کیا ہم آزاد ہیں؟

یہ وہ سوال ہے جو اکثر میں اپنے آپ سے کرتا رہتا ہوں۔ دل کو تسلیاں دیتا ہوں کہ میں ایک آزاد ریاست میں رہتا ہوں جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ جس کا نام بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اس کا نظام اسلامی اور جمہوری ہوگا۔ جس میں تمام انسانوں کو ان کے نظریات اور آزاد سوچ کے ساتھ آئینی حدود کے اندر رہ کر بنیادی حقوق حاصل ہونگے۔

پھر میرے خیالوں میں وہ تمام واقعات ایک فلم کی طرح چلنا شروع ہو جاتے ہیں جن کی تاریخ نصاب کی کتابوں میں پڑھائی جاتی ہے۔ کیسے حکومتیں بنتی رہیں؟ کیسے ان کو ختم کیا جاتا رہا؟ ہمارا آئین کن ادوار سے گزرا اور اس کے ساتھ کیا کچھ ہوا۔ کس طرح ہمارے ادارے ہمیں نامعلوم اور فرضی خطرات کے خلاف تحفظ فراہم کرتے رہے۔ عدالتیں نظریہ ضرورت کے تحت ان اقدامات کو قانونی تحفظ فراہم کرتی رہیں وغیرہ وغیرہ۔

ہمارے بچے مطالعہ پاکستان کو پڑھنے کے بعد سوال کرتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں اس ملک میں ہوتا کیا رہا ہے۔ وہ اپنے استادوں سے الجھتے ہیں۔ والدین کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہیں، جیسے وہ طنزیہ کہہ رہے ہوں کہ یہ کارنامے ہیں ہمارے بڑوں کے؟

کوئی کیا جواب دے گا ان معصوم ذہنوں کو؟ کوئی کیسے اور کیا ان کو تسلیاں دے؟ کون سا جواز پیش کرے؟ کیسے کوئی منافقت کرے؟ ہے کوئی جو ان معصوم ذہنوں کو مطمئن کر سکے؟ لیکن میں پھر دل کو تسلی دے لیتا ہوں کہ دنیا کی تمام جمہوری ریاستیں اس ترسیل کے دورانیے سے گزریں اور آہستہ آہستہ بہتری آتی گئی۔

ملک کے حالات کو جاننے کے لئے اخبار کھولتا ہوں تو خبریں پریشان کر دیتی ہیں۔ بڑی سرخی میں لکھا ہوتا ہے "آئی ایم ایف نے ہمیں تگنی کا ناچ نچا دیا ہے”۔ نیچے حکومتی وزیر سابق وزیراعظم عمران خان پر کشمیر کا معاہدہ کرنے کا الزام لگا رہا ہوتا ہے۔ ایک کونے میں صحافی کی گمشدگی کی خبر لگی ہوتی ہے۔ دوسرا صفحہ کھولتا ہوں تو ایک تصویر پر نظر جم جاتی ہے جس میں نوجوان بچیاں، بوڑھی مائیں اور معصوم بچے اپنے گمشدہ والدین کی بازیابی کے لئے حکومت سے مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں۔

پریشان حالی میں اداریے کے صفحے کو کھولتا ہوں کہ دانشوروں کی آرا جلتی پر تیل کا کام کرتی ہیں۔ "حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی ہے اور عوام مایوس مگر احتجاج کو فضول سمجھ رہے ہیں”۔

اخبار کو ایک طرف رکھ کر ٹی وی کھولتا ہوں تو کہیں سیاستدان اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے دانشمندانہ تجزیے اکتاہٹ کو چار چاند لگا دیتے ہیں جن میں الزامات کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں ہوتی اور اگر کوئی حل پوچھے تو صدارتی اور پارلیمانی نظاموں کی بحث چھڑ جاتی ہے۔ ہر کوئی اپنی نااہلیوں اور نالائقیوں کا ذمہ دار نظام کو ٹھہرا رہا ہوتا ہے۔

وہاں سے بھاگ کر سوشل میڈیا کی دنیا میں آوارگی کو نکل جاتا ہوں تو اچانک ایک قابل صحافی کی وی لاگ پر نظر جم کر رہ جاتی ہے۔ جہاں جناب سابق آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر السلام کی ایک سیاسی کارنر میٹنگ سے خطاب پر تبصرہ تھا۔ "میں کوئی سیاسی نہیں اصلی نیوٹرل ہوں” اور ساتھ ہی وہ اپنی قوم کے لئے خدمات کا بھی ذکر کر رہے ہوتے ہیں۔ "اسٹیبلشمنٹ نے دراصل نواز شریف اور زرداری سے تنگ آئے ہوئے پاکستانی عوام کو ایک تیسری آپشن فراہم کی اور یہ تجربہ کافی کامیاب رہا ہے”۔ میں ششدر ہو کر رہ جاتا ہوں کہ کیا یہ ہوتے ہیں ایک جراتمند اور ملک وقوم کے وفادار جرنیلوں کے کارنامے۔

اگر یہ مبینہ ان کا ہی بیان ہے تو پھر یہ تو کھلم کھلا اعتراف ہے ان غلطیوں کا جس کا الزام تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنت پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے لگایا جاتا رہا ہے۔ ایک قانون کا طالب علم ہونے کے ناطے کئی آئینی و قانونی سوالات ذہن میں سر اٹھانے لگتے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داریوں بارے امیدیں اور تجاویز انگڑائیاں لینے لگتی ہیں تو دل کے ایک کونے سے وارننگ آتی ہے کہ کل ایاز امیر کا حال نہیں دیکھا جس کا ایک سیاسی، فوجی اور صحافتی پس منظر بھی ہے۔ اس کے باوجود اس کی کیسی ٹھکائی ہوئی ہے تو جذبات کو خاموش مصلحت کی حکمت عملی ہی مناسب لگتی ہے۔

پھر ماضی کے کچھ اتفاقات بھی حوالہ بن جاتے ہیں کہ کیسے چوروں کو میرے گھر سے فقط لیپ ٹاپ اور ڈیجیٹل کیمرا ہی پسند آیا تھا۔ سامنے پڑے ہوئے پرائز بانڈز، چند ڈالرز اور دو چار ہزار روپیہ ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ واضح فنگر پرنٹس کے باوجود پولیس بے بسی کا اظہار کر رہی تھی اور پھر یہ سلسلہ کئی اور واقعات سے تانے بانے جوڑنے لگتا ہے۔

دل میں خیال آرہا ہوتا ہے کہ سکون کا واحد حل یہی ہے کہ میڈیا سے دور رہا جائے اور خاموشی کو ہی اپنا ہمسفر بنا لیا جائے۔ اتنے میں ساتھ پڑے موبائل سے ٹی ٹی کی آواز آتی ہے کوئی میسج پہنچنے کے لئے بے چین ہوتا ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے سوشل میڈیا سے کٹ کر رہیں بھی تو کیسے؟ جیسے ہی موبائل کی سکرین روشن ہوتی ہے آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ سازشیں ، الزامات ، ہلڑ بازیاں ، تُوتُو، کیا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں عقل و فہم کی کوئی نہیں چلتی یہاں معاشرے کو اپنا آپ دکھانا ہے خواہ کوئی چاہے یا ناں چاہے۔ ہمیں اس کو برداشت کرنا ہی پڑے گا۔

یہ ہماری معاشرت کا عکاس ہی تو ہے جس کی ہم نے بڑے ناز ونخرے اٹھا کر تربیت کی ہوئی ہے۔ پھر ذہن میں ایک معصوم سا سوال ابھرتا ہے کہ کیا یہ سیاستدانوں اور وزرا کا الزامات اور انکشافات کا مزاج ایک آزاد اور خود مختار ملک کا تاثر پیش کرتا ہے جس میں وہ الزامات اور انکشافات کا اظہار، غیر آئینی واقعات کا سامنا تو کر سکتے ہیں۔ مگر اس پر کوئی آئینی اور قانونی اقدامات اٹھانے یا کچھ کرنے کی جرات نہیں رکھتے۔

کیا ان کے ذہنوں میں بھی ماضی کے حوالہ جات تو نہیں جو ان کو خبر دار کر رہے ہوں کہ ” وقت ٹپاؤ "۔ تو پھر ایسے ماحول میں لکھتے ہوئے ایک ایک لفظ پر بار بار غور کرنا اور انداز معرفت تو آپ کو سمجھ آ ہی گیا ہوگا۔ احتیاطی ذمہ داریاں اچھی چیز ہیں مگر یہ احتیاط نہیں خوف کا سماں ہے جس کی محرک وہ تمام سوچیں ہیں جن کا اوپر ذکر کر چکا ہوں۔

آخر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ جب تک یہ الزامات اور انکشافات سیاسی نعروں سے آگے بڑھ کر آئینی و قانونی راہ اور منزل نہیں پائیں گے سیاسی استحکام اور حقیقی آزادی کی کوئی پائیدار صورت نظر نہیں آتی۔

چلتے چلتے کچھ محسوسات لفظوں کے سہارے

کچھ بھی کہنے سے اب تو ڈر لگتا ہے

اپنا مسکن بھی دشمن کا گھر لگتا ہے

چاہتا ہوں بہت نہ کھولوں لب اپنے

پر کبھی کبھی منافقت یہ صبر لگتا ہے۔

قاضی، ملا، محافظ ہو یا کوئی صحافی

ہر کسی کی باتوں میں شر لگتا ہے

جلا کر رکھ دیا ہے میرے چمن کو

بے حسی کوتیری جو اک انداز خبر لگتا ہے

درندوں کو بھی دے گیا ہے مات

دیکھنے میں جو مانند بشر لگتا ہے

شاید بدل گیا ہے قیامت کا تصور

اب تو ہر روز یوم حشر لگتا ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں