یہ کوئی سیاسی وقانونی حل چل ہے یا مکافات عمل

بظاہر تحریک انصاف کے خلاف گھیرا تنگ ہوتا ہوا نظر آتا ہے ۔ جس میں سیاسی جوش و خروش کا تاثر بھی ہے مگرقانون کی حرکت کا عمل دخل زیادہ ہے ۔ جیسا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کے بیانات کا نوٹس لے لیا ہے اور سپریم کورٹ کا وضاحتی فیصلہ بھی آگیا ہے جس میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم ، سازش کے ثبوتوں کو ناکافی اور پارلیمان کو اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے غیر آئینی اقدامات کی راہ بند کرنے کی رائے دی گئی ہے

اسی طرح جوش  کی ہلکی سی جھلک  حکومت کے پی ٹی وی کیس کے بارے فیصلے میں بھی  مل رہی ہے جس  میں عمران خان کی بریت کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے ۔ بظاہر تو یہ بھی قانون کا عمل ہی ہے جیسا کہ بریت کا فیصلہ بھی قانون و انصاف کا عمل ہی تھا ۔ مگر اس پر اٹھنے والے سوالات کچھ ترش ضرور ہیں ۔ 

اگر حکومت یہ  سمجھتی ہے کہ سابقہ حکومت فیصلوں پر اثر انداز ہوتی رہی ہے  تو کیا اب ان موجودہ حالات سے اس طرح کے خدشات کا اظہار نہیں کیا جائے گا ؟

وزارت داخلہ کے بیان میں بھی  کارکنوں کے جوش کی جھلک زیادہ اور سیاسی  دانش کم لگتی ہے ۔ بہرحال حکومتی عہدیداروں کے بیانات سے حکومتی پالیسی کی جھلک نظر آنی چاہیے جو کابینہ کے فیصلوں سے ماخوذ ہو ۔ انہیں اپنی انفرادی آراء سے حتی الوسع اجتناب کر نا چاہیے تاکہ سیا سی کشکمش کو خواہ مخواہ ہوا نہ ملے ۔ ان کو اپنی رائے کابینہ میں دینی چاہیے اور اس کے بعد متفقہ پالیسی لے کر عوام میں آنا چاہیے

اب تو کابینہ نے بھی  توثیق کردی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے آئینی انحراف پر کاروائی کے لئے خصوصی کمیٹی اور طیبہ گل کے الزامات پر تحقیق کے لئے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا  ہے جو اس میں  ملوث تمام کرداروں ، بشمول وزیراعظم ہاؤس ، کی تحقیق کے بعد  رپورٹ پیش کرے گا

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی کاروائیوں میں آئین و قانون کی حکمرانی کو یقینی بنا کر انصاف پر مبنی فیصلے ہوتے ہوئے نظر بھی آنے چاہیے تاکہ کل تاریخ بھی اس کی غیر جانبداری اور شفافیت پر اپنی گواہی دے سکے

اسی جوش اور ہوش کا ملا جلا امتزاج سلیم صافی کے عمران خان کے نام ٹویٹر پر بیان میں بھی مل رہا ہے جس میں انہوں نے چار دن کی مہلت دیتے ہوئے ان کو خبردار کیا ہے کہ اگر ان کے بارے میں رویے اور عزت اچھالنے کی روش میں فرق نہ آیا تو وہ تمام راز سامنے لے آئیں گے جن کا تعلق عمران خان اور بشریٰ بی بی سے ہے جن کا علم عمران خان کو بھی ہے ۔ لگتا ہے سلیم صافی جچ کے بعد ریفریش ہوکر دوٹوک انداز اپنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں ۔

چار دن کے بعد تو پنجاب کے عوام کے موڈ کا بھی پتہ چل جائے گا کہ وہ کیا چاہتے ہیں جس سے حکومت کو بھی اپنی پالیسیوں اور تحریک انصاف کو اپنے بیانیے پر عوامی رائے کا اندازہ ہوجائے گا کہ ان کو آگے کیا کرنا ہے ۔

اس کے علاوہ فرح گوگی کا کیس بھی قانونی راہداریوں میں قدم رکھ چکا ہے ۔ جب کہ فارن فنڈنک کا کیس بھی ایک تجسس کا سماں بنائے ہوئے ہے ۔

یہ جوش  کا امتزاج اب تحریک انصاف کی طرف سے معمول سے ہٹ کر کچھ  سست سست لگ رہا ہے ۔ جب انکو ایمپائر کی انگلی اپنی طرف اٹھنے کا گماں ہوتا ہے تو دھمالیں ڈالنا شروع کردیتے ہیں اور جب اپنے خلاف اٹھتی محسوس ہوتی ہے تو پھر جانبداری کے الزامات دینا شروع کر دیتے ہیں ۔

شیخ رشید کے جذبات بھی ہوش کھوئے کھوئے لگ رہے تھے ۔  بیان سے تو یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اشتعال انگیزی کے زریعے سے چاہ رہا ہو کہ حکومت عمراں خان کو گرفتار کرے اور الیکشن سے پہلے حالات گرما جائیں ۔ وہ پرانا سیاسی کھلاڑی ہے مگر مخالف بھی نادان کھلاڑی نہیں وہ بھی ڈراتے زیادہ ہیں اور مارنے کا ارادہ کم رکھتے ہیں ۔

 فواد چوہدری حسب معمول کھل کر بول رہے ہیں لیکن حالات سازگار نہیں رہے ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے پر بھی وہ کھل کر بولے اور تاریخ کو دہراتے ہوئے اپنا ابال نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔  

یوں تو  موجودہ حالات  جوش و ہوش اور قانون کی عملداری کے عوامل ہی ہیں مگر  مجھے اس میں  کچھ  مکافات عمل کے خدوخال بھی لگ رہے ہیں جن کی وجہ تحریک انصاف کا ماضی کا عمل ہے جس کا تسلسل ابھی بھی قائم ہے اور رویوں میں فرق ابھرتا ہوا نظر نہیں آتا کہ کس طرح بے دریغی سے انہوں نے حکومتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اپنی خواہشات کی تابع سرگرمیاں جاری رکھیں اور اب بھی صدر ہاؤس میں اس کی مشق جاری ہے ۔

شائد وہ سمجھ بیٹھے تھے کہ زبانی کلامی ہی سارے کام کئے جاسکتے ہیں ان کو یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ "گلاں نال لاہور بنانے والے " سارے کھیل سوشل میڈیا کی دنیا کے ہیں جن کے زمینی حقائق سے تعلق کو کچھ سنجیدہ عوامل کے زریعے سے جوڑنا پڑتا ہے جس کا ہر جگہ پر فقدان ہے ۔

تحریک انصاف کے یہ رویے اور روشیں ہی تو ان کو یہاں تک لے آئی ہیں اور انہوں نے حکومت ملنے سے لے کر اب تک کے ہر موقعے کو غیر سنجیدگی میں ضائع کیا ہے ۔ اور اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ان پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور یوں قانون اور آئین کو حرکت میں آنے کا موقعہ مل گیا ہے اور قدرت کی بے آواز لاٹھی بھی ہلکی ہلکی حرکت میں محسوس ہوتی ہے ۔ کیوں کہ اُس کے اصول کبھی بدلتے نہیں جن کی بنیاد توازن پر ہے ۔

اس وقت کون سار ادارہ ہے  جس پر تحریک انصاف نے بداعتمادی کا تاثر نہ دیا ہو ۔ اور کسی بھی ادارے کا سربراہ یا اہم عہدوں پر بیٹھی  شخصیات بدلی نہیں ہیں جن کے بارے وہ ایک پیج پر ہونے اور آئین کی بالادستی سے مشروط ہونے کے قصیدے پڑھتے تھکتے نہیں تھے اور نئے نئے قانون متعارف کرواتے رہے ۔ اور اب انہیں پر وہ الزامات لگا رہے ہیں ۔  اب بھی سپریم کورٹ نے ان کی خواہش پر تبادلے روک دئیے ہیں ۔  

اتنی ساری الجھنوں کو شروع کرنے سے پہلے یہ بھی سوچنا چاہیے تھا کہ جن حقائق کی بنیاد پر وہ خدشات کا اظہار کررہے ہیں ان حقائق کا حصہ وہ خود بھی رہے ہیں ۔ اور ثبوتوں میں جرم کے شواہد ہی نہیں اعتراف جرم کا بھی ساماں ہے ۔

سیاست میں بحرحال بقدر ضرورت سمتیں بدلی جاسکتی ہیں۔ کبھی چہرے آمنے سامنے تو کبھی مخالف سمت  مگر کبھی بھی پیج کو پھاڑنا نہیں چاہیے تاکہ سمتیں بدلنے کا کوئی چانس باقی رہے ۔

لیکن اب اگر بیج پھٹ ہی گیا ہے تو پھر میرا خیال ہے کہ نیا پیج انتہائی احتیاط سے لکھنا چاہیے تاکہ ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کے سلسلے کا خاتمہ ہو۔

تحریک انصاف کے بارے حالات کا اتنی جلدی بدلتا دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے چلتے رہے ہیں ۔

اوراتنے کم عرصہ میں محبتوں اور نفرتوں کے پیمانوں کا یوں بدل جانا مجھے تو کچھ کچھ مکافات عمل کے خدوخال ہی  لگتے ہیں

 

۔

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں