طالب علمی کی چھوٹی سی غلطی پر جج کے عہدے سے سبکدوشی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جناب طارق محمود جہانگیری کی قانون کی ڈگری کو غیر معتبر قرار دیتے ہوئے اپنی ہی عدالت نے عہدے سے ہٹانے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں جن پر افسوس، افسردگی اور حیرانگی تو ہے ہی مگر یہ قابل احظاظ بھی تو ہے۔

وہ پچھلی سماعت پر قسمیں کھا کر ان کو یقین دلانے کی کوششیں کرتے رہےکہ انکی ڈگری اصلی ہے، دنوں اطراف سے اعتماد کا فقدان تو تھا ہی مگر کم از کم اپنے ہم منصب ہونے کا ہی حق ادا کر دیا ہوتا انکی مرضی کے کسی بنچ سے سماعت کی خواہش تو پوری کر دی ہوتی۔ 

انصاف کے تقاضے اپنی جگہ، ٹھیک ہے شواہد کی موجودگی میں جج بے بس ہوتا ہے مگر اتنی بھی بے رخی کیا ہوئی؟ جہانگیری صاحب بنفس نفیس ہمراہ ایک معزز خاتون جج سندھ ہائیکورٹ میں بھی پیش ہوئے اور انہوں نے سننا تک گوارا نہیں کیا۔ ویسے اگر ایک اعلیٰ درجے کی آئینی عدالت کے ہم منصب ججز کو ایک دوسرے پر اعتماد نہ ہو تو پھر عام لوگوں کو اس بارے خدشات پر کیسے تسلی دی جا سکتی ہے۔

 انہوں نے یونیورسٹی کی طرف سے نا اہلی کو چھپاتے ہوئے نئی رجسٹریشن سے ڈگری لے لی جس کی بنیاد صرف اتنی سی ہی ہے کہ  اپنے زمانہ جوانی اور طالب علمی میں چھوٹی موٹی  نقل لگالی یا ممتحن کو دھمکی دے بیٹھے۔ طالب علم کی غلطی پر جج کی نا ہلی یہ کیسا انصاف ہے؟ ویسے بھی اگر ہماری تعلیم میں کردار سازی کی اہمیت کا تصور ہوتا تو آج یہ وطن نام نہاد پڑھے لکھوں کے ہاتھوں بدعنوانی کی چیخا میں جھلس نہ رہا ہوتا۔ 

انکی اعلیٰ ظرفی اور ذہانت دیکھئے کہ انہوں نے نئی رجسٹریشن میں اپنی ولدیت میں مبینہ طور پر صرف قاضی (قاضی محمد اکرم) کا اضافہ کر کے اپنا اُلو سیدھا کر لیا۔ گویا روایتی انداز قضاء کا انکی گُھٹی سے حسین امتزاج ہو

درسگاہ تو ماں کا درجہ رکھتی ہے اس کو اس قدر سختی والا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے تھا۔  اس چھوٹی سی پھرتی کو درگزر کرتے ہوئے خاموشی اختیار کر لیتے۔ کیا ہوا گر انہوں نے با امر مجبوری غلط بیانی کر ہی لی تو یہ ماحول کا اثر بھی ہو سکتا ہے۔ اس دور کی کراچی کی نقلیں اور سندیں تو ویسے بھی مشہور ہیں۔ 

اس پر مجھے ایک سنجیدہ لطیفہ یاد آگیا۔ ایک دفعہ ایک آئینی ادارے کی بھرتی کے دوران سندھ سے ایک تعلیم یافتہ امیدوار ایم اے انگریزی سے جب انگریزی زبان میں سوال کیا گیا تو اس کی خاموشی پر استفسار کرنے سے اس کا جواب تھا کہ اس نے ایم اے انگلش اردو میں پڑھ کر کیا ہوا ہے۔ 

اسلام میں کسی کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کا حکم بھی تو ہے اسی کا خیال کر لیا ہوتا۔ ضرور کسی نے جہانگیری کی مادر علمی کے کان بھرے ہونگے وگرنہ اسے اپنے ہونہار طالب علم پر فخر کرنا چاہیے تھا کہ وہ اتنے بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ وہ جج بننے سے پہلے اسلام آباد بار ایسوسی ایشن، اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری، صدر اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے۔ 

جتنے سالوں کا ان کے پاس وکالت، بارز کی خدمت، ایڈووکیٹ جنرل اور جج کے عہدے کا تجربہ ہے اس کی بنیاد پر تو ان کو اعزازی ڈگری بھی دی جا سکتی تھی چہ جائے کہ ان سے پہلی بھی چھین لی جائے۔آج اگر القادر یونیورسٹی کے ہاں لاء فیکلٹی ہوتی تو وہ ضرور جج صاحب کو ان کی خدمات کے عوض صلہ دیتی۔

ریاست کے معززین سے گزارش ہے کہ جج کا عہدہ آپ کی عنائت تھی چاہیں تو واپس لے لیں مگر جناب کی گریجویشن چھین کر ان کی تعلیم اور محنت مزدوری کا زریعہ تو نہ چھینیں پہلے ہی ہمارا لٹریسی ریٹ بہت کم اور بے روززگاری عروج پر ہے

لگتا ہے کہ انہوں نے بنچ پر جانبداری کا الزام بھی ٹھیک ہی لگایا ہوگا کیونکہ اگر ان کا کوئی ہم خیال جج ہوتا تو وہ ضرور کوئی نہ کوئی تکنیکی بندوبست پیدا کر لیتے۔ جو آئین کی تشریح میں حالات کی موافقت سے ممکنات پیدا کرنے کے ماہر ہوں ان کے لئے یہ کون سا بڑا کام تھا۔

جہانگیری کی قسمت کہ ہم خیالوں کا دور نہیں رہا وگرنہ وہ یونیورسٹی کو مفاد عامہ کے تحت عدلیہ کو رسوائی سے بچانے کے لئے در گزر کرنے کا بھی تو کہہ سکتے تھے۔ وہ یونیورسٹی کو یہ بھی تو باور کروا سکتے تھے کہ انکی نا اہلی تین سال کے لئے ہی تو تھی جو کب کی ختم ہو چکی ہے۔ ان سے استفسار کر سکتے تھے کہ جس انرولمنٹ پر انہوں نے ایل ایل بی کی ڈگری پاس کی ہے اس میں کوئی نقل یا ڈسپلن کی خلاف ورزی ہے تو دکھائیں۔

کاش آج سوو موٹو کا اختیار ہوتا تو ایک معزز جج کے خلاف پریس کانفرنس کرنے پر عدالت یونیورسٹی کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے سارا معاملہ ہی اپنے پاس منگوا لیتی اور انکی رسوائی یوں خبروں کی ہٹ لسٹ پر نہ آتی۔

عدلیہ کا گھر کا معاملہ تھا اختیارا ت میں بھی کمی نہ تھی معاملہ جوڈیشل کمیشن بھیج دیتے یوں ان درخواستوں پر عمل میں چند دن کا وقفہ مل جاتا اور وہ اپنی بحثیت جج مراعات کے اہلیت کو پہنچ جاتے تو وہ خود ہی استعفیٰ دے کر اپنے منصب سے علیحدہ ہو  جاتے کم از کم انکی مراعات تو ضائع نہ ہوتیں بلکہ سنا ہے کہ انہوں نے وزیر قانون کو مبینہ طور پر پیشگی اپنا استعفیٰ بھی دے دیا تھا۔ 

نا اہلی  اور وہ بھی ججوں کے خلاف عادی درخواست گزار میاں داؤد کے دعوے پر جن کے سر پہلے بھی عدلیہ کی بدنامی بارے مظاہر نقوی کی نا اہلی کا حساب ابھی باقی ہے۔ میاں داؤد بھی اب تو ججوں کو ڈرانے کا ایک برانڈ نیم بناتا جا رہا ہے اگر یہ سلسلہ نہ تھما تو کل سیاسی مخالفین ایسے ججز کو کہنے لگیں گے کہ میاں داؤد کو بلاوں؟ 

سمھیں تو اس میں بھی سبق ہے کہ میرٹ کی بجائے چیرٹی کے طور پر بانٹے گئے عہدوں کی بنیادوں پر مستقبل کی عمارتوں کی پائیداری اتنی ہی ہوتی ہے۔جو لوگ جعلی ڈگریوں پر جج بنوا سکتے ہیں انکو وہاں سے ہٹوانا کون سا مشکل ہے۔ 

ویسے ہمارے ججوں میں جذبہ منصفی ہے قابل دید اور قابل داد کہ وہ اعتراض کے باوجود بھی سماعت سے علیحدہ نہیں ہوتے اور کام سے روک دینے پر افسردہ ہو جاتے ہیں جیسا کہ جہانگیری صاحب کو مقدمات کی سماعت نہ کرنے پر افسوس ہوا یا سرفراز ڈوگر بنچ میں بیٹھنے پر اعتراض کے باوجود بھی سماعت پر بضد رہے۔ 

شائد انہیں دوسروں کی نسبت اپنی صلاحیتوں پر زیادہ بھروسہ تھا جس سے کچھ اور ہو یا نہ ہو انکی خود اعتمادی تو ظاہر ہوتی ہی ہے۔ ویسے بھی اگر اس ملک میں اسلامی شعار یا اخلاقی  اقدار کا بھرم ہوتا تو جن کو ایسے عہدوں کی خواہش ہوتی ہے ان کی تعیناتیاں ہی کیوں کی جا رہی ہوتیں۔ 

مجھے ہمدردی ہے جناب سے کہ نظام قانون و انصاف انکے موافق نہیں پڑ رہا وگرنہ اتنی چھوٹی سی بات پر تو وکیلوں کی ہڑتال کی دھمکی بھی کافی تھی وہ آخر اتنے زیادہ وکیلوں کے سنئیر  بھی تو ہیں۔ویسے آج جو وکلاء نکلے ہیں ان کی بھی ہمدردیاں  انصاف کے لئے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے لئے محسوس ہو رہی تھیں۔

لگتا یوں ہے کہ وکلاء بھی اندر اندر سے بارز کی ایسی قیادتوں سے نالاں ہیں جو عہدے حاصل کر کے پوری برادری کے لئے بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ وہ خوش ہیں ایسے حوادثات سے جن سے شائد عہدوں کی تمنا مانند پڑ جائے۔

یوں اہلیت کے اصولوں سے بے بہرہ ور نظام عدل میں تعنیاتیوں کے ہاتھوں اپنے ہی ہم منصب کی نا اہلی کسی بدلے بدلے ماحول کا پیش خیمہ لگتی ہے۔ ججز کے استعفوں اور نا اہلیوں کے رجحان سے تو جوڈیشری کی بھل صفائی ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے جس کے تانے بانے ہم خیالی انصاف سے ملتے دکھائی دیتے تھے۔    

مجھے اب بھی امید ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف ضرور اپیل میں بھی جائیں گے جیسا کہ انہوں نے پہلے بھی نہ صرف بنچ پر اعتراضات اٹھائے بلکہ ان کے خلاف وفاقی آئینی عدالت بھی گئے۔ شائد کوئی ہم خیال تکنیکی بندوبست کام آ جائے جو ان کی بھرتیوں کے دور میں عدالتوں کی روایات کے مطابق ان کا برادرانہ حق بھی ہے۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

دیکھے جانے کی تعداد