عمران خان نااہل ہوچکے بس فیصلہ سنایا جانا باقی ہے؟

 

اگر الیکشن کمیشن کے فیصلے کی روشنی میں دیکھا جائے تو بادی النظر میں عمران خان اور ان کی جماعت  کے بچنے کی کوئی شکل نظر نہیں آتی کیونکہ ایک تو ان کی سربراہی میں ان کی جماعت پر ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہوچکی ہے جبکہ عمراں خان اس فنڈنگ کے صحیح ہونے کی تصدیق کرتے ہیں ۔ جوجھوٹ ثابت ہوچکا ہے اور یہ بیان حلفیہ ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ باسٹھ تریسٹھ کی رو سے جھوٹ بولنا ہی کافی ہے ۔

جہاں تک حساب میں جمع تفریق کا تعلق ہے وہ تو اکاونٹ کے متعلق ماہرین کی معلومات پر اکتفا کرتے ہوئے عمران خان نے سرٹیفکیٹ دیا ہوگا مگر مالی بے ضابطگیوں اور ممنوعہ زرائعے سے وصول ہونے کے کچھ شواہد ایسے ہیں جن سے انکار ممکن نہیں جس پرحتمی فیصلہ عدالت ثبوتوں کی روشنی میں  کرے گی کہ ان کی نااہلی بنتی ہے یا نہیں مگر سوشل میڈیا کی اکثریتی رائے سے یوں لگتا ہے کہ وہ نا اہل ہوچکے ہیں بس فیصلہ سنایا جانا باقی ہے ۔

اس پر قانونی ماہرین کی آراء میں جس طرح سے ہماری عدالت عالیہ نے نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے میں انصاف کا معیار قائم کیا ہوا ہے اس کی روشنی میں تو عمران خان کے بچنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں مگر تحریک انصاف کے قائدین جس دیدہ دلیری سے دعویٰ کر رہے ہیں اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ حسب معمول اپنی صادق اور امین ہونے کی عدالتی سند پر پوری طرح سے مطمئن ہیں ۔

یہ ان کے خلاف نااہلی کا پہلا مقدمہ نہیں بلکہ کچھ اپنے منظقی انجام کو پہنچ چکے ہیں اور کچھ زیر التوا بھی ہیں جن میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی جماعت کی طرف سے مشہورزمانہ عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیرن وائٹ کا معاملہ بھی ہے جسے وہ دستاویزی طور پر ماننے سے انکاری ہیں مگر عملی طور پر وہ انکے سابقہ سسرال اور ان کے بچوں کے نگہبان گولڈ سمتھ  خاندان کی کفالت میں ہے ۔

ہمارے عدالتی ماحول میں قانونی کے عطا کردہ صوابدیدی اختیارات کے حاوی ہونے کا تاثر ملتا ہے جس نے ہمارے نظام عدل کو بری طرح سے متاثر کیا ہوا ہے اور انصاف کا گراف عالمی سطح پر انتہائی نیچے جا چکا ہے ۔

الیکشن کمیشن اور عدالتوں سے کئی سیاستدان نااہل ہوچکے ہیں مگر اصل معاملہ متعلقہ کیس میں موجود شواہد سے ثابت کرنے کا ہے ۔ وگرنہ تو کئی اور بھی ایسے معاملات اور شواہد موجود ہوتے ہیں جن سے جھوٹ ثابت ہوتا ہے ۔ ان میں کچھ معاملات علیحیدہ سے مقدمات میں زیر التوا ہوتے ہیں اور جب تک ان کا فیصلہ نہیں آجاتا ان معاملات کو بھی زیر بحث نہیں لایا جاسکتا اور اگر ان کو زیر بحث لانا ہوتو پھر ان کو دعویٰ میں شامل بھی کرنا ہوتا ہے ۔  

سیاسی مبصرین کے اندازے اور پشینگوئیاں ابھی تک بھٹکی ہوئی ہیں اور انہیں کوئی واضح منزل نہیں مل رہی اس کی وجہ ماضی کے وہ فیصلے ہیں جن کی بنیاد پر وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے لئے انصاف کا جو معیار رہا ہے ان سے سزا کے اشارے نہیں ملتے ۔ جیسا کہ مزکورہ کیس کا فیصلہ ہوتے ہوتے بھی آٹھ سال لگ گئے ۔ تو اس طرح کی نوعیتیں بھی پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔

دراصل عمران خان عجلت میں اپنے لئے خود مسائل پیدا کرتے جارہے ہیں وگرنہ جتنا ان کے ساتھ نرم رویے سے برتاؤ کی جاتا رہا ہے بلکہ ابھی بھی کیا جارہا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ کچھ ماہرین تو موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ ابھی بھی ان کو دوبارہ حکومت میں لانے کے لئے ہر طرح کا تعاون میسر ہے ۔ بہرحال یہ سب تو تبصرے ہیں جن کا صحیح فیصلہ وقت کرے گا ۔

پچھلے چند دنوں کی سیاست سے یہ لگتا ہے کہ نہ صرف مرکزی حکومت کی طرف سے جارحابہ رویہ اپنایا گیا ہے بلکہ تحریک انصاف کی طرف سے بھی اداروں پر حملے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔ جس طرح کہ ایک دن قبل ڈاکٹر شہباز گل نے اے آر وائی سے بات کرتے ہوئے ایک بیان دیا جس پر فوج کے اندر بغاوت پر اکسانے کے الزامات لگائے جارہے ہیں اور شہباز گل کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے اور خبروں کے مطابق انہوں نے یہ اعتراف بھی کرلیا ہے کہ عمران خان کے کہنے پر انہوں نے یہ بیان جاری کیا تھا ۔

ادھر سے حکومت نے بھی کل پریس کانفرنس میں کچھ اسطرح کے مبینہ الزامات کا اظہار کیا ہے جس میں یہ سب کچھ باقائدہ مشورے سے کیا گیا ہے ۔ اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر اس کے پیچھے کیا سیاسی چالیں کارفرما ہیں اور تحریک انصاف اس سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے اس کا تعلق گرفتاریوں سے عوامی ہمدردی بھی ہوسکتا ہے یا پھر ہوسکتا ہے کہ ان گرفتاریوں سے وہ عوامی دباؤ کو بڑھا کر عمران خان کی گرفتاری سے دھیان ہٹانا چاہتے ہیں اور سیاسی معاملات کو کشمکش میں مبتلاء کرکے کسی درمیانی راستے یا ڈیل کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہوں ۔

حکومت بھی مجبوراً یا شوقیہ جن حالات کا سامنا کررہی ہے وہ نہ تو ان کے حق میں ہیں اور نہ وہ موجودہ صوتحال میں ان کو نظر انداز کر سکتی ہے ۔ کیوںکہ اگر وہ ان کو نظر انداز کرتی ہے تو ان کے لئے مزید خرابی پیدا کرسکتے ہیں ۔  

لیکن یہ طریقہ کار ملک و قوم کے لئے اچھا ثابت نہیں ہوگا ۔ سیاسی عدم استحکام سے معیشت  متاثر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں عوام پر مہنگائی کا بوجھ مزید بڑھ جاتا ہے ۔

عمران خان کو نئے بیانیے سے جو پزیرائی ملی تھی اس کو سنبھال نہیں پائے اور اداروں پر بے جا تنقید سے نقصان کر بیٹھے ہیں ۔ شہداء کے بارے جس طرح سے سوشل میڈیا پر تضحیک آمیز رویے کا اظہار کیا گیا وہ کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں اور اب عوام میں بنا بنایا کھیل خراب ہوتا جارہا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر تمام کے تمام مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں جو ان کی بھول ہے ۔ اب انکو اپنی پوزیشن واضح کرنی ہوگی اگر تو یہ سب کچھ ان کی مرضی کے خلاف ہوا ہے تو اس کی مذمت کریں اور اگر ان کے علم میں ہے تو پھر اس پر معزرت کرنی چاہیے اور قانونی کاروائی کےلئے اپنے آپ کو پیش کرنا چاہیے ۔

اب حکومتی جماعتیں بھی اپنے اندازوبیان سے اداروں میں برابری کی بنیاد پر برتاؤ کی راہ کو ہموار کرنے میں کامیاب نظر آرہی ہیں ۔

میں ذاتی طور پر سیاسی جماعتوں کے عہدیداران کے جرائم کی صورت میں ان کی نااہلی کا قائل ہوں مگر سیاسی جماعتوں پر پابندی سے عوامی نمائندگی کے متاثر ہونے کی وجہ سے اس کے خلاف ہوں ۔  

شہباز گل نے جو بھی کہا ہے اگر اس میں فوج کی طرف اشارہ نہ ہوتا تو یہ نہ صرف معمول کی سیاست تھی بلکہ قانونی اعتبار سے کوئی بھی حکومتی اہکار غیرقانونی حکم کو ماننے کا پابند نہیں یہ ایک قانونی رائے یا اظہار رائے کے حق کا استعمال بھی ہوسکتا ہے مگر آئین ہی اس کی حدود وقیود بھی متعین کرتا ہے جس کو عبور کرنے سے قانون کی گرفت بھی لاگو ہوجاتی ہے ۔

جب ملکی سالمیت کے اداروں کے اندر حکم عدولی کی بات کی جائے تو یہ ایک علیحدہ سے جرم کے ضمرے میں آتا ہے ۔ اور اس پر اے آر وائی نے بھی مذمت کر دی ہے ۔ ان کا یہ موقف ہے کہ ان کو کسی کے خیال کا تو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کہنے جارہا ہے ۔ مگر شہباز گل کے مبینہ بیان میں تو انہوں نے اظہار کیا ہے کہ ان کو یہ بتایا گیا کہ ان کو بیان دینے میں کوئی خلل نہیں ڈالا جائے گا۔ جس سے لگتا ہے کہ یہ سب ملی بھگت سے ہی ہوا ہے ۔ جو واقعی قابل تشویش اور قابل مذمت ہے ۔

لیکن یہ بیان ایکسٹرا جوڈیشل ہے اور اب شہباز گل کو عدالت میں پیش کردیا گیا ہے ۔ دیکھیں وہ وہاں مجسٹریٹ کے سامنے جو بیان دیتے ہیں قانونی اعتبار سے وہ زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا ۔ جب کہ دوسری طرف تحریک انصاف کی طرف سے بھی یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان کا بیان جماعت کا پالیسی بیان نہیں بلکہ ان کا اپنا ذاتی خیال ہے ۔

اگر حکومتی دعوے اور شہباز گل کے مبینہ ایکسٹرا جوڈیشل بیان کے مطابق جماعت میں مشورے سے یہ بیان دینے کے لئے کہا گیا تھا تو میرا شہباز گل سے سوال ہے کہ وہ دوسروں کو تو مشورے دیتے ہیں کہ وہ کسی کے غیرقانونی اور غیر آئینی اقدام کو ماننے کے پابند نہیں مگر خود ایک ایسی غلطی کر بیٹھے ہیں جس سے ہر کوئی جان چھڑانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ توپھر کہاں گئی ان کی اپنی سوجھ بوجھ ، اخلاقی ذمہ داریاں اور اسلامی تعلیمات کا علم ۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں