حقیقی تبدیلی کیسے ممکن ہے

 

آج ہر کوئی نظام کی تبدیلی کی بات کرتا ہے ۔ لوگ تبدیلی کے نعرے سے اتنے مانوس ہیں کہ اس کے نام پر اس صدی کا سب سے بڑا پرینک بھی ہوچکا ہے جس نے ملک کو موجودہ معاشی بدحالی تک پہنچا دیا ہے ۔ حقیقی تبدیلی نظام حکومت میں نہیں بلکہ طرز حکومت ، معاشرت ، سیاست ، خدمت اور ملازمت میں لانے کی ضرورت ہے ۔ اور اس کے لئے بنیادی شرط مساوات کے اصولوں کو لاگو کرنا ہوگا ۔

ایک جمہوری ریاست کے اندر جب تک انصاف اور مساوات کو قائم نہ کیا جائے محض نظام حکومت کو بدل دینے سے کبھی بھی مطلوبہ نتائج کا حصول ممکن نہیں بنایا جاسکتا ۔ جس کی دلیل ہماری سات دہائیوں پر محیط تاریخ ہے کہ کیسے ہمارا ملک مختلف نظاموں کی تجربہ گاہ بنا رہا ہے اور ہم نے دنیا کے ہر کامیاب نظام کو ناکام ثابت کردیا ہے ۔ یہاں صدارتی نظام سے لے کر بنیادی جمہوری نظام تک چلائے گئےمگر سب ہی بے فائدہ رہے ۔ اور آج بھی جو لوگ بغیر بنیادی تبدیلیوں کے محض نظام کو بدلنے کی بات کرتے ہیں وہ یا تو خود ہماری خرابی کی وجوہات سے بے خبر ہیں یا پھر وہ ماضی کی طرح ملک و قوم سے دھوکہ کر رہے ہیں ۔

دراصل ہمارے مسائل کی بنیادی وجہ نظام نہیں بلکہ چند وہ وجوہات ہیں جو نطام کو جکڑ کر بیٹھی ہوئی ہیں اور جن کو ٹھیک کئے بغیر نظام کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کیوں یہی پارلیمانی نظام برطانیہ میں کامیاب ہے حالانکہ وہاں کوئی تحریری دستور بھی موجود نہیں مگر اس کے باوجود وہ اپنے روایات پر محیط دستور کی پیروی کر رہے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجوہات میں اعلیٰ اخلاق ، انسانی قدر و منزلت کی اقدار کا رواج اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مساوات اور انصاف پر کسی طرح کا بھی سمجھوتہ قابل قبول نہیں ۔

جب تک اعلیٰ اخلاقیات نہیں ہونگے تو پھر تحریری دستور بھی بے بس نظر آئے گا ۔ آپ نے اس کی مثال حالیہ سیاسی بحران کے پیدا ہونے کے پس منظر میں ملاحظہ فرمایا ہوگا ۔ ہم آئین میں کتنی ترامیم کرچکے مگر اس کے باوجود بہتری کی بجائے خرابی کی طرف جارہے ہیں اس کی وجہ نیت کی خرابی ہے ہمارے سیاستدان اپنے مفادات کے لئے اپنی مرضی کی تحریف کرتے رہتے ہیں ۔

اسی طرح ہمارے نظام عدل کا حال ہے وہاں بھی مساوات اور عدل وانصاف کے بنیادی اصولوں کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے اور ہمارا نظام عدل اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو جوابدہی کے عمل سے بالا سمجھتے ہیں اور اپنے اختیارات کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کی نشاندہی اندر سے ہی سامنے آرہی ہے ۔

آج ہی ایک نوٹیفکیشن کے زریعے گریڈ انیس اور اوپر والے حکومتی اہکاروں کی ڈیڑھ سو فیصد تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں ۔ تو کیا مہنگائی سے صرف وہ ہی متاثر ہوئے ہیں جن کی پہلے ہی مراعات اور سہولیات زیادہ تھیں ان کی تو تنخواہیں بڑھا دی گئی ہیں اور جن کا گزارہ بھی مشکل سے ہورہا ہے ان کو نظرانداز کیا جارہا ہے تو پھر کیسے اس کو انصاف یا مساوات کی بنیاد پر فیصلے کہا جاسکتا ہے یا ایسے فیصلوں سے بہتری کی امید لگائی جاسکتی ہے ۔

جب میں طرز حکومت ، سیاست ، ملازمت یا خدمت کی بات کرتا ہوں تو میری مراد ہر سطح پر مساوات کے اصولوں کو لاگو کرنا ہے جس سے عوام ، حکمران اور حکومتی اہلکاروں میں برابری کی جھلک نمایاں ہو جس میں ان کی طرز زندگی سے لے کر ان کے کام کرنے کے ماحول تک میں ایک عام شہری کو میسر سہولیات سے کوئی بھی شے مختلف نہیں ہونی چاہیے ۔ جو بھی اخراجات قومی خزانے سے استعمال کیے جارہے ہیں ان میں ضروریات کی بنیاد برابری کو یقینی بنانا ہوگا ۔ جس میں تمام وہ سہولیات جو ان کو خصوصی طور پر دی گئی ہیں ان کو فی الفور ختم کرنا ہوگا جس میں ان کے پروٹوکول سے لے کر تمام  سہولتیں ، بشمول صحت و تعلیم ، برابری کی بنیاد پرمیسر ہونی چاہیں جس کا معیار ایک عام شہری کی طرز زندگی ہو

مساوات کے زریعے سے جب اضافی مراعات اور تعلیم و صحت جیسی خصوصی پرائیویٹ سہولتوں کو ختم کر دیا جائے گا اور ممبران پارلیمان سے لے کر حکومتی عہدیداران تک کو انہیں سرکاری ہسپتالوں اور سکولوں سے واسطہ پڑے گا تو وہ خود ہی اس کی بہتری کے لئے کوشش کریں گے

تعلیمی نظام کو بھی قومی ترقی اور بہتری کے ساتھ مربوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ قوم کے اندر ملک اور اس کی املاک کی ملکیت اور اہمیت کے تصور، اس کی حفاظت کا جذبہ اور احساس ذمہ داری پیدا کیا جاسکے ۔

اسی طرح سرکاری سطح پر طرز خدمت کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے تاکہ نوکر شاہی کے تصور کو ختم کیا جاسکے ۔ جس ریاست کے خدمت پر مامور ملازم تک عام شہری کی رسائی ممکن ہی نہ ہو وہاں مثبت تبدیلی کا خواب کیسے دیکھا جاسکتا ہے ۔ کیا کسی بھی عوامی خدمت کے لئے ذمہ داریاں سونپے گئے ملازمت کے پیشہ سے منسوب آفیسر تک ایک عام شہری کی رسائی مساوات کی طرز پر ممکن ہے ۔ کیا ہمارے موجودہ طرز ملازمت میں اس کی کوئی جھلک ملتی ہے ۔ صورت حال یہ ہے کہ ایک عام شہری سادہ سی زندگی گزارنے کے لئے ساری زندگی تعلقات بناتا رہتا ہے کہ اگر زندگی میں کہیں اس کو سرکاری محکمے ، تھانے یا پٹوار خانے جانا پڑ جائے تو اس کے پاس سفارش موجود ہو ۔ اس غرض سے وہ ساری زندگی معمولی معمولی افسروں اور معاشرے کے سفید پوشوں کے نخرے اٹھاتا رہتا ہے ۔ تو اندازہ لگائیے کہ  کس طرح قوم کا وقت ، توانائیاں اور صلاحیتیں غلط استعمال ہوکر فضول ضائع ہورہی ہیں ۔

جب افسر شاہی کا خاتمہ ہوکر ان کے اندر سادگی کے رواج کو عام کیا جائے گا اور انکو عوامی احتساب کے عمل کے تابع کردیا جائے گا تو پھر وہ خود بخود ہی معاشرے میں بھی سادگی کو رواج دینے کی طرف راغب ہونگے جس سے طرز معاشرت میں بھی دولت کے کردار کی حوصلہ شکنی ہوگی اور اچھے کردار کے حامل شہریوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگے گا ۔  

یہ سب سہولتیں چونکہ طاقت ، اختیارات اور عہدوں کے غلط وغیر مساویانہ طریقوں کے استعمال سے حاصل کی گئی ہیں لہذا ان کو فی الفور ختم کیا جانا چاہیے ۔ کابینہ کو ایک عام اصول کے تحت بغیر کسی محکمے یا ادارے کا ذکر کئے سب کے لئے برابری کی بنیاد پر قانون بنا دینا چاہیے جو سب پر ایک جیسا لاگو ہو ۔ اس سے نہ صرف معاشرتی تفریق ختم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ ان افسر شاہی کی آسودگیوں کے شر ، تشدد اور سازشوں سے بھی حکومت اور شہریوں کو تحفظ مل جائے گا ۔

اسی سے طرز معاشرت کو بھی بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور اس میں بھی حکومت کا کردار یہ بنتا ہے کہ عوام کو ترقیاتی منصوبوں سے لے کر عوامی خدمت کے شعبوں تک کے عمل میں شرکت اور نگرانی میں حصہ لینے کے لئے ایسی حکمت عملی ترتیب دے جس سے عوام میں دلچسپی پیدا ہو اور عام عوام میں شعور اجاگر کرنے کا ماحول پیدا ہو۔

طرز سیاست کو بدلنے کے لئے ایسی اصلاحات لانی ہونگی جن سے سیاست میں ایک عام شہری کی شمولیت کو ممکن بنایا جاسکے ۔ سیاست میں دولت کے کردار کو ختم کرنا ہوگا اس کے لئے انتخابی مہم سازی سے لے کر حکومت سازی تک کو بدلنا ہوگا ۔ گھر گھر ، گاؤں گاؤں جانے کی انتخابی مہم سازی کے طریقے کو بدل کر قومی نشریاتی اداروں کے زریعے سے ہر انتخابی امیدوار کے انفرادی منشور سے لے کر جماعتی منشور تک کی تشہیر مساوات کی بنیاد پر کی جائے اور جلسے جلوسوں اور ہر طرح کے اشتہارات اور قیام و طعام کے بندوبست پر مکمل طور پر پابندی لگا دی جائے تاکہ سیاست میں سے دولت کے کردار کومکمل طور پر ختم کیا جاسکے اور انتخابی عمل کو جتنا ممکن ہو سادہ بنا دیا جائے تاکہ صحیح  جذبہ خدمت ، سوچ ، نیت ، بصیرت اور دانش کو نمائندگی کا موقع ملے ۔ سیاست خدمت کا شعبہ ہے جس کے لئے جذبے کی ضرورت ہے نہ کہ دولت کے دکھلاوے اور جاہ و جلال کی

مساوات اور احتساب کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے ہر سطح پر مالی معاملات سے لے کر اختیارات  کے بارے معلومات تک رسائی کو شفاف بنا کر عام آدمی تک کے لئے ممکن بنا دیا جائے اور عام شہری کے تحفظات اور شکایات کی شنوائی اور دادرسی کے طریقہ کار کو وضع کرکے اس پر عمل کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ مزید انصاف اور احتساب کے عمل کو مین میڈیا سٹریم پر دکھایا جانا چاہیے خواہ وہ دفتری کاروائی ہو یا عدالتی عوام کے سامنے ہونی چاہیے ۔  

اس طرح کی اصلاحات سے اگر اسی پارلیمانی نظام کو ہی مساوات کے اصولوں سے مزین کرکے شفافیت اور احتساب کے عمل کو لاگو کردیا جائے تو تبدیلی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے اور اگر ان بنیادی تبدیلیوں کے بغیر  صدارتی تو کیا کوئی بھی نظام رائج کردیا جائے بہتری ممکن نہیں ۔

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں