قومی یکجہتی سے چیلنجز کو مواقعوں میں بدلنا ہوگا

وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے اختلافات کو بھلا کر یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مسائل پر اٹھ کھڑی ہوں اور مشکلات کو مواقعوں میں بدل ڈالیں۔

اس وقت خواہشات کو بھلا کر ضروریات پر توجہ دینے کا وقت ہے اور ضروریات کے پورا کرنے کی بہترین حکمت عملی یہ ہے کہ ہر کوئی دوسرے کی ضرورت کا خیال اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو یوں ہر ایک کی ضروریات پوری ہوتی چلی جائیں گی۔

اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری حکومت پر ہے تو پھر ہمیں اعتماد کرتے ہوئے ان کو فیصلے کرنے کا اختیار اور اس پر ساتھ دینا ہوگا۔ ہمیں فوری طور پر اپنے انفرادی مفادات کو پس پشت ڈال کر قومی سطح کے اجتماعی مفادات کی طرف توجہ دینا ہوگی یہی قومی یکجہتی اور وقت کا تقاضہ ہے۔

یہ خوش آئند بات ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اختلافات کے باوجود اکٹھی ہیں اور تحریک انصاف کو گرینڈ ڈائیلاگ کی دعوت دے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے اسمبلیوں کا رخ کرنے کا فیصلہ ابھی تعطل کا شکار ہے مگر سننے میں آرہا ہے کہ اکثریتی لوگ اس کے حق میں ہیں۔ عمران خان نے ایک دن قبل لاہور میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے رویے میں نرمی کا اظہار کیا ہے۔ تحریک انصاف کے لئے دانشمندانہ حکمت عملی یہی ہے کہ وہ بھی ملکی صورتحال کے تحت اس عمل کا حصہ بنیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ ان کو خلا مہیا کریں۔

اب کمزوریوں کی طرف دیکھنے کا نہیں بلکہ صلاحیتوں کو تسلیم اور ان کی توثیق کرتے ہوئے تمام تر توانائیوں کو یکجا کرکے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے سخت فیصلے کئے ہیں جس سے مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ مگر امید کی جاتی ہے کہ حکومت معاملے کو سنبھال لے گی۔ حکومت نے کفائت شعاری کے لئے جو پالیسی بنائی ہے وہ خوش آئند ہے مگر مزید اقدامات کرنے ہونگے۔ عوام کے اعتماد کو بحال کرنے کے لئے احتساب کی بھی کوئی مشترکہ حکمت عملی بنانا ہوگی تاکہ غیر جانبدار اور شفاف طریقے سے قومی خزانے کو پہنچنے والے نقصانات کا سدباب ہوسکے۔

اب قوم کا یہ امتحان ہے۔ تاریخ میں ایسا وقت قوموں کو بنانے کے لئے آتا ہے۔ حال ہی میں افغانستان کی مثال ہمارے سامنے ہے پچھلے ایک ڈیڑھ سال سے افغان قوم رضاکارانہ طور پر ملکی معاملات کو سنبھالے ہوئے ہے اور اب ان کی معاشی حالت بہتر ہے اور باہر سے انوسٹمینٹ آنا شروع ہوگئی ہے۔

اسلامی تاریخ میں جنگیں بھی پیٹ پر پتھر باندھ کر لڑی گئیں۔ اور جب قائد نے آواز دی تو سب کچھ حاضر کردیا گھر میں صرف اللہ اور اس کے رسول کا نام چھوڑا تھا۔


اسی طرح انیسویں صدی کے اوائل میں مغربی ممالک کی مثال ہے جس میں لبرل نے متحدہ اقتصادی علاقے کی تخلیق کی حمائت کی۔ بازاروں کی آزادی اور اشیا اور سرمائے کی نقل و حرکت پر ریاست کی طرف سے عائد پابندیوں کے خاتمے کے بارے میں متوسط طبقے کے مطالبے کی حمائت کی۔ نئے متوسط طبقے کے لئے انفرادی آزادی اور قانون کے سامنے سب کی برابری کو یقینی بنایا تو آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یورپ کتنا ترقی یافتہ ہوگیا ہے۔

پاکستان کو ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کی پالیسیوں میں بھی نرمی پیدا کرنی ہوگی اور اس کو ساوتھ ایشیائی ممالک تک بڑھانے کے لئے کوشش بھی کرنی چاہیے۔ اب حکومت کو ہر طرح کی تفریق کو ختم اور مساوات کو قائم کرتے ہوئے محرومیوں کا خاتمہ کرنا ہوگا تاکہ اتحاد و یگانگت کی راہ ہموار ہوسکے۔

اس وقت معاشی بدحالی، بیرونی قرضے اور توانائی کا بحران ہمارے بڑے مسائل ہیں اور ان کے لئے حکومت کی بنائی گئی حکمت عملی کا ساتھ دے کراعتماد کا اظہار کرنا ہوگا۔ اس لئے اب ان پر سیاست کرنے کا نہیں بلکہ ایک ہوکر عمل کے زریعے ریاست کو بچانے کا وقت ہے۔

مشکل فیصلے ہوچکے توانائی کا بحران تو ایک دن میں کافی حد تک حل ہوسکتا ہے۔ صرف انتظامی معاملہ ہے اگر قوم ساتھ دے اور دن کے اوقات کو کاروباری معاملات کے لئے مختص کردے اور رات کو صرف آرام اور ضروری معاملات تک محدود کرلے تو مسئلہ کافی بہتر ہوسکتا ہے جس کا حکومت نے فیصلہ بھی کیا ہے۔ ساتھ کم قیمتوں پر شمسی توانائی کے لئے قرضوں کی بھی منظوری دی ہے۔ اب قوم کو ساتھ دینا ہوگا۔

معاشی صورتحال اور بیرونی قرضوں کا معاملہ سنجیدہ ہے مگر ناممکن نہیں ضرورت اس کی بہتری کے لئے ٹھان لینے کی ہے۔

قوم کو اکٹھا کرنے کے لئے سیاسی جماعتوں کو باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کے لئے خلا پیدا کرنا ہوگا اور جس کے پاس جو صلاحیت ہے اس کی نسبت سے ذمہ داریوں کو بانٹنا ہوگا۔ مسلم لیگ کے پاس تجرباتی ٹیم ہے اور وہ ماضی میں اس کا تجربہ اور کارکردگی کی مثال بھی قائم کرچکے ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس عوام کی آمادگی حاصل کرنے، یکجا کرنے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پرمہم چلانے کی صلاحیتیں موجود ہیں اور جماعتوں کو ایک میز پر لانے کی صلاحیتیں مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری ادا کرسکتے ہیں اسی طرح جماعت اسلامی اور دوسرے قائدیں بھی قوم و ملک کی بہتری کا جذبہ اور صلاحیتیں رکھتے ہیں۔

سوچوں کو بدلنا ہوگا ان کا مرکز ذاتی مفادات سے ہٹا کر باہمی، اجتماعی اور قومی مفادات کو بنانا ہوگا۔ آمرانہ سوچوں کو شکست دینے کے لئے جمہوری سوچوں کو پروان چڑھانا ہوگا۔

میں سمجھتا ہوں کہ قومی جذبے کے تحت کوئی ایک فرد یا خاندان بھی اس قرضے کو اتاردے اگر قوم متحد ہوکرکسی کو اپنا محسن تسلیم کرتے ہوئے قومی سطح پر "محسن پاکستان" کے قومی اعزاز کی پیشکش کرے۔ فیڈریشن کی علامت صدر ہاؤس کو اس کے نام سے منصوب کردیا جائے یا تحفتاً انہیں پیش کردیا جائے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ قوم اپنی اپنی استعداد کے مطابق حصہ ڈالے اور وہ بھی قرض حسنہ کے طور پر یا پھر اسلامی مالیاتی شرائط کے تحت کوئی مالی تجارتی ضمانت کے تحت منافع بخش پرائز بانڈز کا اجراء کرکے قرض کو اتارنے کے لئے کوئی سکیم متعارف کروائی جاسکتی ہے۔ عوام کو اعتماد میں لینے کے بعد بیرونی قرضوں کو اندرونی میں بدلنے کی کوئی حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں اندرونی اور بیرونی تجارت کے معاملات بھی جدید خطوط اور تکنیک سے وابسطہ کرکے اہداف متعین کئے جاسکتے ہیں۔ اس پر قومی ماہریں بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار کرسکتے ہیں۔

مگر ایک بات واضح ہے کہ موجودہ روائتی مالیاتی اداروں کے ساتھ معاہدوں اور قرضوں والا نظام کام کرنے والا نہیں ہمیں ضرور متبادل ذرائع کو دیکھنا ہوگا۔ ہمسائیہ دوست ممالک سے قرض حسنہ یا مضاربہ شرائط پر قرض یا سرمایہ کاری کی صورتحال پر بھی کوئی حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے۔ کوئی ایسی تجارتی اور سرمایہ کاری کی پیشکش کی حکمت عملی بنائی جاسکتی ہے جس میں مکمل اعتماد کو بحال کرنے کے لئے مالی ضمانت دے کر پرکشش مراعات کی پیشکش جس میں معصولات وغیرہ کی مکمل چھوٹ اور انسانی وسائل کے استعمال اور تجارتی بنیادوں پر فوائد کے مقاصد کے تحت حکمت عملی بنائی جائے۔

اب بھی اگر وقت کے تقاضے کے تحت اختلافات بھلا کر قوم کو متحد کرنے کی کوشش نہ کی گئی تو پھر ہوسکتا ہے بہت دیر ہوجائے۔ لہذا اب مزید سوچنے کا نہیں بلکہ عمل کرنے کا وقت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں