یہ دھرتی ہم سے پوچھتی ہے

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سپوتو یہ دھرتی ہم سے پوچھتی ہے۔ ۔ ۔

لہلہاتے کھیتوں، گرمجوش سنہری ریگستانوں، سفید پوش پہاڑوں، ندیوں، دریاؤں، وادیوں کی جنت نظیر سرزمین، سمندری ساحلوں اور خوبصورت موسمی جذبوں سے لبریز مگر پریشان حال دھرتی ہم سے شکوہ کر رہی ہے۔

میرے نام کی لاج ہی رکھ لی ہوتی! امن، محبت، عدل، بھائی چارہ، رواداری کہاں گیا سب کچھ۔ سلامتی کے مفہوم کو ہی سمجھ لیا ہوتا؟

رحمت العالمین کے نام پر قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والو

کم از کم خدا سے بغاوت تو نہ کی ہوتی، چوہتر سالوں میں سود سے ہی چھٹکارا حاصل کر لیا ہوتا، کس منہ سے مسلمان کہلاؤ گے؟

کیا مجھے مقروض کروا کر عالمی برادری میں ذلیل و رسوا کرنے کے لیے آزاد کروایا تھا، پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی چل کر آئی تھی اب تم چل کر جاتے ہو، حاصل کیا ہوا؟

کیا میرا بھی کوئی حق ہے کہ تمھاری عیش و عشرت اور شاہ خرچیوں کا حساب مانگ سکوں؟

آپ ہمیشہ نظام کی خرابی کے نعرے لگاتے ہو کیا اس کو میں نے ٹھیک کرنا ہے یا اس کو چلانا اور کامیاب کرنا آپ سب عوام اور سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے؟

آپ سب حقوق تو مانگتے ہو کبھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا بھی سوچا ہے؟
آپ کی پہچان مجھ سے ہے یا مذہب، زبان، قبیلے اور صوبائی تعصبات تمھاری شخصیت کی بنیاد ہیں؟

کیا میں نے تمھاری ضروریات، مفادات، تحفظات، اپنے آپ کو گروی رکھ کر بھی پورے نہیں کیے اور تم نے مجھے یہ صلہ دیا ہے کہ مجھے ہی لوٹ کر اپنا مال و دولت غیروں کے پاس رکھا ہوا ہے۔ کیا یہی تمھاری وفاداری ہے؟

کیا تمھاری آپس کی نا اتفاقیاں میری ممتا کو سکون دیتی ہیں یا دکھ؟

تم نے میری خاطر پردیس کا دکھ جھیلنے والوں کو کیا صلہ دیا ہے کہ آج ان کی کمائی کوڑیوں کے بھاؤ بھی نہیں رہی؟

تم نے میرے محسنوں اور حفاظت کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

کیا میں نے آپ کو اس لئے پالا پوسہ کہ جب تمھارا مقام بن جائے تو اغیار کی گود میں بیٹھ کر تم میری ہی بدنامی اور رسوائی کرو؟

کیا میرا حق نہیں بنتا کہ تم میری خاطر اپنے ذاتی مفادات اور اختلافات کو بھلا کر قومی اور اجتماعی مفادات کو ترجیح دو؟

کیا میرا حق نہیں کہ تم میری خاطر اتفاق، محبت اور بھائی چارہ کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے میرے تقدس کی لاج رکھو اور میں فخر سے کہہ سکوں کہ تم میرے غمخوار اور جانثار ہو؟

کیا مجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ تم ایمانداری اور خلوص کے ساتھ محنت کر کے میرے قرض اتار کر مجھے معاشی غلامی سے آزاد کراؤ؟

افسوس کہ تم میری طاقت بننے کی بجائے میرے ٹکڑے کرنے کے درپے ہو میں تو ابھی پہلے زخم بھی نہیں بھر پائی تھی؟

میرے زخموں کو روز تازہ کرتے ہو، چاہیے تو یہ تھا کہ پرانی یادیں اور عداوتیں بھلا کر نیا تجدید عہد کرتے اور بھائیوں کی طرح رہتے، مگر افسوس صد افسوس کہ تم ایک دوسرے کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔

مجھے شرم آتی ہے تمھاری سوچ اور غیرت پر کہ میری عصمت کی حفاظت کی بجائے مجھے ہی بدنام کرتے ہو اور اغیار سے مل کر میری جگ ہنسائی کرواتے ہو؟

مجھے ندامت ہوتی ہے کہ تم خود ہی غیروں کے ہاتھوں آلہ کار بنتے ہو پھر الزام دوسروں پر ٹھہراتے ہو۔ تم میں اگر غیرت ہو تو اغیار کی کیا ہمت؟

کیا کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی تم نے سو چا ہے کہ کس طرح میں خوشحال اور ترو تازہ ہو سکتی ہوں؟
کیا تمھارے خون اتنے سفید ہو گئے ہیں کہ تم دولت اور جھوٹی شہرت کی خاطر ایک دوسرے کا خون کر دیتے ہو؟

کہاں گیا جمہوری نظام، کہاں گئے عوام؟ کس نظریے کی بنیاد پر مجھے حاصل کیا گیا، اپنے نظریے کو ہی بچا لیتے، اس کے ٹکڑے تو نہ کرتے۔

ہم نے اس نظریے کو عمل کرنے والے اصول و ضوابط کا مجموعہ سمجھنے کی بجائے ایک تمغہ اور اگلی نسل نے اسے وراثت سمجھ لیا۔ ہم نے اس وراثت کی بٹائی کا عمل پہلی نسل سے ہی شروع کر لیا تھا۔ جس کو جو پسند آیا اس نے اس نظریہ سے نکالنا شروع کر دیا : میرے سالار نے اپنا نظریہ طے کر لیا، میرے قاضی نے اپنا، بابو نے اپنا، ملاں نے اپنا نظریہ بنا لیا بلکہ ملاؤں نے اپنے اپنے نظریات بنا لئے، سب نے اپنے اپنے نظریات پر غلاف سجا لئے اور ہر کوئی اپنے کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگا۔ یوں ہمارا نظریہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جائے، جو غلطیاں ہو گئیں، سو ہو گئیں، سوچنے کی اور غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اب ان غلطیوں سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں یا وہی غلطیاں دہراتے جا رہے ہیں۔ تو یقیناً حالات زیادہ تر غلطیوں کو دہرانے کی طرف جاتے ہوئے ہی نظر آ رہے ہیں جن کی سمت بدلنا ہوگی۔

ہمیں اپنے اپنے نظریات کو واپس اصل نظریے کے اندر جڑنا ہو گا۔ جہاں جہاں جڑتا ہے اس کو جوڑنا ہو گا اور پاکستان کے نظریے کو اپنی اصلی حالت میں واپس لانا ہو گا۔ مشکل ہی سہی مگر ناممکن تو نہیں۔ اسی میں بہتری اور امن کا حل ہے


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں