نظام
کی خرابی کے محض تذکرے کرنے سے کچھ نہیں
ہوتا اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اسےفعال کرنا پڑتا ہے۔ نظام بذات خود کچھ نہیں کر
سکتا اس کی بہتری کے لئے کوئی نگرانی کا عمل ضروری ہوتا ہے تاکہ نظام کو چلانے
والوں کے اندر جوابدہی کے احساس کو اجاگر کر کے انکو ذمہ دار بنایا جاسکے۔ اور جو
بات دلچسپ، قابل غور اور خوش فہم ہے وہ یہ کہ اس کے لئے کہیں بھی اضافی اخراجات
اٹھانے کی ضرورت نہیں بلکہ تمام تر وسائل پہلے سے موجود ہیں اور ضرورت صرف قائدانہ
صلاحیت سے ان کو استعمال کرنے کی ہے۔
سب
سے زیادہ ضروری انتظامی امور کی نگرانی ہے تاکہ بادشاہت کے تاثر کو ختم کر کے دوستانہ
ماحول پیدا کیا جا سکے جب عوام کو سہولیات میسر ہونگی تو انکے اندر ریاست، اس کے
اداروں اور املاک کے ساتھ اپنائیت کااحساس پیدا ہو گا۔ اس کا انفارمیشن ٹیکنالوجی
کے دور میں آسان حل یہ ہے کہ حکومت ڈیجیٹل پورٹل بنائےجس پراعلیٰ سطح سے لے کر
نچلی سطح تک تمام انتظامی دفاترکی نگرانی
کا لائحہ عمل لاگوہو جس کے اندر کیمرے نصب کر کے براہ راست نشر کرنے کا انتظام کیا
جائے۔اوراس کا آغاز وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور قومی و صوبائی وزراء
اپنی ذات سے کریں تاکہ بیوروکریسی کو ایک اچھی مثال ملے۔
صوبوں
کے اندر اضلاع کی سطح پر ڈپٹی کمشنر اور ضلعی پولیس افسران کے دفاتر پر خاص توجہ
دینے کی ضرورت ہے وہاں اگر بہتری آ گئی تو سمجھیں نوے فیصد مسئلہ حل ہوگیا۔ انہیں
ہدایات جاری کی جائیں کہ کسی بھی دفتر کے باہر سائل کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں
ہونی چاہیے۔ میٹنگز کے لئے علیحدہ کمرے مختص کئے جائیں اور دفتری اوقات میں اگر
میٹنگز ضروری ہوں تو عوامی خدمت پر متبادل افسران کی ڈیوٹی لگائی جائے تاکہ عوامی
خدمت میں کوئی تعطل نہ ہو۔ ضلعی سطح کے محکموں کے سربراہان کی نگرانی کے لئے بنیادی سطح تھانے اور پٹواری کے دفتر تک پورا
نظام ہونا چاہیے جس کو پورٹل کے اندر سیکشن بنا کر ترتیب دیا جائے تاکہ کہیں سے بھی کسی بھی وقت کسی کو بھی دیکھنے میں دشواری نہ ہو۔
عوامی
خدمت کی نگرانی کے اس بندوبست کی ضلعی سطح کی نگرانی کے لئے ڈویژن اور پھر صوبائی
سطح پر نظام موجود ہو اور وزراء، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے دفاتر میں سیکرٹریز
اور ضلعی سطح کے کیمروں کی نگرانی کا عمل ہو رہا ہو تاکہ نظام کو فعال اور فائدہ
مند بنانے میں کوئی کسر نہ رہے۔
آبادی کے لحاظ سے پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے اس کے
42 اضلاع ہیں اور 42ڈپٹی کمشنرز پر اس صوبے کے چیف منسٹر کے لئے براہ راست بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ اسی طرح باقی
صوبوں میں بھی خیبر پختونخوا کے 38، بلوچستان 36، سندھ 30، گلگت بلتستان 14، کشمیر
10 اور اسلام آباد کا 1 ضلع ہے جو مجموعی طور پر 171 اضلاع بنتے ہیں۔ کیا اس ملک
میں 171 ایماندار، اہل اور قابل لوگ بھی موجود نہیں یا اتنے سے لوگوں کو بھی
کنٹرول نہیں کیا جا سکتا؟ کچھ بھی ناممکن نہیں، بس ضرورت ہے اخلاص اور نیت کی۔
میٹنگز
بھی آن لائن ہونی چاہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں یہ کوئی مشکل کام نہیں
بلکہ آج کل ملک کے تمام دفاتر میں انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کی تمام سہولیات میسر ہیں۔
مرکزی سطح پر تو وزیراعظم پہلے ہی دفتری کام کو سافٹ وئیر پر منتقل کرنے کی ہدایات
جاری کر چکے ہیں تاکہ سٹیشنری کے اخراجات کم کئے جا سکیں۔
اسی
سلسلے کو اگر پورے ملک میں بھی لاگو کر دیا جائے تو اس سے نہ صرف اخرجات کم ہونگے
بلکہ وقت اور انسانی وسائل کا بہتر ین استعمال بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے
افسران کے دور دراز علاقوں میں چھاپوں کے زریعے سے نگرانی کے بابے آدم کے وقت سے
لاگو عمل کی ضرورت بھی ختم ہو جائے گی جو اس ٹیکنالوجی کے دور میں ایک بے معنی ہونے
کے علاوہ ملک و قوم کے ساتھ مزاق بنا ہوا ہے بلکہ یہ افسران کے ٹی اے، ڈی اے اور
ٹرانسپورٹ کے اخراجات کی صورت خواہ مخواہ کا قومی خزانے پر ایک اضافی بوجھ ہے۔
اس
نظام کو فعال بنانے میں مدد کے لئے ہر سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ماہر مددگار
مہیا کیا جائے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ انتظام فعال ہے اور جیسے ہی اس میں
کہیں سستی یا کوتاہی دیکھی جائے تو اس کی فوراً تحقیقات کو عمل میں لایا جائے اوراس
کے علاوہ آن لائن بھی یہ سہولت مہیا ہونی چاہیے تاکہ عوام کو اگر کہیں پر مشکل پیش
آتی ہے تو فوراً اس کی بحالی کے لئے شکائت درج کروا سکیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی
کے گھر کی بجلی یا گیس بند ہو تو وہ فوراً شکائت کرتا ہے اور عملہ بحالی کے لئے
پہنچ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ ان سہولتوں سے بھی زیادہ ضروری ہے مگر ضرورت اس کی
حساسیت کو عام کرنے کی ہے۔ جیسے بجلی اور گیس کی اہمیت اور ملکیت کا عوام کے اندر
احساس موجود ہے اسی طرز پر خدمت کی ملکیت اور اہمیت کا بھی اجاگر کرنا ہوگا جس کے
لئے سوسائٹی کی سطح پر کام کرنے والی رفاعی تنظیموں کی تجاویز اور فیڈ بیک کے حصول
کے نظام کو بھی اس اس کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
جب
عوامی سطح پر ریاست اور اس کے معاملات میں
دلچسپی پیدا ہوگی تو ان کے اندر ریاست اور اس کی املاک کی ملکیت اور اہمیت کا احساس اجاگر ہو کر ترقی و خوشحالی اور امن کی سرگرمیوں میں فعال
کردار ادا کرنے کا عملی شوق پیدا ہوگا۔ اس رجحان کو عام کرنے کے لئے سوسائٹی کی
سطح پر رضاکارانہ کام کرنے والی تنظیموں کو بھی اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ ملک کے اندر پہلے سے ان
سماجی تنظیموں کا باقائدہ نظام موجود ہے جس کو صرف فعال بنانے کی ضرورت ہے جو اس
نگرانی کے عمل سے خود بخود ہی ہو جائے گا اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے ان
تنظیموں کو ضروت کی مناسبت سے تربیت کر کے مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے
علاوہ بد عنوانی کو روکنے ، ترقیاتی کاموں
کی نگرانی اورانتظامی امور کے مشوروں تک
میں ان تربیت یافتہ قومی افرادی قوت کی صلاحیتوں کو استعمال کر کے ترقی اور خدمت
کے کام کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اس نظام کو حکومتی اور سیاسی تحقیقات کے عمل کے ساتھ بھی مربوط کیا جائے تاکہ اس ڈیٹا کی بنیاد پر حاصل معلومات سے مسائل کے خاتمے کے لئے قانون سازی اور اصلاحات کے عمل میں مدد حاصل کی جا سکے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں