معاشرے کی قید


    اچھے رویے بہت اہم ہوتے ہیں 

    وہ بس سٹاب پر کھڑی ویگن کا انتظار کر رہی تھی ۔

    سوچوں میں گم ، اکتاہت سے بیزار سوچ رہی تھی

    کیا یہ زندگی ہے روز ایک ہی روٹین ، چل سو چل ، گھر کے کام ، سکول کی ڈیوٹی ، زندگی میں کوئی شغل نہیں ، کوئی منزل نہیں ۔ اچانک گاڑی کے ہارن نے اسے چونکا دیا ۔ ایک کار میں بیٹھی عورت اس کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی ۔

    پہلے تو ایک لمحے کے لئے وہ ششدر ہو کر رہ گئی اس نے اپنے ارد گرد دیکھا کہ کہیں وہ کسی اور کو تو نہیں بلا رہی ۔ اس کے ارد گرد کوئی بھی نہیں تھا ، اس سٹاپ پر وہ اکیلی ہی کھڑی تھی پھر اسے خیال آیا کہ ہوسکتا ہے اس نے راستہ پوچھنا ہو ، کوئی معلومات چاہیے ہوں ، وہ آگے بڑھی اور جھک کر اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے سلام عرض کیا اور سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگی کہ وہ کوئی سوال کرے گی ۔

    مگر اس کی توقعات کے برعکس اس نے پوچھا کہاں جائیں گی؟ ایک بار دوبارہ اسے حیرانی ہوئی کہ مرد حضرات تو اکثر مڑ کر دیکھتے تھے ، سوالیہ نظروں سے اس کی مرضی جاننے کی کوشش کرتے ، بعض تو پوچھ بھی لیا کرتے تھے کہاں جائینگی ۔ مگر وہ کبھی کسی کو جواب نہیں دیا کرتی تھی ، کیونکہ یہ روز کا معاملہ تھا اور وہ اس کی عادی ہوچکی تھی ، شروع شروع میں وہ برا مناتی ، اکتاہٹ بھرے چہرے سے تیکھی نظروں دیکھتی اور کبھی کبھی اس کے جواب میں بہت سے تاثرات بھی ملنے کو ملتے ۔

    اب وہ اس سارے ماحول کی عادی ہوچکی تھی اس کو معلوم ہوگیا تھا کہ یہ سب کچھ اس کے معاشرے اور ثقافت کا حصہ ہے ۔

    خیر یہ وہ ساری خیالی فلم تھی جو اس کے ذہن میں چل رہی تھی ۔

    اس نے عورت کو جواب دیا کہ سکول جارہی ہوں ۔

    اس عورت نے پوچھا کون سے سکول ؟ میں میلوڈی کی طرف جارہی ہوں اگر آپکا سکول راستے میں  ہو تو آپ میرے ساتھ بیٹھ سکتی ہیں ۔

    وہ ایک لمحے کی لئے جھجکی ، جسے وہ عورت بھی سمجھ گئی تھی ۔

    وہ فوراً بولی ، گھبرائیے نہیں میں تو ویسے بھی خالی ہی جارہی ہوں سوچا آپ کو بھی بٹھا لیتی ہوں ، گپ شپ بھی ہوجائے گی ، سفر اچھا گزر جائے گا اور آپ کا بھی بھلا ہوجائے گا ۔

    یہ سن کر وہ چاہتے نہ چاہتے اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی ۔

    گاڑی چل پڑی ۔ ۔ ۔ ۔

    عورت نے سوال کیا کہ کون سے سکول میں پڑھاتی ہیں ؟

    اس نے بتا یا کہ جی سکس سکول میں ۔

    وہ عورت بولی میرا نام شائستہ ہے اور میں ایک سائیکالوجسٹ ہوں ۔ میلوڈی میں اپنا کلینک کرتی ہوں ۔

    اسے اطمنان ہوا کہ وہ ایک پڑھی لکھی عورت کے ساتھ بیٹھی ہے ، اس کا دل اس کو گواہی دینے لگا کہ خطرے والی کوئی بات نہیں بلکہ اب خوشی سے اس کی آواز میں بھی وجاہت جھلکنے لگی اور اس نے اس کو جواب دیا کہ میرا نام صغریٰ ہے میں ای ایس ٹی ہوں ۔

    شائستہ چونکہ تجربہ کار پیشہ ور خاتون تھی اور اس کا شعبہ بھی لوگوں کے دلوں کا حال جاننا اور ان کی سوچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے ان کی ذہن سازی کرنا ، ان کی سوچوں کی سمتوں کی راہنمائی کرنا اور دلوں کی حالت کو بدلنا تھا ۔

    اس کی شکل و صورت ، لباس ، چہرے کے تاثرات ، اس کے رویے ، گفتگو کا انداز ، آواز کا اتار چڑھاؤ اور نام سے بہت کچھ اس کے بتائے بغیر بھی جان گئی تھی  اور اس کے جاننے کے لئے اتنا ہی کافی تھا اور اب وہ صرف اس کی دوستی اور وقت کی ضرورت مند تھی اور وہ حاصل کرنے کا فن بھی   جانتی تھی جس میں اسے کبھی بھی مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا ۔

    پھر وہ رواجاً گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے بولی کہ کہاں رہتی ہیں ؟

    صغریٰ نے اپنا پتہ بتایا ، وہ اب اپنائیت محسوس کررہی تھی کہ وہ ایک پڑھی لکھی ماہر نفسیات کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے اور اس پر وہ فخر محسوس کر رہی تھی ۔ اس کی تربیت اور ماحول میں اسے تعلیم اور کردار کی اہمیت ہی تو بتائی گئی تھی ۔ وہ شائستہ کے اخلاق اور ہمدردی سے بھی متاثر ہو رہی تھی کہ اس نے اس کی مدد کی ہے بلکہ وہ اس کی دل ہی دل میں ممنوں تھی اور اس کے احسان پر دل میں اس کی محبت محسوس کرنے لگی تھی ۔

    اس کا سکول اتنا دور نہیں تھا  ، اتنے میں وہ سکول کے قریب پہنچ گئیں ۔ صغریٰ نے شائستہ کو بتایا کہ اس کا سکول اگلی گلی میں ہے ۔

    شائستہ نے بریک لگائی اور مسکراتے ہوئے چہرے سے اس کو الوداع کیا ، خیال رکھئے گا ۔

    صغریٰ نے احسان مندانہ لہجے میں اس کا شکریہ ادا کیا اور گاڑی سے نیچے اتر کر اس کو الوداع کرنے کے لئے مودبانہ انداز میں کھڑی ہوگئی ۔

    شائستہ کو اس کا انداز بہت اچھا لگا اور اس نے ایک بار پھرچہرے پر مسکراہت بکھیرتے  اس کی طرف دیکھتے ہوئے لبوں کو ہلکی سی جنبش دی پھر سامنے دیکھتے ہوئے  گاڑی کو چلا لیا ۔

    صغریٰ سکول کی طرف چل دی اور دل ہی  دل میں آج تسکین محسوس کررہی تھی کہ اس کی ملاقات ایک اچھی سوچ اور عمل رکھنے والی عورت سے ہوئی  ہے اور ایک پچھتاوا بھی محسوس کرہی تھی کہ اس سے ایڈریس تو پوچھا ہی نہیں ۔ اور ساتھ ہی دل میں اس نے ایک جستجو سی محسوس کی کہ کیا جانے پھر کب ملاقات ہوگی ۔ پھر اسے وہ خیال یاد آنے لگے جن سے شائستہ کے ہارن نے اسے آزاد کروایا تھا ۔ لیکن اب وہ ان لمحات کی اداسی نہیں بلکہ شائستہ سے ملاقات کے بعد ایک تسکین سی محسوس کرہی تھی اور اسے بدن میں ایک توانائی سی محسوس ہورہی تھی ۔ اس نے جھٹ سے اداسی کے خیالات کو جھٹک دیا ، وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی توانائی کا پھر سے نقصان ہو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بڑی تندہی سے چلتی ہوئی سکول پہنچی ۔ آج وہ وقت سے تھوڑا پہلے سکول پہنچ گئی تھی ۔

    سکول کے گیٹ پر کھڑے چوکیدار نے اسے سلام کیا تو اسے احساس ہوا کہ وہ ہمیشہ سلام کرنے میں پہل کیا کرتی تھی لیکن اسی لمحے اس نے اس کے بدلے میں مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے اس کے سلام کا جواب دیا ۔ وہ اتنی خود دار تھی کہ اس کو گوارا نہ ہوا کہ سالار (چوکیدار) اسے سلام کرنے میں پہلے کیوں کر گیا تھا اس نے اس کے احسان کا جواب مسکراہٹ سے دیا ۔

    ویسے عام حالات میں وہ ایک سنجیدہ لہجے میں سلام دیا کرتی تھی ۔ کیونکہ اس کی تربیت میں یہ سمجھایا گیا تھا کہ غیر محرم مردوں سے کبھی بھی فری ہوکر بات نہیں کرتے بلکہ ان کے ماحول میں مردوں کا آنا جانا ہی کم تھا مگر یہاں چونکہ سکول کے ماحول اور اس کے رتبے کا معاملہ تھا لہذا اسے مردوں کو بھی سلام کرنا پڑتا ۔ مگر وہ کبھی بھی کسی کے ساتھ فری نہیں ہوئی تھی ۔

    آج سالار کو بھی تعجب ہوا تھا کہ میڈم نے پہلی دفعہ مسکرا کر جواب دیا تھا اور اس کے ذہن میں کئی سوال اٹھ رہے تھے ۔ ہمارے ماحول میں چونکہ عورت کی مسکراہٹ کو خاص تاثر کا حامل سمجھا جاتا ہے لہذا اس لئے عموماً عورتوں کے چہروں پر ناگواری کے آثار زیادہ اور خوشی کے کم ہی ہوتے ہیں جو اس کی اس سوچ کی عکاس ہوتی ہیں جو ہماری اجتماعی معاشرت سے ملی ہے ۔

    عورت کو معاشرے میں انتہائی محتاط زندگی گزارنی پڑتی ہے ہمارے معاشرے نے اس کے کردار کو وہ اہمیت اور پاکدامنی کا مقام دیا ہے جس نے اس کی خواہشوں ، چاہتوں ، جذبوں اور احساسات کو اس کے اندر تک ہی محدود کرکے رکھ دیا ہے ۔

    اسے زندگی میں کم ہی موقعہ ملتا ہے ان کے اظہار کا ۔ پہلے باپ کی غیرتمندانہ  سوچ کے سامنے ملتجہ رہتی ہے پھر بھائی بڑے ہو جائیں تو ان کی عزت کا خیال اس کی ذمہ داری بن جاتا ہے اور پھر شادی ہوجائے تو اس کو ان کے اظہار کے لئے وقت ڈھونڈنا پڑتا ہے ۔ کیونکہ خاوند کسی کی موجودگی میں ان کا اظہار اور جواباً تاثر تنہائی کا سامان سمجھتا ہے کیونکہ دوسروں کی موجودگی میں اس کی مردانگی پر حرف آنے کا خطرہ ہوتا ہے ۔ اسے ڈر ہوتا ہے کہ کہیں اسے "رن مریدی " کا طعنہ نہ مل جائے ۔

    بہرحال آج شائستہ سے ملاقات نے اس کی مزاج کو ایک جدا ہی احساس دیا تھا ۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی تھی ۔ مگر گھر کے ماحول اور سہولیات کے میسر نہ ہونے کی وجہ سے وہ ڈاکٹر نہ بن سکی ۔ لیکن اس کو پڑھنے کا شوق تھا لہذا وہ گریجویشن کے بعد سکول ٹیچر لگ گئی  کیونکہ اس کے علاوہ دوسرے شعبوں میں نوکری  کی اس کے ماحول میں گنجائش نہیں تھی ۔ لہذا اسکا ٹیچر بننا اس کی خواہش نہیں بلکہ معاشرے کی قید تھا ۔ جسے وہ اپنی قسمت ، ماں باپ اور خاندان کی عزت اور معاشرے کے خوف کے پیش نظر وہ بڑی ماہرانہ انداز میں بیتائے جارہی تھی ۔

    فکر کو کبھی غم میں نہ بدلنے دیں

    شائستہ اپنے معمول کے مطابق اپنے کلینک پر پہنچی تو اس کے ملازم نے کلینک کی صفائی کردی ہوئی تھی اور اس نے حسب معمول اس کا پرتپاک انداز میں استقبال کیا ۔ سلام عرض کیا ، اس کے ہاتھ سے اس کا بیگ پکڑلیا ، اس کا دروازہ کھولا اور طائرانہ انداز میں اس نے اپنے کمرے کی صفائی اور چیزوں کا اندازہ لگایا اور اپنی کرسی پر بیٹھ گئی ۔

    سجاد ( ملازم ) اس نے بیگ اس کے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور باہر بیرونی دروازے پر اپنی ذمہ داری سنبھال لی ۔

    وہ دل ہی دل میں صغریٰ کے بارے سوچ رہی تھی اور اسے اس پر ترس آرہا تھا کہ جو عموماً اس کو اس کلاس کی لڑکیوں پر آیا کرتا تھا ۔ وہ سمجھتی تھی کہ یہ ان کی قسمت نہیں بلکہ ان کی سوچ کی سزا ہے جو ان کو اس حالت زار میں مبتلا کئے ہوئے ہے ۔

    ان کے گھر والوں نے ان کی سوچوں کو معاشرے کے جبر کے سامنے فرمانبرداری کے روپ میں ہتھکڑی لگا کر جکڑ دیا ہے ۔ ان کی زندگی کسی قیدی سے کم نہیں ہے ۔ وہ اپنی خواہشات ، چاہتوں اور احساسات کے معاملے میں آزاد نہیں ہیں ۔ ان کو معاشرے کے دئے ہوئے ضابطہ قیدبندی کی پاسداری میں زندگی گزارنی ہے اور یہی ان کا قصہ حیات ہے ۔

    وہ اسے ایک انسان کی زندگی نہیں سمجھتی تھی ۔ اس کا خیال تھا کہ انسان کی زندگی کا محرک اس کا شعور ہے جو اسے اپنی زندگی کے گزارنے کا وہ انداز بتاتا ہے جو اس کی اپنی مرضی کے تابع  ہوتا ہے ۔ وہ عورت کی آزاد خیالی ، حق اظہار رائے اور محسوسات کے اشاروں پر رقص کرتی حیات کو زندگی سمجھتی تھی ۔

    اسے بھی معاشرے کی ہتھکڑیوں نے جکڑنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے معاشرے سے بغاوت کر دی اور اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنے کا فیصلہ کیا ۔ اس کو مشکلات بھی پیش آئیں مگر اس نے مقابلہ کیا اور اس کی مرضی کی تکمیل اسے ہر قدم پر حوصلہ اور توانائی بخشتی رہی ۔

    وہ سمجھتی تھی کہ عورت کو اس قید سے بغاوت کرنی چاہیے اور اسے جب بھی جہاں بھی موقعہ ملتا وہ معاشرے سے انتقام لینے کی کوشش میں عورتوں کو بغاوت پر اکساتی رہتی تھی ۔

    اس کا زندگی گزارنے کا ایک اپنا انداز تھا اور اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ کوئی کیا سوچتا ہے وہ اپنے اصولوں اور مرضی کے تابع زندگی گزارنے کو اپنا حق سمجھتی تھی اور اس میں کسی کی دخل اندازی کو وہ خاطر میں نہیں لاتی تھی ۔

    اس کی پرورش ایک نواب خاندان میں ہوئی تھی اس کو زندگی میں تمام آسائیشیں میسر تھیں مگر معاشرے کی توقعات سے وہ بیزار رہتی تھی ۔ اسے یہ توقعات اس کی زندگی میں دخل اندازی محسوس ہوتی تھیں ۔ اس نے ان کا اظہار اپنے ماحول میں بہت ہی اوائل عمر میں کردیا تھا مگر اس کو قبولیت نہیں ملی تھی ۔ اس کو دلیل دی جاتی کہ اس کے پاس کمی کس چیز کی ہے مگر وہ اس کو دلیل نہیں طاقت سمجھتی تھی اور وہ  اس کے سامنے فرمانبرداری کو اپنی توہین سمجھتی تھی ۔ جب تک وہ نا توا تھی اس جبر کو کسی حد تک قبول کرتی رہی مگر جیسے ہی اس نے اپنی زندگی میں خود مختاری کے وسائل میسر پائے اس نے اپنے ماحول سے بغاوت کردی اور اپنی راہیں جدا کرلیں ، ان آسائشوں سے بھرپور پابندیوں میں گزارنے سے آزاد خیال خود مختار زندگی کو ترجیح دی اور ہسپتال میں جاب ملنے کے بعد ہاسٹل کی زندگی شروع کردی ۔  

    شائستہ بھی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر نمبر تھوڑے ہونے کی وجہ سے اس کو داخلہ نہ ملا ۔ اس کے والدین نے اسے پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنے کا کہا مگر اس کی خوداری نے اس کو اس کی اجازت نہ دی اور اس نے ماہر نفسیات بننا ہی مناسب سمجھا مگر آج وہ سمجھتی ہے کہ اس کی زندگی میں کئی اور فیصلوں کی طرح یہ فیصلہ بھی بہت ہی اچھا ہوا اور شائد اس کو تخلیق ہی اس مشن کے لئے کیا گیا تھا ۔

    وہ لوگوں کے دلوں میں گہرے چھپے رازوں کو بھی پالیتی ہے اور پھر ان میں چھلکتے غموں کا مداوا بننا اسے اچھا لگتا ہے ۔ وہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سہارا اور زندگی کا مقصد سمجھتی ہے ۔

    شائستہ انہی غیر معمولی مگر معمول کی سوچوں میں گم تھی کہ اس کا ملازم دستک دے کر اندر داخل ہوا اور مریض کے آنے کی اطلاع دی ۔ اس نے اسے اندر بھیجنے کی اجازت دے دی اور اپنی تمام تر سوچوں کو نفسیات کی طرف متوجہ دینے لگی ۔

    ایک نوجوان جوڑا داخل ہوتا ہے اور میڈم کہہ کر سلام عرض کرتے ہیں ۔

    شائستہ ان سے از راہ مذاق پوچھتی ہے کہ آپ میں سے مریض کون ہے ؟

    لڑکا اپنے ساتھ لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کو شائستہ کے ساتھ پڑے سٹول پر بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہے ۔

    وہ لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میرے پاس جتنے بھی جوڑے آتے ہیں ان میں اکثریت عورتیں ہی مریض کیوں ہوتی ہیں ؟

    لڑکا کچھ جواب دئیے بغیر ہلکا سا مسکرا دیتا ہے ۔

    وہ لڑکی سے پوچھتی ہے کہ کیا ہوا ہے ؟

    لڑکی بتاتی ہے کہ مجھے چکر سے آتے ہیں اور بعض دفعہ تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دماغ ساتھ چھوڑ رہا ہے ۔ میڈیکل ڈاکٹرز کو چیک کروایا ہے مگر ان کی تشخیص میں کچھ نہیں آیا ۔

    شائستہ : اچھا

    شائستہ بال پوائنٹ سے ہیڈ پیڈ پر کچھ لکھتے ہوئے اس سے پوچھتی ہے تمھارا نام ؟

    لڑکی جواب دیتی ہے : محوش

    خاوند کا نام : اقبال

    پھر لڑکے کی طرف دیکھتے ہوئے کہتی ہے کہ آپ تھوڑی دیر کے لئے باہر جاسکتے ہیں ۔

    وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں ۔ لڑکی بولتی ہے کہ یہ بیٹھے رہیں ۔ ان کا کوئی مسئلہ نہیں ۔

    شائستہ مسکراتے ہوئے لڑکی کو مخاطب کرتی ہے ۔

    شائستہ : ڈاکٹر میں ہوں یا آپ ؟

    لڑکی : خاموشی سے دیکھنے لگتی ہے ۔

    لڑکا یہ سن کر کمرے سے باہر چلا جاتا ہے ۔

    شائستہ لڑکی سے سوال و جواب کا سلسلہ شروع کرتی ہے ۔

    شائستہ : جی میری طرف دیکھئے ، شادی ہوئے کتنے سال ہوچکے ہیں ؟

    لڑکی : تین سال ۔

    شائستہ: بچے ہیں

    لڑکی : نہیں

    شائستہ : کیا وجہ ہے کوئی چیک اپ وغیرہ نہیں کروایا

    لڑکی : نہیں ۔ پہلے تو ہمارا پروگرام ہی نہیں تھا مگر اب کچھ تشویش سی رہنے لگی ہے ۔

    شائستہ : آپ لوگ اکیلے رہتے ہیں یا فیملی کے ساتھ

    لڑکی : ان کے ماما بابا کے ساتھ ہی رہتے ہیں ۔ ان کے دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں ۔

    شائستہ : سسرال کا رویہ کیسا ہے ؟

    لڑکی: ٹھیک ہے

    شائستہ : میری تشخیص حقائق کی بنیاد پر ہوگی اور اگر آپ خود کچھ مخفی رکھنے کی کوشش کریں گے تو پھر صحیح تشخیص نہ ہونے کی آپ خود ذمہ دار ہونگیں

    لڑکی : ظاہر ہے والدین کو تو تشویش ہونے ہی لگتی ہے اور وہ میرے والدین کو بھی ہے ۔

    شائستہ: کیا کبھی سسرال میں سے کسی نے اس کا اظہار کیا ہے ؟

    لڑکی: کبھی کبھار ہمدردی کا اظہار کر ہی دیتے ہیں ۔

    شائستہ : تو آپ کو کیسا لگتا ہے ؟

    لڑکی : ان کا تو میں محسوس نہیں کرتی لیکن مجھے خود بھی اب تنہائی کا احساس سا ہوتا ہے ۔

    شائستہ:کیوں پارٹنر اکیلے پن کو دور کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا

    لڑکی : مسکراتے ہوئے نہیں ایسی بات نہیں ، وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں مگر دن کو تو میں اکیلی ہی ہوتی ہوں ۔

    شائستہ : پہلے اکیلی نہیں ہوتی تھی ؟ میرا مطلب ہے کہ پہلے کیا سرگرمیاں ہوا کرتی تھیں اور اب پہلے سے کیا تبدیلی آگئی ہے ؟

    لڑکی : پہلے تو گھر کے کاموں میں مشغول ہوجایا کرتی تھی ، کبھی فارغ ہوتی تو سو جایا کرتی تھی کبھی میوزک وغیرہ سن لیا کرتی تھی مگر اب نیند بھی کم آتی ہے اور میوزک کو بھی زیادہ دل نہیں کرتا ۔ سنوں بھی تو یہ اور زیادہ افسردہ کر دیتا ہے ۔

    شائستہ : دیکھیں آپ کے چکروں کی وجہ آپ خود ہی ہیں ۔ آپ کو اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی کوشش کریں ۔

    لڑکی : کوشش تو کرتی ہوں مگر طبیعت ہی نہیں کرتی

    شائستہ لڑکی کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے اسے کہتی ہے کہ اپنے خاوند کو بھی اندر بلا لیں

    وہ اٹھ کر اسے بھی اندر بلا لاتی ہے ۔ وہ تھوڑا سا چہرے سے شرمندہ سا محسوس ہو رہا ہوتا ہے ۔

    شائستہ اس مخاطب کرتے ہوئے مذاق میں کہتی ہے پریشان نہ ہوں یہ بلکل ٹھیک ہے ۔ بس اس کی سوچیں ہی اس کو پریشان کئے ہوئے ہیں ۔ جب یہ اور آپ کوشش کریں گے تو سب ٹھیک ہوجائے گا ۔ بس تھوڑی سی طرز زندگی کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ اسے مصروف رکھنے کی کوشش کریں ۔ اسے پہلے سے تھوڑا سا وقت زیادہ دینے کی کوشش کریں ۔ کسی گائنی کنسلٹنٹ کو بھی مل لیں ۔

    لڑکا : میں تو کوشش کرتا ہوں اس سمجھاتا بھی ہوں لیکن مجھے تو یہ کہتی ہے کہ میں ٹھیک ہوں ۔

    شائستہ: اس نے بچوں کی پریشانی لی ہوئی ہے ، جو یقیناً اگر اس کو ہے تو آپ کو بھی ہوگی ۔ کوشش کریں یہ اس بارے زیادہ نہ سوچے

    لڑکا : میں تو اسے سمجھاتا ہوں ۔

    لڑکی : پریشانی تو پھر بن ہی جاتی ہے

    شائستہ : اچھا کیا خیال آتے ہیں

    لڑکی : یہی کہ اگر اولاد ہی نہ ہوئی تو پھر کیا ہوگا ؟

    شائستہ : دیکھیں اگر آپ دونوں پریشان ہونا نہیں چھوڑیں گے تو اس کے صحت پر اور زیادہ برے اثرات پڑیں گے ۔ جنسی صلاحیتیں بھی متاثر ہونگی اور اس سے ہارمونل پرابلمز بھی شروع ہو سکتے ہیں ۔ انسان کی سوچ کے انسان کے جسمانی آرگنز کے فنکشنز پر بہت گہرے اثرات پڑتے ہیں پھر جیسے جیسے آپ پریشان ہونگے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر یہ پریشانی اور بھی زیادہ بڑھے گی اور ابھی تو تھوڑا عرصہ ہوا ہے اور اگر زیادہ وقت گزر گیا تو پھر یہ عادت بن جائے گیا اور اس کو ختم کرنا اور بھی زیادہ مشکل ہوجائے گا ۔

    اس کا واحد حل یہی ہے کہ اپنے آپ کو مصروف رکھیں اور خیالات کو مثبت سوچ کی طرف راغب کریں ۔ اپنے ماضی کے اچھے واقعات اور یادوں کو سوچیں ۔ آپس میں اس کا تزکرہ کیا کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ مزاق کیا کریں ۔ کہیں کچھ  دنوں کے لئے سیر پر چلے جائیں ۔ اس سے طبیعت بہل جائے گی۔

    فکر کو فکر کی حد تک ہی رہنے دیں اس کو غم میں نہ بدلنے دینا ۔ فکر کا علاج انسان کے پاس صرف کوشش کی حد تک ہے مگر غم بن گیا تو آپ کی ذندگی کی خوشیوں کو بے رنگ کر دے گا تمھارے خیالات کو بگاڑ کا شکار کردے گا ۔ آپ لوگوں کی ہنستی بستی زندگی اجیرن ہوکر رہ جائے گی ۔

    کبھی اپ نے سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے ۔ اولاد تو پہلے بھی آپ کے پاس نہیں تھی مگر آپ خوش و خرم تھے ۔ پہلے والی تمام آسائشیں موجود ہیں مگر ان کی افادیت بدل گئی ہے ۔ کیوں؟ 

    یہ آپ کے لئے ایک اسائنمنٹ ہے آٌپ نے اگلی وزٹ تک اس کا جواب تلاش کرکے لانا ہے ۔

    دونوں نے مل کر اس بارے سوچنا ہے ۔ اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی دیکھنا ہے ۔ آپ کے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے اس کی حکمت کو تلاش کرنا ہے ۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن سے اللہ اپنے بندوں کی تربیت کرتا ہے ۔ ان کو اپنے ماحول اور اس دنیا کے بارے غورو فکر کرنے کا موقعہ ملتا ہے ۔ اس نے آپ کو خوشیاں دیں لیکن اب ہوسکتا ہے آپ ان خوشیوں والے ماحول کے عادی ہوچکے ہوں اور وہ ماحول اپنی افادیت کھوتا جا رہا ہو اور آپ کو اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہو ۔ بہرحال اسے آپ نے ہر پہلو سے سوچنا ہے ۔ اور اپنے خیا لات اور احساسات کو لکھا کرنا  ہے ، پھر ان پر غور کرنا ہے ۔

    وہ دونوں وہاں سے نکلتے ہیں مگر اب ان کی سوچ میں وہ باتیں جو سائشتہ نے ان سے کی تھیں وہ گردش کررہی تھیں ۔

    گاڑی چل رہی تھی مگر وہ اپنے خیالوں کی دنیا میں گم سم ایک دوسرے سے بے خبر سوچوں میں ڈوبے ماحول کے گہرے سمندر میں غوطے لگا کر شائستہ کے سوالوں کے جواب ڈھونڈ رہے تھے ۔ کئی طرح کے خیالات آندھی کی طرح ان کے شعور اور لا شعور سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والی شاں شاں کی آواز ان کو اپنی طرف کچھ یوں متوجہ کئے ہوئے تھی کہ ان کو اپنے ارد گرد کے ماحول کی خبر تب ہوئی جب ایک زور دار ہارن نے ان کو جھنجھوڑ کر محو خاموشی کی اس دنیا  سے باہر نکالا ۔

    ایک نوجوان راستہ لینے کی کوشش میں اپنی بے بسی کو ختم کرنے لئے ان کی سماعتوں پر حملہ آور ہوا تھا ۔ جونہی اس کو راستہ ملا تو اس نے ساتھ آکر ہلکا سا سر کو جنبش دی اور اشاروں ہی اشاروں میں پوچھا ۔ خیر تو ہے ؟

    تب ان کو احساس ہوا کہ انسان سوچوں میں گم کس قدر اپنے اردگرد کے ماحول سے بے خبر ہوجاتا ہے ۔

    انہوں نے ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا اور سوالوں بھری نگاہوں سے ایک دوسرے سے  لمحے میں کئی سوال کرگئے تھے ۔ اور جواب ڈھونڈنے کی کوشش کو شائد وہ اکٹھا کرنا چاہ رہے تھے ۔

    محوش بولی : آپ کہاں گم تھے ؟ شکر ہے گاڑی کہیں ٹکرا نہیں گئی

    اقبال : ہاں اللہ کا شکر ہے ۔

    اقبال موضوع کو بدلتے ہوئے ۔ کیا حال ہے تمھارے چکروں کا اب ؟

    محوش چکر تو ٹھیک ہیں مگر سر بھاری بھاری ہے ۔

    اقبال : میڈیم نے کہا تو ٹھیک ہی ہے  کہ ہمارے پاس کسی چیز کی کمی تو نہیں آئی مگر ہماری طبیعتیں کس قدر بدلی بدلی ہیں اور ہم نے خواہ مخواہ اس فکر کو اپنے اوپر سوار کر لیا ہے ؟

    محوش : ہاں بات تو ٹھیک ہی ہے مگر معاملہ ہے تو تشویش ناک ہی ناں ۔

    اقبال : ہاں ٹھیک ہے مگر میڈیم بھی تو صحیح کہتی ہے ناں کہ کوشش کرنی چاہیے اس کو غم تو نہیں بنانا چاہیے ۔ اس سے تو ہمارے شب و روز متاثر ہوگئے ہیں ۔ ہنستی بستی زندگی اجیرن بن گئی ہے ۔ چلو آج اسی پرانے ریسٹورنٹ پر کھانا کھاتے ہیں ۔

    محوش: چلیں

    خوشگوار لمحات بہتریں سرمایہ ہوتے ہیں ان کو اپنی زندگی کا حوالیہ بنائے رکھئے  

    شائستہ آج دیر سے کلینک پر آئی تھی اور دو مریض اس کا انتظار کر رہے تھے ۔

    جیسے ہی اس کی گاڑی رکی تو عالم جلدی سے گاڑی کی طرف لپکا اور میڈیم کے نکلتے ہی اس نے پہلا سوال کیا

    میڈیم خیریت تو ہے ؟

    شائستہ نے دھیرے سے انداز میں کہا ہاں سب خیریت ہے ۔ بس راستے میں کہیں معمول سے ہٹ کر رکنا پڑگیا تھا ۔ دراصل  سجاد کو شائستہ کے پاس دس سال ہوگئے تھے مگر کبھی بھی شائستہ دیر سے نہیں آئی تھی ۔ وہ حیراں ہوتا تھا کہ یوں لگتا ہے جیسے اس کے اندرکوئی کمپیوٹر فٹ ہے جو اس کے معمولات کی نگرانی کرتا ہے ۔

    جب وہ کمرے میں پہنچی تو  اسے محسوس ہوا جیسے اس کا کمرہ بھی اس سے سوال نہیں بلکہ احتجاج کر رہا ہو ۔ کہ آج کیا ہوا آپ نے اپنی زندگی کے ریکارڈ ہی توڑ دیئے ہیں ۔

    شائستہ اپنی کرسی پر بیٹھی تو سجادسامنے کھڑا سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے وہ اپنے سوال کے جواب کا انتظار کر رہا ہو ۔ شائستہ بھی اس کے انداز کو بھانپ گئی تھی  ۔ اسے مخاطب کرتے ہوئے بولی ۔ میں آپ کی بے چینی سمجھتی ہوں لیکن پہلے اگر کوئی مریض ہو تو  میں چاہتی ہوں کہ اسے دیکھ لیا جائے ۔ 

    آپ کے اطمنان کے لئے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ خیریت ہے ۔ کوئی پریشانی والی بات نہیں ۔

    اتنا سن کر سجاد کو اطمنان ہوگیا اور وہ مریضوں کو اطلاع دینے کے لئے کمرے سے باہر چلا گیا ۔ مریضوں کو بھی شائستہ کی آمد کا معلوم ہوچکا تھا اور وہ اسی انتظار میں تھے کہ ان کو بلایا جائے ۔

    سجاد نے ان کو اطلاع دی اور  ایک خاتون اور لڑکی اٹھ کر شائستہ کے کمرے کی طرف چل پڑیں ۔

    شائستہ مریض کے انتظار میں بیٹھی تھی جوں ہی دروازہ کھلا اس نے اپنے سامنے پڑے ہوئے کلنڈر  سے نظریں اٹھایں اور مریضوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی  " آئیے تشریف رکھیں"

    عورت نے لڑکی کو ترغیب دی کہ وہ شائستہ کے ساتھ پڑے سٹول پر بیٹھ جائے اور وہ خود سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی ۔

    شائستہ : عورت اور لڑکی دونوں کی طرف باری باری دیکھتے ہوئے بولی  "میں معذرت خواہ ہوں کہ تھوڑی دیر ہوگئی "

    عورت نے جواب دیا " نہیں کوئی بات نہیں " پھر تھوڑے سے توقف کے بعد بولی " آپ کے گارڈ کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ہم سے زیادہ وہ تشویش میں تھا اور باربار کہہ رہا تھا  ۔ اللہ خیر کرے انہوں نے کبھی دیر لگائی نہیں ۔

    شائستہ: ہاں وہ ٹھیک ہی کہہ رہا تھا ۔ دراصل میں نے کبھی دیر لگائی نہیں اس لئے اس کو تشویش ہورہی تھی ۔

    عورت: ہمیں تو زیادہ محسوس نہیں ہوا ۔ تھوڑی بہت دیر تو اکثر ہوہی جاتی ہے ۔

    شائستہ : آپ ٹھیک کہتی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں دیر کو معمولی ہی سمجھا جاتا ہے مگر یہاں اس کلینک پر ایسا  نہیں ہوتا ۔

    وہ عورت حیرانگی سے شائستہ کی طرف دیکھنے لگی ۔

    پھر شائستہ لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے  اورسوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی ۔" کیسی ہیں آپ؟"

    لڑکی اب تک اپنی اماں اور شائستہ کی باتیں خاموشی سے سن رہی تھی  ۔ اس  کو ایسے  لگ رہا تھا جیسے وہ کچھ عجب سا سن رہی ہو ۔جب اس نے شائستہ کی مسکراہٹ بکھیرتے لبوں سے انتہائی شفقت بھرے لہجے میں الفاظ سنے  "کیسی ہیں آپ؟" تو اس کے بدن میں لہریں سی دوڑنے لگیں ۔ اس کو پہلے ہی شائستہ کی باتوں میں اپنائیت سے محسوس ہورہی تھی ۔

    اس نے تھوڑے سے وقفہ سے جواب دیا " ٹھیک ہوں "

    شائستہ سمجھ گئی کہ  لڑکی مایوس سی لگ رہی ہے ۔

    شائستہ نے دوسرا سوال کیا ۔ کس کلاس میں پڑھتی ہیں آپ؟

    لڑکی کو ایک دم جھٹکا سا لگا جیسے شائستہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہو جس سے وہ اکتائی ہوئی ہے ۔ اور اسے دل ہی میں افسوس بھی ہورہا تھا کہ وہ اسے خواہ مخواہ ہی کوئی مسیحا سمجھ بیٹھی تھی ۔

    شائستہ کو بھی اس کے چہرے کی ہلکی سی نا گواری سے محسوس ہوگیا تھا کہ اس کو بات اچھی نہیں لگی  ۔مگر پھر بھی وہ اس کے جواب کے انتظار میں خاموش ہی رہی ۔ اور مسکراہٹ سے اس کی طرف دیکھتی رہی ۔

    لڑکی نے تھوڑے وقفے کے بعد جواب دیا ، جیسے وہ  کوئی موزوں جواب تلاش کر رہی ہو۔ "میں فارغ ہی ہوں "۔

    شائستہ  کے لئے اتنا ہی کافی تھا اس نے جواب دیا "  اچھی بات ہے فراغت بھی ہونی چاہیے " ایک ہی طرح کے کام سے کبھی کبھی بندہ تنگ بھی آجاتا ہے ۔ اور تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوگئی اور انتظار کرنے لگی کہ اس کی ماں کچھ بولے ۔

    اس کی ماں بھی سمجھ گئی ۔ اور شائستہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی کہ اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی اس لئے گریجویشن کے بعد  اس نے کہیں داخلہ نہیں لیا ۔

    شائستہ اچھی بات ہے ۔ انسان کی پہلی ضرورت صحت ہے اور ویسے بھی اگر دل نہ چاہا رہا تو  بہتر یہی ہوتا ہے کہ کچھ وقفہ کر لیا جائے ۔

    طبیعت کو کیا ہے؟

    عورت : کچھ سمجھ نہیں آتا ۔ ڈاکٹرز کو بھی چیک کروایا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی مسئلہ نہیں ۔ مگر یہ  اداس اور خاموش خاموش رہتی ہے ۔

    شائستہ لڑکی کی طرف دیکھتے اور مسکراتے ہوئے ۔ ابھی  مسئلہ حل کر لیتے ہیں ۔ ٹھیک ہوجائے گی  ہماری یہ ننھی سی پری ۔

    لڑکی نے بھی مسکراتے ہوئے شرم سے سر جھکا لیا ۔

    شائستہ  :کتنی معصوم سی بیٹی ہے آپکی ، عورت کو مخاطب کرتے ہوئے  کہا ۔

    پھر شائستہ نے لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے ۔ "کیا نام ہے آپکا؟"

    لڑکی نے جواب دیا :  مریم

    شائستہ : کیا معنی ہیں مریم کے؟

    لڑکی :  مریم لفظ معنوں کا محتاج نہیں ۔

    شائستہ کو لڑکی کی آواز سن کی بدن میں سنسناہٹ سی ہونے لگی   اور اسے ایک لمحے کے لئے یوں لگا جیسے اسے کوئی دل کو بھانے والا مل گیا ہو اور اس نے بے ساختہ آگے بڑھ کر لڑکی کے ماتھے پر بوسہ دے دیا ۔  آپ تو میری سوچ سے بھی زیادہ ذہین نکلی ہیں ۔ اتنی پیاری سوچوں والی لڑکی خاموش اور اداس نہیں رہے گی تو اور کرے  گی بھی کیا ؟

    پھر اس نے لڑکی کی ماں کو طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔آپ خواہ مخواہ پریشان ہیں ۔ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے ۔ اور کیا چاہیے آپکو ۔ اتنی سندر اور ذہین بیٹی کی صورت میں اللہ نے آپکو تحضہ دیا ہوا ہے ۔

    عورت : وہ تو ہے  ، اسی لئے تو اس کو اداس نہیں  دیکھ  سکتی ۔

    شائستہ : اس کو اداسی نہیں کہتے جو کچھ آپ دیکھتی ہیں ۔ یہ گہری سوچوں کے نتائج ہوتے ہیں جنہیں یہ ننھی سی پری اپنے ارد گرد کے حالات سے موازنہ کرتے ہوئے اپنی سوچوں کے عکس اپنے چہرے پر چھوڑتی ہے ۔ جسے آپ لوگ اداسی سمجھ لیتے ہیں ۔

    مریم خاموشی سے باتیں سن رہی تھی ۔ اور اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کے دل و دماغ کو پڑھ  رہا  ہو ۔ اور اسے یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی اس کے اندر کے زخموں پر مرہم رکھ رہا ہو ۔

    شائستہ مسکراتےاور عورت کو دیکھتے ہوئے بولی : چھوڑیں اس موضوع کو ہی آپ  اپنا نام بتائیں ۔ اور کچھ اپنے بارے بتائیں ۔

    عورت  بولی : بشریٰ

    شائستہ اس کی طرف سوالیہ نطروں سے دیکھتے جارہی تھی  -  -  -  -   -   -  -   -

    عورت جب مزید کچھ نہ بولی تو شائستہ نے سوال کیا

    کچھ اپنے بارے بتائیں ناں خاموش ہی ہوگئی ہیں ۔

    عورت :  میں ایک ہاؤس وائف ہوں ۔ اور میرے تین بچے ہیں ۔ دو بیٹے ہیں اور ایک یہ بیٹی ہے ۔ ایک بیٹا اپنا بزنس کرتا ہے اور دوسرا باہر پڑھ رہا ہے ۔

    شائستہ : آپکی تعلیم  ؟

    بشریٰ: میں نے قانون میں گریجویشن کی ہوئی ہے

    شائستہ : ہنستے ہوئے ۔ اسی لئے آپ کم بولتی ہیں ۔ اور ہر ایک کو قاعدے اور قانون کے مطابق دیکھنا چاہتی ہیں ؟

    بشریٰ : نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ۔ میں نے تو بس ڈگری مکمل ہی کی تھی تو شادی ہوگئی اور پریکٹس کر ہی نہیں سکی ۔ شوق بہت تھا مگر ادھورا ہی رہ گیا ۔

    شائستہ : شوق کو پورا کرنے کا کوئی  مخصوص  وقت نہیں ہوتا ، جب بھی موقعہ ملے پورا کر لینا چاہیے ۔  پریکٹس کا وقت نہ بھی ملے تو  سوچ ، شوق اور ماحول کے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

    مریم ان کی باتیں غور سے سن رہی تھی اور اسے باتوں سے خوشی محسوس ہورہی تھی ۔ اور اسے یوں لگ رہا تھا جیسے اس کے بدن میں توانائی امنڈ آئی ہو اور وہ  اپنے اندر ایک فرحت سی محسوس کر رہی تھی ۔

    شائستہ نے باری باری دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے ۔ اچھا اب یہ بتائیں کے کھانے پر کب بلا رہی ہیں ؟

    بشریٰ : جب آپ کے پاس وقت ہو ۔ ہمیں خوشی ہوگی آپ کی میزبانی پر

    شائستہ : چلیں یہ بھی طے کرلیں گے ۔پھر مریم کی طرف دیکھتے ہوئے ، آپکو بھی خوشی ہوگی؟ اصل بات تو آپکی ہے ناں کہ آپکے مزاج پر میں کیسی اترتی ہوں ۔

    مریم کو یوں لگا جیسے وہ اس کے جذبے کو شرمندہ کر رہی ہوں ۔ فوراً بولی ۔ مجھے تو فخر ہوگا ہمیشہ آپ سے مل کر ۔

    شائستہ : خوشی سے کھلتے چہرے کے ساتھ ۔ اچھا تو آپ کے دل میں اتنی اپنائیت ہے ۔ پھر تو ہم اس کو کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دینگے ۔

    بشریٰ محسوس کر گئی کہ انہوں نے کافی وقت لے لیا ہے اور اگلا مریض انتظار کرہا ہوگا ۔ اٹھتے ہوئے ۔ آپ سے علیحدہ ہونے کو دل تو نہیں کر رہا مگر آپ کا اگلا مریض انتظار کررہا ہوگا ۔ ہمیں اس وعدے کے ساتھ اجازت دیں کہ اب جلدی ہمیں اپنی آمد کی اطلاع دیں گی ۔

    شائستہ : میرا  نمبر اس پر لکھا ہوا ہے ۔ میں اپنی شہزادی مریم کے فون کا  انتظار کرونگی ۔

    مریم کو جیسے کوئی انمول چیز مل گئی ہو ۔ فوراً بولی ۔ آپ کے لئے مناسب وقت کون سا ہوگا ؟

    شائستہ مسکراتے ہوئے : شام کو آتھ سے نو بجے تک ۔ اور ساتھ ہی اس کے گالوں پر ہلکی سی تھپکی بھی دی ۔

    مریم کے بدن میں پھر سے ایک لہر سی دوڑ گئی اور اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ آگے بڑھ کر شائستہ سے لپٹ جائے مگر اس نے بڑی مشکل سے اپنے  آپ کو سنبھالا ۔

    شائستہ نے اس کے چہرے پر رونق دیکھ کر اپنی بات کو جاری رکھا

    کبھی کبھی ہماری سوچیں ، شوق اور ماحول کی نا موافقت کے نتائج کے محسوسات اتنی دفعہ دہرائے جاتے ہیں کہ وہ عادت کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور انسان کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا ۔ وہ حالات کے جبر یا تسلسل کے ہاتھوں مجبور اس کو اپنا لیتا ہے اور یوں اس کے اثرات اس کے چہرے  ، لہجے اور الفاظ میں ظاہر ہونے لگتے ہیں اور لوگوں کی نظر میں وہ اس کی شناخت بن جاتے ہیں ۔ لیکن در حقیقت وہ اس انسان کی اصل پہچان نہیں ہوتی بلکہ وہ اس کا ایک روپ ہوتا ہے جو اس کے دوسرے روپوں پر تھوڑا حاوی ہو جاتا ہے ۔

    اس  روپ کو کم کرنے یا پیچھے ہٹانے کے لئے اس انسان کو تھوڑی سی ترغیب کی ضرورت ہوتی ہے جسے اس کے ماحول کی تبدیلی  سے ہی ممکن بنایا جاسکتا ہے ۔

    اور ہاں ، میں بتا نا بھول گئی کہ آپ  کے لئے ایک مشق ہے جو آپ نے میرے لئے کرنی ہےتاکہ  اگلی ملاقات سے پہلے آپ کی یہ اپنائیت اپنے پورے جوبن پر آجائے تاکہ میں زیادہ سے زیادہ اس کی تپش سے فائدہ لے سکوں  

    آپ نے تین مشقیں کرنی ہیں ۔

    ایک تو اپنی سابقہ زندگی سے  خوش گوار لمحات کو یاد کرکے ان کو لکھنا ہے ۔ اور پھر ان کو روزانہ  سے  پڑھا کرنا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ آپ  ان سے جتنا ہوسکے محضوظ ہوں ۔ یوں محسوس کرنا ہے جیسے آپ انہیں لمحات میں واپس لوٹ گئی ہیں ۔ بار بار ان کو یاد کرنا ہے جتنا بھی ہوسکے اس مشق کو کرتے رہنا ہے ۔

    دوسرا  سوچنا ہے کہ کون سی ایسی چیزیں ہیں جن کو وہ کرنا چاہتی ہوں یا جنہیں وہ سمجھتی ہوں  کہ ان کے کرنے سے وہ خوشی محسوس کریں گی۔

    تیسرا  پھر ان میں سے جو ممکن ہیں جو آپ کے اختیار میں ہیں ان کو علیحدہ کرنا ہے ۔ اور ان پر عمل کرنے کی پوری کوشش اور مشق کرنی ہے ۔ 

    اس کے بعد وہ اپنی کرسی  سے اٹھ کر ان کو الوداع کرتی ہے ۔

    مریم اور اس کی ماں  اس کے چہرے پر حسرت بھری نطریں جمائے اوجھل ہوتی ہیں ۔

    ---------------------------- 

    کوئی تبصرے نہیں:

    ایک تبصرہ شائع کریں