میں سمجھتا ہوں کہ اتنے معتبر بین الاقوامی جریدے میں رپورٹ شائع ہونے کے بعد وزراء کو سیاسی مخالفت کی بنا پر طعنہ زنی کی بجائے اسے سنجیدہ لیتے ہوئے حکومتی سطح پر تحقیقات کی ہدایات جاری کرنی چاہیں۔ یہ بانی پی ٹی آئی کا معاملہ تو ہوگا ہی مگر ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اس میں پاکستان کے ایک سابق وزیر اعظم اور ایک ایٹمی طاقت کی حامل ریاست اور اسکے اداروں کے ملوث ہونے کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں جن میں ریاست کا وزیر اعظم حساس ادارے کے اہلکاروں کے ہاتھوں کھلونا بنا رہا ہے اور چند افراد اپنی خواہشات کے تحت ریاستی امور پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں گویا ریاست کی سربراہی ماہرین کی بجائے جادو ٹونے کے تحت چلائی جاتی رہی ہے۔
اس دوران پاکستان کے سفارتی سطح پر تعلقات سے لے کر بیرونی سرمایہ کاری اور ترقیاتی کاموں کو ٹھپ کرنے تک کے فیصلے ہوتے رہے اور ملکی معیشت کا ستیا ناس ہونے کے علاوہ بیرونی قرضوں میں کئی سو گنا اضافہ ہوا جو انتہائی تحقیق طلب معاملہ ہے۔
اگرچہ پی ٹی آئی کی قیادت نے اس کو من گھڑت بیان قرار دیتے ہوئے جریدے کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کیا ہے جو ان کا بنیادی حق ہےلیکن اس معاملے کو فقط ان پر نہیں چھوڑا جانا چاہیے بلکہ اگر ان کو کسی طرح کی مدد بھی چاہیے تو حکومت کو مہیا کرنی چاہیے۔
اعتقاد اور نظریات اپنی جگہ مگر ان کے ریاست کے فیصلوں پر اثر انداز ہونا اور وہ بھی ایک سراسر دھوکہ دہی اور جانتے بوجھتے ہوئے ایک ریا ست کے سربراہ کو دھوکے میں رکھ کر فیصلوں پر اثر انداز ہونا تو انتہائی سنگین جرم ہے اور پھر وزیراعظم ایک ریاست کا سربراہ ہوتا ہے لہذا اس میں اس قدر بھی سادگی نہیں ہونی چاہیے کہ ان کو اتنی جلدی سے بے وقوف بنا لیا جائے اور وہ من گھڑت کہانیوں جن کی بنیاد جادو ٹونے پر ہو کو اس قدر ترجیح دیتا پھرے۔
لہذا اس بارے پہلے تو ریاست کو خفیہ طور پر تحقیقات کروانی چاہیں اگر تو یہ محض الزامات ہیں تو پھر کسی کی عائلی زندگی اور شہرت کو اچھالنے کی کسی کو اجازت نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ اس سے نہ صرف ایک سیاسی جماعت کی قیادت اور کارکنان کو ذہنی اذیت پہنچے گی بلکہ پاکستان کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔
لیکن اگر یہ سب کچھ سچ ثابت ہوتا ہے تو پھر حکومت کو اس میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کاروائی کو عمل میں لانا چاہیے اور مستقبل میں کوئی ایسا لائحہ عمل بنایا جانا چاہیے کہ ریاست کے فیصلوں کی بنیاد اس قدر غفلت کی شکار نہ ہو پائے اور نہ ہی کبھی ریاست کے حساس ادارے کے اس طرح کے جرائم میں ملوث پائے جانے کا تاثر ابھر سکے۔ اس سے نہ صرف اداروں کی ساکھ خراب ہوتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ملکی تشخص بھی تباہ ہوتا ہے۔
تحقیقات اس لئے بھی ضروری ہیں کہ اگر ان سنگین جرائم کی وجہ سے ملک کو مالی نقصان پہنچا ہو تو عوام کو اس بارے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اپنے ملک کے مستقبل کے فیصلے دانشن مندانہ سوچ کے تحت کرنے کے قابل ہو سکیں اور ریاست کی غیر شعوری مقبولیت سے جان چھوٹے کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پاکستان کے ایک ذمہ دار ریاست ہونے کا تاثر ابھرے

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں