صحافت، حق آزادی
اظہار رائے کی تقدیس اور زرائع ابلاغ کے صحیح استعمال میں توازن بہت اہم ہوتا ہے
تاکہ اس سے انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے صحافت کی خدمات کو
محفوظ اور موثر بنایا جاسکے۔
پاکستان کے معاشی،
سیاسی اور معاشرتی بگاڑ کی کئی دوسری وجوہات میں ایک بڑی وجہ عوام کو صحیح معلومات تک رسائی کا نہ
ہونا بھی ہے۔ چونکہ پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے اس لئے عوام کے حقائق کو جان لینے
تک ان کی رائے کے صحیح نتائج کی امید نہیں لگائی جاسکتی۔ جمہوریت سے مستفید ہونے
کے لئے سیاسی شعور اور اعلیٰ اخلاقیات ضروری ہوتے ہیں جنہیں یہ جھوٹ کی سیاست اور
صحافت تباہ کرتی جا رہی ہے۔
ان کے جھوٹے الزامات
کی بنیاد پر کئے گئے فیصلوں نے ہماری سیاسی، معاشی اور اخلاقی اساس کو ہلا کر رکھ
دیا ہے۔ جھوٹ بولنے میں سبقت کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔ اکثریتی مسلمان آبادی والی ریاست
میں اسلام کے سب سے زیادہ نا پسندیدہ عمل جھوٹ کی بھرمار انتہائی قابل افسوس ہے جو
ہماری عمومی معاشرت کی بھی عکاس ہے۔ اس کا اندازہ آپ کسی بھی وڈیو کی تھمب نیل سے
لگا سکتے ہیں جس کا وڈیو کانٹینٹ سے کوئی خاص تعلق ہی نہیں ہوتا، باہر کچھ لکھا
ہوتا ہے اور اندر خبر کچھ اور ہوتی ہے۔ جو ہماری قومی نفسیات کی صوتحال کا پتا دے
رہے ہیں جو یہ ظاہر کر رہے ہیں کہ جب تک مصالہ نہیں لگایا جائے گا سودا نہیں بکے
گا۔ ایسے ہی جھوٹوں کی بنیاد پر مہیا کی جانے والی معلومات نے ہماری سادہ لوح عوام
اور خاص کر نوجوانوں کے ذہنوں اور سوچوں کو اس قدر خراب کر دیا ہے کہ کوئی امن کی
بات سننے کے لئے تیار ہی نہیں۔ قوم اب ان مداریوں کے تماشوں کی عادی ہوچکی ہے اور
اس سے نجات حاصل کرنا بھی ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔
اس جھوٹ کے پرچار میں
انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بہت بڑا کردار ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے فائدہ کسی نے اپنی سوچ
اور صلاحیت کے مطابق اٹھانا ہوتا ہے۔ اور ہماری قوم صلاحیت ہی اتنی تھی۔ سادہ لوح
عوام کو اس تک رسائی تو حاصل ہوئی مگر چونکہ ان کے اندر سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنے
کے لیے سوشل میڈیا کے طریقہ واردات کو
سمجھنے کی سوجھ بوجھ نہیں تھی اس لئے اس نے "گنجے کو اللہ ناخن نہ دے"
سے مصداق صورتحال پیدا کردی ہے جس سے عوام اپنی تباہی کا خود ہی سامان پیدا کرنے لگے
ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ معلومات دینے
والے کی تعلیم ، تجربہ یا معلومات کا زریعہ کیا ہے۔ سادہ لوح عوام سوشل میڈیا کو
سیاسی صحیفے کا درجہ دینے لگے ہیں۔ اس میں عوام کا بھی اتنا قصور نہیں اصل ذمہ دار
تو وہ ہیں جو اپنے سیاسی و مالی مفادات کی خاطر اپنی اخلاقی، پیشہ ورانہ، آئینی و
قانونی ذمہ داریوں کو پس پشت ڈال کر یہ سب کچھ کر رہے ہیں جنہوں نے عوام کی سوچوں
کو ایک خاص سمت دے کر یقین کی حد تک پختہ کر دیا ہے جو اب ان کے سچ جاننے میں سب
سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔
سیاست میں اس کا آغاز
2013-14 میں ہوا اور منصوبہ بندی کے تحت ایک سیاسی ہوا چلانے کے لئے دن رات تگ و
دو کی گئی جس میں سرمایہ کاری سے لے کر اداروں کی ہدایات تک کی کوششیں شامل حال
تھیں اور محض الزامات کی بنیاد پر اخلاق سے گرے ہوئے بیانیے کو چلایا گیا جس کا
مقصد ایک خاص سیاسی جماعت کو نجات دہندہ بنا کر پیش کرنا تھا اور اسی منصوبہ بندی کا
بیانیہ صادق و امین کے القابات سے شروع ہوا اور اب سازشوں کے بے نقاب ہوجانے کے
بعد ان کی پردہ پوشی کے لئے معصومیت کی طرف بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ صادق و امین کہنے
والوں نے تو بعد میں اپنے الفاظ کو اسی ایک مقدمے تک محدود کرنے کی وضاحت جاری کر
دی تھی مگر اس نئے فلسفہ معصومیت کی وضاحت کب آتی ہے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اندازہ
لگا لیجئے کہ سوشل میڈیا کے اثرات کتنے گہرے ہوتے ہیں جو اب ایک ضد اور جنوں کی
صورت اختیار کر چکے ہیں اور اداروں میں اہم عہدوں پر بیٹھی شخصیات بھی اس کا شکار
ہوچکی ہیں۔ جس کی مثال ماضی میں کئے گئے عدالتی فیصلوں سے بھی لگائی جاسکتی ہے۔
اُس وقت پاکستان میں
اِس طرح کا ٹرینڈ پہلے سے موجود نہیں تھا اس لئے یہ خلاء پر کرنے کا تحریک انصاف
کو موقع مل گیا اور سوشل میڈیا کے طریقہ واردات سے انہوں نے خوب فائدہ اٹھایا اور ابھی
بھی کوئی دوسری جماعت ان کا اس میدان میں مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ در اصل
اب دس سالوں سے جھوٹ بولنے والوں کے لئے اپنے کرتوت چھپانا اور ویورشپ انکی مجبوری
بن چکی ہے۔
اور اب یہ آگ ہر طرف
پھیل چکی ہے جس نے سیاست کو تفرقہ بازی اور جمہوریت کو انتشار پسندی کا شکار کر
دیا ہے اور کوئی بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔ اس میں ملوث کرداروں کی نجی زندگی سے لے کر اب تو مالی بدعنوانی تک کے
الزامات اور ان پر سزائیں بھی سنا دی گئی ہیں جن کی بنیاد پر نااہلی بھی ہوچکی ہے
مگر ضد اور جنون اس سے اپنی سوچ کو بدلنے کی بجائے ان کی صفائی کے حربوں میں مصروف
عمل دکھائی دیتے ہیں۔
اور دوسری طرف بدعنوانی
کے جھوٹے الزامات پر عدالتی مخبریوں اور فیصلوں میں بریت کے باوجود اس کو ماضی کے
حالات پر استدلال کرکے سہولت کاریوں کا نام دیا جارہا ہے۔ یہ سب سوشل میڈیا کا
کمال ہے۔ ان دس سالوں میں تقریباً نوے فیصد مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا اس خاص
منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں لگا ہوا تھا اور انہوں نے دوسری جماعتوں سے بخل
رکھنے والوں کو شکار بنایا اور اب تو سارا منصوبہ بے نقاب ہوچکا ہے اور اس کے
معمار اعتراف بھی کر چکے ہیں مگر اس کے باوجود سوشل میڈیا کا بھونچال تاثرات
کوصحیح سمت کی طرف بڑھنے میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
اس جھوٹ کی بنیاد پر
دی گئی معلومات کو شعور کا نام دیا گیا جس نے ہماری سیاست کو ہی نہیں بلکہ ہماری
معیشت اور معاشرت کو بھی تباہ کر دیا ہے اور اس شعور کے نام پر بد اخلاقی کے
تعلیمات نے مکالمہ، دلیل اور برداشت کو نیست و نابود کر دیا ہے۔ حالات چیخ چیخ کر
الارمنگ دے رہے ہیں مگر جھوٹ کی پیداوار جنوں کسی کوسننے اور حقائق کو جاننے کے
لئے تیار ہی نہیں۔
ریاست کو اس حساس
معاملے پر کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے اوراس سے جان چھڑوانے کے لئے
سب سے پہلے ان جھوٹ کی فیکٹریوں کو بند کرکے یا ان کو بے نقاب کرکے عوام کو صحیح
معلومات تک رسائی کا کوئی میکنزم بنایا جائے تاکہ سادہ لوح عوام کی سوچوں کو درست
سمت دی جاسکے جس سے وہ جھوٹ کی بجائے کردار اور کارکردگی کی بنیاد پر اپنے نمائندوں
کا چناؤ کرنے کے قابل ہوسکیں تب ہی جمہوریت کے ثمرات سے صحیح معنوں میں مستفید ہوا
جاسکتا ہے۔ تب ہی شفافیت اور غیر جانبداری سے کرائے گئے انتخابات سے مطلوبہ مقاصد
حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اس جنون کے نزدیک ماضی کے احسانات والے ماحول کی شفافیت اور
غیر جانبداری کی جو تعریف ہے وہ اقتدار سے کم کسی بھی صورت پر مطمئن اور امن سے
بیٹھنے والا نہیں وگرنہ اپریل 2022 کے بعد سے لے کر 9 مئی 2023 تک کے سیاسی عدم
استحکام کے حالات دیکھنے کو نہ ملتے۔ جو اس بات کی دلیل ہیں کہ انتخابات جتنے بھی شفاف
اور غیر جانبدار کروا لئے جائیں جھوٹ پر مبنی سیاست اس کو اس وقت تک قبول نہیں کرے
گی جب تک ان کو مطلوبہ نتائج نہیں مل جاتے۔ زمینی حالات خواہ سنبھال بھی لئے جائیں
مگر سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی تھمتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔
لہذا اس جھوٹ کے
پراپیگنڈا اور بے بنیاد الزامات کے سلسلے کو روکنے کے لئے قانون سازی کی ضرورت ہے
تاکہ اس جھوٹ کی سیاست اور صحافت میں ملوث عناصر کو عدالتوں سے جھوٹا ڈکلئر کروا
کر ان کی لسٹیں شائع کی جائیں اور ریاست ان کواپنی آئینی و قانونی ذمہ داریوں کا پابند
بنائے جس سے ان کی اصلاح کا کوئی پہلو نکل سکے اور اس سے صحافت اور آزدی اظہار
رائے کے حق کا صحیح استعمال بھی یقینی بنایا جاسکے۔ میڈیا اور صحافی برادری کو بھی
اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے اور وہ ایسے گندے عناصر کی جوابدہی کا کوئی
میکنزم بنائے کیونکہ اس سے ملک و قوم کے نقصان کے ساتھ ساتھ ان کی پیشہ ورانہ ساکھ
کی خرابی کا بھی سبب بن رہی ہے کیونکہ یہ بہروپیے ان کی شناخت کے پیچھے چھپ کر سب
کچھ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ میڈیا ہاؤسز کی رجسٹریشن میں اچھی شہرت کی پیشہ
وارانہ شخصیات کی شرط لاگو کرنے اور ان کو ضابطہ اخلاق کا سختی سے پابند بنانا بھی
ضروری ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں