سیاسی اداکاریاں اور جمہوری شعبدہ بازیاں

پاکستان کی سیاست ایک ڈرامہ (کھیل) اور سیاستدانوں کا کردار اداکاری بن کر رہ گیا ہے ۔ ان کے کردار کا حقائق یا حقیقی زندگی سے دور دور کا تعلق بھی نظر نہیں آتا جس کا اندازہ ان کے عمل اور قول سے لگایا جاسکتا ہے ۔ اداکاری میں بہتر کون ہے اس کا صحیح فیصلہ تو ناظرین ہی کرسکتے ہیں لیکن میں ایک ہلکا سا تجزیہ پیش کرنے کی کوشش کرونگا۔

اس کھیل کے پروڈیوسر کا اندازہ لگانے کے لئے دیکھنا پڑے گا کہ ان کی اس اداکاری کی ہدایات کہاں سے آتی ہیں اور ان کے اخراجات کون برداشت کررہا ہے ۔ اپنے آپ کو عوامی جماعتیں کہلانے والوں سے یہ تو پوچھا جاسکتا ہے کہ عوام جو دو وقت کی روٹی کھانے پر مجبور ہے وہ ان کی سیاسی جماعتوں کے شاہانہ اخراجات چندے کے زریعے سے کیسے چلا سکتی ہے ۔ ان کے سیاسی جلسے جلوسوں اور انتخابات پر اٹھنے والے اخراجات سے اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے کہ جب عوام غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں ۔ عالمی سطح پر معاشی حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں تو ان کے اثاثے کیسے ڈرامائی طور پر بڑھتے جارہے ہیں ۔ کل ہی عمران خان کے ایک دوست محسن بیگ نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے کرائے کے گھر ای سیون کا کرایہ نو سال امریکی ایمبیسی ادا کرتی رہے ہے تو اس پر عمراں خان کی طرف سے ابھی تک کوئی تردید یا تصدیق نہیں آئی ۔

پہلے چیزوں کے ریٹ بڑھتے تھے تو تمام سیاسی جماعتیں مہنگائی کو ملک و قوم سے دشمنی گردانتے تھے تو اب کیا ان کی نظروں میں منگائی جائز ہوگئی ہے۔ کسی صحافی نے مولانا فضل الرحمن سے سوال کیا کہ اب آپ کو مہنگائی نظرنہیں آتی تو ان کا جواب تھا کہ وہ اب بھی آواز اٹھا رہے ہیں ۔ تو سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ان کی ذمہ داری محض آوازیں بلند کرنا ہی رہ گئی ہے ۔ حکومتوں میں بیٹھ کر آوازیں نہیں اٹھائی جاتیں بلکہ عمل کے زریعے سے ریلیف دیا جاتا ہے ۔ سبسڈیز بھی ختم ہوگئیں اور حکومت اخراجات بھی کم کرنے کے دعوے کررہی ہے اور پھر بھی افراط زر ہے کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی ۔ اگر اس معاشی تباہی میں پچھلے چار سال کے اثرات ہیں تو پھر پچھلے اکتہر سالوں کے اثرات کا بھی تو عمل دخل ہوگا ۔ جس کا ہر حکمران سے سوال اورکارکردگی بارے پوچھ گچھ ہونی چاہیے ۔

عوام تو سب کچھ منافع ادا کرکے خرید رہے ہیں تو پھر یہ اخراجات آخر کہاں پورے نہیں ہورہے اور ان اخرجات کو اعتدال پر لانے کے لئے حکومت نے کیا حکمت عملی طے کی ہے ۔ ابھی تک کابینہ میں اس پر کوئی جامع حکمت عملی کا تو سنا اور دیکھا نہیں سوائے گریڈ انیس اور اوپر والوں کے ڈیڑھ سو فیصد الاؤنس دینے کے ۔

سب نے باریاں لے لی ہیں ۔ سب کے کھاتوں میں آئینی خلاف ورزیوں ، بدعنوانی کی داستانوں اور ڈرامائی کرداروں کا اچھا خاصہ وزن ہے ۔ کوئی بھی اب یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس کو آزمایا نہیں گیا ۔ کسی نے ووٹ کے نام پر، کسی نے بدعنوانی کے نام پر تو کسی نے مذہب کے نام پر عوام کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک و قوم کی تقدیر سے کھیلا ۔ لیکن تعجب کی بات تو یہ ہے کہ یہ سلسلہ ابھی بھی رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ ذاتی مفادات ہی سب کو عزیز ہیں اور جمہوری شعبدہ بازیاں بھی اس مقصد کے لئے کی جاتی ہیں ۔

حکومت کی کامیاب خارجہ پالیسی کا اندازہ اس بات سے لگا لئجئے کہ کل کے تمام اخبارات میں خبر لگی ہوئی تھی کہ فوج کے سربراہ نے آئی ایم ایف سے قرضوں کے لئے دباؤ بڑھانے کے لئے بات کی ہے ۔ تو اندازہ لگا لیجئے ان کی جمہوری روایات ، معاشی انحصارات اور بین الاقوامی تعلقات کی صورتحال کا ۔ غلام قوموں کی کون سی خارجہ پالیسیاں ہوتی ہیں جب آمدن اور اخراجات عدم توازن کا شکار ہوں اور ان میں بہتری سمجھ اور اختیار سے باہر ہو تو پھر معیشت کا انحصار قرضوں پر ہی ہوا کرتا ہے ۔

سیاستدان اب بھی دھوکہ دہیی کا کردار اپنائے ہوئے ہیں اور عوام اب بھی دھوکہ کھا رہے ہیں ۔ قومی وسائل کے نگران اب بھی سیاست میں عمل دخل سے باز نہیں آرہے ۔ عوام ابھی بھی اس قابل نہیں ہوئے کہ ان دھوکے بازوں کو پہچانیں اور اپنی صفوں میں سے کوئی حقیقی جمہوری قیادت سامنے لا سکیں اور ان بہروپیوں سے جان چھڑوا سکیں ۔

جس طرح اداکاری کا تعلق معاشرے کی عکاسی تو ہوتی ہے مگر زیادہ تر اس کا انحصار پروڈیوسر، ہدائتکار اور لکھاری کے تخیلات سے ہوتا ہے اسی طرح ہمارے اس سیاسی کھیل کا تعلق بھی عوامی مسائل سے کم ہی ہے زیادہ اس پر سرمایہ کاری کرنے والوں اور اداکاروں کے مالی مفادات اور نظریاتی مقاصد ہیں جن میں عوام کو محض اس کھیل سے تفریح میسر آرہی ہے جو کچھ سوشل میڈیا کی لغوبازی سے اور کچھ سیاسی جلسے جلوسوں کی صورت ہے ۔

مگر عوام کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس تفریح کے مہیا کرنے تک ابتدائی اخراجات تو پروڈیوسر اٹھاتا ہے مگر ان کا مقصد تو کاروبار ہوتا ہے اور بالآخر یہ سارے تخمینے عوام سے ہی پورے کئے جاتے ہیں جو اس تفریح سے محظوظ ہورہے ہوتے ہیں ۔ آج عوام اس سیاسی کھیل کی ساری قیمت  کچھ ٹیکسز کی مد میں تو کچھ مہنگائی کی صورت میں چکا رہے ہیں ۔

تو عوام اس سیاسی کھیل کو تفریح نہ سمجھیں بلکہ جتنی جلدی ہوسکے اس کھیل کے کرداروں کی اصلیت کو پہچانیں اور اپنی تقدیر کے فیصلے حقیقی قیادت کو ڈھونڈھ کر ان کے ذمے کریں ۔

اگر ان کی پہچان کرنی ہے تو سب سے پہلے تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ان سیاسی کرداروں کے قول و فعل میں کتنا ربط ہے ۔ کیا یہ جو کہتےہیں اس پر ان کا عمل بھی ہے ؟ دوسرا یہ دیکھنا ہوگا کہ ان سیاسی لیڈروں کا اپنا کردار کیسا ہے؟ تیسرا یہ دیکھنا ہوگا یہ کیا یہ سیاست اصولوں پر مبنی کررہے ہیں ؟ چوتھا دیکھنا ہوگا کہ ان کی سیاست کا مقصد کیا ہے ؟

اب تو ڈراموں میں کام کرنے والوں کے بھی ذاتی کردار کو دیکھا جاتا ہے اس پر تنقید کی جاتی ہے اور اس کا ان کی پروفیشنل زندگیوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں تو کیا ہماری سیاست ہی اتنی رہی سہی  ہے کہ اس میں کسی کا ذاتی کردار کوئی اہمیت نہیں رکھتا ۔ پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ جس بات کا دعویٰ کررہا ہے اس کی عمل میں بھی کوئی جھلک ہے اور پھر اس کا مقصد ذاتی مفادات ہے یا عوامی فلاح ۔

تھیٹر کے بھی کوئی اصول ہوتے ہیں تاکہ عوام میں ساکھ متاثر نہ ہو ایک یہ ریاست ہی رہ گئی ہے جو تمام اصولوں سے ماورا چل رہی ہے جس کو عالمی برادری میں ساکھ کی کوئی فکر نہیں ۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں