اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سربراہ جناب صدر پاکستان نے اپنےعہدہ کے بالائے قانون و آئین ہونے کی آئینی ترمیم پر دستخط کر کے اپنے ہی اختیار سے اپنے آپ کو بالائے آئین و قانون اور احتساب بنا لیا ہے جس پر عوام، آئین و قانون اور نظام انصاف سراپا حیرت میں مبتلاقدرت کے فیصلوں کی طرف متوجہ دکھائی دے رہی ہے۔
عقل وشعور یہ منطق سمجھنے سے قاصر ہے کہ ان کے کون سے کارناموں کی بدولت خوف و ہراس سے چھٹکارہ دلوانے کے لئے یہ تحفظ فراہم کرکے آئینی و اخلاقی اور اسلامی اقدار کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں
ویسے تو اس ملک کی روایات میں اس طرح کے تحفظ کے بندوبست کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں مگر تحریری طور پر آئینی جواز کی ایک نئی مثال قائم کر کے انہوں نے اپنے پر ماضی میں لگائے جانے والے الزامات کو تقویت دینے کا تاثر دیا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنا نام اس اشتثنیٰ سے نکلوا کر جمہوریت اور قانون و انصاف میں سب برابر ہونے کا عملی ثبوت دیا ہے جو قابل ستائیش ہے مگر عوامی نمائندوں سے اس طرح کی ترمیم پر نظام عدل کا عدم اعتماد کا تاثر جو عدلیہ سے استعفوں کی صورت ابھر رہا ہے خوش آئیند نہیں۔ ویسے بھی یہ استثنیٰ کی ترمیم آئین کے دیباچے ، قرآن و سنت سے مطابقت اور شہریوں کے برابری کے حقوق کے معیار پر پورا نہیں اترتا۔
صدر پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ اس آئینی ترمیم پر یہ اعتراض لگا کر واپس کر دیتے کہ وہ پارلیمان سے اپنے استثنیٰ کو ختم کرنے کی درخواست کرتے ہیں جس سے ان کا اور ان کی سیاسی جماعت کا قد کاٹھ بڑھتا۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں