عاصمہ جہانگیر کانفرنس آزادی اظہار رائے کا استعارہ ۔

یہ کانفرنس  عاصمہ جہانگیر کی وفات سے جاری ہے اور ہر سال اس کانفرنس میں انسانی حقوق کی آوازیں پہلے سے زیادہ بلند ہوتی جارہی ہیں ۔ اور مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ عاصمہ جہانگیر کا مقصد زندگی ان کی موت کے بعد اور بھی زیادہ سرعت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ۔ کارنفرنس  کے دنوں کا ماحول دیکھ کر  یوں لگتا ہے جیسے پاکستان میں انسانی حقوق کے عملدار آواز حق کو بلند  کرنے کے لئے اس ساز گار ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بلا خوف خوب دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ۔ ایسی ایسی آوازوں کو موقعہ ملتا ہے جن کا بوجھ عام حالات میں میڈیا تو کیا سوشل میڈیا بھی اٹھانے سے گھبراتا ہے ۔

کوئی تو ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہیے جہاں ان خوفوں ،  نفرت کے لاوؤں ، شہریوں کے تحفظات ، اپنوں کے شکووں اور ڈر کے خوف سے چھپے اور دبے ہوئے خیالات کو باہر آنے کا موقعہ ملے وگرنہ یہ بہت بڑا خطرہ بن جاتے ہیں ۔ حد سے  زیادہ خوف کا ماحول بھی  ریاست کی کمزوری  ہوتی ہے جو کبھی بھی دشمن کے ہاتھ لگ سکتی ہے  ۔

اس لحاظ سے تو یہ ٹھیک ہی ہے کہ شکوے شکایتیں  کرنے اور دل کا حال جاننے  کا موقعہ ملتا ہے ۔ دل کی حالتیں  زبان پر آتی ہیں اور اندر ہی اندر دبے لاووں کے پریشیر کو کم ہونے کا موقعہ ملتا ہے  ۔مگرعقل  وشعور  کا یہ تقاضہ ہے کہ اس کو محض ایک روائتی مشق سمجھ کر نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ اس پر توجہ دیتے ہوئے دکھتی نبض کی علامات سے قومی بیماریوں کی تشخیص اور اس کا صحیح علاج   ڈھونڈنا چاہیے تاکہ پوشیدہ خطرات کو ختم کیا جاسکے ۔

اس دفعہ پچھلی کانفرنس  کی بجائے شکائتوں اور شکووں میں تیزی  نظر آتی ہے ۔ پچھلی دفعہ تو وہاں زیادہ تر مقررین اپوزیشن سے تھے اور جن حکومتی شخصیات کو بلایا گیا تھا  انہوں نے بھی اجتناب ہی برتا تھا اور جو چیف جسٹس صاحبان کی موجودگی میں تحفظات  نے بے قابوپن کا مظاہرہ کیا تھا جس  کی گونج  بعد میں بھی کافی مہینے  سنائی دیتی رہی ۔ مگر اس دفعہ حکومتی شخصیات کی انتظامی سربراہی میں  یہ حقوق کے اظہار  کا  سلسلہ جاری رہا۔

اور جو نعرے وہاں گونجتے رہے وہ دہرانے یا بیان کرنے کے قابل نہیں ۔اور وہ  ہمارے سیاسی و انتظامی  حالات میں تو شائد پبلش کرنے کی اجازت ، جرات   یا درجہ نہ رکھتے ہوں مگر دوسری طرف  اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آج سوشل میڈیا کے دور میں کچھ بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں  اور لمحوں میں پاکستان ہی نہیں دنیا کے کونے کونے میں پھیل بھی چکے ہونگے۔

حکومتی نمائندوں کو وہاں ان کی موجودگی میں  صحافت کی زبان سے ان کے منہ پر تھپڑ پڑنے تک  کی بات ہوئی اور ان کو وہ آئینہ دکھانے کی کوشش کی گئی جس سے وہ چہرہ چھپا رہے تھے ۔ اور لوگوں نے وہاں  ان کی بے بسی کو منہ چھپاتے بھی دیکھا ۔  وہ ڈھٹائی سے سب کچھ سنتے رہے اور کچھ خوددار وہاں سے اپنے عہدے کا خیال رکھتے ہوئے  اندر باہر کے چکر بھی لگاتے رہے ۔

یہ کانفرنس پچھلی کانفرنسز سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ اس کی پاداش  میں  وزیر  قانون کو اپنے عہدے کی قربانی بھی دینی پڑی اور وزیر خارجہ پر دباؤ  بھی سننے میں آرہا ہے ۔ سپریم کورٹ بار کے صدر محمد احن بھون نے تو اس کی وجہ ججز کی تعیناتی میں دیئے جانے والے ووٹ  کو کہا ہے لیکن  میں سمجھتا ہوں کہ اس میں زیادہ اثر کانفرنس میں ان کی موجودگی میں قابل اعتراض تقاریرکا ہے  جن میں اداروں کو نشانہ بنایا گیا ۔ ووٹ اسلئے  وجہ  نہیں  کیونکہ وہاں تو  انہوں نے اپنے بیانیے کے خلاف  استعمال  کرکے  اپنی وزارت کو بچانے کی کوشش کی تھی وگرنہ ان کو ووٹ دینے سے پہلے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا ۔ اور اس ووٹ کی سیاست نے  عاصمہ جہانگیر گروپ کی وکلاء کے اندر  مقبولیت  کو بھی متاثر کیا ہے  جس کا اندازہ ان کو اگلے الیکشن میں معلوم ہوگا ۔

ایک اور بات جو نوٹ کرنے کے قابل نظر آئی وہ یہ تھی کہ پچھلی کانفرنس میں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس اور صوبائی اعلیٰ عدالتوں کی چیف صاحبان نے بھی شرکت کی مگر اس دفعہ فقط جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی نظر آئے جنہوں نے ہوش ربا اور سبق آموز  خیالات کے زریعے سے  تاریخ کے حوالوں  سے ریاست کے ہر ذمہ دار کو باور کرانے اور عوام کو ان کے حقوق کی نشاندہی کرکے جمہوریت ، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کی پاسداری میں ممد و معاون قوانیں اور طریقہ کار کو مختصراً مثالوں اور حوصلہ افزاء  انداز  بیان سے  آگاہ کرنے کی کوشش کی جو واقعی سامعین کے لئے  ہمارے نظام عدل کے مستقبل کے متعلق ایک امید کی کرن تھی۔

اس کانفرنس میں پاکستان کی تاریخ کے حوالوں کے سہارے ریاست کے ہر جبر، آمریت، لاقانونیت، جمہوریت کو لاحق خطرات  اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو جس جرات کے ساتھ بیان اور للکارا جاتارہا ہے وہ نہ تو جھوٹ ہے  ، نہ ہی کسی سے پوشیدہ ہیں اور نہ ہی ان کو دبانے کی کوئی تدبیر کامیاب ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔  

وہاں جن خیالات اور سوچوں کا اظہار ہوتا رہا وہ قطعاً بھی نظر انداز کرنے والی نہیں ۔ اور ان  پیچھے چھپی بے بسی خطرات کا عندیہ دیتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ اس پر ریاست کے انتظامی امور کی حامل طاقتوں کا صرف یہ کہہ دینا کہ اداروں پر تنقید اچھی نہیں ہوتی کافی نہیں ۔ بلکہ حقائق کو سمجھتے ہوئے اس کے سدباب کے لئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔

ان سوچوں اور خیالات سے چھلکتی نفرتوں کو محبتوں کی چادر کی ضرورت ہے ۔ ان کو اگر غلط فہمیاں ہیں تو  بھی ان کو دور کرکے ان کو گلے لگانے کی ضرورت ہے ۔ قانون انسانوں اور معاشروں کی بھلائی کے لئے بنائے جاتے ہیں ۔ سزا  و جزا کا تصور خوف  پیدا کرکے معاملات کو صحیح رکھنے کی غرض  سے متعارف کروایا جاتا ہے ۔  ان کے بے جا  یا تسلسل کے ساتھ استعمال سے ان کے پیچھے پوشیدہ جرائم  سے بچاؤ اور ان سے نمٹنے   کی حکمت عملی کمزور پڑتی جاتی ہے ۔

ہماری تاریخی قومی بے وقوفیوں نے اعتماد ،  باہمی محبت  ، رواداری اور یکجہتی  کو بری طرح سے متاثر کیاہے اور اب وہ تمام حربے جو ناانصافیوں  اور غیر مساویانہ  اعمال کے نتائج کو دبانے کے کام لائے جاتے رہے ہیں وہ بے اثر ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔

کسی انسان کو تکلیف یا موت سے ڈرایا  ہی جاسکتا ہے اور اگر وہ خود ہی  سولی پر لٹکنے کے لئے تیار ہوجائے تو وہ  ناقابل تسخیر بن جاتا ہے ۔ ماضی کی غداری اور حب الوطنی کی تعریفیں اور مثالیں اب اپنے اثرات کھوتی ہوئی دکھتی ہیں ۔ اب ان قائم کی گئی حدود کو کراس کرنے کا خدشہ  ہی نہیں بلکہ عبور ہوتی   ہوئی نظر آرہی ہیں  اب ان کا علاج صرف اور صرف   محبت ، انصاف اور مساویانہ برتاؤ سے ہی ممکن ہے ۔

صاحب اختیار اور اقتدار طاقتوں سے گزارش ہے کہ اب تادیبی کاروائیوں  میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اس کا پائیدار حل ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے اور تمام سٹیک ہولڈرز کی شمولیت کو   مخلصانہ طور پر یقینی بنا کر ان شکائتوں  ، خدشات ، غلط فہمیوں اور تحفظات کو دور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے  وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ  بہت دیر ہوجائے ۔

اور اس میں سب سے زیادہ ذمہ داری سیاسی طاقتوں پر آتی ہے کہ وہ اپنے باہمی اختلافات کو بھلا کر  مخلصانہ کوشش میں اپنی نیت  اور عمل سے اس کو  تقویت بخشیں ۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں