جناب والا مبارک ہو ، اللہ نے آپ کو اس منصب پر فائز کیا ہے ۔
خادم پاکستان کہلانا یقیناً آپکی عوامی سوچ کا عکاس ہے جو کہ انتہائی خوش آئیند ہے ۔ آپکی نیت ، سوچ اور عمل پر کوئی شک نہیں ۔ آپکی کارکردگی ماضی میں بھی عوامی امنگوں کے عین مطابق رہی ہے اور پنجاب کی ترقی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
یقیناً آپ نے اپنی قابلیت اور تجربہ کی بنیاد پر عوامی مسائل کی داد رسی کے منصوبہ کے بارے اپنی حکمت عملی مرتب کی ہوگی جس بارے میں بھی ایک شہری کی حیثیت سے چند گزارشات کرنا چاہوں گا
جس طرح کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ معاشی ہے جو بہت سارے عوامل سے جڑا ہے جن میں سے چند سیاسی استحکام ، بیرونی قرضہ اور ہماری ضروریات ہیں ۔
معاشی بحران سے نکلنے کے لئے سب سے زیادہ ضروری سیاسی استحکام ہے جو بہت بڑا چیلنج ہے اور اس کے لئے آپکو سخت فیصلے لینا ہونگے مگر سب سے پہلے تمام اتحادی جماعتوں کے سامنے ساری صورتحال رکھ کر باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ کوئی لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ۔
آپکو تحریک انصاف کے ساتھ ٹکراؤ کی سیاست کی بجائے مفاہمت کی سیاست کرنی چاہیے اور جس طرح ان کے دور حکومت کے اوائل میں ان کو میثاق معیشت کی دعوت دی تھی اسی طرز کی دوبارہ دعوت دینی چاہیے اور ریفارمز کی طرف بھی بڑھنا ہوگا جو انتہائی ناگزیر ہیں ، تو بھی تمام سیاسی جماعتوں کو اس میں حصہ دار بنانا چاہیے ۔
انتقام کی سیاست کو ختم کرنے کا آپ نے اپنی پہلی تقریر میں جیسا کہ اعلان کیا ہے انتہائی خوش آئیند ہے ، اس کو عملی طور پر رائج کرنا چاہیے اور سیاست میں تمام اختللافات قوم و ملک کے مفاد میں ہی ہونے چاہیں ۔ اپنے وزراء کو بھی ترغیب دینی چاہیے کہ وہ روائیتی سیاست کو خیر باد کہتے ہوئے مفاہمت کی نئی پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔
آئین و قانون کی پاسداری کو بلاتفریق لاگو کرنا ہوگا اور یہی واحد ملکی سالمیت اور استحکام کا راستہ ہے ۔ اصلاح کی خاطر کوششوں کے باوجود اگر کوئی ریاست کے ساتھ ٹکراؤ کی طرف بڑھتا ہے تو اس کو آئینی اور قانون کی پکڑ سے بلا تمیز و تفریق آہنی ہاتھوں لینے کے نظام کو بھی فعال بنانے کی ضرورت ہے تاکہ یہ آئین کے ساتھ کھلواڑ کے راستے کو بند کیا جاسکے ۔
اس وقت سیاسی عدم استحکام کے لئے جو رکاوٹ بنے ہوئے ہیں وہ زیادہ تر آسودہ حال فارغ لوگ ہیں جن کا مہنگائی ، بیروزگاری یا غربت مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ جنریشن زیادہ تر ٹیکنالوجی کی دنیا میں رہتی ہے جن کا وہاں ہی بندوبست کرنا ہوگا اور ان کو مثبت سرگرمیوں میں لگانے کا کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا تاکہ ان کو سیاسی فتنہ بازی سے دور رکھا جاسکے اور اگر یہ باز نہیں آتے تو ملکی وسائل کے بلبوتے پر ان کی غیر منصفانہ اور غیر متوازی نظام پرحاصل کردہ ان کی سہولیات کو ریاست کی تحویل میں لے لینا چاہیے تاکہ ان کو غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کی صحیح معنوں میں سمجھ آسکے ۔
سیاسی استحکام کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے موجود وسائل کو ایک تناسب کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے سب سے پہلے عوامی ضروریات کی طرف توجہ دینی ہوگی کہ ہم کس طرح سے اس بارے خود کفیل ہوسکیں ۔ یہ ایک دن کا معاملہ نہیں لیکن اس پر کام کرتے ہوئے زراعت کو مناسب توجہ دینی ہوگی تاکہ ہم کم از کم خوراک کے معاملہ میں ایک سال میں اس کے نتائج دیکھ سکیں ۔ اس سے اسی فیصد دیہاتی آبادی کی آمدن میں بھی اضافہ ہوگا اور معاشی توازن میں بھی مدد ملے گی ۔
زراعت اور خوراک کے شعبہ جات میں ایمنسٹی سکیم متعارف کروایں تاکہ سرمایہ کاری کا رخ پاکستان کی خود کفالت کی طرف بڑھے اور پاکستان کی شہری اور دیہی آبادی میں بھی توازن کو قائم کیا جاسکے ۔
یہ موجودہ صورتحال جس میں مالی ، اخلاقی ، سیاسی معاشرتی اور معاشی سطح پر ایک واضح صف بندی نظر آرہی ہے یہ غیر متوازی پالیسیوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ بعض شعبوں میں لوگوں کو اتنا نواز دیا جاتا ہے کہ ان کی آسودہ حالی باقی عوام کے لئے وبال جان بن جاتی ہے ۔ اس لئے اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے کے اندر مالی ، معاشی ، سیاسی ، اخلاقی اور معاشرتی توازن کو قائم کرنے میں مدد مل سکے ۔ کسی بھی شعبہ میں تفریق کو ختم کرنا پہلی ترجیح ہونی چاہیے تاکہ مساوات قائم ہوسکے اور ملکی وسائل تک غیر متوازی رسائی کو ختم کرکے معاشرے کے اندر مساوات اور بھائی جارے کی راہ میں حائل رکاوٹ کو دور کیا جاسکے ۔
پاکستان بائیس کروڑ عوام کا ملک ہے اور ہر سوچ اور مزاج کے لوگ موجود ہیں جو بہرحال ملکی آئین و قانون اور جمہوریت کی نظر میں بنیادی حقوق، اظہار رائے اور احتجاج کا حق رکھتے ہیں جس بارے ان کو آزادی بھی ہونی چاہیے مگر اس کی حدود و قیود کے بارے واضح آگہی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اور جو اس کی آڑ میں پاکستان کے عوام کے لئے درد سر ، حکومت کے ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ اور غیر جانبدار اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں اس کا سدباب ہو ۔ عوام اور اداروں کا تحفظ کی ذمہ داری بھی حکومت کے اوپر آتی ہے ۔
حکومت کو محب پاکستان اور پاکستان کے مفاد کو نقصان پہنچانے والی سوچوں اور اعمال کو بھی واضح صف بندی کے ساتھ عیاں کرنا ہوگا تاکہ قوم ان کو پہچان سکے اور اپنی رائے قائم کرسکے ۔
پچھلے ادوار میں جن طاقتوں نے پاکستان کے مفاد کو سیاسی یا مالی طور پر نقصان پہنچایا ہے ان کے بارے بھی رپورٹ شائع ہونی چاہیے جو حقائق پر مبنی ہو اور ایسی طاقتوں کی کوششوں کا پالیسی کی سطح پر مقابلہ کرنا ہوگا جس سے عملی طور پر ان کو یہ باور کروایا جاسکے کہ پاکستان باشعور اور محب وطن محفوظ ہاتھوں میں ہے ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں