تخت پنجاب اور آئین و عدل کے تقاضے

پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخابات ایک   متنازع صورتحال اختیار کرچکے ہیں ۔ ظاہری طور پر عدم اعتماد ایک واضح اور سادہ طریقہ ہے مگر  پارلیمانی ممبران کی جماعت سے وفاداریوں کی تبدیلی کی صورت میں یہ الجھن کا شکار ہوا اور  بالآخر سپریم کورٹ پہنچ گیا  جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اس کا حتمی اعلان ضمنی انتخاب کے نتائج کے بعد کیا جائے جو بظاہر بہت ہی عجیب لگتا تھا کہ عدم اعتماد کے ووٹنگ ہوچکی تھی اور حمزہ شہباز کو زیادہ ووٹ پڑے تھے مگر اس  کے نتائج  کو مستقبل کے عوامل پر چھوڑا جارہا تھا ۔ فیصلہ اس وقت موجود اعدادوشمار پر ہی ہونا چاہیے تھا  مگر سپریم کورٹ نے تریسٹھ اے کی تشریح میں یہ طے کیا تھا کہ نااہل ہونے والے اراکین کے ووٹ کوئی حیثیت نہیں رکھتے  جس کی بنیاد پر عدم اعتماد کی ووٹنگ کو پھر سے چیلنج کر دیا گیا  اور پھر سپریم کورٹ نے  دونوں اطراف کی رضامندی  سے یہ کہا  تھا کہ ضمنی انتخابات کے بعد دوبارہ ووٹنگ ہوگی لہذا اس کا فیصلہ اب بائیس کو ضمنی انتخابات کے بعد ہونا تھا جو ہوا

جس کے نتیجے میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا اور اس کی آئینی صورتحال کو واضح کرنے کے لئے اب معاملہ  پھر سے ایک بار عدالت عالیہ میں ہے اور عدالت نے چیف منسٹر کو  سوموار تک عبوری عہدے کے طور پر کام کرنے کا کہا ہے اور سوموار کے دوبارہ اس معاملے پر عدالتی کاروائی شروع ہوگی ۔  اور یاد رہے کہ پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا تھا کہ اس کی رو سے پارٹی سربراہ کے خط  کے نتیجہ میں مسلم لیگ قائداعظم کے ووٹ سربراہ کی ہدائت کے خلاف استعمال  ہوئے اور گنے نہیں جاسکتے لہذا انہوں نے ان کو منسوخ کرتے ہوئے حمزہ شہباز کو اپنا عہدہ  مستقل اور جاری رکھنے کا اعلان کیا جس پر انہوں نے اگلی صجح دوبارہ سے حلف بھی لے لیا  ہے۔

اب اس معاملے کے آئینی پہلو کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ کے بنچ پر تحفظات کے دعوے بھی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں جن میں نمایاں پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور پاکستان مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز کے بیانات ہیں جو بہت ہی سخت ہیں ۔  اور اب تو حکومتی اتحاد نے فل بنچ کی تشکیل کے لئے سپریم کورٹ سے باقائدہ رجوع کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے ۔ اس کا بہرحال سپریم کورٹ کو نوٹس لینا چاہیے ۔ اور متنازع ججز کو اپنے آپ کو اس بنچ سے علیحدہ کر لینا چاہیے یا پھر ان کے مطالبے کے مطابق موجود ججز کا فل بنچ بنا دیا جائے  اور جو ججز چھٹیوں پر ہیں ان کو بھی اگر چیف جسٹس چاہیں تو وڈیو لنک کے زریعے سے بنچ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے ۔ جیسا کہ انہوں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں بنایا تھا ۔ بہرحال یہ سپریم کورٹ کی صوابدید ہے اور وہ اس کا استعمال خوب جانتے ہیں ۔ لیکن سیاسی راہنماؤں کی طرف سے اس طرح کھل کر بولنا کوئی عام بات نہیں بلکہ ان کی پالیسی کی جھلک ملتی ہے جس میں شائد اب انہوں نے اپنے تحفطات اور خدشات کا اظہار کرنا ہی مناسب سمجھ لیا ہے ۔

اور جہاں تک آئینی پہلوؤں کا تعلق ہے تو اس میں اس بات پر تو کوئی دوسری رائے ہی نہیں کہ اگر کسی جماعت کا ممبر پارٹی کی ہدایات کے خلاف ووٹ دیتا ہے یا دینے سے اجتناب کرتا ہے تو وہ اپنے عہدے سے فارغ ہوجائے گا ۔ اور اس کا طریقہ کار بھی آئین میں دیا گیا ہے جس کو آئین کا آرٹیکل تریسٹھ اے میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے جس کو دو ہزار دس  کی اٹھارویں ترمیم میں  سیاسی جماعتوں کے اراکین  کو وفاداریاں تبدیل کرنے سے روکنے کے عمل کو یقینی بنانے کے لئے شامل کیا گیا تھا ۔  اور اسی کی تشریح کے لئے  صدر پاکستان نے دو ہفتے پہلے سپریم کورٹ میں ریفرنس بھیجا تھا جس پر کاروائی عمل میں لائی گئی  اور فیصلہ یہ آیا تھا کہ وہ ممبران اپنی اہلیت کھو بیٹھے ہیں جس پر ضمنی انتخاب ہوئے اور نتیجتاً یہ نیا مسئلہ معرض وجود میں آیا ۔

اب تحریک انصاف کے امیدوار کو اختلاف  طریقہ کار اور اس بات پر ہے کہ یہ ہدایات کس کے طرف سے ہونی چاہیں اور کون کرے گا ۔ اس کے بارے میں آئین کے اندر  صاف موجود ہے کہ جماعت کا سربراہ ہدایات جاری کرے گا ۔ اور پارلیمانی قائد بھی سربراہ کی ہدائت اور مرضی سے ہی ڈیکلریشن جاری کرتا ہے ۔

تفصیل میں جانے سے پہلے دیکھ لیتے ہیں  کہ آئین کا آرٹیکل تریسٹھ اے کے متعلقہ اجزا کہتے کیا ہیں ۔

تریسٹھ ون  (اے)  بی کہتی ہے

Votes or abstain from voting in the House contrary to any direction issued by the Parliamentary Party to which he belongs in relating to…………….

اب اس میں پارلیمانی پارٹی کا ذکر ہے نہ کہ پارلیمانی لیڈر کا

اب بنیادی نقطہ یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ قائد اعظم کے ممبران کی طرف سے  پارٹی ہدایات کے خلاف دئیے گئے ووٹ پرویز الہی کے حق میں   سمجھے یا گنے جائیں گے یا نہیں ۔ اس بارے سپریم کورٹ نے اپنے پچھلے فیصلے میں یہ کہا تھا کہ تحریک انصاف کے حمزہ شہباز کے حق میں دئے گئے ووٹ ریگارڈ نہیں کئے جائیں گے اسی لئے ضمنی الیکشن کے بعد دوبارہ ووٹس کے بارے حتمی فیصلہ ہوا تھا ۔  

He may be declared in writing by the Party Head to have defected from the political party, and the Head of the Parliamentary Party may forward a copy of the declaration to the Presiding Officer, and shall similarly forward a copy thereof to the member concerned:

اب اس وضاحت  کی رو سے یہ اختیار جماعت کے سربراہ کو دیا گیا ہے اس کا القاب کوئی  بھی ہوسکتا ہے ۔ اور اس میں پارلیمانی جماعت کا ذکر ہوا ہے نہ کہ پارلمانی قائد کا جو کہ بہت ہی واضح ہے جس کا شور تحریک انصاف کے کچھ اراکین مچا رہے ہیں کہ ساجد بھٹی نے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا تھا ۔

Provided that before making the declaration, the Party Head shall provide such member with an opportunity to show cause as to why such declaration may not be made against him.

اب اس میں پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت سے اس بارے وضاحت طلب کی جاسکتی ہے کہ انہوں نے پرووائزو کی   روشنی میں نوٹس  کے زریعے سے اطلاع اور ان کووضاحت پیش کرنے کا وقت دیا ہے یا نہیں  ۔ اس بارے چند میڈیا خبروں سے تو اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نےممبران کے نام خطوط لکھے ہیں اور انتخاب سے پہلے چوہدری مونس الہی کا چوہدری شجاعت کو ملنے کے بعد جاری کیا جانے والا بیان بھی ہے جس میں انہوں نے اپنی اور عمران خان کی شکست اور زرداری کی جیت کا ذکر کیا ہے ۔ ان پر ملاقات کے بعد ساری صورتحال واضح ہو چکی تھی ۔ دوسرا جماعت کے اندر  اختلافات کوئی نئی یا پوشیدہ بات نہیں تھی  ۔ قومی اسمبلی میں بھی مسلم لیگ قائد اعظم کے ممبران نے چوہدری شجاعت کی اجازت سے ہی ساتھ دیا تھا اور ان کے پاس قومی سطح کی وزارتیں بھی ہیں ۔ چوہدری شجاعت نے اس وقت بھی پرویز الہی کے فیصلے کی مخالفت کی تھی ۔ اگر کسی کو ان کی سربراہی یا قومی اسمبلی کے ممبران کے ووٹ پر اعتراض یا اختیار ہوتا تو ان کے خلاف کوئی ایکشن بھی لیا گیا ہوتا ۔

ساجد بھٹی کی طرف سے ووٹ دینے کی ہدایات کسی طرح بھی پارٹی سربراہ کی اجازت یا باہمی مفاہمت سے ہونے کا کسی طرح سے بھی جواز موجود نہیں ہے اور نہ ہی پارلیمانی قائد کے پارٹی سربراہ کی مرضی کے بغیر یا خلاف فیصلے کی کوئی اہمیت ہے ۔ 

پارٹی سربراہ کی بھی وضاحت کی گئی ہے ۔

Explanation: "Party Head" means any person, by whatever name called, declared as such by the Party.

اور  اس میں جو وضاحت  کی گئی ہے  وہ بھی  پارٹی سربراہ کے بارے ہی ہے ۔ اگر یہاں پر پارلیمانی قائد کا کوئی کردار ہوتا تو اس کا ذکر اور اس کی وضاحت بھی موجود ہوتی ۔

میرے خیال میں اگر تو یہ ثابت ہو کہ ممبران کو ہدایات بارے اطلاع نہیں دی گئی تو ان کے خلاف ڈیفیکشن کی کاروائی میں رعائت ہوسکتی ہے لیکن ووٹوں کے گنے جانے کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ آئین کے مطابق جماعت کے سربراہ نے پریزائیڈنگ آفیسر کو خط کے زریعہ سے باقائدہ اطلاع دے دی تھی جو کہ ان کا استحقاق ہے ۔

سپریم کورٹ کے ہی آٹھ رکنی بنچ کا پارٹی سربراہ کے اختیارات کے حق میں فیصلہ موجود ہے

لہذا آئینی طور پر حمزہ شہباز  کی وزارت  اعلیٰ مکمل طور پر آئین کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ اور اس کو کال عدم  قرار نہیں دیا جاسکتا البتہ عدالت کی ایک اپنی اپروچ ہے اب دیکھئے وہ کیا فیصلہ کرتی ہے ۔ ہوسکتا ہے دوبارہ رجوع کے زریعے سے کچھ رعائت کی صورت نکال لی جائے مگر گنجائش موجود نہیں ہے ۔ 

ویسے اگر تو مسلم لیگ قائداعظم اگر فیصلہ کرے کہ انہوں نے پرویز الہی کی حمائت کرنی ہے اور حکومت کو ختم کرنے کے حق میں ہوں تو تحریک انصاف اور مسلم لیگ قائد اعظم کے پاس مطلوبہ اکثریت موجود ہے اور وہ کسی بھی وقت عدم اعتماد کی تحریک پیش کرکے حکومت تبدیل کی جاسکتی ہے  جو کہ آئینی طریقہ کار ہے  ۔ اس اختیار کا استعمال قومی اسمبلی ، بلوچستان اسمبلی میں ہوا ہے اور کسی بھی وقت کسی بھی اسمبلی میں ہوسکتا ہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں