عدالت عالیہ کا جذباتی اور جارحانہ حکمنامہ

عدالت عالیہ نے پنجاب پراپرٹی اونرشپ آرڈیننس کے تحت فیصلوں کو نہ صرف روک دیا بلکہ کئے گئے فیصلوں کو بھی واپس کر دیا جو ایک انتہائی حیران کن انصاف ہے جس کے اندر قانون و انصاف کے تقاضے کہاں تک پورے کئے گئے وہ بہتر جاتنی ہونگی مگر ان کے اخبارات کی زینت بننے والے کمنٹس سے ابھرتے جذبات اور جارحانہ انداز سے بہت ہی مختلف اشارہ مل رہا ہے۔

انکا یہ کہنا کہ اگر آرڈیننس رہ گیا تو جاتی امرا بھی آدھے گھنٹے میں خالی کروا لیا جائے گا بالکل اسی طرح کا انداز منصفی ہے جو بابا رحمتے قانون ساز اسمبلی کے ممبران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ دو چار ایم پی اے تو میں کھڑے کھڑے گھر بھیج دونگا۔ 

انہوں نے مبینہ طور پر چیف سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کمیٹی کے متعلق ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان کو زیادہ انصاف کا شوق ہے تو ایل ایل بی کا امتحان دیں جج لگ جائیں۔ میرے خیال میں تو وہ امتحان  دے کر ہی اس عہدے پر بیٹھے ہیں لیکن جج بننے کے لئے امتحان دینا کوئی شرط نہیں جس کی مثال کے لئے عدالت عالیہ یا عظمیٰ کے کسی بھی جج کا عہدہ کافی ہے۔

عدالت عالیہ سے عرض ہے کہ  ایل ایل بی قانون کو سمجھنے کے لئے ہوتی ہے لوگوں کے تنازعات ختم کرنے کے لئے ضروری نہیں اور اگر کسی کو ایل ایل بی کرنے کے بعد بھی قانون کی سمجھ نہ آئے تو پھر اس کا کیا کیا جائے یا جو جج بننے کے بعد بھی قانون کی دھجیاں اڑاتا پھرے اس کا کیا کیا جائے؟ کیا ایل ایل بی پڑھنے کے بعد آئین کی ایک ہی جج دو تشریحات کر سکتا ہے؟ قانون تو کیا یہ عقل کے پیمانوں پر بھی پورا اترتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ ایل ایل بی تو قانون ساز اسمبلی کا ممبر بننے کے لئے بھی ضروری نہیں جو قانون و آئین کے خالق ہیں۔ جن کے قلم کی جنبش سے آئین و قانون ہی نہیں بلکہ عدالتیں معرض وجود میں آئیں۔

ایل ایل بی میں تو انہی قوانین کے مجموعے کا علم اور اس کے استعمال اور ڈاکٹرائن پڑھائی جاتی ہیں جسکا عملی اطلاق ہو رہا ہوتا تو آج ہمارے ملک کا یہ حال ہوتا؟ 

عصر حاضر کے قاضی کے لئے علم و تجربہ سے زیادہ ریفرنس چاہیے ہوتے ہیں۔ اگر قاضی کی اہلیت کی شرائط کو دیکھا جاتے تو اس میں پہلی شرط ہی یہ ہے کہ اس کو اس عہدے کی خواہش نہ ہو۔ آج ہمارے نظام عدل میں کتنے ایسے ججز ہونگے جو اس شرط پر پورے اترتے ہونگے؟

اگر آرڈیننس کو پڑھا جائے تو ان کمیٹیوں کو ڈسپیوٹ ریزولیشن کمیٹیوں کا نام دیا گیا ہے جو چھ ممبران پر مشتمل ہوتی ہیں جن میں ڈپٹی کمشنر، ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر، متعلقہ اسٹنٹ کمشنر، ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر، علاقے کا متعلقہ ڈپٹی پولیس آفیسر اور ایک کسی سرکاری ایجنسی سے کمیٹی کی طرف سے لیے گئے ممبر پر مشتمل ہوتی ہے۔ 

پاکستان کا آئین و قانون ہی کمشنرز کو زمینوں کے متعلق تنازعات کے فیصلوں کا اختیار دیتا ہے اور ان کی تعناتیوں کے لئے ایل ایل بی کا ہونا کوئی شرط نہیں۔

تنازعات کو ختم کرنے کے لئے تو عدالت کا ہونا بھی ضروری نہیں پولیس کو تنازعات نمٹانے کا اختیار ہے اور ان کی تنازعات متعلق تفتیشیں ہی عدالتی فیصلے کی بنیاد ہوتی ہیں اور ان کی رائے پر عدالتیں انصاف کی مہر ثبت کرتی ہیں۔

ہم نے پنچائتوں کے ایسے ایسے انصاف دیکھے ہیں جن پر عدالتیں بھی بڑے فخر سے اپنی مہر ثبت کرتی ہیں۔ انکی ساکھ ہی انکے فیصلوں کی اتھارٹی ہوتی ہے۔ انکی غیر جانبداری، شفافیت اور برابری کا عمل ہی ان کا برانڈ ہوتا ہے۔ 

ان کمیٹیوں اور ٹربیونلز نے ریاست کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے کتنی محنت سے معاملات کو نمٹایا ہوگا۔ یہ کمیٹیاں تو حقوق ملکیت کے ریکارڈ پر فیصلے کرتی ہیں جن کے اندر نا انصافی کے نہ ہونے کے برابر چانس ہوتے ہیں۔

اب اگر کسی کی طبیعت یا رسم و رواج پر بھاری اترے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں تو بیٹیوں اور بہنوں کو جائیداد میں حصہ دینا یا مانگنا بھی بے غیرتی اور بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔ ایسی عزت اور غیرت کی رکھوالی کے لئے عدالتوں کے سہارے سال ہا سال مقدمات زیر التوا رہتے ہیں۔ 

ہو سکتا ہے اس آرڈیننس میں قانونی سقم ہوں مگر ان کی نشاندہی کر کے اصلاح کی کوشش کی جاتی۔ ہو سکتا ان کے قریب یہ بھی سقم ہو کہ اس میں وکیل کے زریعے نہیں بلکہ ذاتی حیثیت میں پیش ہونا ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ بھی قانونی سقم ہو کہ عدالت میں اگر کوئی معاملہ زیر التوا ہو تو عدالت کو عرض کر سکتے ہیں کہ وہ معاملہ ان کو بھیج دیں۔ انکے نزدیک یہ بھی سقم ہو گا کہ وہ طوالت پر مبنی ضابطوں کا نہیں اپناتے جن میں بابے آدم کے دور کے اخباری اشتہارات وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک یہ بھی سقم ہوگا کہ فیصلہ 90 دنوں میں کرنا انصاف کا تقاضہ ہے۔ انکے نزدیک یہ بھی سقم ہوگا کہ قبضہ کا حصول فیصلے کا حصہ ہے ایسا نہیں کہ سائل کے ہاتھ میں فیصلہ تھما دیا جائے اور وہ اس پر عمدرآمد کے لئے در بدر دھکے کھاتا پھرے۔

مگر یہ قانونی سقم نہ تو اس آئین و قانون کی خالق قانون ساز اسمبلی کے نزدیک ہے اور نہ اس آئین کی اتھارٹی کے نزدیک جس کو آئین ہی آرڈینس جاری کرنے کا اختیار دیتا ہے اور نہ ہی اس غریب عوام کے نزدیک جن کے مظلوم، بے یارومددگار اور بے کس افراد اپنے حقوق کے حصول کے لئے سالہا سال عدالتوں کے باہر دھکے کھاتے ہیں مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ 

کیا روائتی نظام انصاف میں کوئی سقم نہیں جس کے اندر دادا انصاف کے لئے جاتا ہے اور پوتا فیصلہ تو شائد حاصل کر لے مگر اس کو یہ کئی نسلوں تک سمجھ نہیں آتی کہ اب اس پر عملدرآمد کیسے اور کب ہونا ہے؟ 

آپ کو معلوم ہے کہ اس آرڈیننس کے زریعے سے اپنا حق حاصل کرنے والوں کے عدالت عالیہ کے اس حکم امتناہی پر کیا ریمارکس ہیں؟ آج کل سوشل میڈیا پر کھل کر عدلیہ بارے عوامی اعتماد پر بات ہو رہی ہے۔ چند فیس بک کے حوالے سے شئیر کرتا ہوں۔

"تم لوگوں کو عدالتی سپریمیسی کی فکر ہے لیکن جس غریب کے پلاٹ کا قبضہ عدالت چھڑوانے میں 30 30 سال لگا دیتی ہے کسی قتل کے ملزم کو سزا دینے میں عدالت 20 20 سال ٹرائل کرتی ہے کسی غریب کی جمع پونجی لوٹی جانے پر عدالتیں ریکوریوں میں 5 5 سال گھسیٹتی ہے

کسی طاقتور سے غریب کے حق حلال کے پیسے دلوانے میں عدالتیں ملزمان سے حلفیہ بیان لیکر چھوڑ دیتی ہوں ایسے عدالتی نظام پر بلڈوزر پھیر دینا چاہیے"۔(عظمت علی)

"عدالتی بالا دستی کے نام پر نہ خود دھائیوں سے کچھ کیا نہ کسی اور کو کرنے دینا ہے سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ اگر ہماری عدالتیں اپنا کام کرتیں تو اس قانون کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی؟"(ناصر بٹ)

"آخر ججوں اور وکیلوں نے بھی تو روزی روٹی کمانی ہے۔ قتل، اغوا برائے تاوان جیسے مقدمات سی سی ڈی حل کر دے، تجاوزات اور قبضے پیرافورس چھڑوا دے تو ان دیوانی مقدمات کا کیا بنے گا جو یہ جج اور وکیل ملی بھگت سے سے تاریخ در تاریخ دے کر لٹکائے رکھتے ہیں؟ با اثر مجرم ہی پیسے والا ہوتا ہے ریٹ بھی زیادہ وہی دیتا ہے اب اگر حکومت ان طاقتور پارٹیوں کو فِکس کرنے لگے تو ہمارا نظام انصاف تو بے روزگار ہو جائے گا۔ عدلیہ اپنی برادری کے معاشی قتل عام پر خاموش کیسے رہ سکتی ہے۔

یقین کریں کہ پاکستان میں ہر خرابی کی جڑ ہماری عدلیہ ہے اور ہر جُرم کے سرپرست مسند عدل پر بیٹھے انصاف فروش درندے ہیں"۔(ظفر الاسلام)

 ان میں سے بہت سارے سخت فقرے میں حزف کئے ہیں۔ ان کی باتیں ٹھیک ہیں کیونکہ ہمارا مروجہ نظام انصاف ظالم کی حمائت میں زیادہ اور مظلوم کے حق میں کم ہے۔ ظالم جائیدادوں پر قبضے کرکے عدالتوں سے اسٹے آرڈر لے لیتے ہیں اور پھر سالوں اس پر طوالت کے زریعے فائدے اٹھاتے رہتے ہیں۔

اگر قانونی سقم ہوں تو بھی کوئی جج اپنے سامنے مقدمے پر تو حکم امتناہی جاری کر سکتا ہے مگر کسی آئینی و قانونی انتظامی عہدیدار یا کسی آئینی و قانونی کمیٹی، ٹربیونل یا اتھارٹی کے ایسے فیصلے جن کا ان کو علم ہی نہ ہو کو بغیر دیکھے کیسے ختم کر سکتا ہے؟ 

میرا یہ بھی سوال ہے کہ زمینوں کے تنازعات کے فیصلےکرنے کا جو اختیار محکمہ مال کے پاس ہے وہ آئینی و قانونی ہے یا نہیں اور کیا عدالتیں ان کے ریکارڈ کے بنیاد پر فیصلے نہیں کرتیں؟ 

کمیٹیوں کو مبینہ طور پر اس بنیاد پر کام کرنے سے روکا گیا ہے کہ اس سے سول رائٹس اور جوڈیشل سپرمیسی ختم کی گئی ہے حالانکہ آرڈیننس میں اگر کمیٹی فیصلہ نہ کر پائے تو ٹربیونل کو بھیج سکتی ہے جس کو سول کورٹ کا درجہ حاصل ہے جس میں لاء گریجویٹ ہی ہونگے اور اس کے فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے جسے چیف جسٹس کا بنایا ہوا ڈویژن بنچ سنے گا۔ 

عدالت عالیہ نے کیس کو فل کورٹ بنچ کو بھیج دیا ہے جو خوش آئیند ہے کہ کم از کم انہوں نے اپنے جذباتی اور جارحانہ سوچ کی طبع آزمائی کی بجائے فل کورٹ کو ایک اجتماعی رائے قائم کرنے کا موقع دیا اور یقیناً یہ فیصلہ پاکستان کی تاریخ میں کیس سٹڈی ثابت ہوگا۔ چونکہ یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے اس لئے اس پر مزید کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ ان کے آئینی و قانونی رتبے کے تقدس کا بھی احساس ہے مگر اس بھی زیادہ اپنی عزت کا خیال ہے۔

حکومت سے گزارش ہے کہ یہ آرڈنینس مفادات عامہ کا معاملہ ہے اس لئے اس پر پوری تیاری کے ساتھ پیش ہوں اور اس معاملے کو وفاقی آئینی عدالت کو ریفر کیا جانا چاہیے تاکہ قانون ساز اسمبلی اور عدالتوں کے اختیارات کی تشریح احسن طریقے سے ہو سکے۔ اس کیس کی کاروائی بھی قومی نشریاتی اداروں کے زریعے سے براہ راست دکھائی جانی چاہیے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

دیکھے جانے کی تعداد