شاعری

      

    اے پی ایس والے حادثے پر لکھی گئی نظم


     اسے تیری بے حسی کہوں

    اسے تیری پستی کی انتہا کہوں

    یا ایک بار پھر اﷲ کی رضا کہوں

    انہیں مزمت میں ڈوبے ندامت کے لمحات کہوں

    سسکیوں کے ساتھ جھڑتے آنسوؤں میں لا چارگی کہوں

    کچھ سمچھ میں نہیں آتا کیا کہوں کیا نہ کہوں

    ؓطلب کہوں یا انتقام مگر کیسے کہوں

    کس کے سر الزام دوں تو کیوں دوں

    کس کو روکوں کیسے روکوں

    یہ کیوں مرے وہ کیسے بچے

    تو ایسے میں کو ن ہے زندہ

    میں تو سمجھوں مگر وہ کیسے سمجھے

    یہ مرض نفس ہے یاغلامی نفس

    کس کو دوں دوش مگر کیوں دوں

    کاش ۔۔۔۔۔۔ مگر اب کیا فائدہ

    کہوں تو بہت کچھ مگر کیسے کہوں کیوں کہوں

    اب تو بس اتنا ہی کہوں

    جاؤ کہہ دو زمانے سے

    مجھے نہیں جینا مجھے نہیں جینا

    گر یوں ہی مرنا ہے تو دیرکیوں

     سفارش کلچر کے خلاف

     

    تو نے تو بربادی میں کوئ کسر نہ چھوڑی
    اب ہم نے بھی تیری رسوائ کی ٹھان لی ہے

    ہر سو تیرے ستم کے چرچے لب عام ہونگے
    یہی میرا انتقام اوریہی میری ہرزہ سنائ ہے

    تجھکو بھی ابلیس کی اشیرباد ہو گی مگر
    لبوں پہ میرے بھی حق کی ربا عی ہے

    ہونگے تیرےچاہنے والے بھی بہت
    جان لے اصول قدرت حق کو ھی پزیرائ ہے

    شیخ نے تو کردی ہے آواز حق بلند
    اب آگے جو منشاء قدرت الہی ہے

    کچھ بھی کہنے سے ڈر لگتا ہے 

    اب توکچھ بھی کہنے سے ڈر لگتا ہے
    اپنا گھر بھی دشمن کا گھر لگتا ہے

    چاہا تو بہت نہ کھولوں لب اپنے
    پر منافقت اب یہ صبر لگتا ہے

    قاضی، ملاں، محافظ ہو یا کوئی صحافی
    ہر کسی کی باتوں میں شر لگتا یے

    جلا کر رکھ دیا ہے میرے چمن کو
    بے حسی کوتیری جو اک انداز خبر لگتا ہے

    درندوں کو بھی دے گیا ہے مات
    دیکھنے میں جو مانند بشر لگتا ہے

    شاید بدل گیا ہے قیامت کا تصور
    اب تو ہر روز یوم حشر لگتا ہے

    ماں

    دنیا ہی بدل گئی تیرے پردہ فرمانے کے بعد
    سرداریوں کا احساس ہوا بادشاہت لٹ جانے کے بعد
     
    شہر خاموشاں نے چھین لیں ساری روشنیاں
    اسی شام تیرے دفنانے کے بعد
     
    اٹوٹ انگ کی حیثیت ہی کیا ہے
    مجھے معلوم ہوا تیرے جانے کے بعد
     
    لوگ تسلیاں تو دیتے رہے مگر
    کیسے سنبھلتا سب کچھ گنوانے کے بعد
     
    کیسی مصلحتیں بے کار ہیں کوششیں سب
    پھول کب تازہ ہوتے ہیں مرجھانے کے بعد
     
    تیری قربتوں کے وہ لمحے بھلاؤں کیسے
    تڑپ اٹھتا ہوں تیری یاد آنے کے بعد

    آنسو تیری نسبت کے مقدس جان کر
    ہر بار پی لیتا ہوں بھر آنے کے بعد
     
    مولا تو تو دل کی حالتوں کو بھی سمجھتا ہے
    کیا لفظ کیا اظہار سجدہ ریز ہو جانے کے بعد
     
    نہیں اور کوئی طلب فقط اک دعا ہے
    جنت سے کم صلہ نہیں جنت لوٹانے کے بعد

    شام ڈھلنے کا کتنا خاموش نظارہ تھا


    شام ڈھلنے کا کتنا خاموش نظارہ تھا
    میں، میری تنہائ اور سماں پیارا تھا

    تھپکیاں دیتی ٹھنڈی ہواکےجھونکے
    لہروں کی ترنم اور ریت بھراکنارہ تھا

    گزرے دنوں کی یادوں میں گم سم
    کھلی آنکھوں سپنوں کاسہارا تھا

    تاریکی کی لپیٹ میں تھی شوخ لالی
    مڑ کر جو دیکھاتو سایہ بھی آوارہ تھا

    چونکا دیاپرندوں کے شوروغل نے
    چلو اٹھو کمر باندھو یہ اشارہ تھا

    تب گھر کو لوٹنے کی فکر نے آلیا
    ڈوبتے سورج کی جگہ اک ستارہ تھا

    اب وقت تھا کم اور منزل تھی دور
    فقط چاند کی چاندنی پہ گزارا تھا

    زندگی کی حقیقت

    دور سے ایک پری آئی
    آکر مجھ سے آنکھ ملائی

    اب پہلو میں ہے وہ رہتی 
    پھر بھی نہ جانے دور ہو کتنی

    اب تک نہ سمجھ پایا ہوں میں
    عجب سی ہے طبیعت اسکی

    جب کھو بیٹھا دل میں
    وہ دیس پرائے چل دی

    پھر نہ بات نہ ملاقات
    عجب تھی اس کی دل لگی


    2 تبصرے: