یہ اضطراب کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے

 

آج وزیراعظم کے پارلیمان سے خطاب کے دوران ان کا انداز اور لہجہ انتہائی جارحانہ تھا اور وہ بار بار بھول بھلیوں کا مظاہرہ کرتے رہے اور اپنے آس پاس سے لقمے لیتے رہے بلکہ ایک دفعہ تو یہ بھی کہہ گئے کہ انہوں نے قانون نہیں پڑھا ہوا اور ان کے اردگرد بیٹھے لوگ قانون کو جانتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے رہیتے ہیں مگر میرے  دائیں بائیں سے گزر جاتی ہیں ۔ جس سے یقیناً قوم نے اچھا تاثر نہیں لیا ہوگا

اسی طرح سے آج وزیر داخلہ نے گورنر راج کی صرف دھمکی ہی نہیں لگائی بلکہ یہ کہہ دیا کہ انہوں نے اس پر کام کرنا شروع کردیا ہے ۔ وہ ایک وکیل بھی ہیں اور ایک اہم عہدے پر تعینات ہیں جس کا ان کو خیال رکھنا چاہیے ۔ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ حکومتی وزراء کےعہدوں پرشخصیات کو ہمیشہ آراء کابینہ میں دینی چاہیں اور کابینہ کی توثیق کے بعد عوام میں بیان کرنا چاہیے ۔ میں انکو قانون سے غافل تو نہیں کہہ سکتا مگر معلوم ہوتا ہے کہ شائد ان کو آئین کو پڑھے ہوئے مدت ہوگئی ہے ۔ لہذا ان کو مشورہ ہے کہ آئین کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے بلکہ تمام وزراء ، مشیران اور ممبر پارلیمان کو بھی ہوسکے تو آئین کو پڑھنے کی تجویز دینی چاہیے ۔

حکومت کے بیانوں سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر کوئی طوفان ہے جس کو وہ اپنی زبان پر لانے سے قاصر بھی ہیں اور اپنے انداز و بیان سے چھپا بھی نہیں پارہے ۔ یہ موجودہ سیاسی حالات بھی ہوسکتے ہیں جن میں ان کو مسلسل پریشیانی کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے یا پھر کوئی ایسی بات بھی ہوسکتی ہے جو ان کو کسی بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کررہی ہے ۔

جیسا کہ آج نواز شریف نے بھی ایک دفعہ پھر اپنی انتخابات کی تجویز کا اظہار کرتے ہوئے حکومت کو کہا ہے کہ میں جلدی انتخابات کے حق میں ہوں اگر ادارے حکومت کو چلنے نہیں دے رہے تو پھر چاہیے کہ انتخابات میں جایا جائے ۔ اور دوسرے طرف عمران خان کا سکوت بھی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر مطمئن نظر آرہے ہیں ۔

سپریم کورٹ کے فیصلے نے ایک نئی سیاسی بحث تو چھیڑ دی ہے مگر اس سے پی ڈی ایم کو جھٹکا ضرور لگا ہے اور تحریک انصاف کا وقتی طور پر مورال بہتر ہوا ہے مگر اس سے کسی کو بھی مستقل فائدہ پہنچنے کی توقع نہیں کیوںکہ اس وقت حکومت حاصل کرنا فائدہ اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ ملک کی معاشی حالت انتہائی پریشان کن ہے اور جو بھی حکومت سنبھالے گا اسے بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہوگااور ان میں کمزور کارکردگی سیاسی نقصان اٹھانے کے مترادف ہے ۔

اسی طرح حکومتی میں شامل جماعت مسلم لیگ نوازشریف کے اپنے وزراء نے حکومت کے خلاف بولنا شروع کردیا ہے جو شائد یہ سمجھنےلگے ہیں کہ حکومت کچھ کر تو پا نہیں رہی اور سیاسی نقصان بہت زیادہ اٹھا رہی ہے اور الیکشنز اگر فوری نہ بھی کروائے جائیں تو ایک آدھ سال کا ہی معاملہ ہے اور ہر آنے والا دن ان کی سیاسی ساکھ کو متاثر کرتا جارہا ہے لہذا وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو طول دینا ان کے حق میں نہیں ۔ انہوں نے چار سال مار بھی کھائی ہے اور اب نالائقیوں کا سارا بوجھ بھی اپنے اوپر لے لیا ہے ۔

یا ہوسکتا ہے کہ ان کو کوئی سافٹ ٹچ کی پشینگوئیوں کی شنید نے پریشان کیا ہوا ہو ۔ بہرحال حکومت کو اپنے تاثر کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے اور اپنی ساکھ کو بچانے کی بھی ۔ مسلم لیگ نے جو امیدیں وابسطہ کی ہوئی تھیں وہ خاک میں ملتی جارہی ہیں اور اگر مسلم لیگ کو سب برداشت ہے تو پھر کسی اور کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے ۔

سیاسی حالات سے اٹھنے والی نئی بحث

موجودہ سیاسی حالات نے ایک نئی بحث شروع کردی ہے کہ سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کی ضرورت ہے جس کے بارے صرف سیاسی حلقوں سے ہی نہیں بلکہ پاکستان کی وکلاء برادری اور بار کونسلز نے بھی اس کی حمائت کرنا شروع کردی ہے بلکہ وہ تو پچھلے ایک سال سے اس محنت میں لگے ہوئے ہیں ۔ مگر ایک پارلیمان ہے کہ اس کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگ رہی ۔  

اگر آج ہر کوئی اپنے اپنے اختیارات کا بے دریغ اختیار استعمال کر رہا ہے تو پارلیمان کو کیا کمزوری ہے کہ وہ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی سے آوازیں اٹھنے کے باوجود اس کی طرف توجہ نہیں دے رہے ۔

یہ آوازیں صرف عوام ، سیاستدانوں اور پاکستان کی بارز کی طرف سے نہیں بلکہ سپریم کورٹ کے اندر سے آوازیں اٹھ  رہی ہیں: جسٹس فائز عیسیٰ ایک نہیں ، دو نہیں بلکہ تین خط چیف جسٹس کے نام لکھ کر حکومت اور عوام کو باور کروا چکے ہیں کہ سپریم کورٹ میں انتطامی بدنظمی ہورہی ہے اور جس کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔

اب پیپلز پارٹی کے مرکزی قائد فرحت اللہ بابر نے یہ تجویز دی ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کیا جائے جس پر دو بڑی سیاسی جماعتوں نے تائید کی ہے اور قانوں داں اس پر کھل کر اپنی آراء دے رہے ہیں ۔ جہاں تک کہ عرفان قادر نے تو دو دنوں میں اس پر عمل کرنے کی تجوی دی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اس کے لئے سادہ اکثریت چاہیے ہوتی ہے ۔

جب جج خود ہی یہ کہنا شروع کر دیں کہ انہوں نے فیصلے پر بے دھیانی سے دستخط کر دئیے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ وہ فیصلہ کو بدلیں مگر بدلنے کی پھر بھی جرات نہ کرسکیں تو پھر اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ معاملات کچھ غلط ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ 

پارلیمان کو آخر کمزوری کیا ہے ؟

ایک تو کمزوری ان کی اپنی ہی زبانی ہے کہ ان کو اداروں کی طرف سے جیسا کہ حالیہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے مگر دوسری کمزوری مفاہمتی پالیسی بھی ہوسکتی ہے جس پر اپنے ہی ان کے لوگ بول رہے ہیں ۔ اور اتحادی جماعتوں میں سے بھی آوازیں آئی ہیں جن میں فضل الرحمن صاحب نے بھی شہباز شریف کو شرافت کا اشارہ دیا ہے ۔

آج حکومت نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریویو کو واپس لے رہے ہیں اور اس ریفرنس میں ملوث کرداروں کے خلاف قانونی کاروائی کا بھی اعلان کیا ہے ۔

یہ زبردستی کی خدمت میں آخر رکھا ہی کیا ہے ؟

عوام مہنگائی سے سخت پریشان ہے اور حکومت سمجھتی ہے کہ اس کے ہاتھ  پاؤن بندھے ہوئے ہیں وہ ملک کی معیشت خطرات سے دوچار ہونے کے خدشات بیان کرتے ہوئے سخت فیصلوں سے اس کو سنبھالنے کی خوش خبریاں پیش کررہے ہیں مگر قوم کو اس پر شائد یقین نہیں آرہا اس لئے وہ بیانیوں کے پیچھے لگی ہوئی ہے تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ اتحادی جماعتوں کو کیا ضرورت ہے اس زبردستی کی خدمت کی جس میں سیاسی ساکھ ہی نہ رہے جس کے سہارے مستقبل کی منصوبہ بندیاں اور حکمت عملیاں نتھی ہیں ۔

چھوڑیں یہ ضد اور تمام سب سڈیز کو واپس بحال کردیں ، چیزوں کی قیمتیں پہلی سطح پر لے جاکر عوام کو خطاب کریں اور جو رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ان کو کہیں کہ خود حکومت کرلیں ۔  

اور اگر حکومت کرنی ہی ہے تو پھر قانونی اصلاحات کے زریعے سے پارلیمانی بالادستی کے فیصلے کئے جائیں جو سادہ اکثریت سے ممکن ہیں اور آئینی اختیارات سے تجاوز کا جواب آئین کی زبان میں دیا جائے ۔ اس سے زیادہ موزوں وقت کیا ہوسکتا ہے جب وکلاء برادری  بھی ساتھ کھڑی ہے اور عدالتی فیصلے سخت نتقید کی زد میں ہیں ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں