ہمارا قومی تشخص عالمی تناظر میں

 

جس طرح بحثیت انسان ہرایک اپنا تشخص ہوتا ہے اسی طرح سے ہمارا قومی اور عالمی سطح پر ایک قومی تشخص ہوتا ہے جو ہماری قومی پہچان ہے ۔

امام رومی نے فرمایا ہے کہ انسان کی اصل شخصیت اس کی سوچ ہوتی ہے اس کے علاوہ سب گوشت اور ہڈیاں ہیں ۔

ہماری سوچ ہی ہمارے جسم سے نکلنے والے اعمال کے پس پشت اصل ڈرائیونگ فورس ہوتی ہے ۔ تو معلوم ہوا کہ سوچ کا ہماری شخصیت میں بہت بڑا عمل دخل ہے اور اب ہم کہیں بھی رہتے ہوئے اس دنیا کے دوسرے انسانوں سے الگ تھلگ زندگی نہیں گزار سکتے ۔ ہم کہیں بھی رہ رہے ہوں ہماری سوچ اور ہمارے اعمال پوری دنیا کے انسانوں کو متاثر کرتے ہیں ۔ یہ دنیا ایک گلوبل ویلیج کا درجہ رکھتی ہے اور ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ میرے کاموں سے دنیا کے دوسرے لوگ متاثر نہیں ہوتے اور اگر ایسا سوچنا ممکن نہیں تو پھر ہمیں ہر سوچ اور کام سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ان سے دوسری دنیا یا اس میں رہنے والے لوگ کس طرح سے متاثر ہو سکتے ہیں ۔

اور اس دنیا میں معاملات کی آسانی کے لئے جغرافیائی تقسیم عمل میں لائی گئی ہے جس کے لئے کچھ حدور کا تعین کیا گیا ہے اور ہمیں سفر کے لئے پہلے اجازت کا لینا ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ ابتداء میں ایسی رکاوٹیں نہیں تھیں لیکن بعد میں ہمارے معاملات میں آسانی کے لئے یہ شرائط شروع ہوئی ہیں اور آج ہم ان قوانیں پر عمل کرنے کے پابند ہیں اور دنیا میں ملکوں کے آپس کے معاملات کو چلانے کے لئے بین الاقوامی قوانین بنائے گئے ہیں ۔

اور اب ممالک کو دنیا میں ایک شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ ملک سے باہر ہماری ذاتی شناخت سے زیادہ ہماری ملکی شناخت کام آتی ہے جسیے مقامی سطح پر لوگ حوالے کے طور پر ولدیت یا برادری کا نام استعمال کرتے ہیں اس طرح عالمی سطح پر جب لوگ ہمارے اچھے یا برے عمل کو دیکھتے ہیں تو جاننا چاہتے ہیں کہ ہم کس ملک سے ہیں ۔ لہذا ہمیں اس پہچان کو ہر وقت ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔

جیسا کہ پہلے بھی میں ذکر کیا ہے کہ اب دنیا علیحدہ جغرافیائی حدود اور عالمی سفری شرائط اور پابندیوں کے باوجود ورچوئیلی  طور پر ایک ولیج کی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور اب فاصلے اپنی اہمیت کھوتے جارہے ہیں اور پوری دنیا ہمارے ہاتھوں اور جیبوں میں سما گئی ہے ۔ اور ہم چلتے پھرتے ، سوتے جاگتے دنیا میں دیکھے جارہے ہوتے ہیں یا جب بھی ضرورت ہو ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہیں رہا ۔ دنیا کا نظارہ اب انگلی کے اشارے کا بھی محتاج نہیں رہا اور آپ جب بھی آواز دیں ہر شے آپ کے سامنے حاضر ہے ۔ میں یہ کوئی مفروضے بیان نہیں کر رہا بلکہ آپ موبائل کو آواز دے کر تو دیکھیں ۔

تو ایسے حالات میں دنیا سے کٹ کر رہنا تو دور بھاگ کر بھی چھٹکارہ حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے تو ایسے میں اس دنیا کے ساتھ چلنا سیکھنے کی ضرورت ہے جو شوق نہیں مجبوری بن چکا ہے ۔ اب صحت رہے یا نہ رہے انٹرنیٹ ک شعاعوں سے بچنا مشکل ہے ۔ لہذا اب ان شعاعوں کی لہروں پر تیرنا سیکھنا پڑے گا ۔

اور ہم اس دنیا کی ورچوئل سکرین پر کہاں کھڑے ہیں جاننا بھی ضروری ہے ۔ ہمارا دنیا میں کیا تشخص ہے معلوم ہونا انتہائی ضروری ہے ۔ اس کے لئے پاکستانی سیاسی اور صحافتی بہروپیوں کے چنگل سے جان چھڑوا کر عالمی میڈیا کو دیکھنا ہوگا کہ ہماری شناخت کیا رخ اخیار کر چکی ہے یا کس سمت گامزن ہے ۔

یہاں کا ہمارا سیاسی کلچر تو جیسا تھا وہ سب کے سامنے ہے بلکہ دنیا اس کا مشاہدہ کر رہی تھی مگر ہمارے بیرون ملک رہنے والے کچھ دوستوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے جو وہاں بھی ملکی سیاست پر جلسے جلوس اور ہلڑ بازی کر رہے ہوتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پردنیا کی طرف سے ان بے وقوفیوں کو دیکھ کر اسے سامان فرحت سمجھا جا رہا ہوتا ہے ۔ یہ ہمارے دوست وہاں جا کر بھی اس ماحول سے کچھ نہ سیکھ سکے ۔ کبھی کسی بھی ملک کے شہریوں نے وہاں اس طرح کا مظاہرہ نہیں کیا جو پاکستانی کررہے ہوتے ہیں اور یہاں کی قیادت بجائے اس کی حوصلہ شکنی کرے انکو داد دے رہی ہوتی ہے جس سے یہ ثقافت مزید سر چڑھتی جارہی ہے ۔

اسی سیاسی ثقافت کے عادی اور مخصوص مزاج کے دلرادہ کچھ  پاکستانیوں نے ایک ماہ قبل مسج نبوی میں بھی مظاہرہ کرکے داد حاصل کرنے کی کوشش کی تو وہ وہاں کے قانون کی گرفت میں آگئے ۔ کچھ نے تو بھاگ کر جان چھڑوا لی مگر چند وہاں گرفتار ہوگئے جن کو کل سزا سنا دی گئی ہے ۔ کسی کو دس سال تو کسی کو آٹھ سال اور کسی کو بیس ہزار تک سعودی ریال جرمانہ کیا گیا ہے

اب اس ثقافت کی بانی قیادت اور داد دینے والوں سے کوئی پوچھے کہ اس سے ان کی شیطنت اور فسطائیت کو سکون ملا ہے ۔ کیا اس سزا کی دنیا میں تشہیر سے ملکی تشخص کو پہچنے والے نقصان سے ان کو پاکستان کی بدنامی سے رسوائی اور شرمندگی کا احساس ہوا ہے یا اب بھی وہ اپنی اس روش کو ہی عزیز سمجھتے ہیں ۔

ہماری یہ حالت ہے کہ کوئی بھی عالمی سطح کی آن لائن کام کرنے والے ادارے کا یہاں وئیر ہاؤس تک نہیں ہے ۔ ہماری تمام آن لائن خرید و فروخت کے آپریشنز باہر سے ہوتے ہیں ۔ عالمی سطح کی مالیاتی نظاموں میں ہمارے ملک میں رہ کر اکاونٹ نہیں کھولا جاسکتا اور وہ پاکستان سے آپریٹ ہونے والے کسی نظام کو اہمیت نہیں دیتے ۔ یہاں تک کہ پے پال وغیرہ میں ہم اپنی قومی پہچان پاکستانی ہونے سے اکاؤنٹ نہیں کھول سکتے اور نہ ہی اپنی رقوم کو یہاں وصول کر سکتے ہیں ۔ اس ایک چھوٹی سی بات کے لئے ہمیں بیرون ملک کسی کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہیں یا پھر کوئی اور سہارا ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔ ایمازون نے ہمیں شامل کرکے ہمارے معاملات کی وجہ سے دوری اختیار کر لی ہے ۔ کیونکہ وقت کی پابندی ، سچی بات اور وعدے کی پاسداری کی ہمارے نزدیک کوئی قدر ہی نہیں ۔ اور ایسے معاملات پر دنیا میں کوئی اعتماد نہیں کرتا ۔

ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا اور اپنی سوچوں کی سمت کو درست کرکے اپنے اعمال اور معاملات کو مہذب دنیا میں قبولیت رکھنے والی اقدارکی مطابقت میں لانا ہوگا تاکہ ہم دنیا میں اپنی خراب ہوتی ہوئی ساکھ کو بچا سکیں اور عالمی سطح پر اپنے تشخص کو بہتر بنا سکیں ۔

سیاست ، صحافت ، وکالت ، عدالت ، حفاظت یا سرکاری خدمت پر مامور سب کو اپنے اپنے اعمال اور رویوں کو دیکھنے اور ان کو قومی ، نظریاتی اور عالمی اقدار سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر ہم دنیا کی ترقی کی دوڑ میں مقابلہ تو دور کی بات ہے شریک بھی نہیں ہوسکتے ۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں