مجھےاپنے شوق خدمت انسانی حقوق و ترقی کے بارے سیکھنے سکھانے کے عمل میں تقریباً ڈیڑھ درجن کے قریب ممالک میں جانے کا موقعہ ملا جس بارے میں آپ سے یادیں، باتیں اور سوچیں شئیر کرونگا ۔ اس کے ساتھ آپ کے خیالات کو بھی جاننا چاہوں گا جس سے ہمیں اس رابطے کو آگے بڑھانے اور پختہ کرنے میں مدد ملے گی ۔ اگر آپ بھی سیر کا شوق رکھتے ہیں تو ساتھ ساتھ آپکو ایسی بھی معلومات دینے کی کوشش کرونگا جو آپ کو ویزہ کے حصول اور زاد سفر میں مددگار ہوں مزید وہ مشہور مقامات جن کی میں نے سیر کی ہے ان کے بارے آپ سے یادیں شئیر کرونگا ۔ اگر آپ کے پاس کوئی بھی سوال ہو تو آپ نیچے دئے گئے فارم کے زریعے سے بھیج سکتے ہیں ۔
سفر سے میں نے کیا سیکھا
میں نے اکثر یہ مشاہدہ کیا ہے کہ نئی نئی جگہوں کو دیکھنے اورسفر سیر کے دوران میں خوش رہتا ہوں ۔ اس کی ایک وجہ تو میری سفر اور نئی نئی چیزوں اور مقامات کی سیر میں دلچسپی بھی ہوسکتا ہے ۔ لیکن اگر غور کریں تو دلچسپی تو ہمیں اپنے رہنے والے مقام سے زیادہ ہوتی ہے ۔ میں نے اس پر کافی غور و خوض کیا اور معلوم ہوا کہ بنیادی وجہ سفر کا مختصر دورانیہ اور دلچسپی کا مختلف نقطہ نظر ہے جس کے پیچھے ایک مہمان کی حیثیت سے ہر شے کو دیکھنے اور مشاہدہ کرنے کی سوچ کارفرما ہے ۔
ہمارے ذہن میں چونکہ بہت ہی کم عرصہ رہنے کی سوچ ہوتی ہے لہذا ہماری نہ تو کسی شے سے دل لگی بڑھتی ہے اور نہ ہی وہاں کے لوگوں کے ساتھ دلچسپی اس حد تک بڑھتی ہے جو تشویش کی صورتحال اختیار کر جائے اور دل میں ایک بات پکی بیٹھی ہوتی ہے کہ ہم یہاں عارضی ہیں اور جلد اپنی اصل منزل کو لوٹ یا روانہ ہوجانا ہے ۔
تو معلوم ہوا کہ ہمیشہ رہنا یا زیادہ رہنے کی سوچ ہمیں چیزوں اور معاملا ت کے اندر گہری دلچسپی میں مبتلا کرتی ہے جو ہماری ضرورت نہیں ہوتے بلکہ محض ہماری سوچ اور معمولات پر بوجھ بن کر ہماری پریشانی کا سبب بنتے ہیں ۔ سفر میں ہم مختصر دورانیے کی زندگی جی رہے ہوتے ہیں جس کا نہ کوئی ماضی ہوتا ہے اور نہ کوئی مستقبل جو ہمیں پریشان کرے ۔ ہمارا دھیان محض اس مختصر وقت سے ملنے والی فرحت کی طرف ہوتا ہے کہ ہم اس وقت سے زیادہ سے زیادہ محضوظ ہولیں ۔
سفر کی تکلیفیں بھی معمولی لگتی ہیں کیونکہ ہمارا دھیان اس سے ملنے والی مسرتوں اور لزتوں کی طرف ہوتا ہے کہ اس مختصر وقت کو جتنا زیادہ ہوسکے یادگار بنا لیں ۔ بلکہ انسان تھکاوٹ کے باوجود بھی چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لے ۔
سفر میں اگر کسی سے زیادتی بھی ہوجائے تو ہم درگزر کردیتے ہیں کیوںکہ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی کے ساتھ الجھ کر اپنا وقت ہی ضائع کرنا ہے ۔
کوئی سازو سامان اکٹھا کرنے کی بھی فکر نہیں ہوتی فقط ضروریات ہی پیش نظر ہوتی ہیں۔ جمع پونجی سے زیادہ اپنی ذات پر خرچ کرنے کی طرف دھیان ہوتا ہے ۔
ہرکوئی اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق اپنی منزل کے لئے یادگار چیزیں خرید رہا ہوتا ہے یا اگر زیادہ بھی دنیا دار ہوتوکسی عزیز کے لئے کوئی تحفہ ۔
یہ بھی فکر نہیں ہوتی کہ کوئی کیا کہے گا یا کوئی کیا کر رہا ہے ۔ نہ ہمیں ان کے رسم و رواج سے کوئی غرض ہوتی ہے اور نہ وہاں کی مادی چیزوں ، بلند و بانگ عمارتوں سے کوئی دلچسپی ہوتی ہے کیونکہ دل میں ایک ہی احساس ہوتا ہے کہ ہم یہاں مختصر وقت کی سیر کے لئے آئے ہیں اور یہاں رہنے والے نہیں ۔ ہر ایک کے لئے ایک جیسا رویہ اور سوچ ہوتی ہے ۔
اگر یہی سوچیں ، رویے اور عادات ہم مستقل اپنا لیں تو کہیں بھی رہیں
ہماری ساری مشکلات ختم ہوجائیں اور ہم خوش رہیں ۔
یو اے ای کا سفر
جولائی دوہزار چھ میں مجھے دبئی جانے کا موقعہ ملا ۔ اس وقت دبئی اپنے عروج پر تھا ۔ ویسے تو دبئی دو تین دہائیوں سے مشرق وسطیٰ میں سب سے آگے ہے اور پوری دنیا سے لوگ سیر کرنے کو آتے ہیں ۔ لیکن دبئی کی معیشت پہلے اتنی مضبوط نہیں تھی جتنی دو ہزار چھ میں تھی ۔ میرے بچپن میں ایک فلم " جٹ کمالا گیا دبئی " بڑی مشہور ہوئی تھی ۔ اس وقت بھی لوگ دبئی کی سیر کو جایا کرتے تھے اور دبئی جدید شہروں میں شمار ہوتا تھا ۔
میرا یہ پاکستان سے بیرون ملک پہلا سفر تھا میں نےلاہور ائیرپورٹ سے روانہ ہونا تھا ۔ لاہور ائیرپورٹ سے ہی حیرانی والے واقعات کا آغاز ہوگیا ہمارے مہربانی افسران سامان کی چیکنگ کے دوران ہی مجھ سے سوال کرنا شروع ہوگئے۔ کہ دبئی کیوں جانا چاہتے ہو ؟ میں نے مذاق میں جواب دیا ۔ سیر کرنے کو۔ تو وہ پوچھتا ہے کیا سیر کرو گے ؟ میں کہا آپ سیر کے معنی نہیں جانتے ۔ سیر کا مطلب سیر ہی ہوتا ہے ۔ مجھے اس کے سوال غیر متعلقہ سے لگ رہے تھے مگر اس نے اسی طرح کا ایک اور سوال کر دیا ۔ وہاں سے کہیں آگے تو نہیں جانا ؟ مجھے اس کا یہ سوال اور بھی عجیب لگا ۔ اگر تو امیگریشن کا آفیسر اس طرح کے سوالات کرتا تو بھی کوئی جواز بنتا تھا مگر اس کی طرف سے بھی پاسپورٹ ، ویزہ اور ٹکٹ دیکھنے کے بعد اس طرح کا سوال بنتا نہیں تھا ۔ اس کے الفاظ اور انداز نے مجھے حیران کر دیا مجھے یوں لگا جیسے وہ مجھے مشکوک نظروں سے دیکھ رہا ہو ۔ میں نے اسے مذاق میں کہا کہ آگے کوئی راستہ جاتا ہے ، مجھے بھی بتاؤ ، مجھے تو نہیں معلوم ؟ تو اس کو میرے اعتماد سے اندازہ ہوگیا کہ میں سیر ہی کے لئے جارہا ہوں۔ شائد اسے بھی میرے سوالوں سے عجیب ہی لگا ہو ۔ تو پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا کرتے ہیں ۔ میں نے جواب دیا ۔ میں وکیل ہوں ۔ اس نے میرا پاسپورٹ چیک کیا تو اس پر میرے نام کے ساتھ ڈاکٹر پڑھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ۔ پھر پوچھتا ہے کہاں وکالت کرتے ہیں ۔ میں نے کہا اسلام آباد میں تو کہنے لگا کوئی اپنا کارڈ ہی دے دیں ۔ وہاں کام پڑھ سکتا ہے ۔ تو اس نے پھر سامان بھی سرسری سا چیک کیا اورکہنے لگا آپ جائیں ۔
یہ سب کچھ بتانے کا مطلب یہ تھا کہ یہ ہمارے سرکاری اہل کاروں کی نفسیات ہیں ۔ پہلے تو وہ ہر کسی کو ہی مشکوک سمجھتے ہیں اوران کے نزدیک انسان کی عزت و تکریم کی کوئی خاص حیثیت نہیں ہوتی ۔ لیکن جب ان کو پتا چلے کہ کوئی سرکاری غیر سرکاری ادارے یا کسی بھی اور حوالے سے حیثیت والا ہے تو پھر اتنے متاثر ہوجاتے ہیں کہ اپنی قانونی ذمہ داریوں کو بھی بھول جاتے ہیں اور یکدم رویہ تبدیل ہوجاتا ہے ۔
خیر میں وہاں سے فارغ ہوکر امیگریشن کے پاس گیا وہاں کوئی خاص سوال و جواب نہ ہوئے ۔ میرے پاس ایک ہی سفری بیگ تھا وہ میں نے جمع کروایا اور جا کر متعلقہ گیتٹکے سامنے لاونج میں بیٹھ گیا ۔ تھوڑی ہی دیر میں میں بلیو ائیر لائن کی فلائٹ پر ہواؤں میں اڑ رہا تھا ۔
دبئی ائیرپورٹ بہت ہی بڑا تھا میرے خیال میں اس وقت ایک وقت میں پچاس سے اوپر گیٹ تھے جن سے جہاز اپریٹ ہوسکتے تھے ۔ اور فلائنگ میں اتنا ہی وقفہ ہوتا تھا کہ پہلا جہاز اپنی سمت کو پکڑ لے ۔
دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر امیگریشن میں زیادہ وقت نہیں لگا تھا البتہ وہاں پر آنکھوں کی سکینگ تک ہوئی تھی جو شائد کہیں اور میں نے نہیں دیکھا میں باہر پہنچا تو میرا میزبان وہاں پہنچا ہوا تھا اس نے مجھے ساتھ لیا ۔ اس کے پاس ذاتی گاڑی نہیں تھی ۔ وہاں کے کلچر کی ایک بات مجھے بہت پسند آئی ۔ آپ کہیں بھی سڑک پر کھڑے ہوجائیں اور کسی بھی گاڑی کو ہاتھ دیں تو وہ اگر اس کے پاس گنجائش ہوئی تو آپ کو بٹھا لے گا اور آپ اترتے وقت اسے جو بھی مناسب سمجھیں دے دیں ۔ ایسا ہی ہوا اس نے ایک گاڑی کو ہاتھ دیا ہم اس کے ساتھ بیٹھے اور رہائش پر پہنچ گئے ۔
یہاں میں آپ سے اپنے پاکستانی دوستوں کا حال پیش کرتا چلوں کہ اس وقت دبئی پورے عروج پر تھا اور رہائشوں کے کرائے آسمان کو چھو رہے تھے تو میں نے دیکھا ہے کہ روزی کمانے کی غرض سے گئے ہوئے نوجوان راتوں کو کارپٹ پر ایسے پڑے ہوئے ہوتے تھے کہ جیسے کہتے ہیں " تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں" کے مصداق ٹھہرتی تھی ۔ اور چارپائیاں بھی نیچے اوپر جڑی ہوئی تھیں ۔
میں وہاں سے دوسرے دن شارجہ میں شفٹ ہوگیا وہاں کھلی رہائشیں مل جاتی تھیں ۔
مجھے لاہور ائیرپورٹ والے عملے کے سوالوں کے جوابات وہاں بعد میں دبئی سے ملے کہ پاکستان سے لوگ یورپ جانے کے لئے پہلے مشرق وسطیٰ میں جاتے ہیں اور پھر وہاں سے ایجنٹ ویزہ لگوا کر آگے لے جاتے ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ مجھے بھی مشکوک طریقے سے دیکھ رہا تھا ۔ ہمارے اس طرح کے معاملات نے پوری دنیا میں بدنام کروادیا ہے ۔ پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ اس طرح کے رویوں کا مجھے کئی اور ملکوں میں تجربہ ہوا ۔ جس کے بارے میں آپ کو بعد میں بتاؤں گا ۔ اور یہ بات انتہائی تشویشناک ہے ۔
قومی تشخص
جب ہم ملک سے باہر سفر کر رہے ہوتے ہیں یا کسی کام و کاروبار کی غرض سے جاتے ہیں تو وہاں ہماری پہچان ایک پاکستانی کے طور پر ہوتی ہے اور ہمارا رویہ اور معمالات پاکستانی قوم کے طور پر دیکھے جارہے ہوتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ ہم ایک قوم کی نمائیندگی کر رہے ہوتے ہیں ۔ تو ہمیں اس بات کا احساس بھی ہونا چاہیے اور ہمارے رویوں اور معاملات سے اس احساس کی جھلک بھی نظر آنی چاہیے ۔
ہمارے لئے ویزہ کا حصول کیوں مشکل ہوا
دو تیں دھائیاں پہلے پاکستان کے اکثر ممالک کا سفر انتہائی آسان تھا بلکہ بہت سارے ممالک میں تو لوگ ویزہ لگوائے بغیر ٹکٹ لے کر چلے جایا کرتے تھے اور وہاں ویزہ آن ارائیول لیا کرتے تھے ۔ میں نے اسی طرح تین چار ملکوں کا ویزہ لیا ہے جن میں سری لنکا، ملیشیا ، قطر، اور ترقی شامل ہیں ۔ آج بھی کئی ممالک ایسے جن میں ہم بغیر ویزہ لئے جاسکتے ہیں ۔ مگر بیشتر ترقی یافتیہ ممالک میں اب ویزے کے بغیر جانا انتہائی مشکل ہوگیا ہے بلکہ ویزے کا حصول بھی کافی پیچیدہ ہوتا جارہا ہے ۔ اور اس کی وجہ ہم خود ہی ہیں ۔ ہمارے پاکستانی وہاں جا کر واپس وقت پر نہیں آئے یا پھر کچھ ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں جو ان کے ملکی قوانیین کی صریحاً خلاف وزری ہوتی ہے ۔ تو پھر وہ ممالک ہمارے پاسپورٹ پر ویزہ کی شرائظ مشکل کر دیتے ہیں ۔
بیرون ملک سفر کرنے والوں کی ٹرینگ ہونی چاہیے
چاہیے تو یہ کہ حکومت کو ملک سے باہر جانے والوں کی باقاعدہ تربیت کرکے بھیجنا چاہیے کہ باہر کس طرح کا رویہ اپنانا ہے
دبئی میں بھی ایک وقت تھا جب لوگ وہاں جا کر ان کے سرکاری اداروں میں بھی ملازمت کرتے رہے ہیں بلکہ مجھے وہاں ایسے پاکستانی خاندان بھی ملے ہیں جو وہاں کی شہریت لے چکے ہیں اور ان کے اہم اداروں بلدیہ اور پولیس وغیرہ میں ملازمت کرتے رہے ہیں ۔
میں بھی اس وقت دبئی کاروبار کی غرض سے گیا تھا اور میں نے وہاں دو مہینے قیام کیا ۔ مختلف لوگوں سے ملا جن میں پاکستانی بھی تھے اور غیر ملکی بھی ۔ وہاں کے مقامی لوگ بھی تھے ۔ چونکہ میرا مقصد ہی کاروبار تھا تو میں معلومات کیے غرض سے ہر روز نکل جاتا تھا اور سیر بھی کرتا اور ساتھ ساتھ کاروبار کی معلومات بھی اکٹھی کرتا ۔
ٹورسٹس کے لئے آزادی اور اچھے رویے بہت اہم ہیں
میں نے عام لوگوں سے لے کر، بزنس کنسلٹنٹ اور حتیٰ کہ ان کے سرکاری دفتروں کے آفیسران تک کسی کو نہ چھوڑا ۔ میں نے زیادہ وقت شارجہ میں ہی گزارا ۔ شارجہ پورا تقریباً میں نے پیدل گھوما ہوا ہے ۔ آج بھی مجھے اگر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تو سارے راستے یاد ہیں ۔ میر رہائش انڈسٹریل ایریا میں تھی اور وہاں سے شارجہ کا رولا بازار دس پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھا ۔ وہاں چونکہ بہت گرمی ہوتی تھی اس لئے میں دن کو کمرے میں ہی لیٹآ رہتا تھا اورعصر کے بعد جب گرمی کی شدت کم ہوجاتی تھی تو میں نکلتا تھا اور رات کو اکثر بارہ بجے یا اس کے بھی بعد واپس لوٹتا تھا ۔
وہاں کی منسٹریز سے لے کر دیوان امیری تک میں گیا ہوں ۔ دیوان امیری میں میری ان کے انتظامی عملے سے ہی ملاقات ہو سکتی تھی ان کے شاہی خاندان کے زیادہ تر لوگ تو انہوں نے مجھے بتا یا کہ گرمیوں میں انگلینڈ چلے جاتے ہیں ۔ ۔ منسٹری آف ہیلتھ ، قانون اور کامرس کے بارے میں نے کافی معلومات اکٹھی کیں ۔
وہاں میرے اچھے خاصے تعلقات بن گئے تھے ۔ ایک دن بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا ۔ میں شارجہ کی منسٹری اور کامرس میں ان کی کاروبار کی رجسٹریشن کے شعبہ کے انچارج کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا اور وہ بھی اپنی سیٹ چھوڑ کر میرے پاسے والے صوفے پر آکر بیٹھ گیا اس نے اپنے نائب کو بھی بلا کر ملوایا ۔ ہم چاہے پی رہے تھے کہ اچانک میرے گاؤں کا ایک دوست دفتر میں داخل ہوا ۔ وہ ڈنمارک میں رہتا تھا اور وہاں کاروبار کی غرض سے آیا ہوا تھا کوئی نیا کام شروع کرنا چاہ رہا تھا ۔ کسی لائسنس کی غرض سے وہ دفتر میں آیا تھا ۔ میں اس کو ملا اور اس طرح اس کا ان آفیسران سے بھی تعارف کروایا ۔ تو اس کے لائسنس کا مسئلہ بھی حل ہوگیا ۔
میں نے یو اے ای کے لوگوں کو بہت ہی تعاون والا پایا ہے ۔ ان کا میرے ساتھ اتنا دوستانہ تعلق بن گیا تھا کہ انہوں نے مجھے اپنی ذاتی کفالت تک کی پیش کش کی ۔ اگر میں کوئی کاروبار کرنا چاہوں تو وہ کفالت کے لئے تیار تھے ۔ اس وقت آپ انچاس فیصد تک شئیرز کی ملکیت رکھ سکتے تھے باقی وہاں کے مقامی کفیل کے نام ہوتے تھے ۔
وہاں ان تین ریاستوں میں زبان بھی کوئی مسئلہ نہیں ۔ دفاتر میں آپکو انگریزی میں بات کرنے اور سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی جو کہ اکثر مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں اس وقت مسئلہ بنتا آجکل شائد اتنا نہ ہو ۔ بلکہ ان تین شہروں میں تو آپ کو اردو بولنے والے بھی اکثر مل جاتے ہیں یہاں تک کہ عرب باشندے بھی اردو کو سمجھتے اور بولتے ہیں ۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کو بتا یا ہے کہ وہاں پاکستانی بھی کافی آباد ہیں جن کو شہریت مل چکی ہے ۔
جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ سات ریاستوں نے ملکر یو اے ای کے نام سے فیڈریشن بنائی ہوئی ہے جس میں الفجیرہ، راس الخیمہ، ، شارجہ ، دبئی ، اجمان ، ابو ظبہی اور العین ہیں ۔ العین مسقط عمان کی طرف ہے جو ٹھنڈا علاقہ ہے ، جبکہ ابو ظہبی سعودی سرحد کی طرف ہے جس مین تیل زیادہ پایا جاتا ہے اور یو اے ای کا دارلخلافہ بھی ہے ۔ شارجہ ، دوبئی اور اجمان تو اس وقت بھی آپس میں مل چکے تھے ۔ ان میں فرق کرنا مشکل ہوچکا تھا ۔
ایک دن ہم راس الخیمہ کے علاقے سے گزر رہے تھے تو وہاں ہم نے دیکھا کہ ایک ہی طرز کے درجنوں کواٹر بنے ہوئے تھے تو میرے دوست نے بتایا کہ دبئی حکومت نے اپنے مرد شہریوں کو یہ مراعات کے طور پر دینے کے لئے بنائے ہیں کہ جو دوسری شادی کرے گا اس کو یہ تحفتاً دئے جانے تھے ۔ ہوسکتا ہے وہاں اس وقت عوتوں کی تعداد زیادہ ہو تو اس لئے حکومت نے یہ پالیسی بنائی ہو ۔ ویسے بھی عربوں کے کلچر میں دوسری شادی یا زیادہ شادیوں کو برا نہیں سمجھاجاتا اور نہ ہی پہلے والی بیوی کوئی اعتراض کرتی ہے ۔ عربوں میں غیر ملکی عورتوں سے شادیاں کرنے کا رواج بھی ہے ۔
یو اے ای کی معیشت کیوں بہتر ہے؟
دبئی کی معیشت بہتر ہونے کی بڑی وجہ وہاں کی دوستانہ کاروباری اور امیگریشن پالیسیز ہیں ۔ انہوں نے آمدورفت کو آسان اور ٹیکسز کی چھوٹ دی ہوئی ہے ۔ رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں ملییتی حقوق کے زمرے میں بھی بہت رعائتی سہولیات متعارف کروائی ہوئی ہیں ۔
وہاں میں نے ہر علاقے کے لوگ دیکھے ہیں ۔ جن میں فلپائن ، روس اور چائینہ کے لوگ زیادہ دیکھے ہیں ۔فلپائن کی عورتوں سے پاکستانیوں نے شادیاں بھی کی ہوئی تھیں ۔دبئی کی زندگی تو رات دن میں کوئی فرق نہیں صرف رات کے اندھیرے اور دن کی دھوپ کے علاوہ زندگی کے معمولات میں فرق نہیں تھا ۔ اس وقت وہاں زیادہ تر سیر کرنے کی جگہہ ساحل سمندر پر واقع رہائشی ٹاؤنز، ابن بطوطہ ، ساحل سمندر پر ہوٹلز اور ریسٹورانٹس، شاپنگ مالز تھے ۔ الکوہلک مشروبات پر خاص جگہوں پر پینے یا لے جانے پر پابندی نہیں تھی البتہ پبلک پلیسز پر اجازت نہیں تھی ۔ ان ڈور لبرل ماحول تھا ۔
ہرطرف زیادہ تر چائینہ کی چیزیں ہی پائی جاتی تھیں بلکہ چائینہ کی تو ایک بہت بڑی مارکیٹ تھی جو کلو میٹرز پر پھیلی ہوئی تھی اور مارکیٹس زیادہ تر کورڈ ہی ہوتی تھیں ۔ اس مارکیٹ کے اندر مکمل طور پر چائینہ کا ہی انتظام و انصرام تھا جس میں وہ خود ہی اپنے لوگوں کو دکانیں اور کاروبار کی منظوری کے کاغزات دیتے تھے ۔ وہاں چائینہ کی سوئی سے لے کر گاڑیوں تک کی اشیاء موجود تھیں ۔
ہر طرف میں نے سبزہ دیکھا جن کو بلدیہ والے گاڑیوں کے زریعے سے پانی دیتے تھے اور اپنے شہروں کو اس طرح سر سبز و شاداب بنایا ہوا تھا جیسے کوئی بڑا زرعی ملک ہو اور موسمی گرمی کو انہوں نے آڑے نہیں آنے دیا ہوا تھا ۔
خلیفہ ٹاور بعد میں بنا ہے ۔ میں نے اس وقت ایک کمبنی سے ویزہ منگوایا تھا جس پر دو مہینے رہا جاسکتا تھا اور ایک مہینے کی ایکسٹینشن بھی لی جاسکتی تھی ۔ ویزہ پالیسیز بدلتی رہتی ہیں جب بھی جانا ہو تو آن لائن معلومات لی جاسکتی ہیں ۔ آج کل تو ایمرٹس ائیر لائن بھی اگر کوئی سیر کی غرض سے جانا چاہے تو ویزہ جاری کرنے کے اختیارات رکھتی ہے ۔ بہرحال بلان سے پہلے نئی پالیسیز کو دیکھ لینا چاہیے ۔
بیرون ملک اجتماعی تاثر بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے
پاکستانی وہاں بھی اپنی ثقافت کو زندہ رکھے ہوئے تھے ۔ وہاں پرایک بات مشہور تھی کہ ایک پاؤ گوشت کے لئے اگلے کی بھینس ذبح کروا دی جاتی ہے ۔ اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں ۔ مجھے اس وقت ایک دور اندیش اور دانشمند دوست نے مشورہ دیا تھا کہ دبئی پر مشکل وقت آنے والا ہے ۔ وہ وہاں پر کنسٹرکشن کی ٹھیکیداری کرتا تھا ۔ وہاں پاکستانیوں کے زیادہ تر کام ریسٹورانٹ، ٹرانسپورٹ اور کنسٹرکشن سے متعلق ہی تھے ۔ کوئی چیدہ چیدہ لوگ امپورٹ اور ایکسپورٹ سے بھی وابسطہ تھے ۔ صحت سے متعلق بھی کچھ دوست ملے جنہوں نے اپنے کلینکس بنائے ہوئے تھے اور ایک مجھے اسلام آباد کے وکیل دوست بھی اتفاقیہ ایک لیگل فرم میں مل گئے وہ وہاں ایک مصری لائیر کے ساتھ جاب کر رہے تھے اور انہوں نے اپنا ایک ٹائپنگ سنٹر بھی بنایا ہوا تھا جس پر ملازم رکھے ہوئے تھے ۔
پروفیشنلز وہاں لائسنس لے کر پریکٹس کر سکتے ہیں
ڈاکٹرز اس وقت وہاں امتحان کے بعد لائسنس لے سکتے تھے ۔ ہر تین مہینوں کے بعد امتحان ہوتے تھے جو پاس کر لےوہ اپنا کلینک بھی کھول سکتا تھا یا پھر کسی کے پاس ملازمت بھی کر سکتا تھا ۔
بنیادی سہولتیں اور تحفظ کا احساس بہت اہم ہوتے ہیں
رہنے کے لئے انسان کو بنیادی سہولیات اور سیکورٹی انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور مجھے ان دونوں پہلوؤں میں دو مہینوں کے دوران کبھی مشکل پیش نہیں آئی ۔ بلکہ سیکیورٹی کا تو یہ حال تھا کہ میرے پاس اس وقت پاکستانی تین چار لاکھ مالیت کے برابر امریکی ڈالر تھے جو میرے والٹ میں ہی ہوتے تھے اور کبھی بھی مجھے کوئی چھینے جانے کا اندیشہ نہیں ہوا اور نہ میں نے کوئی ایسا واقعہ سنا تھا کہ مجھے ڈر لگتا ۔ کچھ ڈالر میں نے ایک دوست کے پاس رکھوا دئے تھے ۔ ایک دن جب میں دیوان امیری سے نکلا تو سامنے ان کا بلدیہ کا دفتر اور ایک طرف پوسٹ آفس تھا ۔ میں اس میں چلا گیا تو وہاں میں نے ان کی پرائز بانڈز طرز کی ایک سکیم دیکھی جس میں میں نے پیسے انوسٹ کردئے کہ قسمت آزمائی کرتے ہیں جو میں نے آنے سے پہلے ایک دن کیش کروا لئے ۔
سیکورٹی کے حوالے سے میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں ۔
ایک دن میں رات کے بارہ بجے انڈسٹریل ایریا کےساتھ ایک بڑی شاہراہ تھی اس کو کراس کرنے کے لئے میں اس کے اوپر بنے ہوئے برج سے گزر رہا تھا کہ اچانک میر دائیں طرف سڑک پر ایک زور دار دھماکہ ہوا اور یہ سڑک بڑی مصروف ترین سڑکوں میں سے تھی ۔ میں بھی اس دھماکے سے چونک گیا ۔ میری نظر اس شور کی طرف اٹھی تو میں نے دیکھا کہ ایک گاڑی سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے ۔
تو میں نے اس کے بعد ارد گرد کا جائزہ لینے کے لئے نظر گھمائی اور جب دوبارہ میری نظر وہاں پہنچی تو اس وقت تک سول کپڑوں میں نوجوان لڑکے سڑک کا انتظام سنبھال چکے تھے اور ٹریفک کو انہوں نے متبادل راستے کی طرف موڑ دیا تھا اور وہ سڑک خالی ہوچکی تھی ۔ میری وہاں سے اتر کر وہاں پہنچنے تک فائر برگیڈ کی گاڑی اور ایمبولنس پہنچ چکی تھی ۔ چونکہ زور دار دھماکہ ہوا تھا تو لوگ ساتھ والے پلازوں کے اپارٹمنٹس سے باہر لپکے ہوئے تھے اور کیمروں میں وڈیوز بنا رہے تھے۔
میرے وہاں پہنچنے تک فائر برگیڈ نے آگ بجھا دی ہوئی تھی اور وہاں گاڑی کے پاس ایک نوجوان لڑکا کھڑا تھا جو اس گاڑی کو چلا رہا تھا اور وہ پولیس کو بتا رہا تھا کہ اس نے اچانکہ آگ کا دھوں محسوس کیا ہے اور وہ گاڑی کھڑی کرکے باہر نکل گیا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد آگ کے شعلے نکلنے لگے ہیں اور ایک زور دار دھماکہ ہوگیا ہے ۔ پولیس نے اس گاڑی کی نمبر پلیٹ اتاری اور گاڑی کو ریسکیو گاڑی پر لوڈ کیا ۔ قانونی کاروائی کی اور پانچ دس منٹ تک سڑک دوبارہ سے ٹریفک کے لئے کھل چکی تھی ۔ میں بھی وہاں سے اپنی رہائش کی طرف چلا گیا ۔
میں نے اندازہ لگایا کہ ان کے سادہ کپڑوں میں سیکورٹی کے ادارے بہت محرک تھے اور ان کی تعداد بھی یقیناً بہت زیادہ ہوگی
ان دنوں شام نے لبنان پر حملہ کیا تھا اور وہاں سے بہت سارے مہاجریں یو اے ہی بھی پہنچے تھے جن کو حکومت نے شارجہ مین رہائشیں دیں اور ان کی مدد کے لئے میں نے بھی شارجہ چیریٹی انٹرنیشنل کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کچھ دن کام کیا ۔ اور میں لبنان کے لوگوں سے ملا ان کی ثقافت کو بھی جاننے کا موقعہ ملا ۔ لبنان کے لوگ انگلش تو نہیں جانتے تھے مگر وہ فرنچ بڑی روانی سے بولتے تھے جس کو جان کر مجھے بہت حیرت ہوئی ۔ تو مجھے پتا چلا کہ لبنان کبھی فرانس کی کالونی رہا ہے اور پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشن کے کنٹرول میں رہا ہے اور اس وقت بھی انہوں نے بتایا کہ فرنچ بولنے والے ملکوں کے لوگوں کا کاروباری مقصد کے لئے کافی آنا جانا رہتا ہے اور آبادی کے تقریباً بیس فیصد لوگ فرنچ روانی کےساتھ بولتے ہیں ۔ ان مہاجرین میں سے ایک لڑکی کے ساتھ مجھے کچھ دن گفت و شنید کا موقعہ ملا اور اس سے بہت معلومات حاصل ہوئیں ہم اکثر سوک سنٹر کے ستھ باغ میں اکٹھے سیر کرتے اور معلومات کا بھی تبادلہ کرتے ۔
میں نے رمضان کے ابتدائی دن وہاں گزارے اور وہاں کا رمضان کاماحول بہت ہی خدمت والا اور دوستانہ پایا ۔ دبئی کا شیخ جو پچھلے دنوں فوت ہوا ہے اس نے تو باقائدہ لنگر کھولے ہوئےتھے اور روزہ افطاری پر آنے والوں میں قرہ اندازی کے زریعے سے عید پر انعامات کا بھی اعلان کیا ہوا تھا ۔ میں نے بعد میں باقی روزے کویت میں پورے کئے تھے اور اس سال تیس روزے بنے تھے ۔ میں آخری روزے کو پاکستان آیا تھا اس طرح میرے اس سال اکتیس روزے بن گئے تھے کیونکہ پاکستان میں ایک دن کا فرق ہوتا ہے ۔
وہاں سے آپ اگر چاہیں تو سعودیہ بھی عمرہ کی ادائیگی کے لئے بزریعہ سڑک جاسکتے ہیں ۔ ججاج کے لئے کمپنیاں ٹورز کرتی ہیں ۔ جو ویزے کا بھی انتظام کروا دیتی ہیں ۔ لیکن سیر پر ہونے کی وجہ سے واپسی کی اجازت ہونی چاہیے یا پھر کسی اگلے ملک کا ٹکٹ اور ویزہ یا شہریت ہونی چاہیے ۔ میں نے پروگرام بنایا لیکن بعد میں دوست کہنے لگا کہ آپ یہاں کویت آئیں تو یہاں سے چلیں گے مگر وہاں جب میں نے پتا کروایا تو انہوں نے بتایا کہ اب روزوں کی وجہ سے عمرے کے ویزے بند کردئے گئے ہیں لہذا اس طرح میں نہ جاسکا۔
مجھے وہاں کاروبار کا بہت ہی اچھا ماحول لگا تھا مگر مجھے کوئی اچھا شرکت دار نہ مل سکا اور دوسرا مجھے اس دوست کے دبئ کے بارے انکشاف والے مشورے نے بھی اپیل کیا جو بعد میں سچ ثابت ہوا ۔ اس سے اگلے ہی سال وہاں ریسیشن شروع ہوگئی تھی ۔ اور لوگوں کے سرمایہ پھنس گیا تھا اور پھر میں وہاں سے ایک دوست کی دعوت پر کویت چلا گیا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں