چودہ اگست کا دن ایک خواب کی تعبیر ہے(1)

 

چودہ اگست کا دن ایک خواب کی تعبیر ہے جو ہمارے آزاد اور خود مختار سوچ رکھنے والے آباؤاجداد نے دیکھا تھا ۔

جوش ، جذبہ ، ولولہ ، جنوں ، امنگ سب ٹھیک ہے ہونا بھی چاہیے مگر اصل حقیقت تو اس کے ساتھ جڑی قربانیاں ، یادیں اور وعدے ہیں جن کی یاد دہانی اصل مقصد ہے۔

یہ گنگنانا ، جھومنا اور سبز حلالی پرچم لہرانا تو ایک علامت ہے اصل آزادی کا سفر تو آزاد سوچ اور عمل سے شروع ہوتا ہے۔

آئیےآج خود احتسابی کریں دیکھیں کہ اکیسویں صدی کی دنیا کی نظریاتی ، جمھوری ، سائینسی اور معاشی دوڑ میں ہم کہاں کھڑے ہیں اور عہد کریں کہ ہم نے اپنے انفرادی اور اجتماعی عمل سے اپنی قوم اور ملک کا نام روشن کرنا ہے ۔

اس کا مختصر جائزہ لینے کے لئے ماضی کی جھروکوں سے سیاق و سباق کو جوڑنے کی ضرورت ہے ۔

ہم نے صرف انگریز سامراج سے ہی آزادی حاصل نہیں کی تھی بلکہ اپنے خطے کا بٹوارہ بھی کیا تھا جس کی بنیاد ایک نظریہ تھا کہ ہم آزادی سےاپنی نظریاتی اقدار کی مشق کر سکیں اور اگر آپ برا نہ منائیں تو آج نہ تو اس آزادی سے حاصل ہونےوالے فوائد مثالی ہیں اور نہ ہی وہ نظریہ جس کی بنیاد پر ہم نے بٹوارہ کیا تھا وہ اپنی منزل پا سکا ہے۔

اگر دینا کے ممالک کی فہرست پر نظر دوڑایں تو جہاں ہم معاشی ، جمہوری ، قانون کی حکمرانی اور انصاف کرنے میں دنیا سے کہیں پیچھے ہیں وہاں ہم دنیا کی ایٹمی طاقتوں اور انسانی وقدرتی وسائل والی ریاستوں کی فہرست میں چند ریاستوں کی فہرست میں بھی آتے ہیں ۔

ملکی سطح پر اگر ہم اپنی ناکامیوں اور کامیابیوں کا جائزہ لینا چاہیں تو تاریخ ہمیں بہت سارے اسباق مہیا کرتی ہے جنہیں ہم اپنی ریاستی سطح پر مطالعہ پاکستان جسے ہمارے بہت ہی ذمہ دار ادارے پبلش کرتے ہیں اور جسے ہماری سرکار کی سند حاصل ہے لے سکتے ہیں  ۔ یہ کتاب ہماری تاریخ کی ضامن اور کارناموں کی اساس ہے ۔ یہ کتاب ہماری لائبریریوں کا حصہ ہی نہیں بلکہ یہ ہمارے ہر بچوں کے سلیبس کا حصہ بھی ہے اور اس تک دسترس دنیا جہاں کی کتابوں میں سے آسان ترین ہے اور اس کا مطالعہ بھی کوئی مشکل نہیں کیونکہ یہ زیادہ تر ہماری قومی زبان میں ہے ۔

اس کتاب کی وساطت سے اگر ہم اپنی تاریخ کا تجزیاتی مطالعہ کرنا چاہیں تو یہ ہم ایک شہادت کے درجے کے طور پر لے سکتے ہیں اور سیاسی کسوٹی پر پرکھ کر اپنی تاریخ اور کارناموں کا اندازہ لگا سکتے ۔  

نظریاتی طور پر دیکھیں تو ہم نے یہ ملک دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا تھا مگر ہمارا نظریہ پچھہتر سالوں کے بعد بھی بھٹکا ہوا ہے اور ہمارے سیاسی ، مذہبی اور ریاستی راہنماؤں کی فہم فراست کی کسوٹیوں پر اپنی واضح تصویر چھوڑنے میں بے بسی کا شکار ہے ۔

آئینی نقطہ نظر سے دیکھیں تو بھی ہماری حالت کوئی قابل فخر نہیں کیونکہ ہم نے تحریری طور پر تو اسے مضبوط کرنے کی بہت کوشش کی جسکی ایک لمبی تاریخ ہے مگر عملی طور پر ہم نےاسے ایک کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ اہمیت نہیں دی اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دینا میں ہماری جمہوری پہچان بہت ہی تشویشناک ہے ۔ اور ہم اپنی قسمت کو مجبوراً قبول کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے شرماتے بھی نہیں ۔ کل ہی وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ قرضوں کے حصول کے لئے عسکری قیادت کو رابطے کرنے ہی پڑتے ہیں ۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہماری سول قیادت پر تاریخ کی روشنی کے احوال کے پیش نظر تعلقات استوار کرنے لےلئے محض سول قیادت پر اعتماد ، بھروسہ یا ضمانت کافی نہیں ۔

مالی طور پر ہمارا بیرونی قرضہ ایک آزاد ریاست کی سفر کے آغاز سے لے کر آج زیرو سے چوالیس ہزار تین سو چھیاسٹھ بلین تک پہنچ چکا  ہے جس سے معاشی ترقی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اور ہماری سالانہ درآمدات کا خرچہ چھہن ہزار تین سو اسی ملین ڈالرز ہے جس سے آپ خود کفیلی کا اندازہ بھی بخوبی لگا سکتے ہیں۔

ہماری موجودہ صورتحال پر تاریخ کے اثرات ابھی بھی باقی ہیں جس کا اندازہ لگانے کے لئے ہم پاکستانی کی آزادی سےپہلے برصغیر کی تاریخ دیکھیں تو اس خطے پر دو طرح کے لوگوں کی حکمرانی نظر آتی ہے ایک طاقت کے بلبوتے پر اس خطے کو یرغمال بنائے رکھنے والے اور دوسرے وہ جنہوں نے اپنی صلاحیتوں ، مقبولیت اور عوامی طاقت کے اثر رسوخ کی بنیاد پر اپنی وفاداریاں پیش کیں اور طاقت میں حصہ دار بنے رہے ۔ اس کے بدلے انہوں نے انگریز سامراج سے زمینیں ، القابات اور اختیارات میں آلہ کار بن کر اپنی اجارداری اور جاہ جلال کی دھاک بٹھائی رکھی ۔

انہیں لوگوں کی باقیات آج بھی آپ کے سامنے ہیں جو پچہتر سال گزرنے کے بعد بھی اس ملک کی ایلیٹ کلاس ہیں اور ان کی نسلیں آج بھی اس ملکی کی حکمرانی میں  اپنا اثر رسوخ قائم رکھے ہوئے ہیں جن میں وہ وڈیرے جن کو زمینیں نوازشات کی صورت میں دی گئیں کئی ایک نے تو اس وقت وفاداری ثابت کرنے کی نیت سے اس آزادی اور تقسیم کی بھی مخالفت کی مگر اس کے باوجود ان کی بادشاہت اور اثر رسوخ میں کوئی فرق نہیں پڑا کیوں کہ وہ مالی طور پر مضبوط ہیں اور مالی طاقت کا کسی بھی دور میں مندا نہیں دیکھا گیا ۔ اب یہ ان کی حاصل کردہ طاقت کیا انصاف کے اصولوں  پر مبنی تھی یا نہیں یا وہ اس کا حق کس بنیاد پر قائم رکھنے کا جواز رکھتے ہیں بحث میں نہیں پڑھتے اس پر پھر کبھی بات کریں گے مگر اس سے ملنے والا سبق بہت قیمتی ہے اور اس کو سمجھنا حالات کی تبدیلی میں فائدے کا سبب بن سکتا ہے ۔

اس سے ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے جس کا میں اوپر بھی ذکر کیا ہے کہ معاشی طاقت کا ہر دور میں بہت اہم کردار رہا ہے اور آج بھی ہے ۔ آپ بنیادی جمہوریت اور سیاست سے لے کر عالمی سطح تک اس کے اثرات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں آج بھی ہر سطح پر مالی وسائل پر دسترس رکھنے والے ہی حقیقی حکمران ہیں ۔ دنیا کے تمام جنگی سازوسامان ، مہارتی اور انسانی وسائل مالی طور پر خوشحال طبقات کی مرہون منت ہیں اور دنیا کی ٹیکنالوجی میں سپر طاقتیں بھی مالی مستحکم طبقات کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہیں ۔

-جاری ہے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں