تحریک انصاف جیت گئی تو بھلا وگرنہ گلہ ، مگر معززیں کا کیا بنے گا

پنجاب کے ضمنی الیکشن بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔  ظاہراً تو مسلم لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان مقابلہ ہے اور پنجاب میں اگلے الیکشن کی ایک ریہرسل ہے لیکن در اصل یہ موجودہ حکومت اور سابقہ حکومت کے درمیاں انتخابات ہیں ۔ دونوں طرف سے بیانیوں کی ایک جنگ ہے دونوں ہی عوامی مینڈیٹ کے دعویدارہیں ۔ اس الیکشن سے پاکستان کے سیاسی مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہونگے ۔ اس کے نتائج سے مستقبل کے راستے متعین ہونگے ۔

تحریک عدم اعتماد سے ایک ماہ پہلے تک تحریک انصاف کے آدھے ممبران تحریک انصاف کو اس لئے چھوڑنے کے لئے تیار تھے کہ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوام میں انکی نفرت اس قدربڑھ چکی تھی کہ وہ ان کا سامنا کرنے سے ڈر رہے تھے اور اپنی ہی حکومت کے خلاف بول کر وہ عوام سے جان کی امان پانے کے لئے ترکیبیں بنا رہے تھے ۔

مہنگائی اس دور کے لحاظ سے اپنے پورے جوبن پر تھی عوام کی چیخنیں نکل رہی تھیں ۔ مگر اس کے باوجود جلسے جلوس ، لانگ مارچ سب اپنی زور آزمائی کرچکے تھے مگر نتائج لاحاصل رہے ۔   پھر کہیں نا معلوم طرف سے جمہوری طاقتوں کے کانوں میں کہیں سے کوئی کھنک پڑی کہ تحریک عدم اعتماد کی قسمت آزمائی کا موسم اچھا ہے ۔

تحریک شروع ہوئی اور آخری مرحلے میں تھی ووٹ گننے کو ہی تھے کہ تحریک انصاف نے سائفر کا جھانسہ دے کر ساری بنی بنائی گیم الٹ کر رکھ دی اور سب ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ گئے ۔ نظام عدل نے آئین کا ہاتھ پکڑا اور یوں دوبارہ گنتی کا ماحول بن گیا اور سیاست کی جان میں جان آئی۔   

پھر مجھے نو اپریل کی شب کی وہ روداد یاد آرہی ہے جب یہی تمام کی تمام خود مختار اور نیم خود مختارسیسی جماعتیں اکثریتی ووٹ ہونے کے باوجود ڈھلکے ہوئے چہروں کے ساتھ ایک دوسرے کا منہ دیکھتے رہے اور سپیکر کی آنیاں جانیاں چلتی رہیں ۔

بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے ان معززین کی عزت رکھ لی اور ملک کی تاریخ میں کوئی غیر متوقع سرپرائز ہوتے ہوتے رہ گیا جس کی عمران خان نے بڑے وثوق کے ساتھ پشینگوئی کی ہوئی تھی ۔

پھر چشم فلک نے دیکھا کہ عمران خان نے عوام کو کوئی ایسا دم کیا کہ ان کی پھر سے ہمدردیاں تحریک انصاف کے ساتھ ہوگئیں جیسے وہ دل کو تسلی دینے کے لئے کسی بہانے کی تلاش میں تھے ۔ پھر جلسے جلوسوں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا اور غلط فہمیاں خوش فہمیوں میں اور امیدیں ناامیدوں میں بدلنے کا تاثر سوشل میڈیا کے زریعے سے عام ہونے لگا ۔

پھر سے سونامی کی پشینگوئیاں ہونے لگیں موسمی کردار میدان میں آگئے اور تحریک انصاف پر امید بھی تھی مگر حکومت نے اپنے تجربات اور حکومتی مشینری کا بڑی سرعت کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے اس نام نہاد سیاسی انقلاب کا راستہ روک کر تحریک انصاف کے دانت کھٹے کردئیے اور ایسا زور توڑا کہ وہ پھر اس طرح سے سنبھل نہ پائے ۔

وقت  کے خلا سے ہمدرد عوام کے جذبات کسی قدر ٹھنڈے کرنے میں حکومت  کامیاب تو ہوئی ہے مگر مہنگائی کی تاریخی بلندی کے نتائج کو ، عوام کے سامنے حقائق رکھتے ہوئے  ہر ممکن کوشش کرنے کے باوجود ، نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔  

کل ایک پنجاب سے صوبائی اسمبلی کا ممبر تحریک انصاف کے ساتھ مل گیا ہے اور ایک نے استعفیٰ دے دیا ہے اس حقیقت کے باوجود کہ پنجاب میں مسلم لیگ کا بہت بڑا ووٹ بینک ہے اور امیدواران بھی مضبوط ہیں مگر اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ دیہاتئی علاقوں میں دھڑے بازی کی سیاست کسی بھی وقت سیاست کا پانسہ پلٹ دیتی ہے ۔ ہر گاؤں کے اندر مختلف دھڑے ہوتے ہیں اور اگر ایک دھڑا کسی ایک جماعت یا امیدوار کے ساتھ ہو تو دوسرا کچھ بھی ہوجائے اس کو ہرانے کے لئے اپنی پوری طاقت لگا دیتا ہے خواہ مخالف امیدوار نظریاتی طور پر اس کے دل کے قریب ہی کیوں نہ ہو ۔

ہر طرف سے تحریک انصاف کے قائدین کی بدعنوانی کے دعوے ٹھوس شواہد کے ساتھ پیش کئے جارہے ہیں اور اس کے باوجود تحریک انصاف کی جلسے جلوسوں میں عوام کی بھیڑ دیکھ کر اس وقت  پاکستان کی پہلی بڑی سیاسی جماعت نہ بھی مانیں تو دوسری پوزیشن کے تاثر سے انکار ممکن نہیں ۔

جلسے جلوسوں سے بھی کسی جماعت کی کامیابی کا سو فیصد اندازہ نہین لگایا جاسکتا کیونکہ پاکستانی قوم کا مزاج تماشائی نوعیت کا ہے اور دیہاتوں میں بہت ساری عوام ہر جماعت کے جلسے میں پہنچی ہوتی ہے ۔ الیکشن کے دنوں میں وہ جلسے جلوسوں کو انٹرٹینمنٹ کا ایک زریعہ سمجھتے ہوئے اس سے محروم ہونا اچھا نہیں سمجھتے ۔ کارکنان کے علاوہ عام عوام تقریباً ہر جلسے میں پہنچ جاتی ہے اور کئی کو تو شائد امیدوار کا نام بھی نہ آتا ہو۔

اور موجودہ حالات میں اگر نظریاتی ووٹوں کا اندازہ لگائیں تو بھی تحریک انصاف کا ووٹ اٹھارہ کے مقابلے میں کم نہیں کہا جاسکتا اور اگر مہنگائی اور مسائل کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو موجودہ مہنگائی نے تحریک انصاف کے خلاف نفرت کو ختم نہ بھی کیا ہو تو کم ضرور کر دیا ہے ۔ اور سوشل میڈیا اور دوسرے زرائعے سے پراپیگنڈا سیاست میں بھی وہ دوسری جماعتوں سے ایک قدم آگے ہیں ۔

اگر تحریک انصاف کے امریکہ مخالف بیانیے کو دیکھا جائے تو وہ پاکستان کے عوام کی ہمیشہ سے کمزوری رہا ہے ۔ ماضی میں بھی امریکہ کی مخالفت اور جمہوری کارڈ کھیلے جاتے رہےہیں اور ان کی عوام میں پزیرائی بھی ملتی رہی ہے اور یہی حکمت عملی تحریک انصاف نے اپنائی ہوئی ہے حالانکہ میرے خیال میں یہ کمزور بیانیہ ہے۔ اس طرح کی سیاست معیاری سیاست نہیں ہوتی کیونکہ اگر کسی ریاست پر خدشات ہوں بھی تو مضبوط ریاستیں اس کا مقابلہ پالیسیوں سے کرتے ہیں ۔

 اس وقت سوشل میڈیا پر جو اسٹیبلشمنٹ مخالف ٹرینڈ چلایا جارہا ہے اس کا الزام  بھی تحریک انصاف کے  حق میں ہے  تو پھر اس کے نتائج بھی جیسے ویسے ہیں وہ ان کے حق میں ہی ہونگے ۔

اگر سائفر آیا تھا تو اس پر انکوائری تو کروائی یا اس کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے مگر اس سے اسمبلی کی آئینی کاروائی کو کیسے سبوتاژ کیا جاسکتا تھا ۔ اس کا ان کے پاس اگر کوئی کسی بھی حوالے سے جواز ہوتا تو سپریم کورٹ کا اس طرح کا فیصلہ اور رائے نہ آتی

 تحریک انصاف کے اندازو بیاں اور رویے جس میں اپنے فائدے کا آدھا سچ اور  عدم اعتماد کے دوران  آئین اور قانون کے ساتھ سلوک کا مظاہرہ اورپھر اس پر عوامی حمائت  کا مزاج جو منظر نامہ پیش کر رہا ہے اس سے  نظام ، آئین اور جمہوریت کے استحکام کی کیا امیدیں وابسطہ کی جاسکتی ہیں ۔ بہت ہی تشویشناک تاثر ہے  

بہرحال جمہوریت کا تقاضہ تو یہی ہے کہ جو بھی جماعت جیتے سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے اور جیتنے والے کو بھی ہارنے والے کے مینڈٹ کا احترام ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔ اور آئین اور قانون کو اس کی راہ پر گامزن کرنے اور اپنی منزل پانے کے لئے ہر کسی کو تعاون کرنا چاہیے مگر یہ سب باتیں اس ملک میں کہنے تک رہ گئی ہیں ۔ حقائق کے پس منظر میں اس پر یقین کرلینا اس ملک میں انتہائی مشکل ہوگیا ہے ۔

تو اس بدلتی صوتحال کے پس منظر میں جمہوری پیمانوں پر نظرڈالتے  ہوئے انتخابات کے نتائج سے پہلے کوئی بھی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ کون سی جماعت جیتے گی یا کس کا ووٹ زیادہ ہے ۔ مگر تحریک انصاف نے ہر دو صورتوں میں اپنا بندوبست کئے ہوئے ہے ۔

 وہ جیتے تو بھلا وگرنہ دھاندلی کا گلہ

کل ایک سیمینار میں عمران خان کو غداروں کے کلب میں خوش آمدید بھی کہا گیا اور اب وہ بھی دوسری جماعتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اصلی جمہوری ہونے کے دعوے کرنے لگے ہیں ۔

مگرسوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر پاکستان کی تمام کی تمام خود مختار اور نیم خودمختار سیاسی جماعتیں پوری ہمدردیوں ، دعووں ، توانائیوں اور تجربوں کے باوجود بھی ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف سے ہار جاتی ہیں یا کم ووٹ لیتی ہیں تو پھر پاکستان کے معززین کا کیا بنے گا ۔

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں