پیکا میں ترمیم کیا ہوئی ہے کہ ہر طرف سے چیخنے کی آوازیں
آنا شروع ہو گئی ہیں جیسے ہر کسی کا دم گھٹنے لگا ہو۔ صحافی تو کیا سیاستدان بھی بول پڑے ہیں۔ اور تو اور مولانا
فضل الرحمن نے بھی صدر آصف علی زرداری سے جلدی میں دستخط نہ کرنے کی گزارش کر دی
ہے اور انہوں نے مان بھی لی ہے۔ لگتا یوں ہے کہ صحافت اور سیاست جھوٹ کے بغیر ہو
ہی نہیں سکتی۔ سیاست میں بھی بیانیہ بنانا سیاستدانوں کی مجبوری ہوتی ہے اور جب
جھوٹ پکڑا جائے تو کہہ دیتے ہیں "وہ سیاسی بیان تھا" اس سے آپ ہماری
سیاست کے معیار کا بھی اندازہ لگا سکتے
ہیں۔ اور صحافت میں بھی جب تک خبر کو تھوڑے سے پر نہ لگائے جائیں وہ اڑتی نہیں اس
لئے جھوٹ نہ بھی ہو تو جھوٹ جیسے گماں کا تاثر تو ہر خبر میں ملتا ہے۔ وڈیوز پر
تھنب نیل تو کبھی بھی حقائق پر مبنی نہیں ہوتے کیونکہ جب تک چاشنی نہ ہو سودا بکتا
ہی نہیں۔
حکومت میں شامل پیپلز پارٹی کی سنیٹر شیریں رحمان نے بھی اس
پر اپنے تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ وہ تو سیاستدان بھی ہیں اور ماضی میں صحافت
بھی کرتی رہی ہیں اس لئے ان کو کچھ زیادہ ہی اندازہ ہوگا کہ اس طرح کے قوانین کے
کیا نتائج نکلا کرتے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نون سے بھی اگر ایک دن کے
لئے حکومت لے لی جائے تو شائد ان کی آواز سب سے بلند ہو، اگر ان کو اس بات میں شک
ہو توتجربہ کیا جا سکتا ہے۔
شور سے لگتا یوں ہے کہ اس قانون میں کچھ ایسا ہے ضرور جو ہر
طرف سے آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں نے
بھی اپنے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا ہے تو پھر اس پر کچھ توقف اور دوبارہ سے
سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشورہ اور ان کی معاونت حاصل کر لینے میں حرج ہی کیا ہے؟
حکومت کی جلد بازی بھی بہت سارے سوال اٹھاتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ابھی تو "پیکا" قانون بھی نہیں بنا اور اس کی
عملداری کا آغاز دکھائی دینے لگا ہے۔ یہ ایکٹ تو "چور کی داڑھی میں تنکا"
کے مصداق ایک مثال بن گئی ہے۔ میں یہ تو
نہیں کہتا کہ جھوٹ بولنے والے ہی سب پریشان ہونگے لیکن یہ بات یقین سے کہہ سکتا
ہوں کہ جس نے جھوٹ بولنا ہی نہ ہو اس کو اپنی داڑھی میں ہاتھ مارنے کی ضروت کیوں
پیش آئے گی یا اس کا دم کیوں گھٹنے لگے گا۔ خیر اسے سنجیدہ نہ لیجئے گا مگر جھوٹ کے ماحول کو ضرور سنجیدہ لینا ہو
گا۔
کیا جھوٹ صرف خبروں میں ہی بند کرنے کی ضرورت ہے یا ہر سطح
پر اس کے سدباب کی ضرورت ہے؟ سیاست یا صحافت میں تو جھوٹ کو کافی حد تک معاشرے کے
اندر قبولیت کا درجہ حاصل ہو چکا ہے مگر بدنام زیادہ وکالت ہے۔ لیکن حکومت کی
خاموشی بھی جھوٹ سے کم نہیں۔ فیکٹس کو چھپانا بھی جھوٹ کے ضمرے میں آتا ہے۔ کتنے
ہی معاملات ہیں جن میں حکومت فیکٹس کو چھپانا چھوڑ دیتی تو شائد ملک و قوم کے
حالات ایسے نہ ہوتے۔ ہم عدالت کے بارے تو کچھ کہہ نہیں سکتے مگر توہین عدالت کے
خوف سے خاموش ہو جانا جھوٹ نہیں بھی تو سچ کو چھپانا تو تصور ہو سکتا ہے۔ اگر
عدالتوں میں انصاف ہو اور کسی پر جھوٹا الزام لگانے پر ہرجانے کے قوانین پر
عملدرآمد ہونا شروع ہو جائے تو کوئی کسی کے بارے جھوٹی بات کہنے کا سوچ بھی نہیں
سکتا۔ حکومت نے اگر کچھ کرنا ہی ہے تو نظام انصاف کو ٹھیک کرے تاکہ جھوٹ اور
الزامات کو روکنے کا ماحول بنایا جا سکے۔
غیر جانبدارانہ تحقیقات اور شفاف انصاف کے بغیر محض قوانین کسی کام نہیں ہوتے۔
کیا صرف حکومت کے خلاف جھوٹ بولنا ہی قابل گرفت ہے، حکومت
کے حق میں بولنے کو استثنیٰ حاصل ہے؟ کیا حکومت کے حق میں جھوٹ بولنے کی بھی گرفت
ہوگی؟ اگر ہو گی تو پھر یہ کون کرے گا اس کا اس قانون میں کوئی لائحہ عمل بتایا
گیا ہے؟ لگتا یوں ہے کہ اصل معاملہ جھوٹ یا سچ کا نہیں بلکہ قانون کے اطلاق میں
جابنداری کے خدشات بارے خوف کا ہے کہ جھوٹ بارے تحقیقات کا معیار کیا ہوگا؟ ماضی
میں ایسے قوانین کے اطلاق میں چونکہ اچھی
مثالیں نہیں ملتیں اس لئے تحفظات پائے جار ہے ہیں ۔ پہلے بھی اسلام آباد ہائیکورٹ 2022 میں پیکا کو کالعدم قرار دے چکی ہے اور صحافیوں کو جھوٹی خبر کے روکنے کے کسی
میکنزم کی ہدایات کی تھیں۔ اس وقت عمران خان کی حکومت تھی تو اس کو پیکا موافق پڑ رہا تھا اور آج مسلم لیگ نون کی ہے تو اس کو موافق پڑ رہا ہے۔ ایسے قانون جو حکومت ہوتے ہوئے ہی موافق ہوں کی افادیت ،اہمیت اور مقاصد کا اندازہ تو لگایا ہی جا سکتا ہے۔
جھوٹی خبر سے بھی زیادہ معاملہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کیرجسٹریشن کا ہے جو ناقابل فہم لگتا ہے۔ سوشل میڈیا تو معلومات کو شئیر کرنے یا ان
تک رسائی کا ایک زریعہ ہے جس پر جھوٹ کی نشاندہی اور اس کی رپورٹ کرنے کا طریقہ
کار بھی پہلے سے موجود ہے جس کو استعمال کرتے ہوئے ان کا سدباب ممکن ہے۔
اگرجھوٹی خبریں عام لوگ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے بنا سکتے ہیں تو کیا
حکومت مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے ان خبروں کی نشاندہی اور رپورٹ کر کے ان
کو بند نہیں کروا سکتی اور جس بھی آئی ڈی سے دی گئی ہو اس کو بند بھی تو کروایا جا
سکتا ہے۔ اس طرح کی زیادہ تر خبریں ہی فیک نہیں ہوتیں بلکہ ان کو دینے والی آئی ڈی
بھی فیک ہوتی ہیں اور دوسرا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ایسے لوگ بیرون ملک بیٹھے ہوئے
ہوتے ہیں جو حکومت کی پہنچ سے بھی دور ہیں اور سارا غصہ جو پہنچ میں ہیں ان پر نکل
جاتا ہے۔
اب رجسٹریش کے عمل میں کئی مسائل ہوتے ہیں جن میں سب سے بڑا
مسئلہ تو پاکستان میں حوالوں کا ہے۔ یہاں حوالوں کے بغیر جائز کام بھی نہیں ہوتے
اور حوالوں کے ساتھ نا جائز بھی نہیں رکتے تو ایسے ماحول میں کسی قانون سے جرائم کے
خاتمے کو کیسے ممکن بنایا جا سکتا ہے؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو ملک سے بدعنوانی کا
خاتمہ ہی ہو چکا ہوتا۔ کیا بدعنوانی کے لئے قوانین کی کمی ہے یا اس کے سدباب کے
لئے ادارے موجود نہیں جو جھوٹ کو روکنے کے لئے اداروں کے قیام اور اتھارٹیز کی
ضرورت پڑ گئی ہے۔ اس سے اور کچھ ہوا یا نہ ہوا ہماری اخلاقیات بارے دنیا کو ضرور
معلوم ہو جائے گا کہ پاکستان میں جھوٹ کو روکنے کے لئے اتھارٹیز کوقیام میں لایا جا رہا ہے۔
حکومت خبروں کی اشاعت کے متعلق اٹھارٹیز کیوں نہیں بنا دیتی
جس کے تحت ہر ادارے، تنظیم یا جماعت کے بارے یہ قانون بنا دیا جائے کہ اس نے اپنی
رجسٹریشن کے ساتھ ہی اپنا انفارمیشن کا نظام بھی رجسٹر کروانا ہے اور وہ براہ راست اتھارٹی کے ویب سائیٹ پر صحیح
معلومات کو شئیر کرنے کے پابند ہوں اور میڈیا صرف وہاں سے خبریں لینے کے پابند ہوں
اور رپورٹنگ کا نظام ہی ختم ہو جائے۔ اصل مسئلہ خبروں یا جھوٹ کا نہیں بلکہ اصل
معاملہ اخلاقیات اور اعتماد کا ہے۔ اگر حکومت کو رپورٹنگ پر اعتماد نہیں تو وہ
عوام پر اپنا اعتماد ہی بحال کروالیں تو مسئلہ ختم ہو سکتا ہے۔ جہاں اعتماد ختم ہو
چکا ہو اور اخلاقیات تباہ ہو چکی ہوں وہاں مسائل قوانین یا اتھارٹیز کے قیام سے نہیں بلکہ کردار سازی سے حل ہوتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں