کچھ غیر سیاسی باتیں

             جن کے ذہنوں میں خواب ، آنکھوں میں امیدیں اور دلوں میں کچھ کرنے کا جذبہ ہو منزلیں ان کے قدم چومتی ہیں 

    کچھ ماہ قبل مجھے ایک کنفرنس میں شرکت کا موقعہ ملا جس کے چند احوال آپ کے سامنے رکھنا چاہوں گا
    جب میں وہاں داخل ہوا تو کانفرنس حال کے اندر ایک مسحور کن آواز میں یہ الفاظ گونج رہے تھے

    ہم دیکھیں گے

    لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

    وه دِن کہ جِس کا وعدہ ہے
    جو لوحِ ازل پہ لِکھا ہے
    ہم دیکھیں گے"
    نوجوانوں سے کھچا کھچ بھرے حال پر سناٹا طاری تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ فیض احمد فیض کی نظم کے مصرے نوجوانوں کی سماعت سے دل میں اتر کر ان کے چہروں پر خود اعتمادی کی شکل میں عیاں ہو رہے ہوں ۔
    جب آواز تھمی تو سٹیج سے ایک خوبصورت آواز نے کامیاب نوجوانوں کی کامیاب داستانوں کا انہی کی زبانی سنانے کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے دعوت دی ایک خوبرو نوجوان کو جس نے اپنی داستان کچھ یوں شروع کی۔

    "اگر کچھ کرنا چاہتے ہو تو کر گزرو کوشش ووشش سے کچھ نہیں ہوتا اٹھو اور اپنے زور بازو سے کر دکھاؤ وہ جس کا آپ نے خواب دیکھا ہے ۔

    میں آپ کے سامنے ہوں ۔ زرا تصور کیجئے اگر ایک رکشہ ڈرائیور کا بیٹا آج آپ کے سامنے اپنی کامیابیں بتانے کے لئے آپ سے مخاطب ہو سکتا ہے تو آپ سب کیوں نہیں ۔ زرا میرے غربت کے ماحول میں جاکر سوچو کہ سات آٹھ سال کی عمر میں میں نے میز صاف کرنے کی ملازمت سے شروعات کی کتنی مجھے مو ٹیویشن ملتی ہوگی ؟ کون مجھے بڑا بننے کے خواب دکھاتا ہوگا ؟ کتنے وسائل مجھے میسر ہونگے ؟

    ایسے غیریب بچوں کوہمارے معاشرے سے موٹیویشنز نہیں ڈی موٹیویشنز ملتی ہیں ۔

    مگر مجھے ان سب مایوس کرنے والوں کے اندر رہتے ہوئے بھی موٹیویشن ملتی تھی ، ضرور ملتی تھی اور وہ تھی میرے دل کی آواز کہ میں نے کچھ بننا ہے ۔ وہ میرے اپنے دل کی آواز تھی ۔ جس میں رکاوٹیں آتی رہیں مگر میں بھی بڑا" ضدی " تھا میں نے بھی کہا کہ میں نے کچھ بننا ہے ۔ آوازیں اٹھتی تھیں یہ کیا کرے گا مگر میں بھی بڑا "ڈھیٹ "تھا سنتا اور بھول جاتا میرے اندر کا وہ کمزور سا بچہ مجھے تسلی دیتا تھا کہ مجھے کچھ بننا ہے اور آج آپ کے سامنے ہوں ۔"

    خیر نوجوانوں کے خیالات و تجربات میں محنت ، محبت ، دعائیں ، قسمت ، لگن ، منزل تک پہنچنے کا شوق  سب کچھ  تھا

    اس کے بعد اگلا آنے والا نوجوان نے جس حقیقت کی طرف اس ھال کی توجہ مبذول کروائی اور جو سب سے نمایاں تھی وہ تھی ماں کی دعا جو ایک بستر مرگ پر کینسر کی مریضہ ایک ماں نے جو اپنے خدمتگار بیٹے کو دی تھی کہ "میں اس کو کچھ دیکھنا چاہتی ہوں " ۔ وہ ماں تھی اس کے بعد سٹیج پر آنے والے نوجوان کی جو پاکستان فری لانسرز ایسوسی ایشن کا بانی ہے ۔ وہ دعا اس کی ہر مشکل میں اس کو یاد دلاتی رہی کہ اس کی ماں کی ایک خواہش تھی اور اس نے اس کو پورا کرنا ہے اور آخر اس نے پورا کر دکھایا ۔

    اس کے بعد

    تالیوں کی گونج سے خوش آمدید کیا گیا ایک اور نوجوان کو

    اس نےاپنے مخصوص ، مربوط اور پر کشش انداز میں نوجوانوں کو کانفرنس جس کا نام ہی " کنیکٹید پاکستان " تھا کی نسبت سے چار کنیکشنز کی ترغیب دی

    خودی : اپنے آپ سے کنکشن

    بھائی چارہ : دوسرے انسانوں سے کنکشن

    قومیت : اپنے ملک سے کنکشن

    توکل : اپنے خدا سے کنکشن

    اور پھراس کے بعد باری آئی ایک ایسا نوجوان کی جس نے ایک اعلیٰ منصب جرنیل کے ہاں جنم لیا ،عیش و عشرت اور جدیدیت کی آسائیشوں کے ماحول میں جوان ہوا اور ایک حادثے نے جب موت کو وہ بگل گیر ہوتے دیکھ رہا تھا اور اس کے رشتہ دار اور تمام تر وسائل اس کو بے فائدہ نظر آ رہے تھے اور اس کی عیش و عشرت میں گزری ہوئی زندگی اس کو فضول اور بے مقصد لگ رہی تھی ، اسے ندامت کے سوا کچھ سوجھ نہیں رہا تھا تو اس نے اپنے پروردگار سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے مٹی کردے تو اس کی دعا سے موت اس کی سوچ کو بدل کر اسے زندگی کا ایک اور موقعہ دے کر

    پھر سے اس دنیا میں چھوڑ خالی واپس لوٹ گئی ۔ شائد خالق کو اس سے کوئی بڑا کام لینا مقصود تھا ۔

    اس نے ان نوجوانوں کو جو دولت ، عیش و عشرت اور دنیا کے وسائل تک رسائی کو ہی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں ان کے سامنے  اپنی زندگی کا عملی نمونہ رکھا کہ اس نے تو آنکھ ہی ایک ایسے ماحول میں کھولی مگر یہ سب کچھ اسے خوشیا ں اور اطمئنان نہ دے سکے ۔

    ہر چیز کی خوبصورتی اس کے ساتھ لگی حدود و قیود کے ساتھ ہوتی ہے اور اگر یہ حدود و قیود ختم ہوجائیں تو پھر وہ چیز اپنی خوبصورتی کھو بیٹھتی ہے اور اس کے اندر خوشی اور اطمنان بخشنے کی طاقت ختم ہوجاتی ہے ۔

    اس نوجوان نے اس کے بعد آنے والی زندگی سے سب کو باور کروایا ۔

    مجھے

    جب ظُلم و سِتم کے کوہِ گراں

    رُوئی کی طرح اُڑ جاںٔیں گے

    ہم محکُوموں کے پاؤں تلے

    یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

    اور اہلِ حُکم کے سر اُوپر

    جب بِجلی کڑ کڑ کڑ کے گی

    ہم دیکھیں گے

    جب ارضِ خُدا کے کعبہ سے

    سب بُت اُٹھواۓ جاںیٔں گے

    ہم اہلِ صفا مردُودِ حرم

    مسند پر بِٹھلاۓ جاںٔیں گے

    سب تخت گِراۓ جاںیٔں گے

    بس نام رھے گا اللہ کا

    جو غائب بھی ہے حاضر بھی

    جو منظر بھی ہے ناظر بھی

    اُٹھے گا اِناالحَق کا نعرہ 

    میں ان نوجوانوں کے ناموں کو تو یاد نہ رکھ سکا مگر آخر میں ایک ایسی شخصیت جنہیں آپ بھی یقیناً جانتے ہونگے ۔

     صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں سوچوں کو بدل دینے کی قوت رکھنے والے بے تاج بادشاہ ڈاکٹر جاوید اقبال کو دعوت دی گئی کہ نوجوانوں کو خطاب کریں ۔ 

    انہوں نے نوجوانوں سے اپنی اور اپنی دور کی پود کی طرف سے دو چیزوں پر معزرت کی کہ وہ قصور وار ہیں کہ انہوں نے دو چیزیں اپنی نوجوان نسل کو دیں جن کی وجہ سے آج ہمارے یہ حالات ہیں ۔ 

    ایک یہ تصور کہ کامیابی دولت میں ہے نہ کہ کردار اور اقدار میں ۔ ہم یہ غلطی کر بیٹھے حالنکہ اصل کامیابی اچھے کردار اور ہماری خاندانی اور اسلامی اقدار میں تھی۔

    اور دوسرا یہ فرد کی ترقی کا تصور کہ ہر کوئی اپنی ترقی چاہتا ہے ۔ اس طرح فرد تو ترقی کر گیا ہے مگر اجتماعی ترقی پیچھے رہ گئی ہے ۔ 

    انہوں نے کہا کہ دنیا میں صرف دو طرح کے ہی گروپ ہیں ایک وہ جو اس دنیا کی ترقی کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں اور وہ فرعون اور قارون کو چاہنے والوں کا گروہ ہے ۔ یا تو اس میں داخل ہو جاؤ یا پھر وہ جو اس دنیا کے بعد کی دنیا پر بھی یقین رکھتے ہیں ان میں داخل ہو جاؤ تو ان کے نزدیک دولت کو خیر کہا گیا ہے جو دوسروں میں خیر کو بانٹتی ہے ۔ چاہو تو ان میں داخل ہو جاؤ ۔ 

    آخر میں انہوں نے سب سے سوال کیا کہ آپ میں سے ہر کوئی بشمول میرے اپنے اپنے شعبے کے علوم کا ماہر ہے تمام علوم کو کھنگھال چکا ہوگا تو میرا سوال ہے کہ کتنے لوگ ہیں جو قرآن کو تفہیم کے ساتھ سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہونگے ؟ تو چند ہاتھ اٹھے ۔ انہوں نے کہا ۔ میں بڑے ہی دکھ سے یہ کہہ رہا ہوں کہ ہماری حالت کتنی پریشان کن ہے ۔

    پھر وعدہ لیا کہ سب آج سے تہیہ کر لو کہ روزانہ کچھ نہ کچھ قرآن کا حصہ سمجھ کر پڑھنا ہے ۔

    ڈاکٹر صاحب کی بات سے مجھے دوہزار آٹھ کی یاد آنے لگی جب میں ایک کانفرنس میں شرکت کے غرض سے گلاسگو ، انگلینڈ گیا ، کانفرنس کے بعد ایڈن برگ ، پرتھ ، لندن سے گھومتا گھماتا مانجسٹر پہنچا وہاں میں ایک ہفتہ ٹھہرا تو وہاں میرا میزبان ایک ریسٹورنٹ اور ایک انٹرنیٹ کیفے کا کاروبار کرتا تھا ، اس وقت انگلینڈ میں بھی انٹرنیٹ کیفے کا رواج ہوتا تھا ۔ میں جب پھوک لگتی تو ریسٹورنٹ پر کھانا کھاتا اور بیٹھ جاتا ان کے کلچر کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا وہاں سے اٹھتا تو کیفے پر چلا جاتا ، وہاں تھک جاتا تو گھومنے پھرنے نکل جاتا اوران کا ایف یم ریڈیو سنتا رہتا ۔ تو اس وقت ان کے دانشور بھی اپنے نوجوان طبقے سے اتنے ہی پریشان تھے جس کی مجھے سمجھ ان کے کلچر کو سمجھ کر آئی کی ان کے اکثریتی نوجوانوں کی زندگی کا کوئی مقصد یا منزل نہیں تھا ہر لڑکے کے دو تنین گرل فرینڈز اور ہر لڑکی کے دو تین بوائے فرینڈز تھے ، رہائشیں اور کھانے کے اخراجات حکومت کی طرف سے مفت میسر تھے اور ان کا روزانہ کا ایک ہی معمول تھا کہ آج کس کے ساتھ دن گزارنا ہے اور کہاں کھانا کھانا ہے اور کہاں عیش کرنی ہے ۔ تو میں ریڈیو پر سنتا تھا کہ ان کے دانشور ان کے اور اپنے ملک کے مستقبل کے لئے انتہائی پریشان دکھائی دیتے تھے ۔

    بہرحال میں ڈاکٹر صاحب کی تقریر کے بعد اپنی ذاتی کچھ مصروفیات کے بعد واپس آگیا اس فکر کے ساتھ کہ اس جدیدیت کی امامت میں ہمارا معاشرہ بھی تباہی کی طرف تیزی سے جارہا ہے مگر پھر بھی ایسے نوجوان موجود ہیں جو نہ صرف خود اچھی سوچ کے مالک ہیں بلکہ دوسروں کی اصلاح کا جذبہ بھی رکھتے ہیں ۔ 

    اپنے نوجواںوں کا دنیا کے نوجوانوں سے موازنہ کرتے ہوئے گلاسگوں کی کانفرنس میں مجھے بہت سارے تجربات بھی حاصل ہوئے مگر ایک بات مجھے آج بھی یاد ہے کہ وہاں بی بی سی ریڈیو کا ایک لائیو پروگرام چل رہا تھا جس میں سوال یہ تھا کہ یورپ کے نوجوانوں کی زندگیوں کے ایشیاء کے نوجوانوں پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔

    یقیناً ان کا سوال بہت اہم تھا اور ان اثرات سے ہم انکار بھی نہیں کرسکتے ۔ اس پر مختلف آراء سامنے آرہی تھیں ، مجھ سے پہلے معراج ہمایوں وہ مشرف دور میں تعلیم کی صوبائی وزیر تھیں نے بھی خیالات کا بہت ہی اچھے پیرائے میں اظہار کیا لکین مجھے جب وقت ملا تو میں نے ان کو بتایا کہ اس کی وجہ آپکی انفارمیشن ٹیکنالوجی تک رسائی اور ماڈرن زرائعے کا حصول ہے جو ہمارے نوجوانوں کے پاس نہیں ہیں ۔ 

    جو مَیں بھی ہوں اور تُم بھی هو

    اور راج کرے گی خلقِ خُدا

    جو مَیں بھی ہوں اور تُم بھی هو

    ہم دیکھیں گے

    لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

    ہم دیکھیں گے

     "

    اچھی سوچوں اور جذبوں کو دیکھ کر انسان کو توانائی ملتی ہے اور انسان اپنے آپ کو توانا محسوس کرنے لگتا ہے ۔ میری بھی حالت کچھ ایسی ہی تھی 

    مجھے خوشی ہورہی تھی ان نوجوانوں کو دیکھ کر 

    جن کے ذہنوں میں خواب ، آنکھوں میں امید ، دلوں میں کچھ کرنے کا جذبہ اور سامنے ایک منزل کا منظر تھا

    یہی تو وہ سب کچھ ہے جو انسان کو اس کی خواہشوں کے مطابق ترقی کی منزلیں طے کرواتا ہے اور خواہشوں کا تعلق انسان کی سوچ اور ماحول کے ساتھ گہرا جڑا ہوتا ہے ۔ 

    دنیا کے اسباب کے حصول کی منزلیں طے کرتا ہوا انسان اس سطح پر پہنچ جاتا ہے جہاں یہ اسباب اس کے لئے اہمیت کھو بیٹھتے ہیں اور اس کے سامنے صرف ایک مقصد ہوتا ہے جو انسان کی زندگی کا حقیقی مقصد ہے انسانوں کی بھلائی جو حقیقی کامیابی کا ضامن ہے اور انسانی کی اس دنیا مین سب سے بڑی خوشی کا سبب۔

    2 تبصرے: