ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ ایک سبق آموز مثال

آج تحریک انصاف کے بانی رکن کی طرف سے اپنی ہی جماعت پر ممنوعہ فنڈنگ کے الزامات کا فیصلہ سنایا گیا جس میں الزامات کو درست تسلیم کیا گیا ہے اور اکاونٹس کی تفصیلات بھی بتائی گئی ہیں ۔ اس معاملے میں جو بات دلچسپی کی ہے وہ یہ ہے کہ جماعت کے اپنے ہی ممبر نے جمہوریت کا حق استعمال کرتے ہوئے جماعت کے اندر غیر قانونی اقدامات کی نشاندہی کی اور ان کو نظرانداز کیا گیا تو اس نے ثبوتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن جانے کا فیصلہ کیا اور یوں آٹھ سال کی طویل کوشش کے بعد آج وہ عوام اور قانون کی نظر میں سرخرو ہوئے ہیں ۔

یہ ایک سبق ہے ، جمہوری کتاب کا ایک باب ہے کہ جمہوریت کے اندر سیاسی جماعتوں کے اندر کس طرح کے لوگ ہونے چاہیں اور ان کے جماعتوں کے اندر کیا حقوق اور ذمہ داریاں ہیں اور ان کو کیسے اپنی جماعت کی نگرانی ، تصیح اور نظر انداز کئے جانے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کرنی ہے ۔ پھر اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کو کس طرح اندرونی اور بیرونتی کرداروں کی طرف سے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے اندر کیا کیا کمزوریاں ہیں وغیرہ وغیرہ ۔

توا اکبر ایس بابر نے ایک قائد ، جمہوری کارکن اور محب وطن ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے قوم اور سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کی تربیت کی ہے ۔ اور پھر اس ساری قانونی کاروائی کے دوران کن کن مشکلات کا ان کو سامنا کرنا پڑا کی بھی نشاندہی ہوتی رہی ہے ۔ کیسےاس طرح کے مقدموں کو لٹکایا جاتا ہے ۔ آٹھ سال لگ گئے اور جماعت کن کن آئینی اور غیر آئینی مراحل سے گزرتی ہوئی حکومت سازی میں بھی کامیاب ہوگئی ۔ اگر اس مقدمے کا فیصلہ وقت پر ہوجاتا تو بر وقت اصلاح سے جماعت کے اندر جوابدہی کی سوچ پیدا ہوتی اور کتنے ہی غیر آئینی الزامات سے بچ جاتی ۔ تو معلوم ہوا کہ ہمارے جمہوری نظام پر ابھی بہت زیادہ توجہ دینے اور محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔

میں سمجھتا ہوں کہ عوام کواکبر ایس بابر کی جرآت پر داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اپنی ہی جماعت کے خلاف بات اٹھائی ۔ ان پر یقیناً ہر طرح کے دباؤ بھی آتے رہے ہونگے مگر انہوں نے آٹھ سال ان تمام کے تمام مشکلات کا مقابلہ کیا حالانکہ جماعت اقتدار میں تھی اور اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور اب ان کو چاہیے کہ پارٹی کی قیادت کا بھی دعویٰ کریں اور جماعت کے قوانیں کے مطابق پارٹی کے ناراض کاکنوں کا اجلاس بلائیں اور جماعت کے فیصلے کریں ۔ حکومت کو ایسے کرداروں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لئے اکبر ایس بابر کو جمہوری ایوارڈ سے نوازنا چاہیے تاکہ دوسری جماعتوں کے اندر بھی اس طرح کی نگرانی کی روایات شروع کرنے کی سوچ اور جذبہ پیدا کیا جاسکے ۔

سیاسی جماعتیں عوامی اثاثہ ہوتی ہیں ۔ عوام ، ورکروں اور ووٹرز نے پارٹی کے لئے وقت اور پیسہ لگایا ہوا ہوتا ہے ۔ پارٹی کے ساتھ ان کی ہمدردیاں اور امیدیں وابسطہ ہوتی ہیں لہذا سیاسی جماعتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ملک و قوم کے ساتھ وفادار اور عوامی فلاح کے مقصد پر قائم رکھنے کے لئے ریاستوں کے اندر آئین اور سیاسی جماعتوں کی نگرانی کے لئے قوانین بنائے جاتے ہیں ۔ اسی طرح کے قوانین پاکستان میں بھی موجود ہیں اور الیکشن کمیشن کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ اگر کوئی جماعت عوامی یا ملکی مفادات کے خلاف کام کرتے ہوئے پائی جائے تو اس کے خلاف قانونی کاروائی کرے ۔ جس کے تحت آج فیصلہ سنایا گیا ۔ مگر تاخیر کی وجہ سے اصل جمہوری سوچ رکھنے والا عدالتوں میں دھکے کھاتا رہا اور غیر آئینی اقدامات کرنے والے حکومتیں کرتے رہے ۔

ایسے فیصلے جمہوریت کی مضبوطی کے ضامن ہوتے ہیں ۔ ان سے نہ صرف سیاسی جماعتیں مضبوط ہوتی ہیں بلکہ سیاسی جماعتیں  جمہوری اور قانونی راستے پر چلنے پر مجبور ہوتی ہیں ۔ اورسیاسی جماعتوں کی مضبوطی اور آئین کی پاسداری سے قانونی سازی کے عمل میں بھی پختگی اور بہتری آتی ہے جس سے ملکی اداروں کو بھی پھلنے پھولنے میں مدد ملتی ہے ۔

اس فیصلے پر تحریک انصاف اور دوسری جماعتوں کے رد عمل سے بھی بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے کہ وہ کس طرح سے اپنی صفائی میں مختلف حیلوں بہانوں کا سہارا لے رہے ہیں ۔ جیسا کہ تحریک انصاف کی قیادت اسے معممولی لے رہی ہے اور دوسری جماعتوں کے بارے فیصلے کا بھی مطالبہ کررہی ہے ۔ ان کا مطالبہ ٹھیک ہے مگر اس مفروضے کی بنیاد پر کہ ان کو بھی ممنوعہ فنڈنگ ہوتی رہی ہے یا الزامات کی بنیاد کو کسی جرم کا جواز تو کسی صورت بھی پیش نہیں کیا جاسکتا ۔

پھر حالیہ دنوں میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ کس طرح سے پنجاب اسمبلی اور کے پی کے سے الیکشن کمشنر کے خلاف قرادادیں منظور کروائی گئیں ۔ جسے وقت کی مناسبت کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے پر اثر انداز ہونے سے منسوب کیا جارہا ہے ۔ اور ادارے پر مسلسل دباؤ بڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ الیکشن کمشنر متعدد بار عدم تحفظ کا اظہار کرچکے ہیں اور آج انہوں نے کہا ہے کہ اگر انہیں کچھ ہوا تو پی ٹی آئی ذمہ دار ہوگی ۔ یہ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اداروں کو تحفظ فراہم کرے تاکہ انصاف کے عمل کو یقینی اور بے خطر بنایا جاسکے اور اگر حکومتیں خود ہی دباؤ اور دھمکیوں پر اتر آئیں تو پھر انصاف کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ۔

تحریک انصاف کی قیادت کو الیکشن کمیشن پر الزامات لگانے کی بجائے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ اس میں کوئی قانونی سقم رہ گیا ہے یا کسی دستاویز کو سمجھنے میں غلطی لگی ہے تواس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے اپیل کرنی چاہیے نہ کہ ادارے کو بے بنیاد الزامات کے زریعے سے کمزور کرنے کی کوشش کی جائے ۔ الیکشن کمیشن ایک خودمختار آئینی ادارہ ہے اور اگر الزامات لگائے جاتے ہیں تو ادارے کو اختیار حاصل ہے کہ بلا کر الزامات کے حق میں شواہد طلب کرے اور ناکامی کی صورت میں وہ سزا بھی تجویز کر سکتا ہے لہذا اپنے لئے مزید مسائل پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔

بلکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہیے کہ وہ اداروں کے تقدس کا خیال رکھیں اور اداروں کو آئین و قانون کے اندر رہ کر کام کرنے اور غیر جانبداری اور شفافیت کے لئے ہر ممکن مدد کریں اور بے جا تنقید سے گریز کریں ۔۔

میرے خیال میں ایسی صورتحال میں جماعتوں کی بجائے ان کرداروں پر پابندی لگنی چاہیے جو ان غیر قانونی عوامل کے مرتکب ٹھہرے ہوں انکو نشان عبرت بنانا چاہیے ۔ ممنوعیہ فنڈنگ کو ضبط کیا جاسکتا   ہے اور ملوث کرداروں کو نااہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے مگر جماعتیں تو عوامی اثاثہ ہوتی ہیں انکو آئینی حدود کے اندر رہ کر کام کرتے رہنے دینا چاہیے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں