سوچ کی غذاء

 آپ بھی اپنی خوبصورت سوچوں ، یادوں اور باتوں سے اس صفحے کو زینت بخشیں اور اپنی مختصر تحریروں کو نیچے دئے  گئے فارم کے زریعے سے بھیج کر اپنے نام کے ساتھ شامل کروائیں ۔ آپ اس بارے نیچے دئے گئے لنکس پر یو ٹیوب وڈیوز بھی دیکھ سکتے ہیں 

    وڈیوز لنکس

    غصے کو پینا سیکھئے

    جس کو غصہ پینا نہیں آتا اس کی زندگی پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ۔

    راز کی بات

    جو کوئی اپنے رازوں کا بوجھ خود نہیں اٹھا سکتا وہ دوسروں پر توقع یا شکوہ کیسے کر سکتا ہے ۔

    رازوں کے امین

    کسی کے رازوں کا امین ہونا تو خالق کی خوبیوں میں سے ہے ۔ اس خوبی کے مالک دوست کو کھونا مت کیونکہ ایسے لوگ زندگی میں بہت کم ملتے ہیں 

    باکمال لوگ

    کچھ لوگ اسباب کے ساتھ جیتے ہیں اور کچھ نظریات کے ساتھ جو واقعی باکمال ہوتے ہیں

    مسجد و ممبر کی قدر

    اگر آج ہمارے دلوں میں مسجد و ممبر کا مقام ہوتا تو یہ سارے چوہدری ، وزیر ، وزیراعظم اور صدر مسجد کے امام کیوں نہ ہوتے ؟

    مسجد کا حق

    مسلمانو خدا کا خوف کرو

    اگر مسجدوں کو اللہ کا گھر سمجھتے ہو تو ان سے مسلک, فرقے اور نظریات کے پہرے ہٹا کر اس کے بندوں کو آزادی سے عبادت کرنے دو

    مقصد تخلیق سے غفلت کے نتائج

    اپنے خالق اور مقصد تخلیق سے غافل انسان نے اپنی ضروریات , ترجیحات اور مقصد زندگی کی سمت غلط کر کے محبت اور حصول خوشی کا محور انسان کی بجائے انسان کی بنائی ہوئی چیزوں کو بنا لیا جس نے محبت , خوشی , اس کے اسباب اور محرکات کا مفہوم ہی بدل ڈالا۔

    نتیجتأ رسم و رواج ، تکلفات اور فضولیات نے اس کو بری طرح سے اپنے نرغے میں لے لیا اور یہ انہی کو زندگی کا حسن سمجھنے لگا اور اس طرح اس کے لئے اس کی اپنی ہی فطرت کے جز لازم امن و سکون کا حصول دنیا کا مشکل ترین کام بن گیا

    تقدیر، تدبیر اور اختیار

    بعض انسان تقدیر اور تدبیر پر شعوری لا حاصل بحث کے الجھاؤ سے خالق کی طرف سے عطا کردہ سب سے بڑی طاقت اپنے اختیار کو محدود کر بیٹھے۔ اور یوں فرائض ، ذمہ داریاں اور مقصد بھلا کر غیر مکلف خبطوں میں الجھ کر اپنی توانائیوں ، وقت اور صلاحیتوں کا ضیاع کر بیٹھے ۔

    مگر جنہوں نے تقدیر اور تدبیر کی اس لا حاصل کشکمش سے نکل کر کائنات کے مربوط نظام کو سمجھتے ہوئے تسخیر کائنات کی اپنی کوشش جاری رکھی انہوں نے قوانین فطرت سے مزین حصول تسخیر کے عمل سے کائنات اور تغیرات سے خالق کائنات کو پا لیا

     

    کامیاب زندگی کی ضمانت (پیروی کا جواز)

    انسانی تاریخ کی ساری کی ساری سوچ و بچارجس ہستی (محمد ﷺ) کے افکار کا مقابلہ نہیں کرسکی اس کی پیروی بلا سوچے سمجھے کرنے میں ہرج ہی کیا ہے ؟ میرے خیال میں تو اس کے لئے ان کا آج بھی دنیا کی سب سے زیادہ پر اثر شخصیت ہونے کی شہادت ہی کافی ہے

    انقلاب کے اصل محرکات 

    انسانی تاریخ میں بڑے بڑے انقلاب خون بہانے سے نہیں بلکہ اخلاق اور سوچ ( فکر و عمل ) کی طاقت سے آئے ہیں جنہیں خاموش انقلاب بھی کہا جاسکتا ہے جن کے محرک ، مجاہد اور سپہ سالار اپنے اپنے مخصوص انداز میں انسانیت کی فلاح اور امن کے لئےکوشاں رہتے ہیں۔

    یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا لالچ ، دکھلاوے اور شہرت کے شوق سے بالا تر دعووں سے زیادہ عمل پر یقین رکھنا نصب العین ہوتا ہے۔ یہ گمنام ہیرو اپنی وراثت میں نظریات ، حکمت ودانائی کی باتیں اور اقوال زریں چھوڑتے ہیں۔

    ہاں یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے جسموں پر تو موت آتی ہے مگر ان کے مقاصد زندہ و جاوید رہتے ہیں۔ ان کے پیروکار ان کے مقصد کو آگے بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔

    ایسے لوگ قوموں کے لئے بہت بڑا سرمایہ ہوتے ہیں اور قوموں کی تقدیریں اور تہذیب و تمدن انہیں کی بدولت محفوظ اور اپنے ارتقائی سفر پر قائم ودائم رہتے ہیں۔

    اس سارے معاشرتی عمل کے پیچھے صرف اور صرف ایک مثبت سوچ اور بہتری کی فکر کار فرما ہوتی ہے۔ تو معلوم ہوا کہ مثبت سوچ اور بہتری کی فکر ہی ہر انقلاب کی اصل محرک ہوتی ہے۔ 

    بیمار سوچ کی نشانی

    آزمائے ہوئے نا اہل اور بدعنوان لوگوں سے اچھی امیدوں کی وابستگی بھی بیمار سوچ ہی کی ایک نشانی ہے ۔ 

    انسان کی اصل شخصیت

    انسان کی شکل و شباہت تو فقط پہچان ہے  اصل شخصیت اس کی سوچ ہوتی ہے اور خالق کا احسان دیکھیے جو اس نے اس کے نکھار کا اختیار بھی خود انسان کو ہی سونپ دیا ہے وہ جتنا چاہے اپنی شخصیت کو سندھر بنالے

    کامیابی کی نشانی

    کامیابی کے لئے آسمان کی بلندیوں کو چھونا ضروری نہیں اس کی وسعتوں کو اپنے اندر سمو لینا ہی کافی ہے ۔

    سمجھدار اور کامیاب انسان

    سمجھدار اور کامیاب انسان وہی ہے جو اپنی تخلیق کے مقصد کو پہچان کر اپنے حصے کا کردار ادا کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہو اور اس دنیا میں دوسرے انسانوں کے کام آنے سے بڑا کوئی عمل نہیں

    غصے کی حقیقت


    غصے کا تعلق اپنائیت ، بے تکلفی اور احساس سے بھی ہے مگر اس میں سامنے والے کو کمزور سمجھنے کا تاثر بھی ہوسکتا ہے جو قابل فکر ہے ۔ اور یاد رکھئے غصے سے اخلاقی، طبی اور نفسیاتی کمزوری کا انکار تو کسی صورت بھی ممکن نہیں۔

    زندگی اور موت کا تصور

    زندگی اور موت امر الہی ہے اور کچھ لوگوں کی زندگی کو تاریخ مرنے کے بعد امر بنادیتی ہے۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کی منشاء کو اپنی حیات میں ہی دوسرے انسانوں کی خوشیوں کے لئے وقف کر دیتے ہیں۔ ایسے سمجھئے کہ وہ اپنی خوشی اور غم کو دوسرے انسانوں کی خوشیوں اور غموں سے مشروط کر دیتے ہیں۔

    جو لوگ زندگی کی حقیقت کو سمجھ جاتے ہیں ان کے نزدیک زندگی اور موت کی تعریف بدل جاتی ہی ۔ وہ اس راز کو پا لیتے ہیں کہ انسان کو اللہ نے ابدی پیدا کیا ہے۔ جس کی زندگی کی ابتداء تو ہے مگر انتہاء کوئی نہیں ۔ 

    ان کے نزدیک موت ایک ٹرانزیشن کا پراسس ہے جسکی زندگی اور موت  کا وجود ایک دور کے اختتام اور دوسرے دور کے آغاز کے علاوہ کچھ نہیں۔

    اس ابدی تصور کے راز کو پانے کےلئے اندر کے حالات کی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اندر کے حالات جب بدل جاتے ہیں تو اُس انسان کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے اور اس کیفیت کے بدلنے کا نام ہی زندگی کا امر ہوجانا ہے


    خواب مسرتوں کا ساماں تو ہوتے ہیں مگر آنکھ کھلنے تک 

    خواب کبھی کبھی مسرتوں کا ساماں تو ہوتے ہیں مگر آنکھ کھلنے تک کیونکہ ان کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ کچھ لمحوں کے لئے ان حسیں یادوں کی لزت کو اپنے ذوق کے مطابق محسوس کیا جا سکتا ہے پھر رفتہ رفتہ یہ احساس بھی معدوم ہوتا جاتا ہے۔ خواب کبھی کبھی مسرتوں کا ساماں تو ہوتے ہیں مگر آنکھ کھلنے تک کیونکہ ان کا حقیقت کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ کچھ لمحوں کے لئے ان حسیں یادوں کی لزت کو اپنے ذوق کے مطابق محسوس کیا جا سکتا ہے پھر رفتہ رفتہ یہ احساس بھی معدوم ہوتا جاتا ہے۔

    بے ضمیر امیدوں میں کوئی دم نہیں ہوتا

     بے ضمیر امیدوں میں کوئی دم نہیں ہوتا۔
    مفاد پرست حواری کبھی معرکوں میں سرخرو نہیں کروایا کرتے۔
    دائیں بائیں دیکھ کر بولنے والے کبھی دبنگ فیصلے نہیں کرسکتے۔
    بیساکھیوں کے سہارے چلنے والے کبھی اپنی ٹانگوں سے امیدیں وابسطہ نہیں کر پاتے ۔ بیساکھیاں کھڑے ہونے یا چند قدم کا ساتھ تو ہوتی ہیں مگر دوڑیں کبھی نہیں لگواتیں۔
    میدان میں اتارنے والے سب حواری جیت کے خواہاں نہیں ہوتے ، دنگل اپنے زور بازو پر ہی مارے جاتے ہیں۔
    غیر فطری لزتوں کے اسباب کبھی پائیدار خوشیوں کے حامل نہیں ہوتے۔
    کوئی سمجھ جائے تو واہ بھلا نہیں تو سلام 

    انسان کی تخلیق کا مقصد

    اگر انسان کے افضل ہونے کی بنیاد اس کا شعور ہے تو پھر اس کی تخلیق کا مقصد غور و فکر کے علاوہ ہو بھی کیا سکتا ہے ؟ تو پھر کیوں نہ اس کو تراش کر خالق کائنات کے شاہکار کو مزید قابل رشک بنایا جائے ۔

    کامیاب اورمثالی لوگ

    جو لوگ مسکراہٹ اور سلام میں پہل کو اپنی عادت ، حقیقت کو اپنا لباس ، صبر اور برداشت کو ڈھال ، خوش اخلاقی کو آلہ ، طبعیت میں ٹھہراو اور کم گوئی کو اپنی حکمت عملی بنا لیتے ہیں در حقیقت وہی کامیاب اور مثالی لوگ ہوتے ہیں۔

    انسانی ترقی کی حقیقت۔

    آج انسان کی مادی ترقی ایسے ہی ہے جیسے کوئی شیشے کے عالی شان محل کے سامنے ریت کا گھروندہ بناکر اس پر فخر کے دھوکے میں غرق ہو ۔ اگر انسان غور کرے تو فطرت کے حسیں شاہکار کے سامنے اس کی بلندوبند عمارتیں اور دوسرے سازو سامان شاید ریت کے گھروندے کی حیثیت بھی نہ رکھتے ہوں۔

    اور جس زمین پر ہم رہتے ہیں اس کا وجود اس کائنات کے اندر ایک زرے سا ہے۔

    پھر انسان اپنی ترقی اور شب و روز کی محنت کو اس کائنات کے تناظر میں دیکھ کر زرا غور تو کرے؟

    یہ تو تھی انسان کی ظاہری حالت زار

    اسی طرح انسان کے اندر کا بھی اک جہاں اور دنیا ہے جو انسان کی سوچوں پر قائم ہے جس کی بہتر حالت کو شعور کہتے ہیں۔ ان سوچوں کی بنیاد پر انسان ایک جگہ اور زمانے میں رہتے ہوئے بھی اپنی اپنی الگ دنیا میں رہتے ہیں ۔ جس کا احساس صرف اھل شعور ہی رکھتے ہیں۔

    کاش آج کا انسان اپنی مادی ترقی کے ساتھ ساتھ اپنے اندر کے جہاں میں بھی ترقی کرتا اس کو سنوارتا اور مادی منزلوں کے ساتھ ساتھ روحانی منزلیں بھی طے کرتا ۔ اس دنیا میں بھی ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں شریک ہوتا  تو آج یہ پتھر کے دور کے فطری ماحول میں روحانیت سے مزیں زندگی کی لزت کے احساس سے بھی روشناس ہوتا اور ضرور اپنی کاوشوں کی سمت کا نئے طریقے سے تعین پر غور و فکر کرتا

    دانشمندی اور جہالت کی پہچان


    دانشمندی اور حہالت انسان کی سوچ میں پروان چڑھتی ہے اور اس کے اعمال سے چھلکتی ہے۔ جس کا اندازہ انسان کے اعمال کا دوسرے انسانوں کی زندگیوں پر اثرات سے ہوتا ہے کہ ان سے دوسرے انسانوں کو کتنا فائدہ ہوا یا نقصان

    رشتوں کی حقیقت

    رشتوں کی عمارت کی بنیاد اعتماد اور احساس پر قائم ہوتی ہے اگر بنیادیں مضبوط نہ ہوں تو عمارتیں کبھی مضبوط نہیں ہوسکتیں ۔

    تعلق کی مضبوطی کا راز

    تعلقات اور رشتے ایک انمول خزانہ ہوتے ہیں انکو ہمیشہ
     حقیقت(Reality)
    سچائی(Truth) 
     اور نیک نیتی(Intention  to  benefit  others  with  no  expectations) 
    کی بنیاد پر استوار کیجئے۔
    پھر انکی طاقت ملاحظہ کیجئے کہ یہ کس طرح دائمی اور مضبوط ہوتے ہیں ۔

    انسان کی پہلی ضرورت اور حصول کا راز

    انسان کی پہلی ضرورت اچھی صحت ہے اور اچھی صحت کے لئے خوش رہنا انتہائی ضروری ہے۔
    خوشی کی جتنی بھی قیمت اٹھانی پڑے کم ہے۔
    چھوٹی سے چھوٹی خوشی بھی انمول ہوتی ہے ۔
    اور حقیقی خوشی کا راز خوشیاں بانٹنے میں ہے ۔ دوسروں میں بانٹتے جائیں آپکی طرف خود بخودلوٹ آئیں گی ۔

    بناؤسنگھار

    چہرے کی خوبصورتی کا "مسکراہٹ" سے بڑھ کر کوئی بناؤسنگھار نہیں

    زندگی کے دو انداز 


    کچھ لوگ نظریاتی زندگی جیتے ہیں تو کچھ نظر آتی۔ 
    اس کو اس طرح ہی سمجھ لیجئے کہ جیسے تھیٹر میں چند کردار تو سٹیج پر پوری طرح سے مصروف عمل ہوتے ہیں اور باقی پورا ہجوم انہی دیکھ کر ابھرتے احساسات کی لہروں کی طغیانی پر بہتے اس ماحول کا خاموش حصہ بنے ہوتے ہیں 

    راز بے نیاز

    اینٹی وائرس چلا کر تمام وائرس صاف کر دیجئے
    جھوٹ
    غیبت
    بغض
    حسد
    نفرت
    دھوکہ
    ملاوٹ
    ناپ تول میں کمی
    فضول خرچی
    عیب جوئی
    تہمت زنی
    طعنہ زنی
    جیسے غیر فطری عمل
    تو کم تر شعور رکھنے والے جانوروں میں بھی نہیں پائے جاتے
    ایک با شعور انسان کو کیسے زیب دے سکتے ہیں ۔
    یہ سب کچھ ہمیں معاشرے سے ملا ہے۔ ہماری فطرت میں یہ چیزیں نہیں ۔ 
    بہترین اینٹی وائرس "قناعت پسندی"  ہے ۔ اللہ کی مرضی کو اپنی مرضی بنالیجئے ۔ اس سافٹ وئیر کو اپنے اندر انسٹال کرکے زندگی کو خوشگوار بنالیں۔

    پھول اور کانٹوں کا ساتھ


    باغ میں پھول بھی ہوتے ہیں اور کانٹے بھی مگر حسیں احساس اور خوبصورتی پھول ہی بخشتا ہے ۔کوئی شے بھی فائدہ سے خالی نہیں ہوتی کانٹے بھی اپنا کردار رکھتے ہیں جس کا فائدہ یقیناً پھول کو بھی پہنچتا ہے۔
    دونوں اپنا اپنا وجود تو ساتھ ساتھ رکھتے ہیں مگر فائدے ، احساسات اور اثرات دونوں کے کبھی یکسر نہیں ہوتے ۔ کانٹے گمنام مگر پھول اپنے اثرات سے باغ کے وجود اور فضاء کو مسحور اور پر رعناء بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ کانٹوں کا گمنام وجود کبھی باغ کی خوبصورتی ، خوشبو اور رعنائی پراثر انداز نہیں ہوتا۔
     زندگی میں اچھی یادیں بھی ہوتی ہیں اور تلخ بھی مگر اچھی یادیں پھولوں کی مانند زندگی کی خوبصورتی اور رعنائی کا سبب ہوتی ہیں۔گزری ہوئی زندگی کے ان اچھے لمحات کی یادوں کو حوالہ بنا کر اپنی زندگی کو باغ باغ بنائے رکھئے اور تلخ یادیں تو محض کانٹوں کی طرح ہماری زندگی کے باغ کی خوشبو ، خوبصورتی اور رعنائی کو تحفظ دینے اہمیت کو مزید اجاگر کرنے کے لئے ہوتی ہیں

    ذہانت اور پختگی کی نشانی


    ذہانت اور پختگی کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ دوسروں کو سنا جائے ، سوچا زیادہ ، بولا کم جائے اور جو بولا جائے اس پر قائم رہ کر عمل کیا جائے ۔ دوسروں کو الزام دینے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکا جائے ۔ جو بات کریں وہ حقائق کی بنیاد پر ہو اور گفتگو وزن رکھتی ہو۔
    ہمیں بلا تفریق اور الحاق یا طرف داری سے بالا تر ہوکر ، انہیں اصولوں کو معیار رکھتے ہوئے ، سوچنا چاہیے کہ ہمارے ارد 
    گرد کے ماحول میں کون سے دوست ، قائدین یا سیاستدان پختہ ، ذہیں ، قول کے پکے ، باعمل کہلانے اور اعتماد کے قابل ہیں۔



    4 تبصرے: