قاضی فائزعیسیٰ کی سربراہی میں عدلیہ آزاد اور
مضبوط ہوگی
اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ وہی ملک
ترقی کرتے ہیں جہاں انصاف یقینی ہو۔ انصاف ہی جمہوریت، قانون کی حکمرانی ،
انسانی حقوق کی پاسداری اور سیاسی استحکام کو یقینی بناتا ہے۔اور جب یہ تمام
شرائط پوری ہوجائیں توعوام کے اندر وہ اعتماد پیدا ہوتا ہے جس سے حق بات کہنے اور
سننے کا حوصلہ پیدا ہو ۔پھر عالمی سطح پر اعتماد بحال ہوکر بیرونی سرمایہ کاری کی
راہیں ہموار ہوجاتی ہیں اور حکومت نے شائد اسی پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے
جسٹس فائز عیسیٰ کا بحثیت اگلے چیف جسٹس کا نوٹیفکیشن وقت سے پہلے جاری کر دیا ہے
تاکہ غیر یقینی صورتحال ختم ہو۔ ان کے چیف جسٹس بننے سے یقیناً حالات بہتر ہونگے
مگرمکمل غیر جانبدار ی اور شفافیت کے لئے عدالتی اصلاحات کی ضرورت ہوگی۔ جس میں
ججز کی تعیناتی کے عمل کو موثر بنانے کی انتہائی ضرورت ہے ۔
نامزد چیف جسٹس فائزعیسیٰ سولہ ستمبر کو اپنا
چارج سنبھالیں گے اور پاکستان میں بہتری کی ایک نوید کا آغاز ہوگا۔ اس بات کو میں
کسی مفروضے کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا بلکہ اس کے گواہ ان کے وہ فیصلے ہیں جن کی
بنیاد پر کوئی بھی اس ملک کا مقتدر حلقہ ماضی میں ان سے خوش نہیں رہا جس کی وجہ ان
کا غیر جانبدارانہ اور شفاف انصاف ہے جس کے ہم عادی نہیں ہیں ۔
فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر پاکستان تحریک
انصاف، فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان ناراض ہوگئے تھے کیونکہ اس میں
انہوں نے واضح طور پر کہاتھا کہ آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آرسیاست میں دخل
اندازی بند کریں اور انہوں نے ذمہ داران کے خلاف ایکشن لینے کا بھی حکم دیا تھا جس
کی وجہ سے ان کو عہدے سے ہٹانے کی کوششیں تیز ترہوتی ہوئی دکھائی دیں اورکئی
مفاد پرست ججز کی لاٹریاں بھی نکلیں اور مستقبل کے بندوبست کے پیش نظر ججز کی تعیناتیوں
اور بھرتیوں کی منڈی لگی رہی جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں ۔
میمو گیٹ کے فیصلے پر پیپلزپارٹی ان سے ناراض
ہوئی ۔کوئٹہ بم دھماکے میں مسلم لیگ کی حکومت ان سے ناراض ہوئی تھی۔ اور ابھی ان
کو آڈیو لیک کمیشن کی سربراہی دینے پر سپریم کورٹ کے اندر پریشانی لاحق ہے
جس کو محض ایک پریکٹس کی بنیاد پر اپنی پریشانی کو سہارا دینے کے لئے قاضی
جسٹس فائز عیسیٰ کو کام کرنے سے روک دیا گیا۔ اسی طرح قاضی فائز عیسیٰ کو وکلاء کی
ہڑتال پر سخت چڑ ہے کہ سائلین سے بھاری فیس لے کر جب وہ عدالت میں اپنی تاریخ پر
آئیں تو وکلاء کی طرف سے ان کے ساتھ پیشی پر اس لئے انکار کر دیا جائے کہ وہ
ہڑتال پر ہیں انتہائی ظالمانہ رویہ ہے ۔
پارلیمان کی طرف سے ان کو دستور کی گولڈن جوبلی
پر بلایا گیا اور جس پر ان کو ان کے مخالفیں کی طرف سےتنقید کا نشانہ بھی
بنایاگیا۔ وہاں انہوں نے حکومت کو واضح طور پر یہ پیغام دے دیا تھا کہ اگر آپ کل
میرے فیصلوں سے کوئی بے جا نرمی یااصولی مزاحمت سے بچنے کی امید
وابسطہ رکھے ہوئے ہیں تو وہ ختم کردیں ۔
پھر ان کوان سے مشورہ کئے بغیر فوجی
عدالتوں کے خلاف درخواستوں کو سننے والے بنچ میں شامل کرلیاگیا جو ان کی دلیری اور
بہادری کی ایک اور مثال بن گئی ۔ ان کو شامل کرنے کی وجہ ایک سلگتی ہوئی خواہش
تھی جس پر ان سے مہر ثبت کروانے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ فوجی عدالتوں بارے
ایک واضح موقف رکھتے ہیں ۔ لیکن ان کی آئین و قانون کی پاسداری کی مثال
نے سب کو بے نقاب کر دیا اور انہوں وہ ساری باتیں بھری عدالت کے سامنے رکھ
دیں جو چہ مگوئیوں میں کہی جارہی تھیں ۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے آج کل بنائے
جانے والے تمام بنچز پر اپنی عدالتی رائے کو واضح کردیا کہ ان کے نزدیک بنچز
قانونی طور پر جائز نہیں ہیں ۔اور پھر ان کے اس نوٹ کو سپریم کورٹ کے ویب سائیٹ سے
بھی ہٹا دیا گیا جس سے تمام نیتوں کی وضاحت قوم کو مل گئی کہ کس طرح سے
سپریم کورٹ کے اندر لوگ ان کی قانونی رائے سے خائف اور پریشان ہیں ۔
جس بندے نے خود کوئی پلاٹ نہیں لیا وہ
پلاٹوں کی بندر بانٹ اور ریاستی وسائل سے کھیلنےوالوں کے لئے کیسے قابل
برداشت ہوسکتے ہیں ۔ جنہوں نے حفاظ کرام کو بیس نمبروں سے اس لئے محروم کر دیا کہ
یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس سے اقلیتوں کے حقوق کی تلفی ہوتی ہے ۔
انکے خلاف معزولی کا ریفرنس بھی ان سے ظالمو کو
ممکنہ لاحق خطرات کے پیش نظر ہی تھا جو ان کی انصاف کے معاملے میں شفافیت سے خائف
تھے۔ جس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور ان کے خاندان کو رسوائی اور پریشانی کا
سامنا بھی کرنا پڑا مگر اللہ کی طرف سے ان کی بے گناہی کا فیصلہ بھی ہوا۔
انہوں نے ایک وقت پر استعفیٰ بھی دینے کا ارادہ کر لیا تھا مگر پھر اس کو صرف اور صرف
اس ملک اور عوام کی خدمت کی خاطر ترک کر دیا۔ اب اگر ان کوخدمت کا موقع مل رہا ہے
تو یقیناً وہ عوام کی مشکلات کو کم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ ان کے
اس ریفرنس میں ملوث لوگ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں رہے اور سب ایک دوسرے کو بے
نقاب کرتے رہے اور اپنی صفائی میں تسلیاں دینے کی کوشش کرتے رہے ۔ اس وقت کی ڈی جی
ایف آئی اے بشیر میمن کے بیانات بھی تاریخ کا حصہ ہیں جن میں وہ قصورواروں
کو بے نقاب کرتے رہے ۔
27 اپریل 2021
کو میرا ایک کالم "مجاہد قاضی فائز عیسیٰ" کے عنوان سے چھپا تھا جس میں
نے ان کے اندر ان صلاحیتوں کا ذکر بھی کیا تھا جو ایک جج کے اندر ہونی چاہیں مثلاً
اس کو اس عہدے کی خواہش نہ ہو، وہ اہلیت اور قابلیت رکھتا ہو اور پھر انصاف
پر مبنی فیصلے بھی کرتا ہو۔ اسی کالم سے ایک پیرا ریفرنس کے طور
پر ملاحظہ فرمائیں۔
قلات کا شہزادہ، بین الاقوامی تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل
جس کو گھٹی میں قضاء ملی اور جب ان کو قاضی کے عہدے کے لئے چنا گیا تو ایک اطلاع
کے مطابق انکی تین کروڑ ماہانہ آمدن تھی ۔ ان کے کھاتے میں کئی منفردات جاتے ہیں
ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان کو براہ راست چیف جسٹس آف بلوچستان ہائی کورٹ لگایا
گیا جس کو بعد میں چیلنج بھی کیا گیا مگر وہ اس سے سرخ رو ہوئے اوروہ جن کو نہ تو
عزت کی کمی تھی اور نہ مال و دولت کی بلکہ ان کو لانے کا مقصد ہی پاکستان کی عدلیہ
کو ایک ایسا جج دینا تھا جس کی واقعی ضرورت تھی "
آج ہماری وہ ضرورت صحیح معنوں میں پوری ہونے کی صورت دکھائی دے رہی ہے ۔
جس کو جان کے خطرے کی
دھمکیاں بھی ملتی رہیں مگر وہ اپنی رہائش سے پیدل سپریم کورٹ واک کرتے پہنچ
جاتے ہیں ۔ جن کا خدا اور موت کے دن پر مصمم یقین ہے جن کے نزدیک خوشامد اور
تعلق انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ جس کے نزدیک آئین
و قانون اور اس کی پاسداری کا حلف ہی انصاف کا معیار ہو پھر اس
سے بہتری کی نوید کیوں نہ لگائی جائے ۔ دعا ہے کہ اللہ قاضی فائز عیسیٰ کا حامی و
ناصر ہو۔
اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ بہتری کی امیدوں کے
لئے ماحول کی زرخیزی کے آثار موجود ہیں مگر اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمان فوائد حاصل کرنے کے لئے مثبت اور جائز اصلاحات
کے زریعے سے لاحق خطرات کا سد باب کر سکے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کا احترام بحال
کرنے کے ساتھ ساتھ عام شہری کا احترام بھی بحال کریں گے۔ نظام انصاف کے ماحول میں
لاء آف ٹارٹ پرعملدرآمد عدلیہ کی ترجیحات میں شامل ہوگا تاکہ اس ملک میں آئین و
قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جاسکے اور الزامات کی ثقافت اور سیاست کا
خاتمہ ہو۔ ریاست کے وسائل کی طاقت سے بنائے گئے قلعے ٹوٹیں گے اورسول بالادستی کو
فروغ ملےگا۔
مگر اس کے لئے سیاستدانوں کو بھی پارلیمان کو
مضبوط بنانا ہوگا اپنا خوف ختم کرکے احتساب کے عمل میں آزاد اور مضبوط عدلیہ کے
قیام کے لئے ان کا ساتھ دینے کی تیاری کرنی ہوگی۔ فیض آباد دھرنا کیس جیسے فیصلوں
پر عملدرآمد کے لئے حکمت عملی کو یقینی بنانا ہوگا تاکہ اس ملک کے ساتھ ہونے
والے کھلواڑکا حساب برابر کرکے اس باب کو ہمیشہ کے لئے بند کیا جاسکے۔
اس کے لئے سازگار ماحول 16 ستمبر کے بعد مہیا
ہونے والا ہے اور اس کی راہ میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بھی بظاہر کوئی رکاوٹ
دیکھنے میں نہیں آرہی مگر اس کا حوصلہ بہر صورت پارلیمان کی ذمہ داری ہے جسے پورا
کرنا ہوگا۔اداروں پر محض تنقید ہی نہیں کرنی ہوتی بلکہ ان کو مضبوط بنانے کے لئے
اقدامات بھی کرنے ہوتے ہیں تب ہی آئین کی بالادستی کے ثمرات حاصل ہوتے
ہیں ۔آئین کے اندر چیک اینڈ بیلنس سسٹم کو مکمل طور پر فعال اور موثر بنانے کے لئے
اصلاحات لانے کا ماحول بھی سازگار اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نظام
کو بہتر بنانے کا بہتریں موقعہ ہوگا۔مکمل اور آزاد عدلیہ کے لئے احتساب کے عمل کو
بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے جس کا آغاز بھی نظام عدل سے ہی ہونا چاہیے ۔ جسٹس
فائز عیسیٰ ججوں کی تعیناتی اور بنچز کی تشکیل وغیرہ بارے اپنی سوچ کا اظہار متعدد
بار کر چکے ہیں اور وہ یقیناً اس کے لئے کوشش بھی کریں گے مگر
پارلیمان کو بھی اپنے حصے کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ضرورت ہے ۔
سپریم کورٹ کے اندر کی تقسیم محض
چیف جسٹس کے بدل جانے سے ختم نہیں ہوجائے گی۔ اس تقسیم کی بنیاد وہ بندوبست ہے جس
کو دہائیوں پر مشتمل اقتدار کے خواب کے پیش نظر عمل میں لایا گیا۔ عدلیہ کے ساتھ
اس اقتدار کو ہم آہنگ بنائے رکھنے کے لئے ہم خیال ججز کو بھرتی بھی کیا گیا اور
اعلیٰ عدلیہ میں تعینات بھی کیاگیا جس کے مبینہ شواہد بھی گردش کر رہے ہیں اور ان
کی سب سے بڑی وجہ ان تعنیاتیوں میں سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی ہے جس نے ان تمام
خدشات کو جنم دیا۔ اب ان مبینہ شواہد کی بنیاد پر عدالتوں کی غیر جانبداری اور
شفافیت کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی بھی ضروری ہے تاکہ عدالتوں پر عوام کا
اعتماد بحال کرکے ادارے کی ساکھ کو بچایاجاسکے۔جس کے لئے قاضی فائز عیسیٰ پر ایک
بھاری ذمہ داری ہے جس کے لئے سپریم کورٹ کے ججز اورحکومت کو بھی ساتھ دینا
چاہیے تاکہ ملک میں آئین و قانون کی پاسدار کو یقینی بنایا جاسکے۔
تمام وہ فیصلے جو عدلیہ کی بدنامی کا سبب بنے ان کی تلافی بھی ضروری
ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں