احتساب کہاں سے شروع ہونا چاہیے

کسی بھی ریاست کے اندر احتساب کے بغیر حکومت سازی یا انصاف کے نظام کو شفاف اور غیر جانبدار  نہیں بنایا جاسکتا بلکہ احتساب کا عمل خود بھی انصاف کا ہی ایک جز ہے ۔ احتساب کا عمل ہی  مساوات کو یقینی بنا سکتا ہےجو جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی پہلی شرط ہے ۔  

احتساب کا تعلق  چونکہ انصاف کے عمل سے ہے اس لئے اگر نظام انصاف پرہی سوال اٹھ رہے ہوں اور ججز پر مبینہ  الزامات کے انکشافات ہورہے ہوں تو پھر چاہیے تو یہ کہ احتساب کے عمل کا آغاز بھی نظام انصاف سے ہی شروع ہو۔  کیونکہ نظام انصاف ہی ریاستی معاملات کو آئین و قانون کے مطابق چلانے کی ضمانت دے سکتا ہے ۔ اگر کہیں بدعنوانی ہوتی ہے یا کسی کا حق مارا جاتا ہے تو اس کی دار رسی کا آخری سہارا عدالتیں ہی ہوتی ہیں ۔اور اگر عدالتیں  خود ہی خطرات  کا شکار ہوچکی ہوں تو پھر ریاست کے امن ، تحفظ اورترقی کی ضمانت  کون دے گا۔  

ہمارے آئین میں نظام انصاف کو خود مختار حیثیت  دی گئی ہے اور اس میں احتساب کےعمل کو بھی بہت ہی شفاف ،غیرجانبدارانہ اورخوددار  طریقہ سے متعارف کروایا گیا ہے مگراس پرعمل درآمد تعطل کا شکار ہوچکا ہے جس کی وجوہات  اختیارات  کی اجارہ داری ہے جس نے غیر جانبداری، شفافیت اورانصاف کے اصولوں  کو مفلوج کرکے رکھ دیا  ہے اور صورتحال دن بدن انتہائی تشویش ناک ہوتی جارہی ہے  ۔

حال ہی میں ججز کے خلاف متعدد درخواستین آچکی ہیں اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف کاروائی کا باقاعدہ آغاز بھی ہوگیا ہے ۔ جس سے عوام میں  ابھرتا ہوا یہ تاثر کم ہوگاکہ چیف جسٹس شائد اپنے ساتھی ججوں کے خلاف درخواستوں کو نظر انداز کرنے کی غرض سے اجلاس نہیں بلا رہے ۔

ماضی میں اس طرح کے جو فیصلے ہوئے ان میں حیران کن روایات ہیں کہ اگر جج صاحب اپنی مرضی سے عہدے سے استعفیٰ دے دیں تو پھر ان کے خلاف کاروائی بھی  غیر موثر ہوجاتی ہے ۔ تو گویا کاروائی ان کے عہدے کے ساتھ مشروط ہو کر رہ گئی ہے اگر تو وہ اس کا سامنا کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر کاروائی بھی آگے بڑھے گی اور اگر وہ اپنی ریٹائر منٹ کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر کاروائی غیر موثر ہوجائے گی اور ججز کو تمام فوائد اور مراعات کے ساتھ باعزت طور پر ریٹائرمنٹ مل جائے گی ۔ ججز کا عہدہ یقیناً قابل احترام ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیےلیکن  اگر ان کے خلاف کوئی سنگین قسم کے الزامات آجاتے ہیں جو بادئ نظر میں صحیح لگ رہے ہوں تو پھر کاروائی کو ان کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ قطعاً بھی مشروط نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے ۔

پاکستان کی تاریخ میں ایک دو ججز کے احتساب کی مثالیں ہیں جن میں سے ایک تو حال ہی میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا ہے جن کو ایک سچ بولنے کی پاداش میں سزا سنائی گئی جس میں ان کے ساتھ نواز شریف کے  خلاف نیب کورٹس  کے فیصلے بارے  اس وقت کے ڈی جی  آئی ایس آئی مشورہ کرتے ہیں  اور  وہ اس کو عوامی طور پر فاش کردیتے ہیں ۔ جس کو جج کے کندکٹ کے خلاف کہا گیا۔ جس تندہی اور جلدی میں  ان کو عہدے سے فارغ کیا گیا وہ بھی اپنے اندر ایک منفرد مثال رکھتی ہے ۔

نواز شریف کو سزا دینے والا فیصلہ بھی پاکستان کی تاریخ کا  انتہائی شرمناک قسم کا فیصلہ ہے جس نے نہ صرف ہمارے نظام احتساب کو بلکہ احتساب کرنے والوں اور اس کی نگرانی پر مامور ججز کو بھی بے نقاب کر دیا ۔ ایک وزیر اعظم کو اس لئے نااہل کیا گیا کہ اس  نے اپنے بیٹھے سے تنخواہ لینی تھی اور نہیں لی  اس لئے ان کو نہ لینے والی تنخواہ کا انکم ٹیکس گوشوارے میں نہ بتانے کی وجہ سے نااہل کردیا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ اس کی تنخواہ بنتی تھی اس لئے اس کو ظاہر کرنی چاہیے تھی۔ کتنا ہی مضحکہ خیز فیصلہ ہے ۔ اوراس فیصلے کی سپریم کورٹ کے ججز نگرانی کرتے رہے ہیں ۔ فیصلہ کرنے والے احتساب کورٹ کے جج نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس کو بلیک میل کرکے اس سے فیصلہ کروایا گیا۔ اس مقدمے کا آغاز پانامہ لیکس پر ہواجس مین چارسو چھتیس لوگوں کی لسٹ تھی اورصرف نواز شریف کو سزا ہوئی وہ بھی پانامہ پر نہیں بلکہ آقامہ پراورباقی لوگوں کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوسکا جس کی پچھلے ہفتے سات سال بعد سماعت شروع ہوئی ہے اور ججز کے ریمارکس دل کو دہلا دینے والے ہیں۔

احتساب کے ادارے تو ماضی میں بھی سیاسی انتقام کے الزامات کا نشانہ رہے ہیں مگراس معاملے میں جس طرح سے ہماری اعلیٰ عدلیہ پر مبینہ الزامات ہیں انتہائی قابل افسوس بات ہے ۔ اور یہی وہ حقائق ہیں جو احتساب کے عمل کا عدلیہ سے شروع ہونے کا تقاضہ کرتے ہیں  کیونکہ ججز کے احتساب سےشفافیت اورغیرجانبداری کی توقعات مزید بڑھ جائیں گی۔

پچھلے چند سالوں میں جس طرح سے احتساب کی ہولی کھیلی گئی اوراس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک رنگوں کا چھڑکاؤ کرتے رہے ۔ جس پر دل چاہا لال رنگ چھڑک دیا اور جس پر دل چاہا  سبز چھڑک دیا۔ اس کھیل سے انصاف کے عمل کو جس طرح سے سبوتاژ کر دیا گیا ہے اس کی صفائی کے لئے کئی سال لگیں گے ۔ اس دوران بےاصولیوں کے بوئے گئے بیج اب کونپلیں نکالنے لگے ہیں ۔جن کو اب اکھاڑنا بھی کسی کے بس کی بات نہیں کیونکہ ان کے خیر خواہ  اکھاڑنے والوں سے زیادہ بھی اور بااختیار  ہیں

حکومت احتساب کے عمل میں دلچسپی تو دکھا رہی ہے اور اس بارے مختلف قانونی ترامیم بھی کر رہے ہیں جن میں سےکچھ عدالتی  پکڑ کا شکار  بھی ہیں ۔عدالتوں کا کام آئین کی تشریح اور قانون کے بننے کے عمل پر اٹھنے والے اعتراضات اور تحفظات کو دیکھنا ہوتا ہے اوریہ سب کچھ یقیناً وہ اپنے فرائض  منصبی کی ادائیگی میں کر رہے ہونگے ، لیکن جب وہ احتساب کے عمل کی شفافیت ، غیر جانبداری اور انصاف کے اصولوں  سے مطابقت بارے اتنے محتاط ہیں تو پھر ان کو اپنی عدالت اورساتھی ججز کے اوپر اٹھنے والے الزامات بارے بھی محتاط ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظام انصاف اور ریاست  کی عدالت عظمیٰ کی ساکھ کا معاملہ ہے ۔ حکومتیں جس طرح سے انتقامی احتساب  کے عمل میں ملوث رہنے سے بدنام ہوچکی ہیں تو ایسے حالات میں  آخر ی امید فقط اعلیٰ عدلیہ ہی ہوسکتی ہے مگر اس پر بھی عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لئے پہلے ان کی ساکھ کو بحال کرنا  ہوگا ۔

ایک اور بات جو انتہائی پریشان کن ہے وہ حکومت یا اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی سوچ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ  یہ ان کی توہین ہے اگر انکے احتساب کی بات کی جائے ۔ حالانکہ احتساب سے تو کسی کو بھی کوئی استثنیٰ نہیں مل سکتا اور نہ ہی کسی کو  استثنیٰ کی بات کرنی چاہیے مگر ہمارے ملک میں یہ مضحکہ خیز حرکت بھی بڑے فخر سے کی جاتی ہے بلکہ ایک فیشن بن چکا ہے۔جب خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق سے  خطبہ جمعہ کے دوران ایک عام شہری یہ سوال کر سکتا ہے کہ بیت المال سے ملنے والے کپڑے سے ہماری قمیض نہیں بنی تو آپ کی کیسے بن گئی ؟ تو آج کا حکمران ، جرنیل، بیوروکریٹ یا جج عہدے اور رتبے کے لحاظ سے ان سے زیادہ بڑا تو نہیں ہوسکتا۔  انہوں نے برا نہیں مانا اور اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کیا کہ اس کاجواب وہ دے گا۔ اور بیٹے نے کھڑے ہوکر گواہی دی کہ انہوں نے اپنے حصے کا کپڑا بھی حضرت عمر فاروق کو دیا تھا جس سے یہ قمیض بنی۔

اس مثال میں احتساب کے علاوہ برابری اور مساوات کی مثال بھی ملتی ہے  کہ ہمارے اقتدار اور اختیارات کے ایوانوں میں خزانے سے اٹھائے جانے والے اخراجات میں بھی ایک عام شہری کی زندگی  کی جھلک ہونی چاہیے ۔

اب وزیر اعظم صاحب نے ملک عرفان قادر کو احتساب کا مشیر مقرر کیا ہے جو ایک تجربہ کار وکیل ہیں ۔ وہ  اٹارنی جنرل اور جج بھی رہ چکے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ وہ احتساب کے عمل بارے اپنی سفارشات سے اصلاحات لانے میں مددگار ثابت ہونگے جن سے احتساب کے عمل کو تیز  ، غیر جانبداراور شفاف بنایا جاسکے ۔ اسی طرح سپریم جوڈیشل کمیشن  کو بھی فعال بنانے میں کوئی کردار ادا کریں گے تاکہ ججز  کی ساکھ کو مزید بہتر بناکر نظام عدل کو  زیادہ سے زیادہ مضبوط بنایا جاسکے ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں