کیا انتخابات ہی سیاسی بحران کا حل ہیں ؟

سیاسی بحران اور استحکام کی ضرورت سے کوئی بھی انکاری نہیں ۔ تمام سیاسی جماعتیں اس کا حل  ضروری سمجھتی ہیں اور اپنے اپنے انداز میں کوشش بھی کر رہی ہیں ۔ موجودہ معاشی بحران بھی اسی کے ساتھ جڑا ہے ۔ اس کا پائیدار حل کیا ہے آئیے اس پر تفصیلی بات کرتے ہیں ۔

پنجاب کے ضمنی الیکشن کے نتائج سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی ہے کہ پنجاب کے عوام نے تحریک انصاف کے بیانیے کو قبول کرلیا ہے جس میں انہوں نے منحرف اراکین کو مسترد کرنے ، بیرونی مداخلت اور حکومت سازی میں اسٹیبلشمنٹ کے کردارپر نا پسندیدگی کا اظہارکرتے رہے ہیں ۔ جہاں تک بیرونی مداخلت کا تعلق ہے پی ڈی ایم تواتر کے ساتھ انکار کرتی آئی ہے اور اس پر سلامتی کونسل کی میٹنگ بھی بلائی گئی جس میں اس وقت امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر نے بھی شرکت کی ۔ اور سلامتی کونسل نے اس طرح کے الزامات کو مسترد کر دیا تھا ۔

لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف نے اپنا بیانیہ قائم رکھا اور اب انتخابات کے نتائج سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ عوام نے تحریک انصاف کے بیانیے کو تسلیم کرلیا ہے ۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ صرف اتنا ہی کافی نہیں ۔ اس سے حکومت میں موجود جماعتوں پر الزام آرہا ہے جس کی وہ تردید کررہے ہیں ۔ لہذا نئے انتخابات سے پہلے اس معاملے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے اس لئے اس پر کمیشن بنایا جانا چاہیے تاکہ حقائق قوم کے سامنے رکھے جا سکیں ۔

جہاں تک منحرف اراکین کے مسترد کیے جانے کا تعلق ہے انتہائی خوش آئیند بات ہے اور اس سے تمام سیاسی جماعتوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی حکمت عملیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے ۔ مسلم لیگ نے
ان منحرف اراکین کو جو ٹکٹ دئیے ہیں ان سےان کی بد نیتی واضح طور پر ظاہر ہوگئی ہے اور یہ سچ ثابت ہوگیا ہے کہ ان کے روابط تھے جو اچھا فیصلہ نہیں تھا جس کا ان کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑا  ۔

اور جہاں تک یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ پنجاب اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہوگیا ہے اس پر تبصروں میں پوری سچائی ثابت ہورہی ہے اور ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ حالیہ انتخابات کے نتائج بزات خود اس بات کی دلیل  پیش کررہے ہیں  کہ کسی بھی قسم کی کہیں سے کوئی مداخلت نہیں کی گئی جو آئی ایس پی آر کے موقف  کی تائید ہے ۔ حالانکہ تحریک انصاف مداخلت کے الزامات بھی لگاتی رہی ہے ۔ تو اب جس طرح سے مسلم لیگ نے انتخابات کو کھلے دل سے تسلیم کیا ہے اسی طرح سے تحریک انصاف کوبھی خندہ پیشانی سے اس بات کو تسلیم کرلینا چاہیے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے اور انہوں نے اپنے آپ کو سیاست سے علیحدہ کرلیا ہے ۔ حالانکہ تحریک انصاف نے کبھی بھی دل سے ان کے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا بلکہ کل تک وہ ان کو یوٹرن لینے کی تجاویز دے رہے تھے ۔

اور جہاں تک اس امر میں کوششوں کا تعلق ہے تو ساری سیاسی جماعتوں کا کردار ہے اور خاص کر نواز شریف کے "ووٹ کو عزت دو" کے نعرے کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ اور آج جو فائدہ تحریک انصاف نے حاصل کیا ہے اس کے پس منظر میں میثاق جمہوریت سے شروع ہوکر عدلیہ کی بحالی سے گزرتے ہوئے آج کی اس منزل پر پہنچنے تک کا سفر  ہے ۔  اورا بھی اس منزل کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے مزید حفاظتی بند بھی باندھنے کی ضرورت ہے ۔ جس میں تحریک انصاف کو بھی اپنے حصے کا دیا جلانا چاہیے ۔  

لہذا اب ان حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے تحریک انصاف کواپنے رویے اور اندازو بیان کو بدلنے کی ضرورت ہے اور اگر وہ واقعی ان باتوں کے اعترافات کے بعد کہ ان کی حکومت  فون کالوں کے سہارے چلتی رہی ہے اپنے آپ کو صحیح جمہوری بنانا چاہتے ہیں تو پھر عملی طور پر اس کو اپنے رویے ، انداز و بیان اور عمل سے ثابت بھی کرنا ہوگا ۔ آدھا نہیں پورا سچ بولنا ہوگا کہ اگر ان کی حکومت کالوں کے بغیر چلنے سے قاصر تھی تو اٹھارہ کے الیکشن میں اپنی جیت کے رازوں پر سے پردہ بھی اٹھانا ہوگا جس کے ان پر الزامات لگتے رہے ہیں جن کا اب وہ خود بنفس نفیس اعتراف بھی کررہے ہیں ۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ نیکی کے کاموں کا بہترین آغاز توبہ کے بعد ہی ہوتا ہے ۔

اوراگر وہ واقعی غیر جانبدار اور شفاف انتخابات پر یقین رکھتے ہیں تو پھر انتخابات سے پہلے اصلاحات کا لانا ضروری ہے جس کے لئے تمام سیاسی جما عتوں  اور سٹیک ہولڈرز کا تعاون درکار ہے ۔ سب کو اب ایک ساتھ  گرینڈ ڈائیلاگ کی طرف بڑھنا چاہیے اور ان تمام عوامل پر غور کرکے جن سے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے جاسکتے ہیں کی درستگی کرکے انتخابات سے پہلے شفافیت کے عمل کو یقینی بنا لینا چاہیے ۔

مداخلت اور اس کے الزامات ایک سوچ کا شاخسانہ ہیں اور کسی بھی وقت ان کے خدشات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا لہذا ان کےسد باب کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے جس کا وقت یقیناً انتخابات سے پہلے ہی ہے ۔

لہذا جلد بازی مسائل کا دائمی حل نہیں اور نہ ہی اس پر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بغیر اصلاحات کے کروائے گئے انتخابات سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ تو پھر کیوں خواہ مخواہ قوم کا وقت اور پیسہ ضائع کیا جائے ۔

تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کا رخ  بھی کرنا چاہیے اور حکومت کو بھی ان کے لئے خلا پیدا کرنا چاہیے اور دنوں کو اخلاص کے ساتھ دو باتوں پر متفق ہوجانا چاہیے کہ انتخابات سے پہلے ایک تو بیرونی مداخلت پر کمیشن کے زریعے سے حقائق کو قوم کے سامنے لانا ضروری ہے اور دوسرا انتخابی اصلاحات بھی دائمی اور یقینی غیرشفاف نتائج کے لئے ناگزیر ہیں ۔

اسی طرح دونوں کو مل کر عوامی تشویش کا معاملہ  معاشی بحران جس نے عوام کی جینا دو بھر کردیا ہے پر باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ غور کرلینا چاہیے کہ اس پر انتخابات کے کیا اثرات مرتب ہونگے اور ان کی روشنی میں کون سا مناسب وقت ہوسکتا ہے ۔

سیاست اور حکومت سازی کا اصل مقصد عوامی فلاح ہی ہوتا ہے اور اس کے لئے بہتریں طریقہ کار آئین کے وضع کردہ اصولوں کی روشنی میں ہی سرانجام پانا ہوسکتا ہے ۔  لہذا سیاسی جماعتوں کی پختگی اور اخلاص کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ ان اصولوں پر زاتی مفادات سے بالاتر ہوکر کاربند رہنے کی مثالیں قائم کرتی ہیں ۔

جمہوری طریقہ کار کے اندر اخلاقی اقدار ، اصولوں کی پاسداری ، عوام کی رائے کی تکریم اور تعمیری سوچ کے تحت  اختلاف رائے کا حق  ہی وہ عوامل ہیں جو اس سے حاصل ہونے والے فوائد کو زیادہ سے زیادہ بہتر بناتے ہیں لہذا ہمیں ان سب عوامل کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ملک و قوم کی فلاح میں سیاسی کشمکش کی راہ اختیار کرنے کی بجائے افہام و تفہیم کی راہ اپناتے ہوئے اپنے معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

میں زاتی طور پر تو انتخابات کے مقررہ وقت پر ہی منعقد ہونے کا حامی ہوں تاکہ جمہوریت کو زیادہ سے زیادہ پنپنے کا موقعہ ملے ۔

دعا ہے وہ ہو جو ہمارے حق میں بہتر ہے اور اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو ۔  


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں