جارحانہ سیاست ہی کیوں ؟

 

تحریک انصاف تو خیر روز اول سے ہی کھل کر کھیل رہی تھی بلکہ کارکنان کو ترغیب بھی انہیں خطوط پر دی جاتی رہی ہے لیکن کبھی کبھار جب سخت جواب آتا تھا تو جذبات کچھ تھم جاتے تھے ۔ ایم این اے لاجز ، میریٹ ہوٹل ، موٹر وے کئی جگہوں پر اظہار ملتا رہا اور جواباً بھی حملے ہوئے ۔ لندن میں تو خیر عرصہ دراز سے معمول رہا ہے اور وہاں بھی جواباً جمائما کے گھر کے بعد مظاہرے شروع ہوئے تو کچھ امن بحال ہوا ۔ ہم نے اپنی جارحانہ سیاستی ثقافت کا مظاہرہ پوری دنیا میں دکھایا ہے لہذا یہ کوئی نئی بات نہیں ۔

پہلے مسلم لیگ دفاعی انداز میں جارحانہ سیاست کر رہی تھی مگر اب تو انہوں نے باقاعدہ اعلان کر دیا ہے اوریہ اشارہ دیتے ہوئے کہ ہوسکتا ہے دوچار ممبران غائب ہوجائیں ، تحریک انصاف کی صفوں میں آگ لگا دی ہے اور جس کی شنید لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی پہنچ چکی ہے اور کل انہوں نے باقاعدہ ثبوت جمع کروانے ہیں ۔ پریس کارنفرنس میں جب رانا ثناءاللہ ، عطاء تارڑ پر الزام لگایا گیا تو عطاء تارڑ نے جوابی کانفرنس میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کچھ حقائق سامنے رکھے جن میں ایک پی ٹی آئی کے ممبر کی طرف سے استعفیٰ بھی دکھایا گیا اور ساتھ ہی مسلم لیگ کے ممبران کو بھی جو آفرز کی گئیں بارے انکشافات کئے گئے ۔

ایک خاتون ممبر نے لاہور ہائی کورٹ میں رانا ثناءاللہ  ہراسان کرنے الزام لگایا ہے تو ادھر سے ایک علم دین ممبر صوبائی اسمبلی کی طرف سے بھی آفرز کا بیان سامنے آگیا ہے ۔ تو ایسے میں جب الزامات دونوں طرف سے ہی ہیں تو پھر اپنی اخلاقیات پر مہر ثبت کروانے کے لئے سپریم  کورٹ جانے کی کیا ضرورت تھی ۔ قانون کا میگزم ہے

He Who Comes Into Equity Must Come With Clean Hands

تو اگر اپنے ہاتھ صاف نہ ہوں تو دوسروں پر الزام لگاتے ہوئے سو بار سوچنا چاہیے ۔ غالب کی زبان میں کہوں گا

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب ۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی

اب دیکھیں عدالت عالیہ اس صورتحال سے کیا نتیجہ اخذ کرتی ہے اور دونوں دھڑوں کو کیسے اطمنان یا شرم دلانے میں کامیاب ہوتی ہے ۔ ممبران اگر کسی بھی طرف سے علیحدگی اختیار کرنا چاہیں تو ان کو مجبور تو نہیں کیا جاسکتا ۔ جیسے کہ دو دن قبل مسلم لیگ کے ایک ایم پی اے شرقبوری نے استعفیٰ دیا اور ان پر الزامات کے آڈیو بھی لیک ہوئیں ۔

اگر کوئی ممبر ووٹ نہیں ڈالتا یا وہ آئینی نتائج کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار ہوتا ہے تو پھر ایسی صورتحال میں عدالتیں اس کو کیسے مجبور کر سکتی ہیں ۔ ان باتوں کا تعلق آئین و قانون سے زیادہ اخلاقیات سے ہے جس کے بارے ہماری مجموعی حالت کوئی زیادہ تسلی بخش نہیں ۔

جب انسان اخلاقی گراوٹ کو اپنا ہتھیار سمجھنا شروع کر دے اور شرافت اس کے شر سے بچنے کے لئے اپنا دامن چھپاتے پھرتی ہوتو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اخلاقی گراوٹ باجواز ہوگئی ہے ۔ اورنہ ہی ان بنیادوں پر استوار رویوں کو خود اعتمادی سمجھا جاسکتا ہے اس طرح کے حوصلے کبھی کبھی مہنگے بھی پڑ جاتے ہیں اور شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے ۔ کسی کی مصلحتوں کو کبھی کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے ۔ شرافت کو اس کے پیمانوں سے ہی پرکھنا چاہیے اس کو خباثت کے پیمانوں پر پرکھنے کے اندازے مناسب نہیں ہوتے  ۔

یوں تو پاکستان کی سیاسی ثقافت میں لغو بازی کی ایک تاریخ ہے مگر حالیہ سیاست میں تحریک انصاف کا پلڑا بھاری ہے جس کی وجہ شائد ان کے ورکرز کی تربیت اور اطمئنان کا ساماں ہے لیکن ان کو ہماری اقدار میں کسی بھی طرح سے مناسب نہیں کہا جاسکتا ۔

سیاست کو اقدار سے ہم آہنگ ہی ہونا چاہیے وگرنہ اس کا حمیازہ بہت ہی بھاری قیمت میں ادا کرنا پڑتا ہے ۔ اب اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو جیسے مسلم لیگ نے بھی جارحانہ سیاست کا اعلان کردیا ہے تو پھر مزید کشیدگی کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔ جس کا نقصان بالاخر ملک و قوم کو ہی ہوتا ہے جیسا کہ معیشت ڈوبتی جارہی ہے ۔ جیسے جیسے کشیدگی بڑھتی ہے معیشت کمزور ہوتی جاتی ہے ۔

سیاست کا معیار آئین ہی طے کرتا ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اس کی طرف رجوع کرنا چاہیے او اس کی نگرانی کا دائرہ اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہوتا ہے جس کی ذمہ داریوں میں آتا ہے کہ وہ غیر آئینی الزامات پر حرکت میں آئے اور بروقت انصاف کو یقینی بنائے ۔

اور حالات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ شائد اس میں کوئی کمی ہے جس کی وجہ سے سیاسی جماعتیں اپنی آئینی حدود میں رہ کر سیاست نہیں کررہیں ۔

اس وقت اگر مجموعی صورتحال کا اندازہ لگایا جائے تو پاکستان کی اکثریتی  سیاسی جماعتیں ایک طرف ہیں اور تحریک انصاف اکیلی ایک طرف کھڑی دکھائی دیتی ہے ۔ ان جماعتوں کے بھی آپس میں اختلافات ہیں مگر اس کے باوجود اگر وہ اتحاد کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو پھر کوئی تو ایسا معاملہ ہے جو ان کو اکٹھا کرنے پر مجبور کئے ہوئے ہے ۔ اور اس طرح کے قومی سطح پر اکثریتی فیصلوں کو رد نہیں کیا جاسکتا ۔ اکثریت پر ہمیشہ  صحیح ہونے کا گمان کیا جاتا ہے اور جمہوریت میں تو اس کو بہت ہی اہمیت حاصل ہے ۔

پنجاب کے ضمنی انتخابات میں کامیابی کو اگر تحریک انصاف اپنی جیت اور عوامی مینڈیٹ سے تشبیہ دے رہی ہے تو دوسری طرف کے دعووں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ یہ تحریک انصآف کے ممبران کی خالی نشستیں تھیں جن میں سے مسلم لیگ نے پانچ جیت لی ہیں ۔ اور کسی جماعت کے ممبران کا ناراض ہونا یا چھوڑ جانا بھی کوئی تعریف کی بات نہیں بلکہ اندرونی کمزوریوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اور یہ سلسلہ اگر ابھی بھی جاری ہے تو پھر بجائے اس پر کہ اپنے گریبان میں جھانکا جائے دوسروں پر الزام لگانے کو دانشمندی نہیں کہا جاسکتا ۔

اسمبلی ممبران ہی اصلی عوامی میڈیٹ ہوتے ہیں جو عوام کے ووٹوں پر اسمبلی میں پہنچے ہوتے ہیں ۔ اور اسمبلی کی ایک متعین مدت ہوتی ہے جس کے بعد ہی دوبارہ عوام کے پاس نئی رائے لے لئے رجوع کیا جاتا ہے جو کہ آئینی طریقہ کار ہے ۔ اگر ہر دوسرے سال ان عوامی نمائندوں پر شک کا شبعہ ظاہر کرکے فریش الیکشنز کا مطالبہ کردیا جائے تو یہ ٹھیک بات نہیں اورمطالبہ بھی آئین کی منشاء کے مطابق ہی کیا جانا چاہیے ۔

آئینی اور اخلاقی طور پر ممبران کو اپنی پارٹی کے ساتھ بے وفائی نہیں کرنی چاہیے مگر ایسے حالات اگر پیدا ہوتے ہیں تو ان کی وجوہ پر بھی تو تحقیق اور سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اب یہ ضمنی الیکشن بھی تو ایسے ہی عمل کے نتیجے میں واقع ہوئے ہیں ۔ یا تو پھر اسمبلی ممبران کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ جدھر بھی چاہیں اپنا ووٹ دے سکیں اور ایسا دنیا میں ہوتا ہے ۔

مگر ہمارے مسائل بھی ہماری اخلاقی صورتحال کی وجہ سے باقی دنیا سے مختلف ہیں ۔ جیسا کہ پچھلے دنوں عمران خان صاحب نے خود اعتراف کیا کہ وہ اپنی حکومت کو دوران اسمبلی سے کوئی بھی بل پاس کروانے کے لئے فون کروا کر لاتے تھے ۔ اگر وہ اس طرح کی حکومت چلاتے رہے ہیں تو پھر یہ معاملہ آخر کب تک چل سکتا تھا ۔ ہر معاملے کے پیچھے وجوہات ہوتی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ تو معلوم ہوا کہ ان کا حکومت سازی کا مینڈیٹ حقیقی نہیں تھا جس کی وجہ سے ان کو مشکلات کا سامنا رہا ۔

اور اب وہ دوبارہ نئے انتخابات کا مطالبہ بھی اسی لئے کر رہے ہیں کہ عوام سے فریشن مینڈیٹ لے کر آیا جائے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس پر بھی اعتماد کی بحالی کیسے ممکن ہوگی ؟ جب کہ ابھی بھی اشارے مثبت نظر نہیں آرہے ۔ اب حالیہ انتخابات میں انہوں نے اکثریتی سیٹیں جیتیں مگر ان کے دھاندلی کے خدشات اور تحفظات اپنی جگہ پر قائم ہیں اور وہ تسلسل کے ساتھ الیکشن کمیشن پر الزامات لگاتے آرہے ہیں اور چیئرمین سے استعفے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں ۔ ان کے بیانوں میں مستقل مزاجی کا فقدان ہے ۔ جبکہ دوسری طرف سے اس طرح کا معاملہ دیکھنے میں نہیں آتا

اور دوسری طرف سے اس وقت اداوروں پر تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے مگر ان کا انداز قدرے مختلف ہے وہ اداروں کو تحریک انصاف پر مہربان ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہیں جبکہ تحریک انصاف اداروں پر غیر منصفانہ ہونے کا الزام لگارہے ہیں تو ایسے میں میں سمجھتا ہوں کہ پہلے ان معاملات کی تحقیق اور اس کے سد باب کے لئے اصلاحات ہونی چاہیں اور اس کے بعد نئے انتخابات کے انعقاد کو عمل میں لانا چاہیے ۔ وگرنہ نئے انتخابات سے کبھی بھی سیاسی کشیدگی کم ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔

اتحادی جماعتوں کی جارحانہ پالیسی کی دراصل وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھ رہے ہیں انہوں نے سخت فیصلے کرکے ملکی معیشت کو سہارا دینے کی کوشش کی ہے اور پچھلی حکومت کا سارا بوجھ ان کے اوپر آگیا ہے جس کا ہر ذی شعور کو اندازہ ہے ۔ اور اب ان کو ہی سائیڈ پر لگانے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر وہ کھل کر بولے ہیں کہ حقائق کو پیش نظر رکھ کر انصآف پر مبنی فیصلے ہونے چاہیں وگرنہ وہ حقائق کو سامنے لانے پر مجبور ہونگے ۔

جارحیت بھی ہمیشہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوتی ، دانش اور اصولوں کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے وگرنہ یہ جارحیت کمزور کرنا شروع کردیتی ہے ۔ عمراں خان نے بھلے مقبولیت بچا لی ہوگی مگر سنجیدہ حلقوں میں ان کی جماعت اور ان کے رویوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور وہ اعتماد کھو چکے ہیں ۔ اگر اتحادی بھی ان کا اس لہجے میں سامنا یا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو اثر کو برابر کرنے تک ہی محدود ہونا چاہیے وگرنہ نقصان کا بھی احتمال ہوسکتا ہے ۔  

تمام سیاسی جماعتوں کو فہم و فراست سے کام لینا چاہیے اور جارحانہ سیاست کو قابو میں رکھنا چاہیے اگر یہ خاص حد سے بڑگی تو خانہ جنگی کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اس بارے اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے بلا خوف بر وقت اور موثر اقدامات اٹھا کر آئین و قانون کی پاسداری والے پہلو کو اجاگر کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ سیاسی جماعتوں کے رویوں اور سرگرمیوں میں توازن کو بحال کیا جاسکے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں