سیاسی موسم بدلنے لگا ہے


قدرتی موسم کے ساتھ ساتھ سیاسی موسم بھی بدلنا شروع ہوگیا ہے جس کے اشارے واضح نظر آنا شروع ہوگئے ہیں ۔ اچانک فیصلوں میں تبدیلی کا تعلق یقیناً اگر ایمپائر کی انگلی سے نہیں بھی تو انگوٹھے سے ضرور ہے ۔الیکشن کمیشن کے خلاف ریفرنس  نے چند  گھنٹوں بعد ہی واپسی کی راہ لے لی ہے  ۔ شائد اس کے پر جلنا شروع ہوگئے ہوں ۔  صبح والا موڈ  دوپہر کو بدلا بدلا لگ رہا تھا ۔  آج ہی عمران خان صاحب نے انکشاف کیا تھا کہ الیکشن کمشنر کا نام نیوٹرلز نے دیا تھا ۔  ہوسکتا ہے کہ  اس وقت نام کی چٹ دینے والے نے ہی  خان صاحب  کے کان میں  سرگوشی کی ہو کہ اگر  الیکشن کمشنر کا نام نیوٹرلز کی طرف سے دیا گیا تھا تو پھر تو اس کے نیوٹرل ہونےپر شک کیا ہی نہیں جاسکتا ۔ لہذا چھوڑیں فضول باتیں تو انہوں نے اپنے فیصلوں پر نظر ثانی  کرنا شروع کر دی ہو ۔

ویسے بزنس کمیونٹی نے بھی خان صاحب کی منت کی ہے کہ معیشت کو آزاد کریں اور نظام کو چلنے دیں ہوسکتا ہے ان کی سمجھ آگئی ہو  کیونکہ ڈالر کا تیزی سے نیچے آنا بھی اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ کاروباری طبقے کا اعتماد بحال ہورہا ہے ۔ یا کل مولانا طارق جمیل صاحب آئے ہوئے تھے ، وہ بھی تو پہنچے ہوئے بزرگ ہیں  ہوسکتا ہے انہوں نے ہی کوئی دم درود یا دعا کی ہو کہ غصہ جانے دیں اور بدلتے موسم کی مطابقت سے بندوبست کرلیں ۔ کیونکہ مولوی تو مولوی کے رمزوں کو جانتا ہوتا ہے ۔ ان کو فضل الرحمن کے تیوروں کی سمجھ آگئی ہوگی کہ وہ خالی بڑھکیں نہیں مارتے ۔

انہوں نے تابڑ توڑ حملوں کا آغاز بھی کردیا ہے جس کا آغاز آج الیکشن کمیشن میں عمران خان کے خلاف ریفرنس ہے ۔ ادھر رانا ثناءاللہ کی حکمت عملیاں بھی کام کر رہی ہیں ۔ کیونکہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی صاف چلی شفاف چلی تو دلکش ماحول اور موسم میں ہی چلتی ہے ۔ تھوڑی سی  بھی اگر سیاسی موسمی تبدیلی کی انکو خبر ہوجائے تو وہ باہر نکلنے سے احتیاط ہی برتتے ہیں ۔

انصافی بنچ بھی اب کسی کا دفاع کرنے کی بجائے اپنا دفاع کرتے  لگ رہے ہیں کیونکہ خطوں کا سلسلہ  عروج پکڑتا جارہا ہے ۔ کیونکہ ججز سمجھتے ہیں کہ جب سپریم کورٹ پر تنقید ہوتی ہے تو اس کا حصہ ان کو بھی آتا ہے مگر ان کا عمل دخل  نہیں  ہے   لہذا اب ان کو بھی تنقید سے حوصلہ ملا ہے اور انہوں نے بھی اپنے دل کی باتیں خطوں کے حروف کو سونپنا شروع کردی ہیں ۔ اب ہوسکتا ہے کہ  بنچوں کی تشکیل اور ججوں کی تعناتیوں سے پہلے وکلاء کی رولز بنانے کی کوشش رنگ لے آئے اورا س طرح سپریم کورٹ کا تنقید سے بچنے کا کوئی حل نکل آئے ۔  

عمراں خان صاحب نے چند ماہ میں کئی ایسے انکشافات کئے ہیں جن سے انہوں نے اپنے  وزارت عظمیٰ کے منصب  کے اختیارات کا پول خود ہی کھول دیا  ہےکہ وہ کتنے بااختیار تھے ۔  جو اپوزیشن کے ہائبرڈ حکومت کے دعوے کو تقویت دے رہا ہے۔  کتنی عجب بات ہے کہ  ہمارے سیاسی مجاہد جب اختیارات پاس ہوتے ہیں تو استعمال نہیں کرتے اور جب اختیارات  چلے جاتے ہیں تو پھر ہاتھ  ملنا شروع کردیتے ہیں  ۔

عمران خان صاحب کی ایک بات تو قابل تعریف ہے کہ وہ یو ٹرں لینا قائدیں کی اعلیٰ خوبی سمجھتے ہیں اور جب بھی مشکل پیش آئے ہولے سے یو ٹرن لے کر خطروں سے اپنا منہ موڑ لیتے ہیں ۔ لیکن اب لگتا یوں ہے کہ اگر انہوں نے منہ موڑ بھی لیا تو ان کے خلاف ریفرنس اب ان کا پیچھا چھوڑنے والے نہین ۔ کیونکہ حکومت کا اعتماد اب ڈانواں ڈول ہوا لگتا ہے ۔ وہ اب کوئی پکی چال ہی چلنا چاہتے ہیں  اور وہ اب اپنا دباؤ بڑھاتے ہی جارہے ہیں ۔ ابھی ابھی سپریم کورٹ میں بھی ڈیکلرییشن جمع کروا دیا گیا ہے ۔

عمران خان  کو بھی یقیناً حکومت کے ارادوں کا اندازہ ہو رہا ہوگا کہ اب انہوں نے مصلحتوں کو ایک طرف رکھ کر سیاسی برابری کے بیانیوں کے علم کو اٹھا لیا ہے اور اس  ۔ کے اثرات بھی مثبت لگ رہے ہیں کیونکہ کچھ فیصلے یہ اشارہ دے رہے ہیں کہ اب موسم کی تبدیلی سے ان کی سانس  تھم رہی ہے ۔ آج کچھ خبریں  سیاسی ہلچل کی نوید بھی سنا رہی ہیں جن میں نواز شریف کی واپسی کا فیصلہ بھی سننے میں آرہا ہے اور انہوں نے آنے سے پہلے حمزہ شہباز شریف کو بھی اپنے پاس بلا لیا ہے کہ بچے تم بتاؤ تمھارا کیا خیال ہے تمھاری چند دن کی بادشاہی کی خبریں کیا بتاتی  ہیں کہ اندر کے حالات کیسے ہیں ۔ مجھے دوبارہ سے ووٹ کو عزت  دو کے بیانیے کو لے کر چلنا پڑے گا یا ویسے ہی کوئی ہموار راہ نکل آئے گی ۔

بظاہر تو پنجاب میں تحریک انصاف کی اتحادی حکومت ہے مگر چوہدری صاحب   سے عثمان بزدار والے رویے کی امید  نہیں رکھی جاسکتی ۔ وہ تو اپنے خلاف احتجاج کرنے والے سیلابی متاثریں کو معاف نہیں کرتے  کسی اور کو کیوں کریں گے ۔  وہ چوہدری ہیں اور اگر کہیں  آتے جاتے کسی امیر زادے نے کہیں سے نعرہ کس دیا کہ چوہدری صاحب آپکو عمراں خان کے وہ الفاظ بھول گئے ہیں جب وہ  آپکو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتا تھا تو ان کے پرانے زخم بھی تازہ ہوسکتے ہیں ۔ اور عمران خان کو بھی یہ بخوبی معلوم ہے کہ اگر عمران خان نے ان کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کی کوشش کی تو ان کو دوسری طرف سے پیش کش بھی میسر ہے ۔

وہ ویسے بھی الیکشن کمشنر کی طرح نیوٹرل قسم کے سیاستدان ہیں ۔ وہ سپیکر شپ کے دوران بھی حمزہ شہباز کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے رہے ہیں ۔ اور  وہ وضع دار خاندانی لوگ ہیں ان کو ابھی وہ مٹھائی کا ذائقہ بھی نہیں بھولا ہوگا ۔ بلکہ ان کے خاندان کے اندر سے ہی لوگ ان کو اس بارے یاد دہانی کرواتے رہیں گے ۔ ویسے بھی مسلم لیگ  نے بھی تو ان کو یہ پیش کش کر رکھی تھی اور اگر وہ ان کے لئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتے تو ان کو چوہدری صاحب سے کوئی خطرہ بھی نہیں ہوگا ۔ اور وہ  پرانے سیاستدان ہیں وہ سیاست کے اتار چڑھاؤ سمجھتے ہیں خواہ مخواہ وہ ہوا کے گھوڑوں سواری والے سیاستدان نہیں ۔

عمراں خان اپنے پاؤں پر کلہاڑی کا وار کر بیٹھے ہیں ۔  ایک تو انہوں نے اگر صوبائی اسمبلیوں سے استعفے نہیں دینے تھے تو پھر قومی اسمبلی کی سیٹو ں کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے تھا ۔ میں اس وقت زور دیتا رہا ہوں کہ واپس چلے جانا چاہیے ۔ کیا ہوتا خواجہ آصف کی دو چار منٹ باتیں ہی سننا پڑتیں مگر آج جو لوگ حکومت سے نالاں ہیں جیسا کہ  آفتاب شیرپاؤ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے ان کی ڈھارس تو بن سکتے تھے ۔

خیر اب اگر تو انہوں نے قومی اسمبلی کی سیٹوں پر ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ کر لیا ہے تو پھر عوام کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا نئے الیکشن کا بیانیہ اب  سست پڑ چکا ہے اور خان صاحب کی توانائیاں سرد پڑ چکی ہیں  اور بدلتے موسم سے ہر آئے روز مزید ٹھنڈک بڑھتی ہی چلے جائے گی ۔ اب دسمبر میں گرمی کی توقع تو کی بھی نہیں جاسکتی ۔  

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں