئی ہے اور اب
مختلف قسم کی توجیحات تلاش کر رہے ہیں ۔جب ان کے اپنے اوپر بات آگئی ہے تواس میں
ایک دلچسپ امر یہ بھی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہے کہ تمام بڑی
سیاسی جماعتیں جو اپنے آپ کو آئین کی خالق ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں اب اتحادی حکومت
کا حصہ ہیں ۔ <o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">جیسے بھی ہوا جو بھی ہوا ایک بات تو اب واضح ہے کہ نوے دنوں
میں الیکشن کروانا اب ممکن نہیں رہا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور اس
کا مطالبہ کرنے والے اور عملدرآمد کروانے والوں کی بے بسی بھی سب پر عیاں ہے کہ
کیسے وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھے ہیں اور حکومت ان کو کتنا سنجیدہ لے رہی ہے ۔ حکومت
اگر اپنے بندوبست میں کامیاب ہورہی ہے تو ان کو اپنے حصے آتا عوامی غضب بھی نہیں
بھولنا چاہیے جس کی وجہ بھی انکی اپنی سیاسی حکمت عملیاں ہی ہیں۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">تحریک انصاف اور <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>عدالت عظمیٰ کو بھی اس <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بات کا تو یقین ہوچکا کہ نوے دنوں والی گنتی اب
بے فائدہ ہوچکی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور آئین کے ساتھ جو ہونا
تھا وہ ہوچکا ۔ اب کوئی اہل رہے یا نا اہل آئین کے ساتھ وفا تو نہ ہوسکی ۔ نوے دن
کا وعدہ ایک مرد مجاہد ، مرد حق نے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بھی کیا
تھا او ر پھر قوم کو گیارہ سال انتظار کرنا پڑا ۔ پھر ایک اور سپہ سالار نے نو سال
انتظار کروایا ۔الیکشن تو اس دوران بھی ہوتے رہے مگر ان کے حقائق انتہائی تلخ ہیں
۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">حیرت<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی بات تو یہ
ہے کہ ماضی میں جب نوے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>دن کی پر اسرار شرط
کو ضرب لگائی گئی تو ہماری عدالت عظمیٰ کے اندر سے اس کو تحفظ فراہم ہوتا رہا ہے مگر
اس دفعہ سپریم کورٹ ہی کے اندر سے نوے دن کی شر ط کو پورا کرنے کا بندوبست ہورہا
ہے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>شائد وہ اپنے کردار کی روایات کو <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نبھانا چاہ رہے ہیں ۔ اور اس دفعہ سیاستدان بضد
ہیں کہ اگر سپہ سالاروں نے نوے دن کو طول دے لیا ہے تو وہ تو اس آئین کے خالق ہیں
اور وہ اس میں ترمیم کا بھی حق رکھتے ہیں اور ان کو کسی عدالت عظمیٰ سے توثیق لینے
کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ <o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">در اصل اس قوم کا مزاج ہی ایسا ہے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>خواہ مخواہ ہی یہ آئین پر ضرب کا الزام<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اسٹیبلشمنٹ پر لگتا رہا ہے ۔ اس ملک میں آئین
کی پاسداری محض موافق آنے کی صورت میں ہی کی جاتی ہے وگرنہ اپنے آپ کو بدلنے کی
بجائے آئین کو ہی بدل لینا مناسب سمجھا جاتا ہے ۔ کیونکہ آئین ملک و قوم کی فلاح
کے لئے ہے نہ کہ ملک و قوم آئین کی فلاح کے لئے ۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">بہرحال مذاکرات پر آنا تحریک انصاف کی سیاسی حکمت عملی کی
ناکامی ہے اور ان کو اپنے کئے پر پچھتاوا بھی ہوگا کہ کس طرح انہوں نے اپنے آپ کو
اسمبلیوں سے باہر کرکے رسوائی کا راستہ چنا اور حکومتی اتحاد نے انکو ڈی ٹریپ کرکے
اختیارات اور طاقت<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کے ہاتھ سے چھین لئے
اور اب وہ اپنی بحالی کو ہی غنیمت سمجھ رہے ہیں ۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">یوں سمجھ لیجئے عمراں خان نےاب حکومت کی ضد کے سامنے گھٹنے
ٹیک دئیے ہیں اور وہ چاہ رہے ہیں کہ ان کو دو صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی میں
سیٹیں واپس دے کر حصہ دار بنا لیا جائے وہ بھی ایسے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میثاق جمہوریت <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہیں جس سے ان کو
فائدہ ملے مگر عمران خان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ان کا رویہ ہے جس کی بنیاد پر
وہ اعتماد کھو بیٹھے ہیں لہذاتحریک انصاف تو قابل قبول ہو سکتی ہے مگر عمران خان کے
لئے شائد کوئی جگہ نہیں اور حکومت کا کسی بھی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>قیمت پر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہونے تک
انتخابات کا کوئی ارادہ نہیں۔ <o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">ویسے بھی اس ملک میں فوجی مارشل لاء اور عدالتی تسلط کے بعد
سول بندوبست کی ہی کسر رہ گئی تھی جو امید ہے موجودہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد پوری
کر دے گا۔ تاکہ پلڑا برابر ہوجائے ۔ <o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">وزیر اعظم نے بھی پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لے کر یہ پیغام
دے دیا ہے کہ پارلیمان باہمی اختلافات کے باوجود اپنی بالادستی کے معاملے میں متحد
ہے اور<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کسی بھی صورت اپنے موقف سے پیچھے
ہٹنے کے لئے تیار نہیں ۔دوسری طرف چیف جسٹس صاحب کے لئے اپنے ادارے کا اعتماد حاصل
کرنے میں انتہائی مشکلات درپیش ہیں اور آڈیو لیکس نے تو رہتی سہتی کسر بھی پوری کر
دی ہے ۔ تو اس وقت سپریم کورٹ کا ہم خیال گروپ انتہائی دباؤ میں ہے اور وہ انتہائی
محتاط بھی نظر آرہے ہیں ۔<o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">سپریم کورٹ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے بنچ کی
یوں پر اسرار خاموشی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور مذاکرات کی تجویز
بھی انکی بے بسی کی ایک دلیل ہے ۔کوئی خواہ کچھ بھی کہے یہ حقیقت ہے کہ آڈیو لیکس
نے حکومتی موقف کو تقویت بخشی ہے اور ججز کے لئے اب ماضی کی طرح کے فیصلے دینا انتہائی
مشکل ہوگیا ہے اور حکومت اب ان پر عملدرآمد<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>کے ہر طرح <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے خوف سے بھی باہر نکل
آئی ہے جس سے سپریم کورٹ کو مزید کوئی فیصلہ دے کر رسوائی کا سامنا بھی پڑ سکتا ہے
۔ لہذا بہتری یہی ہے کہ اب اپنے ادارے کی ساکھ کو بچانے کے لئے متنازع ہونے سے بچا
جائے ۔ <o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">اب انکو عمران خان کی طلسماتی کشش بارے مجبوریوں سے باہر
نکل آنا چاہیے اور انکے دوبارہ اقتدار میں لانے کے خوابوں پر نظر ثانی کر لینی
چاہیے کیونکہ اب یہ حقائق سے مطابقت رکھتے نظر نہیں آتےلہذا اب اپنے آپ کو حکمت
عملی سے بچا لینا ہی مناسب ہے ۔وگرنہ ان کو عمران خان کا اپنے محسنوں کے ساتھ رویہ
تو یاد ہی ہوگا۔اب کسی قسم کی توسیع کا نہیں تصیح کا وقت بھی بمشکل بچا ہے ۔ <o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">حکومت کی حکمت عملی بہت ہی واضح ہے کہ اگر تو سپریم کورٹ کے
ہم خیال ججز اپنے رویے سے یہ ثابت کردیتے ہیں کہ<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>وہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے تو حکومت ہر صورت تصادم سے
بچنے کی کوشش کرے گی جس کا اندازہ منگل کے دن<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>پروسیجرل بل کیس کی کاروائی سے ہوجائے گا اور اگر چیف صاحب کا کنڈکٹ اپنے
اختیارات کے معاملے میں وہی رہتا ہے تو پھر ستمبر تک حکومت کو بھی ان کے مدمقابل
بندوبست با امر مجبوری کرنے ہی پڑیں گے <o:p></o:p></span></span></span></p>
<p align="right" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span dir="RTL" lang="AR-SA" style="font-size: 16pt; line-height: 115%;"><span style="color: #274e13;">چیف صاحب کے پاس<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>اصل طاقت ان کے انتظامی اختیارات ہی ہیں جن کی بنیاد پر وہ بندوبست کرکے
اپنی پسند نا پسند کی بنیاد پر فیصلوں پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور اگر تو وہ
ابھی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بھی حمائت کی سوچ رکھتے ہیں تو پھر
ان کو تصادم کی راہ اپنانی پڑے گی کیونکہ وہ اختیارات کی عدم موجودگی میں ایسا
کرنے کی حالت میں نہیں ہونگے اور ان کو سیاسی مدد بھی درکار ہوگی جس کے لئے ہوسکتا
ہے وہ تحریک انصاف کو ریلیف دینے کے لئے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>ان کی اسمبلیوں میں واپسی کی تدبیر میں کوئی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مدد کر یں۔ <o:p></o:p></span></span></span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-60730293053238435402023-04-27T05:13:00.007-07:002023-04-28T02:51:58.740-07:00چیف جسٹس کو اپنے اختیارات جیورس پروڈنس کے اصولوں کے تابع لانا ہونگے<p> </p><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgLAY_19tpJhyQDcFJ1mMCrQILANtyLnVNEGQJYxLSbxBmYdgoDLllgfHF-gdPwpnUr7SUmpG3bxo8GsMM5tlkydCmnKlZdGvuSrG7DnRZmrTyl0-qGBAomyJgQLW6HQmtj2gShfht1gj9iddiGJOZ1BZw6zVvo-WlTADHMKOXgPFnkkrNJz8rYkboAGg/s750/justice-bundial.png" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="375" data-original-width="750" height="160" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEgLAY_19tpJhyQDcFJ1mMCrQILANtyLnVNEGQJYxLSbxBmYdgoDLllgfHF-gdPwpnUr7SUmpG3bxo8GsMM5tlkydCmnKlZdGvuSrG7DnRZmrTyl0-qGBAomyJgQLW6HQmtj2gShfht1gj9iddiGJOZ1BZw6zVvo-WlTADHMKOXgPFnkkrNJz8rYkboAGg/s320/justice-bundial.png" width="320" /></a></div><p></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">موجودہ پارلیمان اور اعلیٰ عدلیہ کے درمیان کشمکش کی
صورتحال محض چیف جسٹس صاحب کے انتظامی<a href="http://www.drabrarchaudhary.com/2023/03/blog-post.html"> اختیارات کا عدالتی رائے پر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ابھرتا ہوا غالب تاثر ہے</a> ۔ انصاف صرف ہونا ہی
ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کا آئین، قانون اور جیورس پروڈنس کے تقاضوں پر پورا اترتا
ہوا دکھائی بھی دینا چاہیے ۔ <o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">انتظامی اختیارات کاعدالتی رائے پر اثر انداز ہونے کا کوئی
جواز نہیں بنتا اور نہ ہی اس طرح کے تاثر کے پیچھے کوئی دانشمندانہ سوچ جھلکتی
ہوئی نظر آتی ہے بلکہ یہ سوچ اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ کو سبوتاژ کرتے ہوئے دکھائی دے
رہی ہے ۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پارلیمان کے سپیکر کی طرف سے چیف جسٹس صاحب کے نام خط <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>لکھنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ ایک اعلیٰ
ریاستی ، آئین کے خالق ادارے کے کسٹوڈین کی طرف سے اعلیٰ عدلیہ کے ادارے کے سربراہ
کے نام ایک یاداشت ہے جو خدشات اور تحفطات کا مجموعہ ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس میں اسی تاثر کی طرف اشارہ دیاگیا ہے ۔ <o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اورچیف جسٹس کے نام <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس طرح کے خطوط کا سلسلہ سپریم کورٹ کے اندر سے
چند قدم پر بیٹھے <a href="https://urdu.nayadaur.tv/analysis/90437/umar-ata-bandial-qazi-faez-isa-supreme-court-chief-justice/" target="_blank">ایک سنئیر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ</a> نے شروع کیا اور ان خطوط کے
زریعے سے اداروں کے اندرونی حالات کی مخبری کا سلسلہ شروع ہوا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس کا مرکزی متن بھی چیف جسٹس صاحب کے اختیارات
کا استعمال ہی تھا جس کی بنیاد پر بنائے جانے والے بنچز کا ذکر خاص کر ملتا ہے جن
پرکوئی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>توجہ نہیں دی گئی۔ یہ خطوط پر خطوط
لکھے جاتے رہے اور آخر کار ان خطوط میں موجود تحفظات عدالتی رائے تک پہنچ گئے اور
عدالت کے اندر گونجنے لگے جن کو خاموش کرنے کے لئے پھر اختیارات کا بے دریغ
استعمال ہوا اور خاص بندوبست نے جنم لیا اور آج حالات نے ریاست کو یہاں پہنچا دیا
ہے ۔<o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">وہی ججز کے بنچز کے خلاف تحفظات کی آواز پارلیمان میں
گونجنے لگی ہے اور اس پر نہ صرف قراردادیں منظور ہوئیں بلکہ ان کےاندر فیصلوں کے
خلاف مذمتی قراردادیں بھی منظور ہوئیں اور جب ان کو سنجیدہ نہ لیا گیا تو آج پارلیمان
کے ہاؤس آف کسٹوڈین کی طرف سے ایک خط چیف جسٹس کے نام ان کی توجہ حاصل کرنے کے لئے
ان کے چیمبر کے دروازے پر بے چین کھڑا ہے ۔<o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آج میڈیا ہی نہیں بلکہ پارلیمان کے اندر عوامی نمائندے جو
زبان بول رہے ہیں وہ سپریم کورٹ کے خلاف نہیں بلکہ اس بنچ کے خلاف ہے جس کے بارے
تحفظات بخود سپریم کورٹ کے اندر موجود ہیں اور<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>پوری قوم اور پارلیمان کو عدلیہ کی رائے کی غیر جانبداری اور غیر شفافیت پر
بولنے کا جواز مہیا کر رہے ہیں ۔ سپریم کورٹ اگر تو اپنی ساکھ اور عزت کو بچانا
چاہتی ہے تو پھر اپنے اندر کے اختلافات کو معقولیت کے اندر سمونے کی کوشش کرنی
ہوگی جو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ایک اجتماعی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انتظامی اور اصولی رائے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی بنیاد پر ہی ہوسکتی ہے ۔<o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">چیف جسٹس صاحب بھلے اپنے اختیارات<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے استعمال پر کسی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو جوابدہ نہیں مگر ان کو جیورس پروڈنس کے
اصولوں کے تابع رکھنا انکی بحثیت ایک اعلیٰ عدلیہ کے سربراہ کے پہلی ترجیح ہونی
چاہیے تاکہ ان کے اختیارات اور فیصلوں پر کوئی آئینی، قانونی ،اصولی حتیٰ کہ
اخلاقی نقطہ بھی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نہ اٹھ سکے اور کسی کو
ان کے اختیارات اور فیصلوں پر عملدرآمد کرنے یا کروانے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں کوئی امر مانع نہ آسکے ۔ <o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پارلیمان کی سپرمیسی کو مانے بغیر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نہ صرف ریاست کی رٹ کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے
بلکہ عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد بھی بے بسی کا شکار ہوسکتا ہے جیسا کہ حالات
اعلیٰ عدلیہ کے لئے پریشان حال نظر آرہے ہیں ۔ ان تمام مسائل کاحل اب صرف اور صرف
چیف جسٹس کے اختیارات کے استعمال میں غیر جانبداری، شفافیت اور دانشمندی کے عنصر کےواضح
نظر آنے سے منصوب ہے ۔ <o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">چیف جسٹس صاحب کو تمام آئینی ، ریاستی اور سیاسی مقدموں کی
کاروائیوں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو معطل کرکے پہلے اپنے ادارے
کے اندر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پائی جانے والی کشمکش کی طرف توجہ
دینی ہوگی تاکہ وہ یہ ثابت کرسکیں کہ وہ ہی اس اعلیٰ عدلیہ کے غیر متنازع سربراہ
ہیں اور پورا ادارہ ان کے فیصلوں کے پیچھے کھڑا ہے ۔ عدالتی رائے میں اختلاف ایک
جیورس پروڈنس کا اصولی معاملہ ہے اور اس کا ادارے کے فیصلوں کی صحت پر کوئی اثر
نہیں۔ ان کو اپنے ساتھیوں کے تحفظات کو دور کرکے بنچز کی تشکیل کو غیر جانبدار اور
شفاف بنانا ہوگا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ
اپنے ادارے کا ایک فل کورٹ ریفرنس بلائیں اور تمام صورتحال اس کے سامنے رکھتے ہوئے
ایک اجتماعی رائے کے بعد اصول و ضوابط <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ترتیب دیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جن میں آئین ، قانون اور جیورس پروڈنس کے تقاضوں
سے ہم آہنگی ہواور پھر ان پر من و عن عمل کو یقینی بنانے کی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تسلی کے ساتھ آگے بڑھیں۔<o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">امید ہے چیف جسٹس صاحب حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے
ادارے کی طاقت کو یکسو کرنے کی پوری نیک نیتی سے کوشش کریں گے اور ان کے ساتھی بھی
اس <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>معاملے کو سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ پورا
تعاون کریں گے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تاکہ دوسرے ریاستی اداروں
کو بھی آئین و قانون پر عمل کرنے پر مجبور کیا جاسکے اور ان کے پاس کوئی جواز نہ
چھوڑا جائے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے انحراف کرناتو درکنا اس کا سوچ بھی سکیں
۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اگر ایسا نہ ہوا تو مبینہ طور پر یہ اطلاعات یا خبریں گردش
کر رہی ہیں کہ جن ججز کو انہوں نے اپنے اختیارات کے زریعے سے بنچز سے علیحدہ کیا
ہے وہ ان کی اس اختیار کی روشنی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں شائد
ان کے کسی بھی بنچ کا حصہ بننے سے معزرت کرنا شروع کر دیں ۔ اگر ان کے پاس
اختیارات ہیں تو دوسرے ججز بھی اختیارات سے خالی نہیں اگر ان کو ان کی مرضی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے خلاف کسی بنچ سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے تو وہ
اپنی مرضی سے بھی بنچز سے علیحدگی کا ختیار رکھتے ہیں اور خاص کر ایسے حالات کے
بعد جن میں وہ کھلے عام<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چیف جسٹس صاحب کی
تکنیکی بندوبست کے زریعے سے انکی دبائی جانے والی عدالتی رائے پر اپنا ایک واضح
موقف پیش کرچکے ہیں کہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کے ساتھ کس طرح
کا برتاؤ کیا گیا ہے ۔ <o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اسی طرح اگر سپیکر قومی اسمبلی کے خط جس میں انہوں نے اپنے
تحفظات پیش کئے ہیں اور پارلیمان کی توہین کی طرف اشارہ دیتے ہوئے عدلیہ کے فیصلوں
کو ان کی آئینی ذمہ داریوں میں دخل اندازی سے تشبیہ دیا اور عدالت عالیہ کی مخصوص
پنچز کے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>فیصلوں بارے اپنے تحفظات کا اظہار
بھی کیا ہے ۔ اگر اس خط کو بھی اپنے ہم منصب جج کے خطوط کی طرح<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اہمیت نہ دی گئی تو پھر پارلیمان بھی اپنے
آئینی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اپنے
تحفظات کی گونج<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پہلے سے بھی بلند پارلیمان سے اٹھتی ہوئی ان کے
اداروے کے در و دیوار سے ٹکرا سکتی ہیں ۔ پارلیمان کی عمارت ان کے ادارے کی عمارت
سے زیادہ دور نہیں اور آئین میں پارلیمان اور عدلیہ دونوں کے اختیارات اور ان کا
استعمال واضح ہے ۔<o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سب کو اپنے<a href="https://urdu.nayadaur.tv/analysis/91510/pakistan-prosperity-media-politicians-economy/"> آئینی اختیارات کو محض جذباتیت سے نہیں بلکہدانشمندی اورملکی و قومی فلاح کے جذبے کے تحت رکھتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا</a> تاکہ ملک
و قوم کی ترقی و بقاء کو یقینی بنایا جاسکے ۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-25002776321530020392023-03-01T21:15:00.012-08:002023-03-23T05:03:02.191-07:00تکنیکی بندوبست کاجوڈیشل رائے پر حاوی ہونا قابل افسوس امر ہے ۔<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiq38NQeGLTXtgGywuLnuNRRq0ax1L5GtTTw5MNvRKMf4zjw8BTfW1nsKwiTquAAGIxsXBQcbV-56wEWmKP7gzRxMRwwQXs4BE6Dn5phrj2nijb6ENVpmP5-0_-i-EyL2tC_uOVu5VZzYqg0jXW_0NPjmZadOPvNhnRwzM6jRX2VkQLCBiJSxhk8MZjWg/s262/supremcourt.jpg" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="192" data-original-width="262" height="192" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiq38NQeGLTXtgGywuLnuNRRq0ax1L5GtTTw5MNvRKMf4zjw8BTfW1nsKwiTquAAGIxsXBQcbV-56wEWmKP7gzRxMRwwQXs4BE6Dn5phrj2nijb6ENVpmP5-0_-i-EyL2tC_uOVu5VZzYqg0jXW_0NPjmZadOPvNhnRwzM6jRX2VkQLCBiJSxhk8MZjWg/s1600/supremcourt.jpg" width="262" /></a></div>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سپریم کورٹ کے تمام ججز اہلیت اور حیثیت کے اعتبار سے برابر
ہوتے ہیں اور ان کی قانونی رائے اور فیصلے
بھی برابر وزن رکھتے ہیں ۔ ان میں کسی کو تھوڑی یا کسی کو زیادہ اہمیت نہیں دی
جاسکتی۔ ہاں اکثریت کی رائے وزن کے
اعتبار سے حاوی ضرور ہوتی ہے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو اگر غور سے ملاحظہ کیا جائے
تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تکنیکی بندوبست کو عدلیہ کے جوڈیشل مائنڈ پر حاوی کرنے کی کوشش کی
گئی ہو ۔ جیسا کہ الیکشن پر سوؤ موٹو پر نو ججز کا لارجر بنچ بنایاگیا جس پر پہلے
دن سے ہی اعتراضات، تحفظات اور مطالبات اٹھنے شروع ہوگئے اور یوں دو ججز نے
رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو بنچ سے علیحدہ کر لیا جبکہ دو کو ان کی رائے کی پاداش
میں کر دیا گیا اور اس طرح بنچ سکڑ کر پانچ کا رہ گیا ۔اور یہ سب کچھ ڈرامائی طور
پر ہوا۔ تحفظات، اعتراضات اور مطالبات بھی
کسی حد تک سکڑے مگر فیصلہ متعلق پشینگوئیاں آخر میدان جیت گئیں جیسا کہ فیصلہ سے
ایک دن قبل تک اس بات کی پشینگوئی حرکت میں تھی
کہ تین دو کی اکثریت سے فیصلہ آنے
والا ہے ، جس کی بنیاد ججز کا دوران سماعت آراء کا اظہار تھا جو سچ ثابت ہوا اور
یوں اب ایک عدالتی فیصلہ اپنی آئینی طاقت
سے آئین پر عملدرآمد کے لئے آئینی اداروں
کو مجبور کرتا ہوا متحرک ہوچکا ہے۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب دیکھتے ہیں کہ جس طرح حکومت کی طرف سے بھی ایک تکنیکی بندوبست پہلے سے ہی الیکشن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا
اسی کی طرز پر سپریم کورٹ کے بندوبست نے اب اس کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے ۔آئین میں تو واضح لکھا ہوا ہے کہ اسمبلیوں کی
مدت ختم ہونے یا معطل ہونے کی صورت میں نوےدن کے اندر الیکشن کروائے جائیں گے اور
اس کا طریقہ کار اور اختیارات کا حل بھی دیا گیا ہے مگر حکومت اپنی یہ ذمہ دار
پوری کرنے میں کچھ مشکلات کا سامنا ہونے کے پیش نظر اس کو طول دیتی ہوئی نظر آرہی
تھی ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب فیصلہ تو بہت ہی واضح اور سادہ ہے سپریم کورٹ نے الیکشن
کروانے بارے اپنے فیصلہ میں تین ججز کی رائے سے تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار
واضح کردیا ہے لیکن اپنے اختیار سماعت پر اٹھنے والے سوالات ابھی بھی جوابات
ڈھونڈنے سے قاصر ہیں ۔ جن کی نشاندہی پر سوو موٹو لیا گا ان کو شدید تنقید کی زد
میں آجانے کی وجہ سے بنچ سے اپنے آپ کو علیحدہ کرنا پڑا اور دو ججز نے جیسا کہ میں
نے پہلے بھی ذکر کیا ہے جن میں جسٹس اطہر من اللہ اوریحیٰ آفریدی نے اپنی اختلافی نوٹ میں سووموٹو اختیار کو ہی ناقابل سماعت لکھا جس کی
بنیاد پر وہ بھی بنچ کا حصہ نہ رہ سکے مگر
ان کی آراء کو ججمنٹ کا حصہ کہا گیا ہے ۔اور ان کی آراء سے ہی اتفاق کرتے ہوئے دو
ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">بہرحال اب فیصلہ آچکا ہے جوحتمی ہے اور حکومت اس پر عمل
کروانے کی پابند ہے اور اس پر من عن عمل ہونا بھی چاہیے مگر حکومت کی اپنی مجبوریاں ہیں جن کا بندوبست ہر حال حکومت کو ہی کرنا ہے جن میں مالی اور سیکورٹی مسائل
بھی بہت بڑا بندوبست ہے جس کا الیکشن سے پہلے ہر حال میں پورا ہونا بھی بے حد
ضروری ہے ۔جن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت تعطل کا جواز پیش کر سکتی ہے مگر اس کی
پاداش میں ہوسکتا ہے ان کو کچھ قربانیاں
بھی دینی پڑیں ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس سوو موٹو کے دوران کچھ اور بھی پہلو زیر غور آئے جن میں
سے چند تو جن کا پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے ججز کا ختلافی نوٹ ہے جو چار کی تعداد
میں تین ججز کے فیصلے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا ہے اور پھر آئینی اور
قانونی آراء بھی ہیں جن کی بنیاد صدر پاکستان کے اپنے وکیل کا اعتراف کہ صدر
پاکستان الیکشن کروانے کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں رکھتے اور ہائی کورٹس کے زیر
التوا پیٹیشنز اور کئی ایک اور بھی ایسے نکات ہیں جن سے اس فیصلے پر تنقید کے
دروازے ابھی بھی کھلے ہیں جو اس پر عمل
کروانے میں حائل ہونے کا کوئی قانونی اور آئینی جواز تو نہیں رکھتے مگر اخلاقی
اعتبار سے یہ اپنے وجود کو بہرحال محسوس
ضرور کروایں گے۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب اسی فیصلے پر حکومت
سمجھتی ہے کہ یہ فیصلہ تین چار کی نسبت سے آیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس پر نظر ثانی کی بھی
ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف سے یہ آواز
آرہی ہے کہ چیف جسٹس صاحب نے دو تین کے
اکثریت سے الیکشن کروانے کا حکم صادر کیا ہے ۔ اب اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ
حکومت نوے دنوں میں الیکشن نہ کروا کر حکم
عدولی کر رہی ہے تو ان کو پھر سے عدالت سے رجوع کرنا پڑے گا اور اس صورت حال میں
سپریم کورٹ کو دوبارہ سے اس پر اپنی رائے
دینی پڑے گی ۔ جس پر دوبارہ تمام فریقین اپنا اپنا موقف رکھنے کا حق رکھتے ہیں اور
پھر اس پر بھی بنچ بننے کا دوبارہ سے مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور بنچز کی تشکیل کا اختیار پہلے سے ہی اعتراضات کی زد میں آچکا ہے اور اس
پر خود عدالت کے سنئیر ترین جج ، جسٹس فائز عیسیٰ جو اگلے چیف جسٹس ہونگے نے سوال
اٹھا دئے ہیں اور اس پر رجسٹرار سپریم کورٹ کو طلب کرکے ان سے اس بابت میں پالیسی بھی
پوچھی ہے جس پر وہ لاجواب رہے اور انہوں نے کل اپنی عدالت کو وکلاء سے معذرت کرتے ہوئے برخواست کر دیا کہ اس طرح بنچز کے توڑ موڑ سے سوالات جنم لیتے
ہیں جو انصاف کے ہوتے ہوئے دکھنے میں رکاوٹ کا سبب ہیں ۔ اس بات کا اظہار وہ پہلے بھی چیف جسٹس کے نام خط میں کرتے رہے ہیں اور اب
یہ معاملہ عدالت میں نوٹسز تک پہنچ چکا ہے
۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ اس معاملے دو ہائیکورٹس میں
بھی پیٹیشنز زیر التوا ہیں اور ان کا
فیصلہ آنے تک حکومت انتظار کرے گی اور اس کے آنے کے بعد وہ اپنے اگلے لائحہ عمل کا
اعلان کرے گی۔ البتہ الیکشن کمیشن ابھی سے اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے متعلقہ
اختیاراتی عہدوں سے مشاورت شروع کر دے گا اور الیکشن کے انعقاد کے لئے اپنے فرائض
کی ادائیگی میں لگ جائیں گے مگر ان کو
فنڈنگ اور وسائل کو مہیا کرنا حکومت کی ذمہ دار ی ہے جو الیکشن کے انعقاد کے لئے ناگزیر ہیں ۔ اور الیکشن کمیشن وسائل کے
بغیر الیکشن کا انعقاد نہیں کروا سکتا۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">یہ الیکشن فوبیا جو ایک خاص طبقے کے حواس پرطاری ہے وہ موجودہ
معاشی بدحالی کی صورتحال میں ہمارے
مسائل کا حل قطعاً بھی نہیں کہا جا سکتا جس کی وجہ یہ ہے کہ ان دو صوبوں میں پہلے
بھی پی ٹی آئی کی ہی حکومت تھی اور مرکز میں وہ دو وٹوں کے فرق کے ساتھ موجود تھے
اور اگر وہ اپنی اس پارلیمانی طاقت سے پہلے کوئی فائدہ یا کوئی معاشی حل دینے میں
کامیاب نہیں ہوسکے تو اب کون سی ان کے پاس گیدڑ سنگھی آ جائے گی جس سے وہ بہتری کی
یقین دہانی کروا سکتے ہیں۔ صوبوں میں چند ماہ پہلے حکومت بن جانے سے قومی الیکشن
میں پھر سے ایک آئینی بحران کا خدشہ بھی وجود پاسکتا ہے ۔ پہلے بھی اسمبلیوں کو
توڑنے والی اس ناکام حکمت عملی نے آئینی بحران کو ہوا دی ہوئی ہے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آئین ہر ادارے کو اختیار دیتا ہے اور ان اختیار کا
استعمال بھی اس کا صوابدیدی اختیار ہے اور
کوئی اور ادارہ اس پر قدغن نہیں لگا سکتا۔ پارلیمان ، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ
سب آئینی ادارے ہیں اور سب کے اختیارات اپنی اپنی جگہ پر موجود ہیں اور کسی کو بھی
دوسرے کے اختیارات کے اندر دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے اور وہ بھی آئین کی روح کے
خلاف بندوبست کے زریعے سے۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اداروں کے آئینی اختیارات کے استعمال میں بھی آئینی روح سے
زیادہ کوئی اور روح بولتی ہوئی نظر آتی ہے اور یہ سب کچھ اسی آئین کی موجودگی میں زمانے کی آنکھ نے دیکھا ہے ۔ جس کے شواہد چیخ
چیخ کر دہائی مچا رہے ہیں مگر ان پر کوئی کان دھرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے ۔ جسٹس یحیٰ آفریدی اور جسٹس
اطہر من اللہ اور فائز عیسیٰ بھی اسی عدالت کے قابل احترام ججز ہیں اور ان
کی آراء بھی عوام کے سامنے ہیں ۔ اسی طرح پچھلے پچہتر سالوں کے فیصلے اور خاص کر پچھلے پانچ چھ سال کے فیصلے بھی عوام کے سامنے ہیں جن
پر نظام عدل کے اندر سے شہادتیں موجود ہیں جن کی آج تک کسی بشر نے نفی نہیں کی جو کسی نادیدہ ، ناقابل بیان اور غیر آئینی بندوبست کی دلیل ہیں ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ اداروں کے آئینی اختیارات اپنی جگہ
مگر ان کے استعمال کے پیچھے نادیدہ طاقتوں
کے بندوبست سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا جس کی بنیاد پر ادارے اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کرنا باعث شرف سمجھتے
ہیں
اور اگر اس بار بھی یہ بندوبست
کامیاب نہ ہوسکے تو ممکن ہے کہ پھر سے اسی
نادیدہ طاقت کو ہی کوئی بندوبست تجویز کرنا پڑے ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایسے تکنیکی بندوبست
جو آئینی اختیارات کے نام پروجود پاتے ہیں ان کے آئینی اور قانونی ہونے سے انکار تو نہیں
مگر ان کا آئین کی روح اور اکثریتی جوڈیشل
رائے سے متصادم اور اس پر حاوی ہوتا ہوا دکھائی دیناقابل افسوس ضرور ہے ۔</span> </span></span></span></span></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-90724816341358765612023-02-23T21:04:00.004-08:002023-03-15T09:14:59.574-07:00حکمرانو! غربت نہ سہی کم از کم امتیازی سلوک تو ختم کر دو<p style="text-align: right;"></p><div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhdlvj-UnwsvhwivTmrrX42lPtc9MJCuzQpVp0yjUgnstPWxfxJPZ2IoE-f2g36EjHwHzWvkJWloMIQ9go9NMt6bprcoezlMZ0Y0uAkNnt4FTIqru3aDyQSn0WzLR1yhVpAgEWkFjdJpctLFsOh2THJryRdNJZxWORER6c0Ase3cOh88cOfwZQL8qPutg/s297/parliment.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="170" data-original-width="297" height="170" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhdlvj-UnwsvhwivTmrrX42lPtc9MJCuzQpVp0yjUgnstPWxfxJPZ2IoE-f2g36EjHwHzWvkJWloMIQ9go9NMt6bprcoezlMZ0Y0uAkNnt4FTIqru3aDyQSn0WzLR1yhVpAgEWkFjdJpctLFsOh2THJryRdNJZxWORER6c0Ase3cOh88cOfwZQL8qPutg/s1600/parliment.jpg" width="297" /><span style="text-align: right;"> </span></a></div><p></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اگر غربت کا حل آپ کے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>پاس نہیں تو کم از کم عوام کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو تو کم کر دیں
۔ خزانے سے تنخواہیں اور مراعات لینے والوں کے اندر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ظالمانہ تفریق کو ہی ختم کر دیں۔غریب کے نام پر
لئے گئے قرضوں میں اس کا جائز حصہ ہی مختص کر دیں۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ابھی چند دن قبل آپکی اپنی بنائی ہوئی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کفائت شعائری بارے کمیٹی نے جو سفارشات پیش کی
ہیں ،جن کے ساتھ خبروں کے زریعے سے حاصل ہونے والی اطلاعات کے مطابق <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>،خادم پاکستان نے اتفاق بھی کیا ہے مگر اس<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو کابینہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں لے جانے یا کوئی حکم صادر کرنے کی بجائے اسی
کمیٹی کے ارکان کو تجویز دے دی کہ وہ سٹیک ہولڈرز سے بات کرکے انکو قائل کرنے کی
کوشش کریں ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کاش آپ حکومت<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور
حکومتی کارندوں کے اضافی اخراجات اور عیاشیوں کو کم کرکے عوام کے سامنے کوئی ٹھوس
ثبوتوں کے ساتھ آتے اور پلاٹوں اور مراعات کے نام پر عوام کا چوسا ہوا خون ان<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے جسموں سے نکال کر خزانے میں جمع کروانے کے
بعد عوام پر بوجھ ڈالنے کی سعی کرتے تو عوام بھی بخوشی اس کو قبول کر لیتے ۔ مگر
افسوس کہ سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے سامنے تو جی حضوری میں اپنے "
ووٹ کو عزت دو "کے نعرے کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بھی بھول
جاتے ہیں مگر عوام کا چوستا ہوا خون روکنے کے لئے ان کی ٹانگیں کانپنا شروع کر
دیتی ہیں ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">فضولیات اور عیاشیوں کے نام پر لوٹ کھسوٹ کو بند کرکے قوم
کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ممکنہ ایک ہزار ارب کا تحفہ پیش کرتے
ہوئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کفائت شعائری کا درس دیتے تو شائد اس
کا اثر بھی ہوتا مگر پر عیش ماحول میں بیٹھے ہوئے پالیسی سازوں کو کیا خبر کہ عوام
گزارہ کیسے کر رہے ہیں ان کو تو صرف اپنی فضول خرچیوں اور عیاشیوں کے بند ہونے کی
فکر نے پریشان کیا ہوا ہے ۔عوام کو ملکی اخراجات کا حقیقی مختصر جائزہ ہی پیش
کردیتے تو شائد<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تمھارے ضمیر کو ایک لمحے
لے لئے ملامت کا سامنا ہو پاتا ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اخراجات کو کم کرنے کی بات پر تجاویز اور لیت ولعل سے کام
اور عوام پر مہنگائی کا بم گرانے میں اتنی جلدی۔ یہ کہاں کا اخلاص یا حکمت عملی ہے
۔ اخرجات کم کرنے کی بات پر وزیر خزانہ ابھی بھی<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>"گا" گے" گی کے چکروں سے نہیں نکل پارہے اور ان کے سارے کے
سارے سابقہ دعووں کی تکمیل کوعوام کی آنکھیں ابھی بھی ترس رہی ہیں ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">عوام پر ٹیکس کی مد میں اضافی بوجھ ڈالنے سے پہلے عوامی
احوال پر کوئی سروے ہی کروا لیا ہوتا۔ کبھی ہسپتالوں میں محض خوراک کی کمی سے پیدا
ہونے والی بیماریوں میں مبتلا معصوم بچوں کا شمار ہی معلوم کرلیا ہوتا ۔ غربت کے
سبب<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>خود کشیوں پر مجبور عوام اور اجڑتے
گھروں کا اندازہ ہی لگوا لیا ہوتا <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">کوئی بھی معاشرہ غربت میں تو زندہ رہ سکتا ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جیسے پچھلے پچہتر سالوں سے عوام<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس ظلم کی چکی میں پس کر بھی حکمرانوں کی
عیاشیوں کو سہارا دئیے ہوئے ہیں مگر ناانصافیوں اور امتیازی سلوکوں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکتا۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">انصاف اور مساوات<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>کا آغاز <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سربراہان کے عمل سے شروع
ہوتا ہے نہ کہ ان کے کھوکلے دعووں سے جن کا پرچار پچہتر سالوں سے اور خاص کر پچھلے
پانچ سالوں سے ہورہا ہے ۔ جس قوم <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے قسمت
سازوں کو قیام پاکستان سے سفارش<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>، رشوت
اور بدعنوانی کی گڑھتی سے لے کر کمیشن کی لت کی عملی تربیت سے آراستہ کیاگیا ہو تو
پھر ان سے ایمانیداری اور اصلاح کی امیدیں وابسطہ کرنے سے بڑا بھونڈا پن نہیں
ہوسکتا ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">جب تک مرض کے سرطان کو ختم نہ کیا جائے محض دلاسے کچھ نہیں
کر سکتے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">نظام انصاف کی مصنوعی پارسائی شرمساری سے بالا اپنے گناہوں
کو توہین عدالت کے قانون کے پیچھے چھپانے کی کوشش میں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>استحقاق کو تو خوب جانتی ہو مگر اپنے عہدے کی
نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی کم ظرفیوں کو مکمل نظر انداز کئے ہوئے ہو اور پھر اپنے
رازوں پر سے پردہ اٹھنے پر ندامت کی بجائے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>اپنی طاقت کی نمائش پر بضد ہو تو پھر ایسی ریاستوں میں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>فیصلوں کی بنیاد دلیل کی طاقت سے نہیں بلکہ
طاقت کی دلیل سے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہی ہوتے ہوئے سمجھے جاتے
ہیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور آج انصاف کےمعیار کا زمانہ گواہ
ہے کہ ہم دنیا میں کہاں کھڑے ہیں ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">جس ملک<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں کی
اعلیٰ عدلیہ کا چپڑاسی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اپنی برتری جتانے
کے لئے ایک پروفیسر سے یہ پوچھے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>"یہ تو بتائیں تمھاری تنخواہ کتنی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہے؟ اور ایک پروفیسر کو اس کی اعلیٰ تعلیم پر
طعنہ دیا جاتا ہو " تو اس ملک کے اندر کردار سازی بہت مشکل ہوتی ہے ۔جہاں ان
پڑھوں ، جاہلوں اور کم عقلوں کو اہل علم، دانشوروں اور قومی معماروں کے چڑہانے کے
لئے شوخیوں کا سامان مہیا کرکے دلوں پر تیر چلانے کے لئے آزاد چھوڑ دیا جائے وہاں
معاشروں کی اصلاح کی امیدیں وابسطہ نہیں کی جاسکتیں اور نہ ہی ایسے ماحول سے انصاف
کے ماحول کی امیدیں لگائی جاسکتی ہیں ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہمارے نظام عدل<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے
کارناموں کی وجہ سے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آج تنقید کے ہار اس کا
مقدر بن چکے ہیں اور اس گل پوشی میں کوئی بھی سیاسی جماعتوں سے لے کرعام عوام تک
پیچھے نہیں ہے اور اس کی عزت افزائی کی مہک نظام کے اندر سے بھی آرہی ہے ۔جن کی
ہمدردیوں میں اپنی عزت کو داؤ پر لگایا گیا آج وہی عدم اعتماد اور گواہیوں پر تلے
ہوئے ہیں ۔ اگر انصاف کا دامن نہ چھوڑا ہوتا تو آج دشمن تو کیا دوست بھی غیرجانبداری
پر انگلیاں اٹھانے کے قابل نہ ہوتے بلکہ انصاف پسند ہونے کی گواہیاں دے رہے ہوتے ۔
<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">آخر اس ملک میں مراعات اور وظیفوں کا معیار کیا ہے ؟ جو
قانون بنانے والے اور اس پر عمل کروانے والے ہیں انہوں نے اس کے سارے کے سارے
مفادات کو اپنے ساتھ ہی پیوستہ کر کے رکھا ہوا ہے ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جن عدالتوں کے فل کورٹ ریفرنس اپنی مراعات اور
وضائف اس طرح بڑھاتے ہوں جس کی مثال دنیا میں ناپید ہو تو ان سے انصاف کی امیدیں
وابسطہ کرنا ایک دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اگر ہوسکے تو پارلیمنٹ کی کنٹین کے نرخ ، حکمرانوں کا اور
عام شہری کے رہن سہن کا تقابلی جائزہ بھی اپنے خطاب میں کبھی عوام اور قوم کے
سامنے رکھ دیجئے گا یا وزیر اعظم ہاؤس <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور
کابینہ میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>قوم کے اساتذہ کی تنخواہوں سے موازنہ بھی
ملاحظہ کر لیجئے گا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>شائد آپکو سمجھ آجائے
کہ اس قوم کی اخلاقی حالت اتنی ناساز کیوں ہے ۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">جس ملک کے حکمرانوں کے دفاتر اور رہنے کی جگہ کا نام ریڈ
زون ہو اور وہاں ایک عام آدمی کا داخلہ بھی ممنوع ہو وہاں برابری اور مساوات کی
بات کرنے سے بڑی منافقت کیا ہوسکتی ہے ۔ کیا یہاں صرف عوام نمائندوں کی جانیں ہی
قیمتی ہیں اور جن کے نام پر وہ یہ عہدہ اور حیثیت رکھتے ہیں وہ اچھوت ہیں تو پھر
کیا ہم مسلمان کہلوانے کا بھی حق رکھتے ہیں ؟<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">جس ملک کے اندر<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>مراعات<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>، وظیفوں اور پلاٹوں کی
بندر بانٹ کا مرکز ہی اختیارات کے استعمال کرنے والوں کی ذات تک محدود ہوکر رہ گیا
ہو وہاں کی حوس اور تنگ نظری کی مثالیں کبھی کفائت شعائری<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا ماحول نہیں پنپنے دیتیں ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">جس ملک میں قرض کے حصول کو ہی اپنی کامیابی کی
صلاحیتوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کےادراک کا درجہ مل چکا ہو وہاں
خود کفالت کی بات کرنا دیوانگی بن کر رہ جاتا ہے اور پھر قرض کے پیسوں سے ایسا
شاہانہ انداز زندگی پیش کیا جاتا ہو جس سے شہنشاہ بھی دنگ رہ جائیں تو پھر مردہ
ضمیری کی اس <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے بڑی مثال نہیں پیش کی
جاسکتی۔ <o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">جس ملک کے اندر امتیازی فرق ہی بڑے اور چھوٹے ہونے کی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>درجہ بندی ہو اس ملک کے اندر کس طرح اچھائی کی
توقع کی جاسکتی ہے جس ملک کے اندر ترقیاتی کاموں سے لے کر صحت اور تعلیم تک کی
پالیسیاں بنانے والوں کے رہن سہن کا یہ حال ہو کہ ایک ہی دفتر میں کام کرنے والوں
کے کمرے تو کیا ٹوائلٹ بھی ان کے امتیازی سلوک کی گواہی پیش کر رہے ہوں وہاں کی
سوچ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے وجود پانے والی پالیسیوں سے ملک کے
اندر برابری اور بھائی چارے کے پروان چڑھنے کی امیدوں سے وابسطگی اور اس کے ثمرات کی
کیسے توقع کی جاسکتی ہے ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">اسلام کے نام کو بیچنے والو کیا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>خلیفہ وقت نے حلوے کی پلیٹ اپنے سامنے دیکھ کر
خاتون اول سے یہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سوال نہیں کیا تھا کہ یہ
کہاں سے آیا ہے تو جواب ملا کہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>روزانہ کی
خوراک سے تھوڑا تھوڑا بچا کر جو اکٹھا کیا تھا اس سے یہ حلوہ تیار کیا گیا ہے
تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>خلیفہ وقت کا جواب یہ تھا کہ اس کا
مطلب ہوا کہ اگر سرکاری خزانے سے لئے جانے والے وظیفہ سے اگر اس مقدار کو کم کر
دیا جائے تو بھی گزارہ چل سکتا ہے ۔ اور وظیفہ میں سےاتنی مقدار کم کرنے کا حکم
جاری کر دیا۔ آج کے حکمرانوں کی اضافی عیاشیاں<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>اور معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والی مراعات کو کم کرتے ہوئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ٹانگیں کانپنا شروع کر دیتی ہیں ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ابھی بھی وقت ہے کہ غریب کا کھایا ہوا مال اور چوسا ہوا خون
اگل دیں وگرنہ یہ انگلیاں ڈال کر اگلنا پڑے گا۔ عوامی غضب کا مروڑ زیادہ دور نہیں
اور جب یہ اٹھے گا تو کسی بڑے سے بڑے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>خزانہ خور کا پیٹ بھی اس مروڑ سے خود کو بچا نہیں پائے گا۔ آج کے انفارمیشن
کے دور میں ہر ایک<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے رابطوں اور گٹھ جوڑ
کی کلی کھل چکی ہے اور اگر کوئی ابھی بھی سمجھتا ہے کہ اس کے کرتوت عوام سے پوشیدہ
ہیں تو اس کبوتر کا کیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کیا جا سکتا ہے ۔<o:p></o:p></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span dir="RTL" lang="ER" style="font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 16pt; line-height: 115%; mso-bidi-language: ER;">ہوسکے تو کوئی عملی نمونہ پیش کرکے اس ملک و قوم پر رحم
کی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مثال قائم کریں وگرنہ بھونڈے نعروں اور
منافقانہ سیاسی دعوں سے اس ملک کی تقدیر بدلنے والی نہیں۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-56830612830695479232022-10-30T09:35:00.004-07:002022-10-30T09:45:59.771-07:00فوج ، سیاستدان اور آئین<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><br /></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">موجودہ سیاسی حالات کا اگر جائزہ لیں تو ایک بات واضح نظر
آتی ہے کہ فوج اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور کل کی ڈی جی ،
آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر نے ایک
غیر معمولی پریس کانفرنس کرکے تمام باتیں واضح کر دی ہیں ۔ اور یہ پاکستان کی تاریخ میں کسی ڈی جی ، آئی
ایس آئی کی پہلی کانفرنس ہے جو انہوں نے
اپنی ذمہ داریوں کے دوران کی ہو۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو پاکستان کے موجودہ
سیاسی حالات کی نزاکت کا بخوبی اندازہ ہے
اور انہوں نے وہ تمام امور اس پریس کانفرنس میں زیر بحث لائے جن پر آج کل
پاکستان کے سیاسی حلقوں میں خدشات ، تحفظات اور الزامات پائے جارہے تھے ۔<o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">انہوں نے اپنی غیر جانبداری میں نیوٹریلٹی ، جانوروں سے
تشبیہ ، میر جعفر و میر صادق کے القابات اور چوکیدار کی غداری تک کے اپنے اوپر
اٹھنے والے تمام الزامات کا جواب دیا اور
یہ باور کروایا کہ اس کی وجہ ان کا کوئی غیر آئینی قدم نہیں بلکہ اس کی بنیاد غیر
آئینی اقدامات پر مدد نہ کرنا ہے ۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اسی طرح انہوں نے سائفر پر بھی وضاحتی بیانیہ سامنے رکھا
اور اس کی حقیقت سے پردہ چاک کیا کہ کب کب کیا کیا باتیں ہوئیں جو کہ پریس کانفرنس کا حصہ ہے جن کو یہاں
دہرانے کی ضرورت نہیں ۔اور عمران خان کے بیانیوں کو واضح طور پر جھوٹ کہہ دیا<o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ان پر صحافیوں کی
طرف سے سخت سوال اٹھائے گئے جن میں ان کی دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں مداخلت تک پوچھا گیا اور انہوں
نے اس کے رد عمل میں اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے واضح کیا کہ انہوں نے فوج کے کمانڈروں کا اجلاس
بلایا فوج کے کردار کو زیر بحث لاکر اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ فوج کو اپنے
آئینی اختیارات تک محدود ہوجانا چاہیے اسی میں ملک و قوم کی بہتری ہے ۔ اور دو
ہزار اکیس کے بعد سے انہوں نے خواہ وہ ضمنی الیکشن ہوں ، بلدیاتی الیکشن ہوں یا
عدم اعتماد کی تحریک کسی بھی قسم کی کوئی مداخلت نہیں کی۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور ان کی اس بات کی شہادتیں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں
کی طرف سے آ چکی ہیں ۔ جن میں تحریک انصاف کی فوج کی ٹرولنگ بذات خود اس بات کی
دلیل ہے کہ انہوں نے فوج کی نیوٹریلٹی کو بنیاد بناکر ان پر تنقید کی انتہا کردی
جو ان کو اپنےدو ہزار اٹھارہ کی مداخلت کی قیمت کے طور پر ادا کرنا پڑی ۔ اور اس
ٹرولنگ کی برداشت پر دوسری جماعتوں کے
قائدیں فوج پر انگلی بھی اٹھا رہے ہیں کہ تحریک انصاف کے قائدیں کے ساتھ اب بھی
لاڈلوں والا سلوک کیا جارہا ہے ۔ کیونکہ ماضی میں اگر کوئی فوج پر معمولی سی بات
بھی کرتا تو اس انتہائی سخت رد عمل کا
سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ تو اس سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ یہ
لاڈ نہیں بلکہ اپنی نیوٹریلٹی کو ثابت کرنے کی کوشش ہے اور وہ اپنی سابقہ غلطیوں کی قیمت چکا کر بھی اپنے کردار کو آئینی حدود میں رکھنا چاہتے ہیں ۔
<o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایک صحافی کے سوال پر کہ آپ نے عمران خان کے ساتھ جو آپ کا شفقت بھرا رویہ ہے یہ کسی اور کے ساتھ تو نہیں
رہا جس پر انہوں نے یہ کہا کہ کہ اگر کوئی پاکستان کے کسی ادارے پر الزامات لگاتا
ہے تو آئینی طور پر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس پر ایکشن لے ۔اور ان کا یہ موقف سو فیصد ٹھیک تھا ۔ یہ
حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اداروں کے آئینی اقدامات پر ان کو مکمل تحفظ اور
بے جا اٹھنے والے الزامات پر قانونی ایکشن لے ۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ارشد شریف کی شہادت پر ان کے خلاف جو الزامات کا سلسلہ جاری
تھا اس پر بھی انہوں نے معلوم حقائق کی روشنی میں وضاحت پیش کی اور بتایا کہ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ
وہ اس پر غیر جانبدارانہ تحقیق کرکے حقائق قوم کے سامنے لائیں اور اس تحقیق میں سے
اپنے آئی ایس آئی کے نمائندے کو بھی صرف اس لئے ہٹا لیا ہے کہ غیر جانبداری پر
کوئی انگلی نہ اٹھ سکے ۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب اس پریس کانفرنس کے بعدجس جس نے بھی اس طرح کے الزامات لگائے ہیں ان کی ساکھ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ابھر آیا ہے ۔ جس میں وہ تمام صحافی ، سیاستدان شامل ہیں جنہوں نے اس طرح کے آزادی اظہار رائے
کے حقوق کا استعمال کرتے ہوئے الزامات
لگائے ہیں اوران کی وضاحت دینا بھی ان کا ہی فرض ہے ۔<o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">فوج کی پریس کانفرنس میں زیادہ تر اشارے تحریک انصاف کے
موجودہ سیاسی پس منظر میں کردار کی طرف جاتے ہیں ۔ اور اگر ماضی کی تاریخ کے
حوالوں سے دیکھا جائے تو صرف فوج کو ہی ریاست میں مداخلت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا بلکہ اس میں سیاستدانوں کا بھی
حصہ ہے جو اس کھیل میں شامل رہے ہیں اور
آج بھی دہرائے جارہے ہیں اس طرح عدلیہ کے
فیصلے بھی نظر انداز نہیں کئے جاسکتے ۔<o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">تو اس سارے منظر نامے کو سامنے رکھ کر دیکھیں تو آج یہ بات واضح ہوکر سامنے آرہی ہے کہ جب فوج اپنے آپ کو غیر جانبدار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے تو
سیاستدانوں کا ایک گروہ ان کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ اپنے کردار کو جاری
رکھیں دوسرے لفظوں میں انکو بلیک میل کیا
جارہا ہے کہ اگر انہوں نے ان کا ساتھ نہیں
دیاتو پھر ان کی سابقہ غلطیوں کے حوالوں سے نشانہ بنایا جاتا رہے گا۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آئینی حدود اور اختیارات تو اپنی جگہ مگر ہماری صورتحال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا مسئلہ
محض سیاسی یا آئینی نہیں رہا بلکہ اخلاقی بن چکا ہے ۔ کہ ہم خودنمائی کی اس حد تک پہنچ
چکے ہیں کہ جہاں ہمیں انفرادی طور پر اپنے آپ کے سوا کچھ دکھائی ہی
نہیں دیتا ۔ صرف اپنا قول و فعل ہی سچائی کے قریب لگتا ہے اور اسی کو ہم میعار سمجھتے ہیں جو انتہائی خطرناک صورتحال ہے ۔ ہماری سوچ پر ہمارے اس عمل
کی اس قدر دھاک بیٹھ چکی ہے اورمعاشرے نے اس رواج کو اس طرح اپنا لیا ہے کہ اب اس
خود غرضی کو برا بھی نہیں سمجھا جاتا ۔ تو اس سوچ کا شاخسانہ جہاں بھی نمودار ہوتا
ہے وہ اپنا رنگ دکھا کر ملک وقوم کو نقصان
پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"> ہم سب اسی دھرتی کے
سپوت ہیں مگر درج بالا سوچ کے حامل جب کسی عہدہ اختیار یا طاقت پر پہچتے ہیں
تو وہاں ان کی سوچ کے عمل سے خرابی شروع ہوجاتی ہے ۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے ہمیں ہمارے معاشرتی ماحول کو اخلاقی تربیت سے آراستہ کرکے بدلنے کی ضرورت ہے ۔<o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب سوچنے کی ضرورت یہ ہے کہ ہمیں اب ماضی کی غلطیوں کو
تھوڑی دیر کے لئے بھلا کر اگر سب سٹیک ہولڈرز واقعی ملک میں آئین کی پاسداری کو
یقینی بنانے کے بارے مخلص ہیں تو پھر سب سر جوڑ کر بیٹھیں اور مستقبل میں غیر آئینی اقدامات کی خدشات کو ختم کرنے کے لئے
کوئی لائحہ عمل بنا کر اس کو عمل میں
لانے کاآغاز کریں ۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">جب فوج اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو
آئینی حدود میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ بات بذات خود ایک اعتراف ہے اور کوئی
بھی اس حقیقت سے انکاری نہیں اور دوسری
طرف عدلیہ اور سیاستداں بذات خود بھی اپنے آپ کو اس سارے غیر آئینی عمل سے بری الزمہ کرار نہیں دے
سکتے تو پھر اس اعادے کے بعد بار بار
باتوں کو دہرانے کی بجائے اُس غیر آئینی سوچ کے دہرائے جانے کے خدشات پر قدغن
لگانے کی ضرورت ہے ۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ہم جس جمہوریت کے سفر پر رواں ہیں اس کے ابھی ہم نے کئی
مراحل طے کرنے ہیں ۔ اور سب سے مشکل دورانیے کا آغاز ہوچکا ہے ۔ جب غیر ذمہ دار معاشرے کو یکدم آزادی اور آزادی اظہار رائے کا حق مل جائے
اور اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہ ہو تو پھر ایسے معاشروں کا شر ہی بہت بڑا چیلنج
بن جاتا ہے جس کا آج کل ہم سامنا بھی کر رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر اس آزادی اظہار
رائے نے جو گل کھلائے ہوئے ہیں اس سے شائد شیطان بھی پناہ مانگ رہا ہو ۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">جب ہم پارلیمانی نظام سے مستفید ہونے کی بات کرتے ہیں تو
پھر ہمیں اس پارلیمانی نظام کی کامیاب مثال برطانیہ میں ملتی ہے جہاں پچھلے ایک
ماہ میں تین وزیر اعظم بدل گئے ہیں مگر کوئی غیر اخلاقی بات نہیں ہوئی ، کسی بھی
عالمی طاقت یا کسی دوسری ریاست پر الزام نہیں لگایا گیا ، کسی نے کسی ادارے کی
مداخلت کا ذکر تک نہیں کیا ۔ آپ ان کے پارلمنٹ ہاؤس میں ان کے بحث مباحثے کو دیکھیں تو کتنے تحمل ، تدبر اور
شائستگی کے ساتھ وہ باری باری ایک دوسرے کو کتنے دھیان سے سن رہے ہوتے ہیں اور چند
قطاروں میں آگے پیچھے بیٹھ کر اپنے مسائل
کو زیر بحث بھی لا رہے ہوتے ہیں ، اعتراضات بھی اٹھ رہے ہوتے ہیں ، جواب
بھی دئے جارہے ہوتے ہیں اور ان پر عملدرآمد بھی کروایا جارہا ہوتا ہے ۔ اور جو بات
انتہائی دلچسپ ہے وہ یہ ہے کہ ان کا آئین کسی کتابی شکل میں نہیں ہےاور انہوں نے
پھر بھی اس کو ایک رواج کے طور پر اپنا یا ہوا ہے ۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب اس سارے ماحول کو اپنے پارلیمنٹیرین سے موازنہ کرکے
دیکھیں تو رونگٹے کھڑے ہوجائیں گے کہ ہمارے شاہانہ نما پارلیمنٹ میں خودنمائی کے
دلرادہ ہمارے نمائندگان کیا کیا گل کھلاتے ہیں ۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کسی بھی ادارے کی عزت و تکریم اس میں موجود لوگوں کے اعمال
اور کردار سے جڑی ہوئی ہوتی ہے ، انہوں نے خود ہی اپنے نظام کی کامیابی کو ممکن بنانا ہوتا ہے اور اگر وہ خود ہی اپنے مسائل کو وہاں سے اٹھا
کر چوک چوراہوں میں پہنچ جائیں اور پھر دوسروں پر انگلیاں اٹھانی شروع کردیں کہ
وہ ان کا تماشہ کیوں دیکھ رہے ہیں تو پھر زمانہ محو حیرت تو ہوگا ۔ <o:p></o:p></span>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور پھر ستم کی بات یہ ہے کہ اپنی غلطیوں سے نظریں ہٹانے کے
لئے نظام کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں ۔</span> Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-70566291970288297132022-10-25T23:25:00.007-07:002022-10-25T23:40:44.881-07:00عاصمہ جہانگیر کانفرنس آزادی اظہار رائے کا استعارہ ۔<div class="separator" style="clear: both; text-align: left;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEibPGF2ea2pt6KoW4PHnjpJiu5fOropy3o4_sfUnfpifBQY3sJ-oE-NJVNpCYSTtVfnUVgB3x1fC_BeioSmrnsipmWc3D0TBB6VpkSZfskpt9lO4f-BH1NfGGxRqrHlR1dAW3og7ABcOCJYGD_mfGZsKcsVOb4qfCjMkM68l-ky8rKktVdXZnxIsirS4w/s290/Asma%20Jahangeer%20conference.jpg" imageanchor="1" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="174" data-original-width="290" height="174" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEibPGF2ea2pt6KoW4PHnjpJiu5fOropy3o4_sfUnfpifBQY3sJ-oE-NJVNpCYSTtVfnUVgB3x1fC_BeioSmrnsipmWc3D0TBB6VpkSZfskpt9lO4f-BH1NfGGxRqrHlR1dAW3og7ABcOCJYGD_mfGZsKcsVOb4qfCjMkM68l-ky8rKktVdXZnxIsirS4w/s1600/Asma%20Jahangeer%20conference.jpg" width="290" /></a></div>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">یہ کانفرنس<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>عاصمہ
جہانگیر کی وفات سے جاری ہے اور ہر سال اس کانفرنس میں انسانی حقوق کی آوازیں پہلے
سے زیادہ بلند ہوتی جارہی ہیں ۔ اور مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ عاصمہ جہانگیر کا مقصد
زندگی ان کی موت کے بعد اور بھی زیادہ سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔
کارنفرنس<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کے دنوں کا ماحول دیکھ کر <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں انسانی حقوق کے
عملدار آواز حق کو بلند <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کرنے کے لئے اس
ساز گار ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلا خوف خوب دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ۔ ایسی
ایسی آوازوں کو موقعہ ملتا ہے جن کا بوجھ عام حالات میں میڈیا تو کیا سوشل میڈیا
بھی اٹھانے سے گھبراتا ہے ۔<o:p></o:p></span>
</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کوئی تو ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جہاں ان خوفوں ،<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نفرت کے لاوؤں ، شہریوں کے تحفظات ، اپنوں کے
شکووں اور ڈر کے خوف سے چھپے اور دبے ہوئے خیالات کو باہر آنے کا موقعہ ملے وگرنہ
یہ بہت بڑا خطرہ بن جاتے ہیں ۔ حد سے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>زیادہ خوف کا ماحول بھی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ریاست کی
کمزوری<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہوتی ہے جو کبھی بھی دشمن کے ہاتھ
لگ سکتی ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس لحاظ سے تو یہ ٹھیک ہی ہے کہ شکوے شکایتیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کرنے اور دل کا حال جاننے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا موقعہ ملتا ہے ۔ دل کی حالتیں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>زبان پر آتی ہیں اور اندر ہی اندر دبے لاووں کے
پریشیر کو کم ہونے کا موقعہ ملتا ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>۔مگرعقل<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وشعور <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا
یہ تقاضہ ہے کہ اس کو محض ایک روائتی مشق سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ اس
پر توجہ دیتے ہوئے دکھتی نبض کی علامات سے قومی بیماریوں کی تشخیص اور اس کا صحیح
علاج<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ڈھونڈنا چاہیے تاکہ پوشیدہ خطرات کو ختم کیا
جاسکے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس دفعہ پچھلی کانفرنس<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>کی بجائے شکائتوں اور شکووں میں تیزی<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>نظر آتی ہے ۔ پچھلی دفعہ تو وہاں زیادہ تر مقررین اپوزیشن سے تھے اور جن
حکومتی شخصیات کو بلایا گیا تھا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انہوں نے
بھی اجتناب ہی برتا تھا اور جو چیف جسٹس صاحبان کی موجودگی میں تحفظات<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نے بے قابوپن کا مظاہرہ کیا تھا جس <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی گونج <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بعد میں بھی کافی مہینے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سنائی دیتی رہی ۔ مگر اس دفعہ حکومتی شخصیات کی
انتظامی سربراہی میں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یہ حقوق کے
اظہار<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سلسلہ جاری رہا۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور جو نعرے وہاں
گونجتے رہے وہ دہرانے یا بیان کرنے کے قابل نہیں ۔اور وہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہمارے سیاسی و انتظامی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>حالات میں تو شائد پبلش کرنے کی اجازت ، جرات<span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>یا
درجہ نہ رکھتے ہوں مگر دوسری طرف<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس بات
سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج سوشل میڈیا کے دور میں کچھ بھی کسی سے چھپا
ہوا نہیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور لمحوں میں پاکستان ہی نہیں
دنیا کے کونے کونے میں پھیل بھی چکے ہونگے۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">حکومتی نمائندوں کو وہاں ان کی موجودگی میں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>صحافت کی زبان سے ان کے منہ پر تھپڑ پڑنے تک <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی بات ہوئی اور ان کو وہ آئینہ دکھانے کی کوشش
کی گئی جس سے وہ چہرہ چھپا رہے تھے ۔ اور لوگوں نے وہاں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کی بے بسی کو منہ چھپاتے بھی دیکھا ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وہ ڈھٹائی سے سب کچھ سنتے رہے اور کچھ خوددار
وہاں سے اپنے عہدے کا خیال رکھتے ہوئے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اندر باہر کے چکر بھی لگاتے رہے ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">یہ کانفرنس پچھلی کانفرنسز سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ
اس کی پاداش<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وزیر <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>قانون کو اپنے عہدے کی قربانی بھی دینی پڑی اور وزیر
خارجہ پر دباؤ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بھی سننے میں آرہا ہے ۔ سپریم
کورٹ بار کے صدر محمد احن بھون نے تو اس کی وجہ ججز کی تعیناتی میں دیئے جانے والے
ووٹ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو کہا ہے لیکن<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں سمجھتا ہوں کہ اس میں زیادہ اثر کانفرنس
میں ان کی موجودگی میں قابل اعتراض تقاریرکا ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جن میں اداروں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ووٹ اسلئے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وجہ<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>نہیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کیونکہ وہاں تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انہوں نے اپنے بیانیے کے خلاف<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>استعمال <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کرکے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اپنی وزارت کو بچانے کی کوشش کی تھی وگرنہ ان کو
ووٹ دینے سے پہلے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا ۔ اور اس ووٹ کی سیاست نے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>عاصمہ جہانگیر گروپ کی وکلاء کے اندر <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مقبولیت <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو بھی متاثر کیا ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس کا اندازہ ان کو اگلے الیکشن میں معلوم ہوگا
۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایک اور بات جو نوٹ کرنے کے قابل نظر آئی وہ یہ تھی کہ
پچھلی کانفرنس میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس اور صوبائی اعلیٰ عدالتوں کی چیف
صاحبان نے بھی شرکت کی مگر اس دفعہ فقط جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی نظر آئے جنہوں نے
ہوش ربا اور سبق آموز<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>خیالات کے زریعے سے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تاریخ کے حوالوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے ریاست کے ہر ذمہ دار کو باور کرانے اور عوام
کو ان کے حقوق کی نشاندہی کرکے جمہوریت ، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی
پاسداری میں ممد و معاون قوانیں اور طریقہ کار کو مختصراً مثالوں اور حوصلہ
افزاء<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>انداز<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بیان سے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>آگاہ کرنے کی کوشش کی جو واقعی سامعین کے لئے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہمارے نظام عدل کے مستقبل کے متعلق ایک امید کی
کرن تھی۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس کانفرنس میں پاکستان کی تاریخ کے حوالوں کے سہارے ریاست
کے ہر جبر، آمریت، لاقانونیت، جمہوریت کو لاحق خطرات<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جس جرات کے
ساتھ بیان اور للکارا جاتارہا ہے وہ نہ تو جھوٹ ہے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>، نہ ہی کسی سے پوشیدہ ہیں اور نہ ہی ان کو
دبانے کی کوئی تدبیر کامیاب ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">وہاں جن خیالات اور سوچوں کا اظہار ہوتا رہا وہ قطعاً بھی
نظر انداز کرنے والی نہیں ۔ اور ان <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پیچھے
چھپی بے بسی خطرات کا عندیہ دیتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ اس پر ریاست کے انتظامی امور
کی حامل طاقتوں کا صرف یہ کہہ دینا کہ اداروں پر تنقید اچھی نہیں ہوتی کافی نہیں ۔
بلکہ حقائق کو سمجھتے ہوئے اس کے سدباب کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ان سوچوں اور خیالات سے چھلکتی نفرتوں کو محبتوں کی چادر کی
ضرورت ہے ۔ ان کو اگر غلط فہمیاں ہیں تو <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بھی ان کو دور کرکے ان کو گلے لگانے کی ضرورت ہے
۔ قانون انسانوں اور معاشروں کی بھلائی کے لئے بنائے جاتے ہیں ۔ سزا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>و جزا کا تصور خوف<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>پیدا کرکے معاملات کو صحیح رکھنے کی غرض<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے متعارف کروایا جاتا ہے ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ان کے بے جا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>یا تسلسل کے ساتھ استعمال سے ان کے پیچھے پوشیدہ جرائم <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے بچاؤ اور ان سے نمٹنے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کی حکمت
عملی کمزور پڑتی جاتی ہے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ہماری تاریخی قومی بے وقوفیوں نے اعتماد ،<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>باہمی محبت<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>، رواداری اور یکجہتی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو بری طرح
سے متاثر کیاہے اور اب وہ تمام حربے جو ناانصافیوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور غیر مساویانہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اعمال کے نتائج کو دبانے کے کام لائے جاتے رہے
ہیں وہ بے اثر ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کسی انسان کو تکلیف یا موت سے ڈرایا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہی جاسکتا ہے اور اگر وہ خود ہی<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سولی پر لٹکنے کے لئے تیار ہوجائے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ناقابل تسخیر بن جاتا ہے ۔ ماضی
کی غداری اور حب الوطنی کی تعریفیں اور مثالیں اب اپنے اثرات کھوتی ہوئی دکھتی ہیں
۔ اب ان قائم کی گئی حدود کو کراس کرنے کا خدشہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہی نہیں بلکہ عبور ہوتی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہوئی نظر آرہی ہیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اب ان کا علاج صرف اور صرف<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>محبت ، انصاف اور مساویانہ برتاؤ سے ہی ممکن
ہے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">صاحب اختیار اور اقتدار طاقتوں سے گزارش ہے کہ اب تادیبی
کاروائیوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اس
کا پائیدار حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے اور تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مخلصانہ طور پر یقینی بنا کر ان شکائتوں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>، خدشات ، غلط فہمیوں اور تحفظات کو دور کرنے
میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وگرنہ کہیں
ایسا نہ ہو کہ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بہت دیر ہوجائے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور اس میں سب سے زیادہ ذمہ داری سیاسی طاقتوں پر آتی ہے کہ
وہ اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>مخلصانہ کوشش میں اپنی نیت<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور عمل
سے اس کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>تقویت بخشیں ۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span></span></span></span></span></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-18051062143147955622022-09-15T23:25:00.007-07:002022-09-15T23:36:10.037-07:00علم نجوم کی سیاسی، سائنسی اور قانونی حیثیت<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiP2z53DbIOFRUnxJF5UiYdnb8M7IxybEMLDncAjqUen9MyPNmM0GBy3i6ZBxtcC7B3CDWLacCh9NR4OZmf55EsUurniDTbEfRCLi-tSdHLgpl54IvZiIY3km-c-IEwkJSrOTGA4K6W2eoJ60J5gO9Pup3rq6FYA7onjtSv5JTzGhK_rGTTqxzRp1f3XA/s940/astorology%20thumbnail.png" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="788" data-original-width="940" height="268" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEiP2z53DbIOFRUnxJF5UiYdnb8M7IxybEMLDncAjqUen9MyPNmM0GBy3i6ZBxtcC7B3CDWLacCh9NR4OZmf55EsUurniDTbEfRCLi-tSdHLgpl54IvZiIY3km-c-IEwkJSrOTGA4K6W2eoJ60J5gO9Pup3rq6FYA7onjtSv5JTzGhK_rGTTqxzRp1f3XA/s320/astorology%20thumbnail.png" width="320" /></a></div>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">قسمت اور مستقبل کا حال بتانے کو کچھ لوگ علم
کہتے ہیں اور بہت سے لوگ اس پر یقین بھی رکھتے ہیں ۔ جن میں سیاستدان اور مشہور
شخصیات بھی شامل ہیں اور آجکل پاکستان کی سیاست میں اس کی بنیاد پر بڑے بڑے مشہور
ٹی وی چینلز پر نام نہاد نجومیوں کو بلا کر پروگرام کئے جاتے ہیں اور پھر ان کی
تشہیر بھی کی جاتی ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کی سچائی کے بھی خود ساختہ
دعوے اور چرچے کئے جاتے ہیں ۔ <o:p></o:p></span>
</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سادہ عوام ان کو دیکھ کر یقیناً تاثرات بھی لیتے
ہونگے اور ان کی بنیاد پر جب بڑے بڑے نامی گرامی اینکرز پروگرامز میں ان کا پرچار
کرتے ہیں اور پھر ان کو ماضی سے جوڑ کر ان نام نہاد نجومیوں کے دعووں کو سچا بھی
ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف عوام میں رائے ہموار ہوتی ہے بلکہ لوگوں
کی ذہن سازی بھی کی جارہی ہوتی ہے ۔ اور لوگ اس پر یقین کرتے ہوئے اپنے خیالات اور
سوچوں کو بھی بدلتے ہیں اور اس سے متاثر ہوکر اس کے پرچار کا حصہ بھی بنتے ہیں اور
پھر ایک رجحان کے زریعے سے خود بھی اس قسمت کا حال جاننے کے علم کا حصہ بنتے ہیں
اور ان نجومیوں کے ہتھے چڑھ کر نہ صرف اپنی دولت ضائع کرتے ہیں بلکہ مختلف توہمات
پرستی پر مبنی شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا بھی شکار ہوجاتے ہیں ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">میں یہ بتاتا چلوں کہ ایک بات بہت ہی واضح ہے کہ
اس کی اب تک کوئی بھی سائنسی طور پر حیثیت نہیں اور نہ ہی سائنس اس کو تسلیم کرتی
ہے ۔ اور نہ ہی اس کو دنیا میں یا پاکستان میں کوئی قانونی تحفظ حاصل ہے ۔ نہ ہی ان
خدشات کو کسی عدالت میں ثبوت کا درجہ حاصل ہے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پہلے سیاسی بابے ہوا کرتے تھے اور طوطوں سے
فالیں نکلوانے کے لئے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر جہالت کے سہارے اپنی دال روٹی چلا رہے
ہوتے تھے اب تو جوانیاں گھائل ہوتی جارہی ہیں اور جدید نام نہاد علم نجوم کے
ماہرین فائیو سٹار ہوٹلز میں قیام کرتے ہیں اور لوگوں کے نصیبوں سے کھیل رہے ہوتے
ہیں ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اب تو یہ سائنسی علوم کی بھی ایسی تیسی کر رہے
ہیں ۔ ہماری سیاست میں سیاسی علوم اور اصول و اسلوب بھی ان کی مرہون منت لگ رہے
ہیں ۔ اپنی افواہوں اور پشینگوئیوں سے یہ کسی کو وزیر اعظم کی خوشخبری دے رہے ہوتے
ہیں تو کسی کو جیل میں بند کروارہے ہوتے ہیں کسی کے جہاز کو گرا رہے ہوتے ہیں تو
کسی کو گولی مروا رہے ہوتے ہیں۔ اتنی چالاکی سے تمام ممکنات کو گوں مگوں کے مسالے
میں تڑکہ لاگا کر پیش کرتے ہیں کہ کل اگر غلط بھی ثابت ہوتے ہیں تو کوئی نہ کوئی شک
کے شبہ کا جواز مہیا کرکے اپنے جھوٹوں پر پردہ ڈال سکیں ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور پھر ان پشینگوئیوں سے سیاسی انتشار اور غیر
یقینی کی صورتحال کو جنم دے رہے ہوتے ہیں ۔ کچھ اسی سوچ کے صحافی بھی ان کے ساتھ
ملے ہوئے ہیں اور جیسے صحافیوں پر لفافی کے الزامات لگتے رہتے ہیں اسی طرح کیا پتا
ان کے بھی مقاصد کے پیچھے لفافوں کا ہی ہاتھ ہو کہ یہ اپنے اندازوں سے کسی کو
نقصان تو کسی سے فائدہ دینے کی اجرت وصول کر رہے ہوں ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"> کچھ اس
کو مذہب کا درجہ دینے کی بات کرتے ہیں وہ ان خیالات اور سوچوں کو اخلاقی پہلوؤں سے
جوڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں لیکن میرے خیال میں تو اس کا اخلاقیات سے کوئی تعلق
نہیں بلکہ اس طرح کی سوچوں والے خود علم نفسیات کے ابواب کا موضوع ہیں اور ان کے
اندر ایک خاص سوچ اور خیال غالب ہوتا ہے جو نفسیاتی مرض کا درجہ رکھتا ہے ۔ مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں اس کی چیدہ
چیدہ مثالیں تو تھیں مگر اس کی دور جدید میں اصل بنیاد بھی انڈیا سے شروع ہوئی ہے
اور اس طرح اس کو توہمات پرستی کی ایک جدید صورت کہا جاسکتا ہے ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">بلکہ مذاہب نے تمام علوم کی حوصلہ افزائی کی ہے
مگر علم نجوم اور ہاتھوں کی لکیروں کے زریعے سے احوال کو جاننے اور جادو ٹونے وغیر
کی طرز کے اعمال کی حوصلہ شکنی کی ہے ۔ تو
معلوم ہوا کہ اگر اس طرح کے علوم انسان کے لئے فائدہ مند ہوتے تو ادیان الہی میں
ان کی نفی نہ کی گئی ہوتی ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اگر جھوٹی خبروں کو پھیلانا جرم ہے تو پھر خدشات
کی بنیاد پر جھوٹی افواہوں کو پھیلانا کیا جرم نہیں؟ اور ان کی بنیاد پر
افراتفری کو ہوا دینا ملک کی سیاسی صورتحال کو خراب کرنا اور سیاسی عدم استحکام
پیدا کرنا جرم نہیں جس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت بھی بری طرح سے متاثر ہورہی ہے
۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ویسے بھی جو علم احوال کے بارے خدشات تو رکھتا
ہو مگر ان کی تبدیلی بارے کوئی اس کے پاس اختیار یا حل نہ ہوتو ایسے علم سے تذبذب
، انتشار اور مایوسیوں کی امید تو کی جاسکتی ہے مگر بہتری کی توقع ممکن نہیں ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کسی بھی طرح کے خیالات اور سوچوں پر عمل پیرا
لوگوں کے پاس اپنی تسلی اور پیروکاروں کے اطمنان کی خاط دلائل تو موجود ہوتے ہیں
مگر ان کی بنیاد پر سائنسی ہونے کی کوئی شہادت نہیں ملتی اور نہ ہی کوئی عقلی جواز
سے رشتہ بنتا ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ
معاشرے کو اس طرح کے بگاڑ پیدا کرنے والے خیالات پر مبنی لٹریچر سے دور ہی رکھا
جائے اور عوام کو اس کے نقصانات سے بچانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">لہذا حکومت کو اس پر نوٹس لینا چاہیے اور پیمرا
کو بھی اس طرح کے پروگرامز پر پابندی لگانی چاہیے ۔ پاکستان میں اس طرح کے اندازوں
کی قبولیت یا ان کے سدباب کا کوئی واضح قانون تو موجود نہیں مگر اس طرح کے خدشات
اور افواہیں جو انتشارپھیلانے کا باعث بن رہی ہوں بارے قوانین ضرور موجود ہیں جن
کے اطلاق سے ان مداریوں سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکتا ہے<o:p></o:p></span></span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;"></span></span></span></span></span></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0tag:blogger.com,1999:blog-5282341345065557713.post-16982663707844717392022-09-11T01:48:00.007-07:002022-09-13T18:12:18.388-07:00زبان سیکھنے کا فن<div class="separator" style="clear: both; text-align: center;"><a href="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhhfU--w4idJQlwl2kEF5R6yNertDnMTj760NAKz5LSzkO80xtsQkLJjY79HQFa6FQVU5HX2EvpQ072Aq_xK7X9iz7oQ8z4oc3IOnVFEK_sfTEMoHKW-AbP5GUSI0PUkXJFe9192b9ZnuQ5Ddi99rCPLunrJVcCNIfvc5A-IuXcDJSjV37yatPTIq58qQ/s1280/Let's%20learn%20Language.png" style="clear: left; float: left; margin-bottom: 1em; margin-right: 1em;"><img border="0" data-original-height="720" data-original-width="1280" height="180" src="https://blogger.googleusercontent.com/img/b/R29vZ2xl/AVvXsEhhfU--w4idJQlwl2kEF5R6yNertDnMTj760NAKz5LSzkO80xtsQkLJjY79HQFa6FQVU5HX2EvpQ072Aq_xK7X9iz7oQ8z4oc3IOnVFEK_sfTEMoHKW-AbP5GUSI0PUkXJFe9192b9ZnuQ5Ddi99rCPLunrJVcCNIfvc5A-IuXcDJSjV37yatPTIq58qQ/s320/Let's%20learn%20Language.png" width="320" /></a></div>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">زبانیں انسانوں کے
آپس میں روابط اور معاشرت کی تعمیر کا زریعہ ہوتی ہیں ۔ زبانیں تہذیب تمدن کے
پروان چڑھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور کسی بھی قوم یا قبیلے کی پیچان
بھی ہوتی ہیں ۔ <o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور اگر کسی کے ساتھ رابطہ یا معلومات کو شئیر کرنا ہوتو
اسکی زبان کو جاننا ضرورت بن جاتا ہے ۔<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>علم کا حصول بھی زبان کے علم کے بغیر ممکن نہیں اور اس وقت دنیا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں جس زبان کو سیکھنا ہر اعتبار سے دنیا کی
مجبوری بنی ہوئی ہے وہ انگریزی زبان ہے ۔ گو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اس ضرورت کو کافی حد تک پورا کردیا ہے مگر زبان
کو سیکھنے کی افادیت سے پھر بھی انکار ممکن نہیں ۔ کچھ <a href="https://www.youtube.com/watch?v=TBrRifU8RYo" target="_blank">آسان سے طریقے</a> درج ذیل ہیں <o:p></o:p></span></span></p>
<p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">کوئی بھی زبان سیکھنے کے لئے پانچ سے چھ سو لفظوں کو سیکھنے
کی ضرورت ہوتی ہے جو اتنا زیادہ زخیرہ الفاظ نہیں ۔ اور یہ زبان دانوں کی تحقیق ہے
کہ بچہ جب بولنا سیکھتا ہے تو وہ پہلے پانچ چھ ماہ صرف سنتا رہتا ہے اور پھر چھ
ماہ کے بعد وہ چھوٹے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>چھوٹے ٹوٹے پھوٹے فقرے
بنانا شروع کرتا ہے <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>۔ لیکن چند باتیں قابل
غور ہیں جن میں پہلی بات یہ ہے کہ بچے بغیر کسی کوشش کے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سیکھتے ہیں اور دوسرا ن کا سیکھنے کا کوئی
ارادہ نہیں ہوتا <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس کی وجہ سے وہ ذہن پر
اس کا دباؤ بھی نہیں لیتا ۔ اس کو یہ خوف نہیں ہوتا کہ وہ کتنا مشکل کارم کر رہا
ہے بلکہ وہ شوق سے کر رہا ہوتا ہے ۔ وہ بلا ارادہ ماحول سے سنتا رہتا ہے اور اس
طرح یہ سننا اس کے زبان سیکھنے کا سبب بن جاتا ہے ۔ دوسری توجہ طلب<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بات یہ ہے کہ<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>بچے کو یہ احساس نہیں ہوتا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کہ وہ
غلط کہہ رہا ہے یا صحیح تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ
بولنے کی مشق کرتے ہوئے یہ پریشانی نہ ہو کہ میں صحیح بول رہا ہوں یا نہیں ۔<o:p></o:p></span>
</span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اسی طرح ایک اور اہم بات یہ ہے کہ کبھی بھی زبان سیکھتے وقت
غیرزبان دانوں کو نہ سنیں ۔ ہمیشہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اہل
زبان کو ہی سنیں ۔ اور اہل زبان میں سے بھی کسی<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>اپنی پسند کی مشہور شخصیت کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>جس کی
آواز<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اور لب و لہجہ آپ کو پسند ہو اس کو
سننے کی عادت بنا لیں ۔ جس طرح سیرت کی کتابوں میں ہم پڑھتے ہیں کہ اس وقت بچوں کو
دیہاتی علاقوں میں بھیجنے کی ثقافت تھی ۔ جس طرح حضورور اکرم<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ﷺکو بھی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>حلیمہ سعدیہ کے ساتھ بھیجا گیا تھا ۔ اس کا مقصد
خالص زبان اور ثقافت کو سیکھنا ہوتا تھا ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">آپ نے مشاہدہ کیا<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>ہوگا کہ بچے جس طرح کے ماحول میں رہتے ہیں اسی طرح کی زبان بولنا شروع
کردیتے ہیں بلکہ الفاظ اور لہجہ و انداز بھی وہی ہوتا ہے ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اسی لئے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>کہتے ہیں کہ ہمیشہ کوئی بھی زبان سیکھنی ہو تو اہل زبان<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سے سیکھیں ۔ اگر ہم اپنے جیسوں سے سیکھنے کی
کوشش کریں گے تو ان کی کمیاں بھی ہمارے اندر آجائیں گی اور پھر ان کی اصلاح<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>نئے سرے سے سیکھنے سے بھی زیادہ مشکل ہوگی ۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span>
</span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور کبھی بھی شروع میں<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>اس بات پر پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ سمجھ نہیں آرہی ۔ کیوں کہ جیسا میں
نے پہلے بھی بتا یا ہے کہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بلا کوشش زبان
سیکھنے کے لئے ضروری ہے کہ بغیر کسی پریشانی اور تعطل کے چھ مہینے تک یہ سننے کا
سلسلہ جاری رکھیں تو چھ مہینے کے بعد خود بخود ہی بولنا شروع کر دیں گے اور اس
سلسلے کو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کبھی بھی صحیح غلط کا شکار نہیں
ہونے دینا چاہیے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">پھر ایک اور اہم راز یہ ہے کہ زبان ہمیشہ مجبوری کی صورت
میں ہی سیکھنا آسان ہوتی ۔ میر ا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ماحول میں آپ کے پاس جب
اس زبان کے علاوہ کوئی اور چوائس نہیں ہوتا تو پھر زبان جلدی بولنا آتی ہے ۔
دوسرا راز شوق میں ہے جب اس کے ساتھ شوق بھی شامل ہوجائے تو پھر کبھی انسان تھکتا
نہیں ہے ۔ انسان ہمیشہ نا پسند چیزوں سے اکتا ہٹ محسوس کرتا ہے ۔ محبت اور شوق سے
کبھی تنگ نہیں آتا ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس میں کوئی شک نہیں کہ مہارت کے لئے مشق کی ضرورت ہوتی ہے
اور جتنی زیادہ مشق ہوتی جاتی ہے زبان میں روانی آتی جاتی ہے ۔ جس کے لئے وقت
درکار ہوتا ہے وگرنہ کوئی بھی زبان ہو اس کے لئے جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ پانچ
سے لے کر چھ سو تک زخیرہ الفاظ چاہیے ہوتے ہیں ۔ اور ان ہی الفاط سے فقرے ترتیب
پاتے ہیں جو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بار بار ہماری گفتگو میں
دہرائے جاتے ہیں ۔ اور جب ہم کسی زبان<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>میں
روانی کو پا لیتے ہیں تو پھر ہم بغیر سوچے سمجھے بولے جارہے ہوتے ہیں ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس مہارت کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اندر یہ احساس ختم ہو کہ
ہم کوئی نئی زبان بول رہے ہیں یا یہ ہمارے لئے نئی زبان ہے یا اس کو بولنے میں
ہمیں مشکل درپیش ہے ، یا اس کو میں غلط بول سکتا ہوں ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ہمارے ذہن کے اندر یہ وہ خدشات اور خوف ہوتا ہے
جو ہمیں بولنے سے دور رکھتا ہے یا مشکل کاسبب بنتا ہے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">سیکھنے میں ہمیشہ دو باتیں رکاوٹ بنتی ہیں ایک خوف اور
دوسرا یقین ۔ آپ کہیں گے کہ خوف کی حد تک سمجھ آتی ہے مگر یقین کی سمجھ نہیں آرہی
تو اس پر پھر کبھی بات کریں گے ۔ اشارہ دیتا چلوں جب انسان یہ یقین بنا لیتا ہے کہ
وہ جو کچھ جانتا ہے ، دیکھ رہا ہے یا سن رہا ہے وہ ہی ٹھیک ہے تو پھر یہ یقین ہی
اس کے سیکھنے میں رکاوٹ بن جاتا ہے ۔ <span style="mso-spacerun: yes;"> </span><o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">تو ان خدشات اور خوف کو ختم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک تو
ہم اس فکر کے بغیر کہ ہم نے کوئی زبان سیکھنی ہے<span style="mso-spacerun: yes;">
</span>فقط اس زبان کو سننا شروع کردیں ، اہل زبان کو سنیں اور حقیقی عملی زندگی
کے بارے <a href="https://www.youtube.com/watch?v=Ug4ad4o8RTg" target="_blank">پروگرامز</a> کو سنیں ۔ جن میں خبروں اور تبصروں والے پروگرام بھی مدد گار
ہوسکتے ہیں<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>لیکن اگر ہم بول چال سیکھنا
چاہتے ہیں تو پھر ہمیں فلمیں اور ڈرامے سننے چاہیں ۔ کیونکہ عملی بول چال میں
استعمال ہونے والے الفاظ اور فقروں کا سٹرکچر روزمرہ کی بول چال سے ہی مل سکتا ہے
۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">شروع میں سمجھ آئے یا نہ آئے<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>۔ اس مشق کو جاری رکھنا چاہیے ۔ یہ مشق مشکل
ضرور ہے مگر زبان سیکھنے کا صحیح اور پائیدار حل صرف یہی ہے ۔ تھوڑا وقت لگے یا
زیادہ اس کی صحیح اپروچ یہی ہے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">تو ان ڈراموں اور فلموں کے زریعے سے ہم نے اپنا ماحول بنانا
ہوتا ہے ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">ایک اور اہم راز یہ ہے کہ جب آپ کو تھوڑی بہت سمجھ آنا
شروع ہوجائے تو<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کبھی بھی بولنے میں جھجک
محسوس نہ کریں ۔ اور دوسرا یہ کہ آپ سوچنا بھی اسی زبان میں شروع کردیں ۔ صحیح
طرح سے زبان آتی ہو یا نہ آتی ہو ، جیسی بھی آتی ہو اس کو اپنی سوچوں میں شامل
کر لیں ۔ سوچوں کا ساتھی بنا لیں ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اس سے ایک جو پہلا فائدہ ہوگا وہ یہ ہے کہ ہمارے اندر سے یہ
احساس آہستہ آہستہ ختم ہوتا چلا جائے گا کہ ہم کوئی اجنبی زبان بول رہے ہیں جو
ہمارے بولنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے ۔ اور آہستہ آہستہ یہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>مشق ہماری عادت بننا شروع ہوجائے گی اور اس طرح
یہ خود اعتمادی میں تبدیل ہونا شروع ہو جائے گی ۔ اور ہم یہ محسوس کرنا شرع کر دیں
گے کہ ہم بول سکتے ہیں ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">جب اعتماد بحال ہوگا تو سمجھ لیں کہ<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>وہ زبان سیکھنا آپ کے لئے آسان ہوگیا ہے ۔<o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اور سوچتے سوچتے ایک موڑ ایسا آجائے گا کہ بلا سوچے سمجھے
آپ بولنا شروع کردیں گے اور یہ ہی کامیابی کی طرف پہلا قدم اور <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>ثبوت ہوگا ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">لیکن کوئی بھی کام سیکھتے وقت اس کے طریقہ کار کو صحیح
رکھنا چاہیے تاکہ یہ جب آپ کی پختہ عادت بنے تو اس کے اندر غلطیوں کا احتمال بلکل
نہ ہو یا کم سے کم ہو ۔ کیونکہ اصل خطرات غلطیوں کا پختہ عادت بن جانا ہوتا ہے ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">مثلاً اگر آپ ڈرائیوری سیکھنا شروع کریں تو چاہیے کہ گاڑی <span style="mso-spacerun: yes;"> </span>کو اصولوں کے مطابق چلانا سیکھیں ۔<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>اگر شروع سے اصولوں کے مطابق عادات پختہ ہونگی
تو پھر کبھی ڈرائیونگ کے دوران غلطیوں کی گنجائش نہیں ہوگی ۔ اور جب غلطیوں کے ساتھ
ڈرائیونگ پختہ ہوجائے گی تو پھر اس کو درست کرنا انتہائی مشکل ہوجائے گا ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">اسی طرح اگر شروع سے ہی غلط تلفظ اور غلط سٹرکچر کی عادت بن
جائے گی تو پھر<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>بعد میں ان کی تصحیح
انتہانی مشکل ہوجائے گی ۔ ایک تو اہل زبان کو سمجھانا مشکل ہوگا اور دوسرا<span style="mso-spacerun: yes;"> </span>سمجھنے میں بھی دشوار ی ہوگی ۔ <o:p></o:p></span>
</span></span></span></span></p><p align="right" class="MsoNormal" style="text-align: right;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span style="font-size: large;"><span dir="RTL" face=""Arial","sans-serif"" lang="AR-SA" style="color: #274e13; line-height: 115%; mso-ascii-font-family: Calibri; mso-ascii-theme-font: minor-latin; mso-bidi-font-family: Arial; mso-bidi-theme-font: minor-bidi; mso-hansi-font-family: Calibri; mso-hansi-theme-font: minor-latin;">تو اگلے مضمون میں ہم ان الفاظوں کا زخیرہ حاصل کرنا شروع
کریں گے اور کوشش کریں گے کہ کسی اہل زبان کی آواز میں سننا شروع کریں اور میں
کوشش کرونگا کہ آپ کو شروع میں آسان سی وڈیوز تجویز کروں جن کو سننے میں دقت بھی
کم ہو اور سمجھ بھی زیادہ آئے</span><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span><span lang="ER" style="color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 26pt; line-height: 115%; mso-ansi-language: EN; mso-bidi-language: ER;"><span dir="LTR"></span><span dir="LTR"></span> </span><span lang="EN" style="color: white; font-family: "Jameel Noori Nastaleeq"; font-size: 26pt; line-height: 115%; mso-ansi-language: EN; mso-bidi-language: ER;"><o:p></o:p></span></span></span></span></span></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p><p></p>Dr Abrar Chaudhary ڈاکٹرابرارچوہدریhttp://www.blogger.com/profile/14467546094603806778noreply@blogger.com0