پولیس کی حراست میں تشدد

آجکل شہباز گل پر پولیس کی حراست میں تشدد کا الزام تحریک انصاف  اور ان کے وکلاء کی طرف سے سامنے آرہا ہے جو کہ انتہائی قابل مذمت ہے ۔ اس پر جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے   لیکن دیکھنا یہ ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں  اور پاکستان میں گھریلو تشدد سے لے کر دفاتر اور حتیٰ کہ پولیس جس کی ذمہ داری  عوام کی جان مال کی عزت و آبرو کی حفاظت ہے  تک   ملتا ہے ۔  پولیس  کی حراست اور نگہداشت میں اس طرح کےجرم  کا  واقع ہونا جرم تو ہے ہی بلکہ عالمی سطح پر قابل شرم فعل بھی ہے ۔

سیاسی طور پر یہ ہر حکومتی دور میں کم و بیش ہوتا آرہا ہے ۔ سیاسی انتقام کی یہاں ایک لمبی داستان ہے ۔ موجودہ وزیراعظم سے لے کر وزیر داخلہ تک اس کا نشانہ رہے ہیں ۔ تواگر ان کو اب بھی اس کی سنگینی کا احساس نہیں تو پھر کیا کہا جاسکتا ہے ۔

تشدد صرف جسمانی ہی نہیں ہوتا بلکہ ذہنی تشدد بھی جرم کی تعریف میں آتا ہے ۔ یہ   انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس کے تدارک کا عالمی سطح پر قانون موجود ہے جس کا پاکستان بارہ سال سے سگنیٹری ہے اور ابھی پچھلے سال اس پر پاکستان میں قانونی بل بھی پاس ہوا ہے ۔ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل چودہ  ضمنی جز دو  کسی بھی شہادت کے حصول کے لئے تشدد کی واضح طور پر ممانعت کرتا ہے ۔ 

اگر تشدد کے شواہد ملیں تو کیس کو سیشن جج کی طرف بھیجا جائے گا اور وہ پندرہ دن کے اندر اس کی انکوائری کو یقینی بنائیں گے ۔ پھر روزانہ کی بنیاد پر کاروائی کرکے دو ماہ کے اندر اس کیس کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہوگا ۔ ہر طرح  کےتشدد کی سزا تین سال سے لے کر دس سال تک ہوسکتی ہے  ۔ پولیس کی حراست میں تشدد ثابت ہوجانے سے بیس لاکھ جرمانہ اور دس سال تک سزا ہوسکتی ہے اورپولیس کی  حراست میں تشدد سے موت واقع ہونے پر تیس لاکھ جرمانہ اور عمر قید کی سزا  ہوسکتی ہے ۔ یہ تھا پاکستان کا قانون ۔

پاکستان میں قوانیں کی کوئی کمی نہیں مگر اس پر عمل درآمد کے معاملے میں ہم سے بڑا کوئی لاپرواہ بھی نہیں ۔ قانون صرف کتابوں کی زینت کی حد تک ہماری لائبریریوں کو سجائے ہوئے ہیں ۔ ہم قوانیں بنانے کے بہت  ماہر ہیں ۔  عملدرآمد کروانے کی بجائے قانون کی خلاف ورزی پر ایک اور قانون بنا دیتے ہیں اور پھر اس  کی خلاف وزری پر ایک اور ۔ یوں یہ سلسلہ چلتے چلتے پاکستان میں ایسے قانون بھی بن چکے ہیں جن کاکوئی سر پیر ہی نہیں ۔ جن کا جواز انسانی  تاریخ اور شعور بھی پانے سے قاصر ہیں۔ نیب کا قانون ہی دیکھ لیجئے ، شک کی بنیاد پر کسی کو بھی  بغیر شوائد کے پکڑ کر اندر کر دیجئے اور  یہ ملزم کی ذمہ داری ہے  کہ وہ   ثابت کرے مجرم ہے یا نہیں  جس کی پاداش میں سیاسی انتقام کی حوس زندہ وہ جاوید ہے ۔

پولیس کی حراست میں تشدد  تو  یہاں معمول کی بات ہے ۔ یہاں جس کو اپنے خلاف درخواست کی اطلاع ہوجائے اس کے لئے تشدد کا آغاز اسی لمحے سے شروع ہوجاتا ہے جس کی بنیاد ہماری پولیس کا رویہ اور برتاؤ ہے جس کے بارے اپنی ایک آپ بیتی آپ کے ساتھ شئیر کرتا ہوں ۔

میں قانون کی تعلیم کے آخری سال میں تھا تو میرے چھوٹے کزنز کے ایک محلے کے دوست کے چھوٹے بھائی  کی ایک دکاندار سے منہ ماری  ہوئی  معاملہ ہاتھہ پائی   تک پہنچ گیا اور اس نے کوئی شے اٹھا کر اس کے سر پر دے ماری جس  پر اس نے اس کے خلاف درخواست دے دی اور میرے  ایک کزن کا بھی اس درخواست میں نام دے دیا گیا ۔ جو موقعے پر موجود ہی نہیں تھا ۔ ہم یہاں تعلیم کی غرض سے اکیلے رہتے تھے اور کھانے کے لئے ایک خانسامہ رکھا  ہوا تھا ۔ میں بڑا تھا اس لے لئے مجھے شام کو پولیس انکوائری کے لئے تھانے جانے کا اتفاق ہوا ۔ ہماری موجودگی میں مخالفین میں سے ایک نے میرے کزن کے دوست کو گالی دے دی ۔ ۔ جس پر  وہ اس کی طرف بڑھا مگر بیچ بچاؤ ہوگیا ۔

میرا قصور صرف یہ تھا کہ میں نے کہا سر آپ دیکھ نہیں رہے کہ اس نے گالی دی ہے ۔ جس پر تھانیدار صاحب کا فرمان تھا کہ گالیاں تو لوگ ہمیں بھی دیتے  رہتے ہیں جس پر میری زبان سے صرف یہ الفاظ سر زد ہوگئے کہ " بات تو غیرت کی ہے جس میں جتنی غیرت ہو" جو ان کے مزاج پر بھاری گزری ۔ اب پولیس کی حمائت ان کے ساتھ تھی لہذا گالی کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ انہوں نے اس وقت تو  اس پر کوئی خاص رد عمل نہ دیا مگر اگلے دن میں جب  یونیورسٹی سے واپس آیا تو ابھی بیٹھا ہی تھا کہ باہر گھنٹی کا آواز آئی اور اوپر نیچے بجتی ہی جارہی تھی جیسے کوئی طوفان آیا ہو ۔ میں یہ کہتا ہوا باہر نکلا کہ آرہا ہوں ۔ تھوڑا صبر کرلیں ۔

جب دروازہ کھولا تو گیٹ پر پولیس ہی پولیس تھی ۔ ایک بڑی گاڑی ، تین چار موٹر سائیکل ۔ اور چھوٹے تھانیدار صاحب بنفس نفیس تشریف لائے ہوئے تھے ۔ جیسے ہی میں نے گیٹ کھولا ، ادھر  سے آواز آئی پکڑ لو اسے ۔ وہ مجھ پر ایسے جھپٹ پڑے جیسے کوئی دہشت گرد پکڑ لیا ہو ، میری قمیض شرٹ بن گئی  ۔ پولیس تو بادشاہ ہے اس ملک کی اس کو کون پوچھ سکتا ہے ۔ کہیں سے میرا کان بھی زد میں آگیا اور مجھے سنائی  میں بھی مشکل ہونے لگی ۔ جاتے ہی  ضمنی درخواست کے اوپر میری گرفتاری ڈال دی گئی ، اگلے روز ایک دن کا ریمانڈ لیا گیا اور اس کے بعد  جوڈیشل بھیج دیا گیا  ۔ ساتھ یہ پیغام بھی کان میں گھول دیا گیا کہ ابھی ایک اور مقدمے میں بھی آپ کا ریمانڈ لینا ہے جو ضمانت کے بعد لیں گے تاکہ اس کو یہ احساس رہے کہ پولیس کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لانی ۔

میرے لئے تو آخری امتحان ، جو شروع ہونے والے تھے  ،سے غیر حاضری بھی ،  بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے قوانین و ضوابط کے مطابق ،   کیرئیر کی تباہی کے لئے کافی تھا ۔  جی پی اے کم ہوجانےکی صورت میں  پچھلا سارا کچھ ضائع ہونے  کابھی احتمال تھا ۔بھلا ہو مجسٹریٹ صاحب کا جنہوں نے ڈیٹ شیٹ کی بنیاد پر فوری ضمانت لے لی ۔ یوںمجھے  وکالت میں عملی قدم رکھنے سے پہلے ہی پولیس کے برتاؤ اور جیل کے ماحول کا تجربہ ہوگیا تھا ۔

تشدد تو یہاں اتنی بڑی بات ہی نہیں یہاں تو پولیس مقابلے بنا کر سیاسی اور خاندانی دشمنیوں کے بدلے  لئے جانے کے مبینہ الزامات اور واقعات معمول کی کاروائی  سمجھے جاتے ہیں ۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ سیاستدان خود اس کا نشانہ بھی بنتے ہیں مگر پھر بھی پولیس اصلاحات کےزریعے سے اس کے سدباب کے لئے کوئی واضح کوشش  نہیں کرتے ۔



 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں