مذاکرات سے"قومی مفاہمتی معاہدے" کی صورت پائیدار مستقبل کا حل ڈھونڈنا ہوگا

  

مذاکرات میں تیسرے مرحلے کے اندرپی ٹی آئی کی طرف سے تحریری مطالبات بھی دئیے جا چکے ہیں لیکن اب  پھر سے خدشات شر اٹھانے لگے ہیں اور عمران خان نے مذاکرات کو ختم کرنے کی دھمکی بھی دی ہے  جو تشویشناک عمل ہے۔ مذاکر اب رکنے نہیں چاہیں بلکہ سنجیدگی سے کسی بہتری کے حل کو تلاش کرنا ہوگا۔

 جمہوری نظام میں بہتری کی گنجائش ہر مرحلے پر موجود ہوتی ہے ۔ اس میں عوامی نمائندوں کے چناؤ کے مراحل میں مکالمہ کے زریعے اور بعد میں پارلیمان کے اندر ڈسپلن، نگرانی اور جوابدہی کے عمل سےحکومتی امور کو چلانے کے لئے وسیع ترعوامی مفاد میں ہر طرح کے زرائع کو استعمال کرتے ہوئے مناسب فیصلوں کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاسکتی ہے۔ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب جمہوریت کے اندر تسلسل ہو۔

اب پارلیمان میں ایسا ماحول پیدا کرنا پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داریوں میں آتا ہے تاکہ  قومی سطح پر نہ صرف امن، خوشحال اور ترقی کی پائیداری کو یقینی بنایا جاسکے۔ جس کے لئے انکو ذاتی اختلافات، خواہشات سے بالا تر ہو کر سوچنا چاہیے۔ اور اس کے لئے مستقبل کو در پیش خطرات اور ان کےحل کی بھی ان کو فکر ہونی چاہیے۔  جو ہمارے ہاں قطعاً بھی نہیں کی جاتی اسی لئے ملک ایک قدم آگے جاتا ہے تو دو قدم پیچھے چلا جاتا ہے۔

اب حکومت نے اپوزیشن کی تمام تر کوششوں اور حربوں کے باوجود معیشت کو سنبھال لیا ہے لیکن اگر اس کو سیاسی طور پر امن کا ماحول میسر ہوتا تو یہ اس سے بھی زیادہ بہتر ہوتی۔ اسی طرح 2013 میں بھی معیشت کو بہتر بنا لیا گیا تھا مگر 2018 کی سیاسی انجئنیرنگ نے ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔ اس لئے اب بھی مستقبل میں ایسے خطرات سے محفوظ رہنے کی سوچ کے پیش نظر اصلاحاتی اقدامات کی ضرورت ہے جن کو کامیاب بنانے کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق ہونا چاہیے جس کے لئےمذاکرات انتہائی ضروری تھےجن کا آغازہو چکا ہے اور اب کوشش کر کے ان میں تمام سیاسی جماعتوں کو شامل کر لینا چاہیے تاکہ جمہوریت سے مستفید ہو کر قومی صلاحیتوں کو ملک کی فلاح اور امن کے لئے استعمال کرنے کا ماحول بنایا جا سکےجس کے لئے محاذ آرائی کی سیاست کو مفاہمتی سیاست میں بدلنے کی ضرورت ہے۔

اب اقتدار کی جنگ کو ملکی فلاح کی لئے خیر باد کہنا ہوگا۔ جب سب کا دعویٰ جمہوریت کی مضبوطی اور ملک و قوم کی فلاح ہے تو پھر اس پر اکٹھے کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی حب الوطنی کا دعویٰ  رکھتی ہے اور اگر انکاملک کو درپیش خطرات کے پیش نظر مجبوری کے تحت ایسے اقدامات اُٹھانے کا دعوی سچ ہے تو ایسے میں ان کو بھی جمہوریت کی مضبوطی اور سیاسی نظام کی کڑی نگرانی کے لئے اصلاحات کا ساتھ دے کر ایسی مجبوریوں کی ممکنات کو ختم کرنے کے لئے اپنی تجاویز دینی چاہیے۔ ادارے ریاست کے دست وبازو ہوتے ہیں اس لئے ریاست کے اندر عوام کی نمائندہ حکومت  یا سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیاں محاذ آرائی کی سوچ اور ماحول کسی بھی صورت ملک و قوم کے لئےمناسب نہیں ہوتے۔ لہذا اگر سب کے دعووں کا مطمہ نظر ایک ہی ہے تو پھر اس کے حصول کی خاطر مفاہمت کی کوشش میں رکاوٹ کیوں ہے؟

اس کو مذاکرات کی میز پر ہی جانچا اور اس کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت مفاہمت کے لئے ایک سازگار ماحول ہے۔ متحرک اپوزیشن پی ٹی آئی بھی حکومت کو مجبور کر کے اپنے مطالبات منوانے کے تمام تر حربے استعمال کر چکی ہے اور حکومت اس کے باوجود اپنے معاشی بہتری اور ترقی کے اہداف کی طرف بڑی کامیابی سے بڑھ رہی ہے جس کا بانی پی ٹی آئی نے بھی اعتراف کیا ہے۔

مقبولیت ان کا سیاسی اثاثہ ہے جس کو محفوظ کرنے کا ان کو حق پہنچتا ہے مگر انہیں قومی سوچ کے تحت یہ بھی سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ  محاذآرائی کی سیاست میں وہ اپنے فالوورز کی صلاحیتوں کو ضائع کر رہے ہیں ۔ کتنے پڑھے لکھے نوجوان 9 مئی کے بعد سے جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں  اور ابھی 26 دسمبر کو بھی بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور اگر یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا رہا توحالات ناقابل تلافی نقصان کی طرف بھی جا سکتے ہیں ۔مقبولیت کا حصول بھی آسان کام نہیں مگر اس کو قائم رکھنا اس سے بھی مشکل مشق ہے۔ اور اگر سمجھا جائے تو یہ مقبولیت قومی اثاثہ  ہوتا ہے اور اس کااستعمال بھی ذاتی یا جماعتی مفادات کی بجائے امانت سمجھتے ہوئے قومی و ملکی مفادات کے لئے ہونا چاہیے  اور عوام کا اگر ان پر اعتماد ہے تو ان کی صحیح راہنمائی کرتے ہوئے ایسا شعور دینا ہوگا جوملک کو اچھی قیادت دینے کے قابل ہو اور اس اثاثے کو ضائع ہونےسے بچانے میں سب سے بڑی ذمہ داری ان کی ہے۔ ذولفقار علی بھٹو کوبھی مقبولیت ضرور ملی قوم نے ان سے بے پناہ محبت کا والہانہ اظہار کیا مگر وہ بھی اس قوم کو وہ شعور نہ دے سکےجو قوموں کی تقدیریں بدلتا ہےوگرنہ اس ملک میں قومی سطح پر اگر شعور کسی نے دیا ہوتا تو  آج یہاں  یوں قیادت کا فقدان نہ ہوتا۔

اب حکومت نے جب ان کے تمام تر مشکلات کھڑی کرنے کے حربوں کے باوجود معیشت کو سنبھال لیا ہے تو عنقریت ملک کے سیاسی حالات اپنی کروٹ بدل بھی سکتے ہیں ۔ اب ہمدردیوں کے جذبات سرد اور ترقی کی خواہشوں پر دائیں بائیں سے پڑنے والی جھلکوں کے تاثرات حاوی ہونے والے ہیں ۔

بانی پی ٹی آئی کی اس مقبولیت کو جب بھی دھچکا لگے گا وہ خیبرپختونخواہ سے ہوگاکیونکہ وہاں کے عوام نے ان کو پچھلے بارہ سالوں سے حکومت دی ہوئی ہے اور وہاں کے عوام  کا بھی حق ہے کہ باقی ملک کی طرح ان کو بھی آسائشیں اور سہولتیں میسر ہوں ۔ وہاں اس کے اثرات میں دیر اس لئے لگی کہ وہاں کے عوام محنتی ہیں اور تجارت میں وہ دوسرے صوبوں کے عوام سے آگے ہیں  وگرنہ کے پی کے میں وہ ترقی نہیں ہو پائی جو پنجاب میں مسلم لیگ نون کے حکومتی ادوار میں ہوئی اور ابھی بھی پنجاب دوسرے صوبوں سے کافی آگے ہے جس کا اثر یقیناً دوسرے صوبوں کے عوام کی سوچوں پر بھی پڑے گا۔

جس کا آغاز اب کے پی کے میں حکومت کے خلاف تحفظات اور احتجاج کی صورت انگڑائیاں لیتا ہوا محسوس  بھی کیا جا سکتا ہے جس پر آنکھیں بند کرنے سے وہی انجام ہوگا جو 2022 میں عوامی بڑھتی ہوئی مشکلات کے دباؤ پر پی ٹی آئی کے ممبران پارلیمان کی مسلم لیگ نون میں جانے کی دوڑ کا سماں تھا۔ 

اور اب اس مقبولیت کو حکومت کی طرف سے ان کے لئے کھڑی کی جانے والی مشکلات اور محاذ آرائی  کی ہمدردیوں کے سہارے زیادہ دیر قائم نہیں رکھا جا سکے گا۔ وہ مقبولیت سے متوقع فائدے حاصل کرنے میں کامیاب اس لئے نہیں ہو پا رہے کہ یہ مقبولیت خالصتاًشعوری نہیں بلکہ ہمدردانہ ہے بلکل ویسے ہی جس طرح 2008 میں پیپلز پارٹی کو بے نظیر کی شہادت پر ہمدردیوں کے عوض حکومت ملی مگر وہ اس مقبولیت کو سنبھال نہ پائے۔ اسی طرح کاتجربہ ان کو بھی 2018 سے 2022 تک ہو چکا ہے گو اس کے حقائق کچھ مختلف تھے مگر جاتی ہوئی مقبولیت کا نظارہ وہ کرچکے ہیں جو بعد میں دوبارہ ان کو  2022 میں حکومت جانے سے ہمدردیوں کی صورت ملی

اُس وقت تو حکومت کی تبدیلی سے پی ٹی آئی کو سیاسی نقصان کی بجائے فائدہ ملا لیکن اب ایسا ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اب ان کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو وہ کے پی کے میں کارکردگی کو دکھا کر اگلے انتخابات کی تیاری شروع کریں یا پھر  مرکز کے ساتھ محاذ آرائی سے ایمرجنسی لگوا کر کارکردگی کی بجائے پھر سے عوام کی مظلومیت کی بنیاد پر ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کریں جو ان کی مروجہ سیاسی حکمت عملی ہے لیکن یہ ان کی ایک اور بہت بڑی سیاسی غلطی ہوگی جو انکے لئے ماضی کی نسبت زیادہ مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔

حکومت نے اپنے ترقی کے اہداف کی طرف سفر کو شروع کر لیا ہے اور جیسے ہی وہ اپنے لئے عوامی تاثرات کے ماحول کو سازگار پائیں گے تو وہ ان کی اسیری جیسی مشکلات میں نرمی اور سہولت کا تاثر پیدا کرکے ان کی اس ہمدردی والے بیانیوں کو کمزور بنا دیں گے۔ اور پھر جیت اور ہار کی بنیاد اگلے انتخابات بن چکے ہونگے جن کی تیاری کرنی ہوگی۔ لہذا ان کو بھی اپنی مقبولیت کو بحال رکھنے کے لئے مفاہمتی سوچوں کی راہ ہموار کرنے اور اس پر دوسری جماعتوں کو ممنون ہونے کا رویہ اپناتے ہوئے مذاکرات کے لئے صاف دل کے ساتھ ہاتھ بڑھانے میں پہل کرنی چاہیے۔

 اور باقی سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو  بھی اجتماعی سطح پراس  سوچ اور مقبولیت کو مثبت سمت میں استعمال کرنے کی راہ نکالنے میں اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ انکی سیاسی بصیرت کا یہ امتحان ہے کہ وہ ملک و قوم کی بہتری کے لئے کس قدر اپنی خواہشات اور ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر قربان کرتے ہوئے مفاہمتی عمل کو کامیاب کرواتے ہیں۔

مذاکرات کو کامیاب بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ متنازع مینڈیٹ ہے کہ اس میں ردوبدل کیا گیا ہے جس کو حل کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ ایک "قومی معاہدہ مفاہمت" ترتیب دیا جائے جس کے تحت اگلے پانچ سالوں کے لئے تمام اختلافات کو بھلا کر تمام بڑی جماعتوں کو ملکی فلاح، امن اور سیاسی استحکام کے لئے ایک ہونا پڑے گا اقتدار کے تنازعے کا خاتمہ کوئی مشکل کام نہیں جب پوری قوم ایک ہو جائے اور ملک و قوم کی فلاح کی خاطر اپنے اختلافات کو بھلا کر مفاہمت کی پالیسی پر چلنے کی ٹھان لے تویہ عہدے اور وزارتیں علامتی سی بن کر رہ جاتی ہیں۔ساری جماعتیں اپنی اپنی نمائندگی کے تناسب سے وزیر اعظم کا عہدہ بھی سالوں کے دورانیے کے حساب سے لے سکتے ہیں اور وزارتیں بھی اسی نسبت سے لی جا سکتی ہیں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جب پوری قوم اور سیاسی جماعتیں کسی ایسے میثاق مفاہمت پر متحد ہوجائیں تو یہ عہدے صرف ذمہ داریاں بن کر رہ جاتے ہیں اور ان کی اہمیت صرف خدمت کے جذبےسےجڑ کر رہ جاتی ہے اور ان کی خواہش بھی معدوم ہو جاتی ہے۔

حکومت اور اسٹیبلشمنٹ  سے بھی گزارش ہےکہ وہ بھی یہ نہ سمجھیں کہ انہوں نے تمام رکاوٹوں کا سامنا کرتے ہوئے حالات پر قابو پا لیا ہے تو ان کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں اور عمران خان کی مقبولیت کو اپنے حریف کی نہیں بلکہ قومی اثاثہ سمجھتے ہوئے اس کو شعور دے کر قومی افرادی قوت کی صلاحیتوں اور اہلیتوں کو ملکی سلامتی اور خوشحالی میں استعمال ہونے کے ماحول کو پیدا کرنے کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ اپنی سوچ کو اقتدار کی طمع سے آزاد کر کےاسے وسیع تر قومی مفاد سے ہم آہنگ بنائیں۔ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی  سے اگر اختلاف بھی ہو تو بھی ان کی مقبولیت کے پیچھے عوامی مینڈیٹ کا احترام تو ان کا آئینی، شہری اور قانونی حق ہے۔ اگر وہ اپنی سیاسی  ساکھ کی قربانیاں دے کر ملک کو بچانے کے دعوے کا عملی ثبوت دینا چاہتے ہیں تو  پی ٹی آئی کے ساتھ جاری مذاکرات کو "قومی میثاق مفاہمت" پر ایک ہوجانے سے مشروط کر دیں اور عالمی سطح پر ایک "سافٹ انقلاب" کی نئی مثال قائم کرنے میں اپنے حصےکا کردار ادا کریں ۔ ملک کے مستقل کو سیاسی انتہاءپسندی سے بچانے کا اس سے بہتر اور کوئی حل نہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

دیکھے جانے کی تعداد

انسان اور انسان کی تخلیق ایک دوسرے کے مد مقابل

انسان اور انسان کی تخلیق ایک دوسرے کے مد مقابل
آج انسان اپنے ہی شاہکار سے خوف زدہ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ آپ بھی اس بارے سوچیں اور اپنے خیالات سے نیچے دئے گئے فارم کی مدد سے مستفید فرمائیں (قارئین کے لئے اسائنمنٹ)