خادم پاکستان کے نام (2)


انسان کی پہلی ضرورت صحت ہے جو اس کی تمام تر توانائیوں کی ضامن اور ملکی ترقی کی بنیادی شرط ہے کے بارے کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے اور سب کو مفت اور برابر سہولیات ملنی چاہیں ۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ملک کے غریب اور متوسط عوام تو خوار ہورہے ہوں اور خاص لوگ جو اس ملکی کی ملازمت اور خدمت کے لئے چنے گئے ہیں عوام کے پیسے پر خاص سہولیات حاصل کررہے ہوں اور ایک ہی ریاست میں حکمرانوں کا جہاں اور ہو اور عوام کا جہاں اور ۔


نظام انصاف کسی بھی ریاست کے اندر ہر قسم کے تحفظات اور حقوق کی پاسداری کا ضامن ہوتا ہے اور ملکوں کے مالی اور سیاسی استحکام کا بھی بہت بڑا سبب ہوتا ہے ۔ اس کے لئے بھی اصلاحات اور انتظامات ہونے چاہیں ۔  


مالی ناانصافیوں اور بے ضابطگیوں کو روکنے کے لئے خود کار ٹیکنالوجی پر منحصر نظام ترتیب دینا چاہیے جس پر عوام کو دسترس حاصل ہو تاکہ شفافیت اور عوامی جوابدہی کو یقینی بنایا جاسکے ۔ جس سے اس طرح کی ثقافت کو قائم کیا جا سکے جس میں سرکاری ملازمین کے اندر یہ احساس اجاگر ہو کہ وہ عوامی خدمتگار ہیں اور عوام کو یہ تاثر اور اعتماد اور اطئمان ملے کہ حکومتی ادارے ان کی فلاح کے لئے کوشاں ہیں ۔  


ہمارے نظام تعلیم نے ہمارے اندر نظریاتی اور طبقاتی تقسیم کو جنم دیا ہے جس کے اثرات آج آپ کے سامنے ہیں کہ دین ہماری اخوت اور بھائی چارے کی بجائے تفرقہ بازی کا سبب بن گیا ہے ۔ ہمارا شعور آگہی کے بجائے خود اعتمادی کے نام پر بداخلاقی اور بد زبانی کا موجب بن گیا ہے ۔ ہمارا قومی جزبہ غیرت ، حمیت کی بجائے منافقت اور بدتہذیبی کا شکار ہوگیا ہے۔ آج ہم اپنے اس علم اور علمی درسگاہوں جنہوں نے ہماری ترقی کا سبب بننا تھا ہماری نظریاتی اور طبقاتی تقسیم کا سبب بنتی جارہی ہیں ۔ علوم اور علمی اداروں کو علم اور اساتذہ کی قابلیت کے اعتبار سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے دولت مندوں اور غریبوں کی پہچان کے طور پر سمجھا اور دیکھا جاتا ہے ۔


اس خرابی کو اس کی بنیاد سے ہی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے یکساں ںظام تعلیم کو صحیح معنوں میں لاگو کرنا ہوگا ۔ پرائمری نصاب تعلیم اور تعلیم اداروں کو نجی تحویل سے آزاد کرانا ہوگا ۔ اس پر حکومت کو جتنے بھی اخراجات اٹھانے پڑیں عمل کو یقینی بنانا ہوگا ۔ اور جن سرمایہ داروں نے اس کو زریعہ معاش بنایا ہوا ہے انکو اعلیٰ تعلیم کے اداروں کی طرف مرغوب کروانا ہوگا ۔ اعلیٰ تعلیم کی سطح پر وہ اپنے کاروبار کو رواج دیں  مگر بنیادی سطح سے لے کر سیکنڈری سطح تک کو ان سرمایہ داروں کے چنگل سے نکالنا ہوگا اور دولت کے بلبوتے پر انسانی امتیاز کی سوچ کی بحرحال حوصلہ شکنی کرنی ہوگی جس کو میرٹ اور کارکردگی کی بنیاد پر ملازم پیشہ طبقہ کی ترقی کے عمل کو فعال کرنے سے ہی شکست دی جاسکتی ہے ۔ 


جیسا کہ آپکو معلوم ہے کہ اس وقت پاکستان کے بہت سارے مسائل میں سے سب سے اہم مسئلہ مہنگائی ، بے روزگاری اور غربت ہے جس کا خاتمہ تحریک عدم اعتماد کا بنیادی مقصد تھا جس نے عوام کی کمر توڑ دی ہے ۔ میں آپکا شکر گزار ہوں کہ آپ نے جنگی بنیادوں پر اس کے قلع قمع کا عندیہ دیتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہیں ۔


آپ بھی جانتے ہیں کہ اس مہنگائی اور بیروزگاری میں کافی حد تک بیرونی قرضوں کا کردار ہے اور اس کا حصول ہرسابقہ حکومت کا ، مجبوری یا نااہلی کی بنیاد پر، کارنامہ رہا ہے کہ انہوں نے اس کو ختم کرنے کی بجائے اس میں اضافہ ہی کیا ہے ۔ تو اس کو ختم کرنے کا کوئی پلان ہونا چاہیے ،  اس کے لئے کوئی جامع حکمت عملی تیار کی جانی چاہیے اور اس غرض سے معاشی علم و تجربہ رکھنے والے نامور اچھی شہرت اور کردار کے ماہرین اور دانشوروں کا ایک بورڈ بنایا جانا چاہیے جس میں اسلامی معاشی نظام کے دانشوروں اور ماہرین کو بھی شامل کیا جانا چاہیے تاکہ ہم اگر فی الفور سود کی لعنت سے مکمل طور پر چھٹکارہ حاصل نہیں بھی کر سکتے تو کم از کم ایک روڈ میپ تو بنایا جاسکے جو مستقبل میں ہمیں اپنی منزل کا دیتا ہو ۔


حکومت چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا ، ان ماہرین کی سفارشات کی روشنی میں انویسٹمنٹ بورڈز اور خصوصی بینک بھی بنایا جاسکتا ہے جس میں اندرونی قرضوں سے بیرونی قرضوں کی واپسی میں مدد لی جاسکتی ہے اور  جس میں مختلف زرائع سے سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لئے پرکشش پیکیجز شروع کئے جائیں ، جن میں عوام سے لے کر اسلامی دوست ممالک یا دوسرے خیر خواہ ممالک سے سرمایہ کاری حاصل کرکے مضاربہ کی شرائط کے تحت کاروباری شراکت کے بانڈز جاری کئے جاسکتے ہیں اور اسطرح اس سے حاصل ہونے والے منافع کو خاص طور پر ان بیرونی قرضوں کو اتارنے کے لئے استعمال کیا جائے ۔


پرکشش پالیسیز بنائیں، بیرونی زرائع سے انوسٹمنٹس کے لئے مراعات دی جائیں تاکہ انڈسٹری کا آغاز ہو جس سے انسانی وسائل کے استعمال  میں مدد ملے جس سے ٹیکس کم بھی ملے تو بے روزگاری کا خاتمہ تو ہوگا 
سود کی لعنت کو ختم کرنے میں خاص کوشش کرنی چاہیے ، کیونکہ خدا سے جنگ کی حالت میں ہم اپنی معاشی پالیسیوں کو بہتر بنانے ، کامیاب ہونے یا ترقی کے خواب کا پورا ہونے  کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔


 اس تمہید کا مقصد آپکی توجہ متبادل زرائع کر طرف مبذول کروانا ہے ، روائتی طریقوں سے بیرونی قرضوں سے چھٹکارہ ممکن نہیں اس کے لئے ہر متبادل طریقہ کے بارے گہری سوچ کے ساتھ غور کرنا  پڑے گا۔


پٹرول کی ضرورت کو کم کرنے کے لئے ٹراسپورٹ کو الیکٹرک کی طرف لے کر جائیں جس میں خاص کر چائینہ کی طرز پر موٹر سائیکلز کو عام کیا جائے جس پر رجسٹریشن اور دوسرے ٹیکسز کی چھوٹ دے کر کم خرچ بنا یا جائے تاکہ ہر خاص و عام کی دسترس میں ہو ۔ اس سے اس انڈسٹری کو فروغ ملے گا اور حکومتی آمدن وہاں سے پوری ہوسکتی ہے اور ساتھ لوگوں کو روزگار بھی ملے گا جس سے ان کی آمدنی کے زرائع میں اضافہ ہوا اور خوشحالی میں بھی مدد ملے گی ۔ (جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں