کیا پاکستان میں جمہوریت صرف اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کا نام ہے خواہ وہ اسٹیبلشمنت کی گود میں بیٹھ کر ہی داغے جا رہے ہوں یا جمہوری اقدار پر عمل کرنا بھی ضروری ہے؟
ابھی چند سال پہلے ہی وہ اپنے دائیں بیٹھی جماعت تحریک انصاف کے خلاف سڑکوں پر تھے جبکہ وہ ہائبرڈ جمہوریت کی ایک نئی اصطلاح متعارف کروانے میں مصروف تھے۔کیا ان سے اب جمہوری اقدار پر عمل درآمد کرنے کی یقین دہانی حاصل کر لی گئی ہے؟
کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے مطلوبہ ہدف کی راہ میں رکاوٹ کا مقابلہ کرنے کے لئے اس کی سطح کی طاقت کا ہونا ضروری ہے جس کے بغیر کامیابی کا تصور ممکن نہیں۔ اور پاکستان میں جمہوریت کی کامیابی میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی یہی ہے۔
اب ایسا کیوں ہے اس کی ایک بہت ہی سادہ سی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ خواہ اس کا آئینی درجہ کم ہی سہی مگر اس کے اندر وہ تمام صلاحیتیں اور اہلیت موجود ہے جو حاوی رہنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں جبکہ جمہوریت میں سیاستدانوں کے اندر وہ صلاحیتیں اور اہلیت ہی نہیں۔
سیاسی جماعتوں کے اندر اپنے منشور کی بنیاد پر باہمی اختلافات بھی ہوتے ہیں مگر ملکی سطح پر جمہوریت کے آپریٹر ہوتے ہوئے انکی ایک تنظیم کی حیثیت ہوتی ہے۔ جس کے اندر وہ تمام صلاحیتیں اور اہلیت ہونی چاہیں جو جمہوریت کے خلاف کسی بھی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ اب یہ صرف ہارڈ پاور سے ہی ممکن نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے سافٹ پاور کا ہونا بھی ضروری ہے جس کی بنیاد اعلیٰ اخلاقیات اور سیاسی شعور ہیں۔
آئین کی پاسداری اور تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ اس پر سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کا خود عمل ہو پھر وہ دوسرے اداروں سے اس پر عمل کو یقینی بنوا سکتی ہیں۔
پی ٹی آئی جب اقتدار میں تھی تو ان کو عدم اعتماد کے زریعے سے ہٹایا گیا جو آئین کے عین مطابق تھا اور یہ کہنا کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاستدانوں پر دباؤ ڈال کر ان سے ایسا کروایا ایک انتہائی نا مناسب بات ہے جو غیر سیاسی اور نا اہل سوچ کا نتیجہ ہے ۔ کیونکہ اگر سیاستدان استعمال ہوئے تو وہ استعمال کرنے والے کو گالیاں دینے کی بجائے استعمال ہونے والوں کا محاسبہ کیوں نہیں کرتے؟میرے خیال میں تو ایسا کہنا بھی گویا اپنی نا اہلی کو ثابت کرنے کے مترادف ہے۔ جب آپ میدان میں اترتے ہیں تو دنگل اپنے زور بازو پہ جیتنے ہوتے ہیں اس وقت یہ جواز کوئی حیثیت نہیں رکھتے کہ ہمیں زور نہیں لگانے دیا جا رہا۔
جب آئینی طور پر ان کی حکومت گرائی گئی تھی اسے تسلیم کیا جا نا چاہیے تھا۔ محمود خان اچکزئی اس وقت حکومت ہٹانے والوں میں شامل تھے ااور اگر تحریک انصاف کا موقف ٹھیک ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ محمود خان اچکزئی خود اس وقت اسٹیبلشمنٹ سے استعمال ہونے والوں میں تھے۔
اگر یہ سب ٹھیک ہے تو پھر اس کا اعتراف بھی تو ضروری ہے۔ اور اگر تحریک انصاف کا موقف ٹھیک نہیں تو پھر اس کا مطلب ہوا کہ آئین کی حالت سے اتنا فرق نہیں پڑتا فرق پڑتا ہے تو سیاستدانوں کے کردار سےکہ وہ کس قدر جمہوری ہیں۔
کسی بھی ریاست کا آئین اس کے چلانے کے لئے ایک انسٹرومنٹ ہوتا ہے جس کا تحریری صورت میں ہونا بھی کوئی ضروری نہیں۔ تحریری صورت میں ہونا محض ایک فارمیلٹی ہے۔ اصل ضرورت اس کے تقدس کا احساس ہے جس کی موجودگی میں اس کا تحریری ہونا اپنی حیثیٹ کھو جاتا ہے اور اگر یہ احساس نہ ہو تو تحریری ہونا بھی اپنی حیثیت کو منوانے میں نا کام رہتا ہے۔
جس کی مثال انگلینڈ اور ہمارے آئینی سے واضح ہو سکتی ہے۔ ان کا آئین تحریری نہ ہونے کے باوجود ان کے دل میں قومی سطح پر تقدس ہونے سے اپنی حیثیت کو منوانے میں کامیاب ہے مگر ہمارا آئین تحریری ہونے کے با وجود بھی تقدس نہ ہونے کی وجہ سے اپنی حیثیت کو منوانے میں ہمیشہ نا کام رہا ہے۔
اس تقدس کی سب سے زیادہ موجودگی سیاستدانوں کے اندر ضروری ہوتی ہے کیونکہ ان کی عوامی مینڈیٹ کے حصول کے بعد اہم ذمہ داری اس پر عملدرآمد، حفاظت اور اس میں ملک و قوم کی فلاح کے لئے اصلاحات لانا ہوتی ہے۔ جب وہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے قابل نہ ہوں تو پھر آئین کے تقدس کو یقینی بنانا ممکن نہیں رہتا بلکہ وہ خود ہی اس کے لئے خطرہ بن جاتے ہیں اور یہی سب کچھ پاکستان کے آئین کے ساتھ ہو رہا ہے۔
اب اس کا حل آئین کی حفاظت بارے محض ڈھنڈورا پیٹنے سے ہونے والا نہیں بلکہ سیاستدانوں کو اپنے اندر اور قومی سطح پر شعور اور اعلیٰ اخلاقیات کو یقینی بنانا ہوگا یا پھر انہیں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے انہیں ملکی سیاست میں مستقل طور پر کوئی کردار دینا ہوگا جس کے ایک بہترین حل کے طور پر ہم اپنی جمہوریت کو چائنا کی طرز پر استوار کر سکتے ہیں۔
اخلاقیات اور شعور پر کام کرنے کے لئے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے قوم سے معافی مانگنا ہوگی اور پھر سیاسی برادری کے اندر اپنے بارے اعتماد کو بحال کرنا ہوگا اس کے علاوہ کوئی بھی اس طرح کی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔
جب قوموں کے اندر اعلیٰ اخلاقیات اور شعور ہوتا ہے تو پھر وہاں نظام خود بخود ہی مضبوط ہو جاتے ہیں جس کی مثال ہم سکینڈیوین یا نارتھ امریکن ممالک سے لے سکتے ہیں۔ وہاں آپ کو جمہوریت مضبوط دکھائی دیتی ہے تو اس کی بنیاد ان کی اخلاقی اور جمہوری اقدار ہیں۔
اگر ہم کہیں کہ اس ضمن میں تمام سیاسی جماعتوں خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں کسی کی بھی حالت تسلی بخش نہیں یا سب نے ہی کسی نہ کسی دور میں جمہوری اقدار پر سمجھوتہ کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار کے حصول کے عمل میں شرکت کی ہے تو یہ بجا ہوگا
مگر ماضی میں سیاسی جماعتوں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے کسی نہ کسی حد تک جمہوریت کو مضبوط کرنے کی کوششیں بھی تو کی ہیں جن میں سب سے نمایاں میثاق جمہوریت کے نام پر پاکستان کی بڑی دو سیاسی جماعتوں میں ایک معاہدہ بھی ہے جس کے بعد جمہوریت کی مضبوطی کے عملی اقدامات اور نتائج بھی دیکھنے کو ملتے رہے جن کو نقصان پی ٹی آئی کی سرگرمیوں نے پہنچایا ہے۔
ہائبرد جمہوریت کی اصطلاح انہیں کی جمہوریت مخالف سرگرمیوں کی پیداوار ہے جس نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون کو پھر سے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے بگڑتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لئے ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ان حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی بھی کوشش کی کامیابی کے چانسز بہت ہی کم ہونگے
پی ٹی آئی کی ان سرگرمیوں سے نہ صرف جمہوریت کو نقصان پہنچا بلکہ پاکستان کے اداروں جن میں فوج اور خاص طور پر عدلیہ شامل ہے کی ساکھ بھی بری طرح سے متاثر ہوئی۔
موجودہ حکومت کو جو ہائبرڈ جمہوریت کے طعنے دئیے جارہے ہیں وہ ٹھیک موقف نہیں کیونکہ جب اس اصطلاح کی حامل حکومت کو ختم کیا گیا تو ان کوششوں کے جناب محمود خان اچکزئی بھی گواہ ہیں جس کے اندر جرنیلوں کا کوٹ مارشل کر کے ایک نئی مثال قائم کی گئی ہے۔ اگر کوئی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے کوشش کرے تو تنقید کی بجائے اس کو داد دی جانی چاہیے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس نئے منظرنامے میں اسٹیبلشمنٹ ہائبرڈ ہوئی ہے۔
عمران خان کی سیاست میں سوشل میڈیائی سرگرمیاں جن میں فوج کے سربراہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے کیا پاکستان کے حق میں ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو عمران خان کی سیاست کو موجودہ ماحول سے موافق بنانے کی کوششوں میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
کیا ابھی جو محمود خان اچکزئی نے عمران خان کے ساتھ ملاقاتوں کی شرط پر مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کو آگے بڑھ کر مزاکرات کی دعوت دی ہے ان سرگرمیوں کی موجودگی میں کام یاب ہو سکتی ہے؟ قطعاً بھی نہیں کیونکہ عمراں خان کی تو ساری سیاست کی بنیاد ہی اپنے سیاسی مخالفین اور نئی اسٹیبلشمنٹ جن سے ان کو سہولتکاری میسر نہیں آ رہی کے ٹرولنگ ہے جس کے بغیر وہ اپنی سیاست کی موت سمجھیں گے۔جن کو انہوں ایک بار پھر دہرا دیا ہے۔ اور انکے موقف اور سرگرمیوں میں تبدیلی یا اس کی یقینی دہانی کے بغیر ساتھ چلنا بھی خطرات سے خالی نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے پر اعتماد نہ کرنے کی تصدیق کر دی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں