ہمارے قومی مسائل کا حل کیا ہے؟

میرے خیال میں ہمارے تمام تر مسائل کی بنیادی وجہ ہماری سوچ ہے اور ہم میں سے اکثریت کی سوچ کا زاویہ ہماری اپنی ذات ہے مفادات ہر کسی کو عزیز ہوتے ہیں مگر غلطی تب ہوتی ہے جب ہم اپنے ذاتی مفادات کو اپنے اجتماعی یا ملکی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں ۔ ذاتی مفادات کی خاطر ملکی اور اجتماعی مفادات کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں یا ان کو نقصان پہچانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور یہی سوچ ہمارے ایک قوم بنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ ہمیں ایک قوم بننے کے لئے سب سے پہلے اپنی سوچوں کو بدلنا ہوگا اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہمارے اندر اس ملک اور اس کی املاک کی ملکیت اور اہمیت کا احساس پیدا نہیں ہوجاتا ۔ اس بارے آپ سے قیمتی آراء کی درخواست ہے ۔

بین الصوبائی مقابلہ ترقی و کارکردگی کے انعقاد کو یقینی بنایا جانا چاہیے

کچھ ہفتے قبل صوبائی سطح پر ترقی و کارکردگی میں مقابلے کے نام پر عوام اور سیاسی جماعتوں کے درمیاں نوک جھوک جاری رہی جس کے حلقے پھلکے مظاہرے ابھی بھی عوام یا سیاستدانوں کی زبانی ہوتے رہتے ہیں کہ کس جماعت نے اپنے صوبے میں زیادہ ترقیاتی کام کروائے ہیں جس میں خاص طور پر  کے پی کے بمقابلہ پنجاب تجزیوں کے زد میں ہے جس کو تقویت تحریک انصاف کے اپنے ہی چند سابقہ قائدین نے بخشی ہے جن میں افضل مروت پیش پیش ہیں۔ جس پر تحریک انصاف کا موقف ہے کہ وہ جماعت سے ناراضگی کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں جو بجا ہے مگر حقائق کو محض ناراضگی کی بنیاد پر جھٹلایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی کسی کے آزادی اظہار رائے کے بنیادی حق کو ختم کیا جا سکتا ہے۔  
اس کے علاوہ مرکزی سطح پر حکومت میں شریک پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون میں بھی کافی حد تک ایک دوسرے پر کارکردگی کی بنیاد پر تنقید کی جنگ باہمی اختلافات کا موجب بنی رہی ہے مگر بعد میں دونوں جماعتوں کے اعلیٰ سطح کےقائدین کو مرکزی حکومت کو محفوظ رکھنے کے لئے بیچ بچاؤ کرنا پڑا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس جنگ کی وجہ سے مرکزی اتحاد کو خطرہ لاحق ہو جائے۔
دیکھا جائے تو اس وقت تمام بڑی سیاسی جماعتوں جن میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ شامل ہیں کی ایک ایک صوبے میں حکومت ہے اور کسی کے پاس بھی اب یہ جواز نہیں بنتا کہ ان کو موقع نہیں ملا اور صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار کی حد تک تو قطعاً بھی کوئی بہانہ قابل قبول نہیں کہا جا سکتا۔
تحریک انصاف کو چونکہ سب سے بڑا عوامی مینڈیٹ رکھنے پر فخر  بھی ہے اور پچھلے بارہ سالوں سے کے پی کے میں ان کے پاس حکومت ہے لہذا اب کارکردگی چھپانے کے ایسے بہانے عقل و دانش کے پیمانوں پر پورا اترتے دکھائی نہیں دیتے۔ اگر وہ دوسری جماعتوں کو اقتدار میں رہنے کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو پھر ان کو اپنے دور اقتدار کا بھی عوامی عدالت میں حساب دینا پڑے گا۔ 
پیپلز پارٹی بھی کئی دہائیوں سے سندھ کے تخت پر براجمان ہےاور پاکستان مسلم لیگ بزدار کے چار سال نکال کر عوامی مینڈیٹ کی بنیاد پر پنجاب میں حکومت سازی کی لمبی تاریخ رکھتی ہے۔ اور اسے یہ بھی دعویٰ ہے کہ کارکردگی کی بنیاد پر وہ عوامی مینڈیٹ کی زیادہ حقدار  ہے۔ اس کے تحفظات ہے ہیں انہوں نے مرکز میں 2022 میں حکومت سنبھال کر اپنے مینڈیٹ کی قربانی دی ہے۔ لیکن اب دوبارہ حکومت سازی کے بعد بھی ان کو کارکردگی دکھا کر عوام کے رائے کو ہموار کرنے کا اچھا خاصہ وقت مل چکا ہے
شعوری سیاست کا یہ تقاضہ ہے کہ ایسے مواقعوں پر عوامی سطح پر جماعتی الحاق سے ہٹ کر سوچا جائے مگر بدقسمتی سے ہماری سیاست ابھی اس پختگی اور سنجیدگی کی حامل نہیں بن سکی کہ ہم کارکردگی کی بنیاد پر اپنے ووٹ کے استعمال کا حق استعمال کریں
اگر اس نوک جھوک کی جنگ کو جمہوری پیمانے پر دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک مثبت عمل ہے اور اس طرح کے نہ صرف لفظوں اور سیاسی بیانیوں تک مقابلے ہونے چاہیں بلکہ اس پر قومی سطح پر ڈائیلاگ اور مناظرے بھی ہونے چاہیں ایسے مناظروں کا انتظام بھی مرکزی حکومت کو کروانا چاہیے جس کی براہ راست نشریات ہوں اور پوری قوم ان کو دیکھے تاکہ سیاسی جماعتوں کے اندر کارکردگی کی بنیاد پر جمہوری مینڈیٹ کا احترام سیاست کے اندر پنپنے کا رجحان عام ہو۔
 اگر ضروری سمجھیں تو مستقبل میں اس مشق کو جاری رکھنے کے لئے صوبوں کے مشورے سے کوئی قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے تاکہ اس پر باقائدہ پانچ سالہ دورانیے میں کم از کم  درمیان اور اخیر میں دو دفعہ رپورٹ جاری کی جائے جس میں عوامی نمائندوں کی مرکزی اور صوبائی سطح پر کارکردگی اور قانون سازی کے عمل میں ان کی شرکت کو بھی شامل کیا جائے تاکہ عوام سیاسی جماعتوں کی مجموعی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے نمائندوں کی کارکردگی کی بنیاد پر اگلے انتخابات میں ووٹ دینے کا فیصلہ کرنے میں مدد حاصل کر سکیں۔ 
اگر ممکن ہو تو تمام سیاسی جماعتوں کو باہمی اتفاق سے بین الاقوامی سطح پر غیرجانبدار مبصرین کی ایک کمیٹی کو صوبوں کے درمیاں اس مقابلےاور چیلنج پر فیصلہ کن نتائج کا کام سونپا جانا چاہیے تاکہ قوم کو یہ معلوم ہو سکے کہ کون سی جماعت کارکردگی میں بہتر ہےتاکہ عوام کے اندر شعور اجاگر ہو اور عوامی مینڈیٹ کو شعوری بنانےکی راہ ہموار ہو سکے۔
پچھلی ایک دو دہائیوں کی سیاسی تاریخ میں جس طرح سے مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انکو جمہوریت کی مضبوطی کی خاطر میثاق اور قربانیوں کے بعد مشکلات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ مک مکا کے طعنے بھی سننے پڑے ہیں۔اس کے علاوہ ہر جماعت کو کسی نہ کسی حد تک یہ شکوہ اور تحفظ رہا  ہے  کہ ان کا میریٹ چرایا گیا ہے۔ جیسا کہ مسلم لیگ نون کا دعویٰ ہے کہ دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات میں ان کا مینڈیٹ چرایا گیا جبکہ تحریک انصاف کا دو ہزار بائیس کے انتخابات میں مینڈیٹ کے چرائے جانے کا دعویٰ ہے۔ جس کو اس تقابلی مقابلے کے رجحان سے جمہوری اقدار کو مضبوط اور شعور کو اجاگر کرکے سد باب کرنے میں بھی مدد ملے گی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

دیکھے جانے کی تعداد

انسان اور انسان کی تخلیق ایک دوسرے کے مد مقابل

انسان اور انسان کی تخلیق ایک دوسرے کے مد مقابل
آج انسان اپنے ہی شاہکار سے خوف زدہ کیوں دکھائی دیتا ہے؟ آپ بھی اس بارے سوچیں اور اپنے خیالات سے نیچے دئے گئے فارم کی مدد سے مستفید فرمائیں (قارئین کے لئے اسائنمنٹ)